پانی کی ناقدری سے بچئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا سید احمد ومیض ندوی

Share

water پانی

پانی کی ناقدری سے بچئے

مولانا سید احمد ومیض ندوی
استاذ حدیث و صدر شعبہ دعوۃ جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد
ای میل :

ویسے حضرت انسان پر اللہ کی نعمتوں کی برسات کا سلسلہ جاری ہے لیکن اللہ کی بعض نعمتیں وہ ہیں جن پر حضرت انسان بلکہ سارے جانداروں کی زندگی کا دارومدار ہے ‘مثلاً ہوا ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر کسی جاندار کی حیات کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب کرم فرمائی ہے کہ ایسی انتہائی ضروری نعمتوں کو اس نے عام اورنہایت ارزاں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت پانی ہے۔ پانی پر حیات انسانی کا دارومدار ہے۔ روئے زمین پر سلسلۂ حیات کا آغاز پانی ہی کے ذریعہ کیاگیا ۔

ارشاد ربانی ہے وجعلنا من الماء کل شیْئٍ حیٍ اور ہم نے ہر جاندار پانی میں سے پیدا کیا۔ نیز ایک اور جگہ رب کائنات نے پانی میں حیات کے وجود کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرمایا واللہ خلق کل دآبۃ من مآء فمنھم من یمشی علٰی بطنہ و منھم من یمشی علٰی رجلین و منھم من یمشی علٰی اربعٍ (النور ) اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو پیٹ کے بل رینگتے ہیں بہت سے ایسے ہیں جو دوپیروں پر چلتے ہیں اور بہت سے چار پیروں پر۔ پانی دراصل خدا کی رحمت ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں اسے رحمت سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا وھو الذی ارسل الریح بشری بین یدی رحمتہ اور وہی (خدا ہے) جو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری دینے کے لئے ہوائیں بھیجتا ہے (الفرقان)۔ پانی انسانی زندگی کا لازمہ ہے۔ اس سے جہاں سیرابی حاصل ہوتی ہے وہیں کاشت اور غلہ اناج کی پیداوار کے لئے بھی پانی ناگزیر ہے۔ انسانی و حیوانی غذا کا سارا دارومدار پانی پر ہے۔ جو علاقے قلتِ آب سے دوچار ہوجاتے ہیں وہاں غذائی بحران کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح طہارت اور صفائی کا سارا نظام پانی ہی سے وابستہ ہے۔ تعمیرات کا سلسلہ جو جدید دنیا میں دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ صنعتوں کا وجود بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں ۔ پانی کی اس اہمیت کی وجہ سے ہر دور کے حکمرانوں اور بادشاہوں نے تالاب اور کنوؤں کی شکل میں ذخائر آب کو فروغ دینے کا اہتمام کیا ہے۔ ویسے انسان عامہ کے بے شمار کام ہیں لیکن ان میں کنوؤں کی کھدوائی اور بورویل کی تنصیب کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ احادیث شریفہ میں پانی پلانے اور صدقہ جاریہ کے طورپر کنووئیں کھدوانے کے بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں نبی رحمت ﷺ نے ایک ایسی خاتون کے تعلق سے جس نے پیاسے کتے کو پانی پلایا مغفرت کی خوشخبری سنائی۔ تاریخ انسانی میں وہ حکمراں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے جنہوں نے مخلوق خدا کے لئے پانی کی سہولتیں فراہم کیں۔ زبیدہ خاتون کا نام اسلامی تاریخ میں آج بھی روشن ہے جس نے نہر کھدوائی تھی جسے نہر زبیدہ کہاجاتا ہے۔
