موسیقی اوراُردوادب
ڈاکٹرحبیب نثار
شعبہ اردو‘حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی‘حیدرآباد
ای میل :
اُردو ادب اورادیبوں کے بارے میں عموماً کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خیالی طوطا مینا اُڑاتے ہیں، گل و بُلبل ، جام و مینا ، حسن و عشق اور ہجر و وصال کی داستانیں ہی ان کے تخیل و تصور کے محور ہیں، لیکن یہ حق نہیں، حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اُردو کا دامن ، زندگی کے ہر موضوع کو سمیٹے ہوئے ہے ، جس میں موسیقی ایک اہم ترین موضوع ہے ، اُردو کے ادیبوں اور شاعروں نے ادب اور موسیقی کا بیان کرتے ہوئے نہ صرف ’’خشک چوب و خشک تار و خشک پوست‘‘ میں آوازِ دوست کا بیان کیا ہے بلکہ اپنے عہد کی تاریخ کو پوری ایمانداری کے ساتھ بڑے سلیقے سے محفوظ بھی کیا ہے۔ اُردو ادب میں موسیقی کا بیان اور موسیقی پر لکھی گئیں تصانیف اتنی اہم ہیں کہ انھیں نظرانداز کرتے ہوئے نہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے ساتھ انصاف کیا جاسکتا ہے اور نہ تاریخ کی صحیح تدوین ممکن ہے۔ راقم الحروف کے اس بیان کی سند ذیل میں بیان کردہ ادب اور موسیقی کے ربط باہمی میں مل جائے گی۔
فنون لطیفہ میں موسیقی اور ادب کے درمیان چولی دامن کا نہیں پھول اور خوشبو کا رشتہ ہے۔ دوسرے فنون کی بہ نسبت یہ فنون ایک دوسرے کے نہایت قریب رہے ہیں۔ موسیقی و ادب اور ادب و موسیقی میں تال و سم کا ربط باہمی ہمیشہ سے چلا آتا ہے۔ ابن رشیق ، شعر اور موسیقی پر بحث کرتے ہوئے موسیقی کو شاعری کا زیور قرار دیتا ہے۔ W.B.YEATS کا ہندوستانی موسیقی کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’یہ صرف ایک فن نہیں بلکہ بذات خود زندگی ہے‘‘۔ ڈی شانتا کروز ، موسیقی کی تاثیر کے بارے میں کہتا ہے کہ ’’یہ انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لاتی ہے اور انھیں متحد کرتی ہے۔ یہ خوبی دوسرے فنون میں مفقود ہوتی ہے‘‘۔
ادب زندگی کی نہ صرف تفسیر پیش کرتا ہے بلکہ زندگی کی ترجمانی اور تنقید کا فرض بھی ادا کرتا ہے۔ ادب انسانی وجود کو دراصل توسیع بخشتا ہے ، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ادب اظہارِ ذات نہیں بلکہ ذات کی توسیع ہے۔ ایسی ذات کی توسیع جو کائنات کو اپنے اندر سمیٹ لے۔ میتھو ارنلڈ نے ادب کو تنقید حیات کہا ہے لیکن یہ ادب کا صرف ایک رُخ ہے۔ ادب تو راہ بھی ہے ، رہیرو بھی ، رہبر بھی اور منزل بھی۔
اس دنیا میں وجود کی پہلی سانس کا آہنگ ذرا بگڑ جائے تو پھر زندگی موت کے آغوش میں چلی جاتی ہے۔ آج بھی بڑے سے بڑا ڈاکٹر نبض کی رفتار اور اُس کے آہنگ پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہے کہ موسیقی کو زندگی کی تفصیل یا تعبیر نہیں کہنا چاہئے۔ یہ زندگی کی تصویر بھی نہیں ہے حق تو یہ ہے کہ زندگی موسیقی ہے اور موسیقی زندگی۔ اگر ہم زندگی کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں موسیقی کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ موسیقی وہ لطافت ہے جو تمام کثافتوں کو الگ کردیتی ہے۔ یہ زندگی کا جزو نہیں جوہر ہے۔