جدید صنعتی انقلاب نے پانی کی ضرورت اور بڑھادی ہے ۔بیشتر صنعتوں کا دارومدار پانی پر ہے ۔ پانی کی اسی ناگزیر یت کے سبب ہر دور میں پانی کے لئے تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پانی کے لئے تنازعات کی تاریخ پانچ ہزار سالہ پرانی ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف آبی ذرائع کے حوالے سے عالمی تنازعات کا سلسلہ ہے بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل کی بڑی جنگیں پانی کے لئے ہوں گی۔ عالم اسلام کے مختلف ممالک دریایوں کے پانی کی تقسیم کو لے کر تنازعات کا شکار ہیں۔ دجلہ و فرات کے پانی کے مسئلہ پر ترکی و شام اور عراق کے درمیان تنازعہ ہے ‘دریائے اردن کے سلسلہ میں لبنان واردن اور فلسطین کے درمیان محاذ آرائی ہے اسی طرح مصرو ایتھوپیا اور سوڈان کے درمیان دریائے نیل پر تنازعہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان آبی تنازعات کے حل کے لئے اقوام متحدہ نے پی سی سی تشکیل دیا ہے جس سے ان تنازعات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ایک طرف انسانی آبادی کے لئے پانی ناگزیر ہے تو دوسری جانب اس وقت عالمی سطح پر دنیا قلتِ آب کا شکار ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت عالمی آبادی کا گیارہ فیصد یعنی ۷۸۳ ملین افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کے دو بلین افراد صاف پانی سے محروم ہے۔ قلتِ آب سے دوچار ممالک میں ہمارا ملک ہندوستان بھی شامل ہے۔ اس وقت پورے ملک سے پانی کے بحران کی خبریں وصول ہورہی ہیں۔ مہاراشٹرا سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کے بعض اضلاع میں پانی کے لئے گروہ واری جھڑپیں بھی ہورہی ہیں ۔ لاتورمیں تو پانی سربراہی کرنے والے ٹینکرس کی آمد کے دوران دفعہ ۱۴۴ نافذ کرنا پڑ رہا ہے۔ کسان طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ بہت سے کسان فصلوں کی تباہی اور بڑھتے ہوئے قرض سے مایوس ہوکر خودکشی کرنے لگے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کو بھی آبی قلت کا سامنا ہے۔ شہر حیدرآباد کے بڑے ذخائر آب خشک میدان میں تبدیل ہوچکے ہیں حتی کہ زیر زمین سطح آب میں انتہائی گراوٹ آچکی ہے۔ دیہاتوں کی صورتحال بھی سنگین ہوتی جارہی ہے ایسے دیہات جہاں کبھی کنوئیں اور بورویل خشک نہیں ہوتے تھے اس مرتبہ وہاں بورویل خشک ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں۔ شہروں میں بھی بورویل جواب دے چکے ہیں ۔ لوگ ٹینکروں سے پانی خریدنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ گرمی کی شدید لہر نے صورتِ حال کو مزید سنگین کردیا ہے۔ پانی کی قلت سے ملک کے سارے طبقات پریشان ہیں۔ جنوبی ہند کی تقریباً ریاستوں میں قلتِ آب کی صورتِ حال نے تلنگانہ کے بہت سے علاقوں سے لوگ احتیاطی طورپر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ لاتور میں ٹرین کے ذریعہ پانی سربراہ کیاجارہا ہے۔ پانی کے ٹینکروں کے قریب لاٹھی چارج تک کی نوبت آرہی ہے۔ قلتِ آب کی اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے لئے السامی حل کو اپنانا ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں پانی کے اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ پانی اللہ کی عظیم نعمت ہے اور نعمتوں کے حوالے سے اللہ کا عام ضابطہ یہ ہے کہ نعمتوں کی ناقدری سے اللہ نعمتیں چھین لیتے ہیں۔ قرآن میں صاف فرمایا‘ کھاؤپیو اور اسراف نہ کرو۔ (آل عمران)وضو اورنماز کے لئے پانی ضروری ہے اور وضو عبادت ہے لیکن اس کے لئے بھی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے سے منع کیاگیا۔ چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا اگر تم بہتی نہر پر بھی وضو بناؤ تو پانی میں اسراف نہ کرو ۔ ایک صحابی وضو کے دوران پانی زیادہ استعمال کررہے تھے ۔آپ ﷺ نے فرمایا‘ اے فلاں یہ کیا اسراف کررہے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں پانی کو بھی ضرورت سے زیادہ استعمال کی اجازت نہیں۔ایک حدیث میں ضرورت سے زیادہ پانی کو خرچ کرنے سے منع کیاگیا۔ رسول کریم ﷺ جو کہ پانی کے استعمال میں کافی احتیاط کیاکرتے تھے ۔ صحابہ کرام نے وضو اور غسل میں حضور ﷺ کے پانی کی مقدار کا تک اندازہ کیا ہے۔ چنانچہ صحابہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک صاع میں غسل فرماتے تھے اور ایک مُد پانی میں وضو فرمایا کرتے تھے۔ لیٹر کے حساب سے ایک صاع چار لیٹر ۱۴۷ ملی لیٹر اور ۳۰ میکرو ملی لیٹر ہوتی ہے اور مُد ایک لیٹر ۳۱ ملی لیٹر ہوتا ہے ۔ اس طرح نبی کریم ﷺ وضو میں ایک لیٹر سے بھی کم پانی استعمال کرتے تھے۔ غسل کے لئے قریب چار لیٹر پانی استعمال کرتے تھے۔ ایک طرف نبی کریم ﷺ کی یہ ہدایات ہیں تو دوسری طرف ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ پانی میں اسراف اور بلا ضرورت پانی ضائع کرنا ہمارا وطیرہ بنتا جارہا ہے۔ مساجد میں وضو کے لئے نل کی ٹوٹی کھول دی جاتی ہے تو اس وقت تک بند نہیں ہوتی جب تک وضو مکمل نہیں ہوتا۔ بھرپور نل کھول کر کئی لیٹر پانی بہایاجاتا ہے۔ سرکاری نلوں کی ناقدری بھی افسوسناک ہے۔ سلم محلوں میں پانی کی ٹینکوں سے مسلسل پانی بہتا رہتا ہے ۔ گھر والوں کو نل بند کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ سب پانی جیسی نعمت کی ناقدری ہے اور یہی ناقدری قلتِ آب کا سبب بن رہی ہے۔ معاشرہ میں پانی میں احتیاط کے تعلق سے شعور بیداری کی ضرورت ہے۔ آپ ﷺ نے بہتے یا کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا تاکہ پانی ناقابل استعمال نہ ہوجائے۔ نبی رحمت ﷺ نہر کے کنارے بھی وضو فرماتے تو پانی کو فضول ضائع نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ صحابہ نے دیکھا کہ آپ ﷺ ایک مرتبہ نہر پر وضو فرمارہے ہیں کہ برتن میں پانی لیتے پھر وضو فرماتے اور جو بچ جاتا اسے نہر میں انڈیل دیتے تھے۔ اس وقت بعض حضرات کی جانب سے وضو کے پانی کو بچانے دوبارہ زمین میں جذب کرانے کی تجویز پیش کی جارہی ہے۔ تاکہ زیر زمین سطح آب میں اضافہ ہو۔ اگر اس پر عمل کی شکل پیدا ہو تو یہ ایک اچھی صورت ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ ملک بھر میں ہزاروں مساجدہیں جہاں لاکھوں مصلی وضو کرتے ہیں اس طرح پانی کی ایک بڑی مقدار زمین میں جذب ہونے سے سطح آب میں اضافہ میں مدد ملے گی۔ قلتِ آب کے مسئلہ کے حل کے لئے جہاں پانی میں اسراف سے بچنے کی ضرورت ہے وہیں اللہ تعالیٰ سے پانی مانگنے کی ضرورت ہے۔ سارے خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ کتاب و سنت میں بارش کی کمی اور قحط سالی کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نبی رحمت ﷺ نے بعض انسانی بد اعمالیوں کو بارش کے روک لئے جانے کا سبب بتایا ہے مثلاً جو قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی اللہ اس سے بارش روک لیتے ہیں اس طرح ظلم وزیادتی اور گناہوں کی کثرت پانی روک لئے جانے کے اسباب ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اجتماعی طورپر ہم اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور الحاح وزاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے پانی مانگیں۔

Share
Share
Share