زندگی ایک مجرد تصور ہے۔ اُس کا معروضی پہلو موسیقی سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہماری زندگی میں مشاغل دنیاوی میں انہماک کے سبب جو قوتیں سو جاتی ہیں تو موسیقی اُن قوتوں کو بیدار کرتی ہے۔ زندگی میں جہاں کہیں انتشار و بے ترتیبی ہو اُن میں نظم و ضبط موسیقی پیدا کرتی ہے۔ سوئے ہوؤں کو بیدار کرنا اور بیدار کو منزل کمال تک پہنچانا موسیقی کا کام ہے۔
تاریخ کے آئینہ میں موسیقی کی یہ تعریف سچی اُترتی ہے۔ مذہب جس کا کام ہی انسانی روح کی طہارت ہے وہ موسیقی کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ کہیں ہم اُسے لحن داؤد کہتے ہیں، کبھی یہ بانسری کی تان میں سمٹ آتا ہے ، کبھی یہ تانڈو اور ڈمرو ہے۔ کبھی یہ ہوا کہ موسیقی سے خائف ہوکر اُسے زندگی سے جدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ناواقفیت کی بناء پر ہر بے سُری آواز کو موسیقی سمجھ لیا گیا اور ہر ٹوٹا پھوٹا آلۂ ، مزامیر قرار دیا گیا۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی کہ وہ علم و فن جس کی جگہ عبادت خانوں میں تھی اُسے گھسیٹ کر دربار میں لے آیا گیا۔ بادشاہوں نے اسے اپنے مزے کے خاطر بے حرمت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بھجن ، حمد و نعت کا سایہ جن پر ہے وہ درباروں میں مقید نہ رہ سکی اور ہندوستان میں تو اس کا آسرا بھی درگاہ تھی ، مبدا بھی اور منبہ بھی۔ چنانچہ موسیقی کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے جو نام ملتے ہیں مٹنگ ، امیر خسروؒ ، بہاالدین باجن ،نظام الدین راز الہی، شاہ حسین شرقی ، مدھ نائک ، تان سین ، گوپال نائک ، بابا ہری داس ، بابا رام داس ، سور داس ، عبدالولی عزلت ۔۔۔ یہ موسیقی کے نام نہیں ہیں یہ زندگی کی تاریخ کے ستون ہیں۔ انھیں ہٹادیجئے سب کچھ بے معنیٰ نظر آئے گا۔
یہ تصور بھی غلط ثابت ہوا کہ چنگ و صوت کا بارگاہِ علم و دانش میں کیا کام ہے۔ لیکن تاریخ نے یہ بتایا کہ افلاطون ہو یا شوپنہار یا نطشے اُنھوں نے دانش کے دیپک راگ سے اپنی فکر کو شعلۂ جوالا بنایا اور دنیا کو روشنی دی۔ کہیں ان کی فکر دیپک ہے تو کہیں رشمی پھوار اور یہ شاعری نہیں ہے بلکہ اسکندی ، ابن سینا اور حضرت محی الدین ابن عربی کے یہاں موسیقی ہی کے تصورات ہیں جن کی روشنی سے راہِ سلوک و معرفت طے ہوجاتی ہے۔ فلاطینوس کی سریت میں بھی موسیقی ہی کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
ہندوستانی موسیقی ، عرب و عجم سے متاثر ہوئی ہے لیکن اُردو شعراء و ادیبوں کے یہاں موسیقی میں نہ صرف عرب کا سوز ہے نہ عجم کا ساز اور نہ صرف ہندوستانی لئے۔ ان کے یہاں موسیقی کی حیثیت مشترکہ تہذیب کی علامت بن جاتی ہے جس میں تینوں تہذیبوں کی آمیزش نظر آتی ہے۔ مشترکہ تہذیب کی علامت کے طور پر جو شئے بھی ہمارے ادیبوں اور شاعروں کو ملی ہے اُنھوں نے اپنایا ہے۔ موسیقی اس کی بہترین مثال ہے۔
اُردو ادب اور ہندوستانی موسیقی کا ارتقاء و ترویج کا مسئلہ بڑا دلچسپ ہے۔ مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد کے بعد جن صوفیاء و مشائخ اور سلاطین نے اُردو ادب کی نشوونما میں حصہ لیا ، انہی اصحاب تصوف و سیف و قلم نے ہندوستانی موسیقی کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ صوفی بزرگوں نے اپنے خیالات کے ’’جکر‘‘ سے حقیقت کو نغمہ کا اعتبار بخشا تو اصحابِ سیف و قلم نے اپنی تلواروں کو آلاتِ موسیقی کی مضراب سے ’’جوہر‘‘ بنانے کا کام لیا۔ ہندوستانی موسیقی اور اُردو ادب نے ساتھ ساتھ بلکہ ایک ساتھ ، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ایک ہی فضاء ، ایک ہی ماحول میں انہی بزرگوں کے زیر سایہ پرورش پائی ہے۔
اُردو ادب میں موسیقی کے ربط کے ساتھ تمام اصناف کا جائزہ بہت سارے نئے گوشے سامنے لاتا ہے بعض بہت چھوٹی چھوٹی باتیں جو تحقیق کی دنیا میں نئے انکشافات کا سبب بنتے ہیں موسیقی کے مطالعہ سے سامنے آئیں ہیں۔ ’’سام وید‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے عہد کی مروجہ موسیقی پرروشنی ڈالتی ہے ، حقیقت اس کے خلاف ہے۔ ’’سام وید‘‘ میں صرف ’’اگنی‘‘ اور ’’اندر‘‘ کی مدح میں بھجن ہیں۔ فنِ موسیقی پر اس سے کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ اسی طرح ’’کتاب نورس‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی موسیقی پر لکھی گئی ہے جبکہ ’’کتاب نورس‘‘ میں صرف گیت ملتے ہیں جو مختلف راگ راگینوں کے تحت لکھے گئے ہیں۔ سورداس ، سورپیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے گیت منظوم کئے تھے جسے وہ اپنے گرو ، ولبھ آچاریہ کو گا کر سنایا کرتے تھے۔ سور داس ، ہندی کے کوئی (شاعر) سمجھے اور مانے جاتے ہیں جبکہ سورداس کی لکھی ’’رامائن‘‘ موسیقی کے مطالعہ کے ضمن میں سامنے آئی ہے جو اُردو لیپسی(رسم الخط) میں لکھی گئی ہے جس کا تعارف راقم الحروف نے ’’سب رس‘‘ حیدرآباد میں ۹۴ء میں کروایا ہے۔ کتب خانہ سالار جنگ میں ’’راگ بلال‘‘ کے عنوان سے اس کا مخطوطہ موجود ہے جیسے مرتب فہرست مخطوطات نے فن موسیقی کے ضمن میں درج کیا ہے۔
’’راگ بلاول‘‘ دراصل رامائن اور بھگوت گیتا کا مجموعہ ہے جس کو راگ راگنی کے تحت بھجن کی صنف نغمہ میں سور داس نے موزوں کیا ہے۔ یہ مخطوطہ جملہ ۲۶۲ ورق یعنی ۵۲۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ خط نستعلیق ، کاغذ دیسی ہے۔ مخطوطہ کے ورق ۱۱۶ الف پر رامائن ختم ہوجاتی ہے اور ورق ۱۱۶ ب سے بھگوت گیتا سے متعلق بھجن شروع ہوتے ہیں۔ راگ بلاول کی زبان ٹھیٹھ ہندی ہی نہیں سنسکرت آمیز ہندی ہے۔ سور داس فارسی سے بھی اچھی طرح واقف معلوم ہوتے ہیں چنانچہ قلم برداشتہ فارسی میں بھجن کے موضوعات سے متعلق عنوانات لکھتے چلے گئے ہیں۔ اُنھوں نے رامائن میں اپنا تخلص سورپیا ، باندھا ہے اور بھگوت گیتا میں سورداس اور سورپیا دونوں ہی تخلص استعمال کئے ہیں۔
راقم الحروف کے علم میں راگ بلاول کا کوئی دوسرا نسخہ نہیں اور غالباً اس مخطوطہ کا علم بھی اہل ادب کو نہیں ہے۔ دور حاضر میں لسانیات اور رسم الخط کے جھگڑے میں یہ مخطوطہ مشعلِ راہ بن جاتا ہے اور اہل فکر و نظر کے لئے نئے اُفق مہیا کرتا ہے۔ غور کیا جائے تو چند بے حد اہم نکتے اخذ کئے جاسکتے ہیں۔ راقم الحروف اس مخطوطے کی روشنی میں سورداس کو اُردو کا اولین گیت کار ( سو لہویں صدی عیسوی میں) قرار دیتا ہے جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ دکنی کے ساتھ شمالی ہند میں ، ہندو اور مسلمان شعراء اپنے اپنے مذہبی اساطیر کو اسی ’’مخلوط‘‘ اور فارسی رسم الخط والی زبان کے ذریعہ پیش کررہے تھے۔
اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں عام خیال ہے کہ اُس نے سارے ملک سے موسیقی ختم کردی۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اُس نے اپنے دربار میں موسیقاروں کے گانے / مظاہرہ پر پابندی لگائی تھی ، صرف دربار پر۔ یہ تاریخی تسامح اُردو ادب اور موسیقی کے مطالعہ سے دورہوتا ہے۔
مرثیہ اور موسیقی بظاہر دو متضاد فن معلوم ہوتے ہیں لیکن جب ہم اُردو مرثیہ کا جائزہ بیان موسیقی کے نقطہ نظر سے لیتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے کہ مرثیہ میں موسیقی نے ایسے سُر الاپے ہیں کہ اگر تان سین ہوتا ، رو رو کان پکڑتا۔ دھرپد گانے کا نام نہ لیتا ، انیسؔ کے آگے زانوے ادب تہہ کرتا ۔! لکھنو کا یہ کارنامہ ہے کہ اُس نے سوز کی شکل میں مرثیہ پیش کرتے ہوئے موسیقی کو مذہب کے دامن میں پناہ دی۔
ٹھاٹھ ، موسیقی میں گھرانے / دبستان / اسکول کے لئے مستعمل ہے۔ ہندوستانی موسیقی میں دس ۱۰ ٹھاٹھ مقرر کئے گئے ہیں جن کا انحصار سروں کی ترتیب پر ہوتا ہے اور سُروں کی ترتیب بدلنے سے ٹھاٹھ میں تبدیلی آجاتی ہے۔ میر انیسؔ نے موسیقی کی اس اصطلاح کو مرثیہ میں برتا ہے بلکہ بہت اُستادانہ انداز میں موزوں کیا ہے۔
مرثیہ میں جنگ کا بیان ہورہا ہے۔ خیر اور شر کی لڑائی ہے۔ اب مصرع دیکھئے ع
’’بدلا تھا اُس نے ٹھاٹھ کہ چمکی ادھر سے تیغ‘‘
اس مصرعے کی تفہیم سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس بند سے یہ مصرع منتخب کیا گیا ہے اُس بند سے قبل کا بند پیش کیا جائے۔ بند ملاحظہ ہو :
ڈوبی گرہ میں نیزۂ ظالم کی جب سناں
گھوڑا اُڑا کے ہاتھ کو اکبرؑ نے دی تکان
اللہ رے زور اُٹھ گیا گھوڑے سے پہلوان
دست شقی سے چھوٹ گئی ، ڈانڈ ناگہاں
نیزہ کے ساتھ شور اُٹھا اُس گروہ سے
لو اژدہے کو لے گیا سیمرغ کوہ سے
یہ ہے جنگ کی کیفیت۔ یزیدی پہلوان کو حضرت علی اکبرؑ نے اپنے نیزے کے وار سے نیزہ چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے اور اب پہلوان نہتا ہے۔ اس مقام و موقع پر میر انیسؔ نے ٹھاٹھ والا شعر کہا ہے۔ اُصولِ موسیقی کے پس منظر میں شعر ملاحظہ ہو :
ظالم نے ڈھال دوش سے لی اور کمر سے تیغ
بدلا تھا اُس نے ٹھاٹھ کہ چمکی اِدھر سے تیغ
نیزہ پھینک کر ڈھال اور تلوار لینا ، اس بات کی علامت ہے کہ طریق جنگ میں واضح تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی شر نے اختیار کی ہے۔ خیر تو ، راہ للّٰلہ میں بے تیغ بھی لڑتا ہے، وہ شہید ہوجاتا ہے لیکن طریق جنگ میں فرق یا تبدیلی ازخود نہیں لاتا۔ اُصولِ موسیقی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ٹھاٹھ کی تبدیلی دورانِ مظاہرہ اختیار نہیں کی جاتی ۔۔۔ سچا فنکار ، ٹھاٹھ بدلنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں کیونکہ یہ بہت بڑا عیب متصور ہوتا ہے۔ شر کے لئے ہر لمحہ نیا طور، نیا ٹھاٹھ درکار ہوتا ہے اور یہ عمل ارتقاء پذیر فطرت کی بناء پر نہیں کیا جاتا بلکہ صبر و تحمل کے فقدان کی بناء پر ہوتا ہے۔ میر انیسؔ نے مفہوم کے بیان کے لئے بالکل صحیح لفظ استعمال کیا ہے یہاں ٹھاٹھ کے علاوہ دوسرا لفظ اگر باندھا جاتا تو مفہوم میں ابہام پیدا ہوجاتا۔ انیسؔ نے اپنے کلام کی فصاحت کے ضمن میں کہا تھا ع ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد ، کچھ غلط نہیں کہا تھا۔
اُردو داستانوں کو افیون کی چسکی میں کہی جانے والی کہانی قرار دیا گیا ہے۔ یقیناً داستانوں میں مست کردینے والے واقعات ہوتے ہیں ، تخیل کے طوطا مینا یہاں اُڑائے جاتے ہیں لیکن داستانوں میں تخیل کی مدد سے جو واقعات سامنے آتے ہیں اُن کی ڈرامائیت اپنے اندر عمل اور تصور دونوں کا امتزاج رکھتی ہے۔
’’طلسم ہوشربا‘‘ اُردو کی اہم ترین داستان ہے۔ محمد حسین جاہؔ اور احمد حسین قمر نے طلسم ہوشربا میں موسیقی کا نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ موسیقی کے ذریعہ جادو بھی کیا ہے۔ عمر و عیار ، مہتر قرآن ، برق فرنگی ، اسدبن کرب غازی ، افراسیاب اور دوسرے عیارموسیقی کے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ طلسم ہوشربا میں موسیقی رزم و بزم ہر سطح پر اپنے سُر بکھیرتی نظر آتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جنگ اور جشن ہی کے محور پر ساری طلسم ہوشربا رقص کرتی ہے۔ اس داستان کا اہم ترین بلکہ مرکزی کردار عمر و عیار ہی ہے۔ داستان میں دوسرے کردار اسی کے ذریعہ سامنے آتے ہیں۔ فن موسیقی میں عمرویکتا ہیں۔ باقی تمام کردار عمرو ہی کے پرتو ہیں۔ کم از کم اس فنِ لطیف کے سلسلے میں تو یہی بات صادق آتی ہے۔
’’طلسم ہوشربا‘‘ میں چند جادوؤں کا تعلق ہی موسیقی سے ہے چنانچہ حاکم حجرۂ سوم نقارہ نواز اور حاکم حجرہ چہارم شہنا نواز کے کردار جلد ششم میں ملتے ہیں۔ داستان نگار منشی احمد حسین قمر نے جلد ششم میں لکھا ہے کہ ’’حجرۂ ہفت بلا خاص حقیر مولف کا ترتیب کردہ ہے۔ مصنف سابق کو اس کی اصلاخبر نہ تھی‘‘۔
آتش بار جادو ، اور شہنا نواز جادو کے سلسلے میں موسیقی کی کارفرمائی کے باوصف یہاں صرف حاکم حجرۂ سوم نقارہ نواز کے جادو کا بیان کیا جاتا ہے۔ احمد حسین قمرؔ نے نقارہ کی جو ہیئت داستان میں بیان کی ہے وہ دیو ہیکل نقارہ کی ہے۔ اس دیوہیکل نقارہ پر ظاہر ہے جب حاکم حجرۂ سوم جوکہ از قسم جن ہے پوری طاقت سے ضرب لگاتا ہوگا تو کیسی بھیانک آواز فضاء میں گونجتی ہوگی۔ آواز کا یہی بھیانک پن انسان کے اعصاب کو مضمحل کردیتا ہے جس کی وجہ سے فوجِ مخالف بے موت مرجاتی ہے۔
جدید تحقیق نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ بلند آواز اگر مسلسل سنی جائے تو یہ آواز کانوں ہی کے لئے نہیں کمزور دل والوں کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور کان کی قوت سماعت فوت ہوسکتی ہے۔ کمزور دل والوں کے دل کی دھڑکن بند ہوسکتی ہے۔ ہمارے داستان نگار نے ایک صدی قبل اس نظریہ کے نقوش اپنی داستان میں قلمبند کئے ہیں (ادیب اپنے تخیل سے خیال پیش کرتا ہے فلسفی اس کو نظریہ کی شکل دیتا ہے اور سائنسداں اس پر تجربہ کرتے ہوئے عملی صورت میں نتائج اخذ کرتا ہے۔ ح ن)
احمد حسین قمر نے اس نقارہ کو ناکارہ کرنے کی ترکیب بھی بتادی ہے۔ احول مربع نشین کا گرم خون ، اس نقارہ کو ناکارہ بناسکتا ہے ، چنانچہ امیر حمزہ کا یہ جاں نثار رفیق ، نقارہ پر جاکر اپنا سر خود اپنی گردن سے جدا کردیتا ہے ، اُس کے جسم کا گرم خون جب نقارہ پر گرتا ہے تو وہ ناکارہ ہوجاتا ہے اور امیر حمزہ کی فوج بچ جاتی ہے۔ (جسم سے نکلنے والا خون نقارہ تک پہنچتے پہنچتے سرد ہوجاتا ہوگا ، ظاہر ہے نقارہ پر منڈھے ہوئے چمڑے پر جب خون جم جائے تو آواز کیسے پیدا ہوگی، غالباً اسی نکتہ کو قمر نے پیش نظر رکھ کر یہ جادو اختراع کیا اور اُس کا توڑ بھی بتادیا)
موسیقی نثر و نظم میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے چاہے ابراہیم عادل شاہ ہو کہ رجب علی بیگ سرور ، میر حسن ہو یا دیا شنکر نسیمؔ ، پریم چند کہ قرۃ العین حیدر ۔ موسیقی ہر ایک کے یہاں سرور و نشاط کے تصورات رکھتی ہے۔ ان کے ہاں موسیقی اعلیٰ فنی اقدار کی حامل بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ فطرت سے ہم آہنگ بھی ، موسیقی صرف سرور آگین ہی نہیں روح کو ارفع و اعلیٰ منزلوں تک پہنچانے والے فن کی حیثیت سے بھی سامنے آتی ہے۔ موسیقی فن بھی ہے اور سائنس بھی اور ادب بھی زندگی کی اعلیٰ و ارفع قدروں کو پیش کرکے روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ادب اور موسیقی دونوں ایک دوسرے میں اس طرح سما جاتے ہیں کہ من و تو کا مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ اس اعتبار سے ادب اور موسیقی کا باہمی رشتہ مزید اہم ہوجاتا ہے۔
یوں تو کوئی بھی ادب موسیقی سے بے نیاز ہو ہی نہیں سکتا اگر شعر ہے اور اس میں نغمگی نہیں تو پھر وہ شاعری نہیں کہلائے گی اور اگر نثر ہے تو وہی نثر کامیاب ہوتی ہے جس کے پاس اُس کا اپنا آہنگ ہو۔ اس لئے ادب بغیر موسیقی کے اپنا وجود نہیں رکھ سکتا البتہ یہ حقیقت ہے کہ اس پہلو کی طرف بہت کم توجہ دی گئی یا پھر توجہ ہی نہیں کی گئی۔ ادب اور موسیقی کے ربط کو اگر ملحوظ رکھا جاتا تو ادب میں جو ’’بے ادبی‘‘ ہورہی ہے وہ نہ ہوتی اور انحراف پسندی کے بجائے ادبی روایات کا تسلسل اور اُس کی توسیع کا تصور اُبھرتا ۔ اور نثری نظم ، اینٹی غزل ، اینٹی پویٹری اور Absord poetry کی اصطلاح وجود میں نہ آتی ۔ !
ادب اور موسیقی کا یہ رشتہ جہاں بین الموضوعاتی یعنی "INTERDISCIPLINARY” مطالعہ ہے وہیں اس کی وجہ سے مختلف علمی گوشے بھی منور ہوتے ہیں اور یقین ہے کہ ایسے موضوعات پر ضرور توجہ دی جائے گی۔