کتاب : اردو میڈیا کل آج کل
مصنف: ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
ایڈیٹر گواہ ویکلی حیدرآباد
مبصر:ڈاکٹرعزیزسہیل
لیکچرارایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج ،محبوب نگر
صحافت اور صحافی کی خصوصیات سے متعلق سید اقبال قادری لکھتے ہیں’’ تلاش و جستجو اخبار نویسی کی آبرو سمجھے جاتے ہیں صحافت انکشافات ہی کی پروردہ ہے جستجو سے حالات کی تصدیق ہوتی ہے۔اطلاع اہم ہو یاغیر اہم ،خبر متوقع ہو یا غیر متوقع جستجو ہی سے ملتی ہے۔حقائق کی تلاش بلند نگاہی اور اعلی ظرفی سے کی جائے تو منزل جلد اور آسانی سے نصیب ہوتی ہے۔ارفع اخبار نویسی کا دار و مدار اسی پر ہے کہ صحافی کس طرح اپنے فرائض انجام دے رہا ہے،صحافت ریزہ کاری میں میناکاری ہے صحافی کے لیے جذبہ ،ذہن اور ذوق بہت ضروری ہے‘‘۔(رہبر اخبار نویسی ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی،ص14 )
صحافت کے بارے میں اقبال قادری کے اس اقتبا س کے مطالعہ کے بعدصحافی کی کم و بیش ان ہی خوبیوں کی حامل جنوبی ہند کی سرزمین سے ابھرنے والی شخصیت، جس نے اپنی منفرد صحافتی خدمات سے اردو کی صحافتی دنیا میں ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویزکے نام سے مقبولیت حاصل کرچکی ہے،جن کی ادارت میں ہفتہ روز گواہ ملٹی کلر میں پابندی کے ساتھ اور انٹرنیٹ کی رسائی کے، عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کیساتھ صحافتی و ادبی خدمات انجام دئے رہا ہے۔جن کا روزگار ہی صحافت نہیں ہے بلکہ صحافت ہی ان کا اوڑنا اور بچھونا ہے اردو کے عصری منظر نامہ میں ایک ہفتہ روز اخبار کے ذریعے میعاری صحافت کو پیش کرنے میں ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کا انداز بے باک ،بے لاگ اور بے خوف ہے ۔حالیہ عرصہ میں انہوں نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ سابقہ وائس پرنسپل آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی کامیابی کے ساتھ تکمیل کی ہے۔ان کے اس تحقیقی مقالہ کو بعد ترمیم و اضافہ کہ ’’اردو میڈیا کل آج کل‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔جس کے پہلے ایڈیشن کی فروخت کے بعد دوسرا ایڈیشن جلد ہی منظر عام پر آگیاہے۔
’’اردو میڈیا کل آج کل‘‘میں ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز نے اردو صحافت کی تاریخ کو بیان کیا ہے ،اور انہوں نے جن موضوعات کو اپنی تصنیف میں شامل کیا ہے ان میں صحافت کیاہے،الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا،ریڈیواور اردو صحافت،دوردشن اور اردو صحافت، فلم اور اردو صحافت،اردوصحافت اور مذہب ،اردو صحافت اور اسپورٹس ۔صحافت اور قانون،الکٹرانک اور سوشیل میڈیا،جیسے موضوعات کو اس مختصر سے صحافتی انسائیکلو پیڈیامیں جمع کیا ہے۔
’’اردو میڈیا کل آج کل‘‘کا پیش لفظ منظور الامین صاحب نے ’’ایک جائزہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے ،ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کی اس تصنیف سے متعلق وہ لکھتے ہیں’’فاضل حسین پرویز کا یہ مقالہ تخلیقی ادب کا بے حد پر مغز نمونہ ہے یہ ان کا کارنامہ ہے اسے ہم صحافت کے موضوع پر چھوٹا موٹا انسائیکلو پیڈیا کہہ سکتے ہیں یہ ایک visualکتاب ہے انہوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ مختلف تصاویراکھٹی کی ہیں،انہوں نے الفاظ کی جمع و خرچ نہیں کی ہے بلکہ ریسرچ کی وادی پر خار میں قدم رکھا ہے ان کی ریسرچ خونِ جگر صرف کرنے کا دوسرا نام ہے کیوں کہ اس کے لئے بڑی محنت اور کاوش درکار ہے‘‘
زیر تبصرہ کتاب میں ’’ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویزچہرہ کی کھلی کتاب ہے‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد کا تعارفی مضمون شامل ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر سید فا ضل حسین پرویز نے اپنی بات’’انداز نہیں گرچہ‘‘کے موضوع پر بیان کی ہے۔وہ اپنی کتاب کی اہمیت اور خصو صیت سے متعلق لکھتے ہیں’’اردو صحافت نئے امکانات‘‘ کے موضوع پر مقالہ کے لئے میں 2013ء تک صحافت و دیگر ذرائع ابلاغ کے شعبوں میں ہونے والی ترقی اور تبدیلوں کا احاطہ کیا ہے۔وہیں’’حال‘‘کی اساس پر مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے،ساتھ ہی ساتھ تاریخی پس منظر کا جائزہ بھی لیا ہے کیوں کہ ماضی کے بغیر نہ تو حال کا وجود ہوتا ہے اور نہ ہی مستقبل کا پتہ ‘‘(ص18)
زیر تبصرہ کتاب میں اردو صحافت کا ماضی اور مستقبل کو پانچ ابواب میں پیش کیاگیا ہے پہلے باب میں زبان۔قلم صحافت،صحافت کی تاریخ ،اردو صحافت، مواصلاتی ارتقائی دور کا جائزہ لیا گیا ہے۔دوسرے باب میں الکٹرانک میڈیا ریڈیو،ٹی وی فلم سے متعلق امور کو مراحل میں پیش کیا گیا ہے،تیسرے باب میں اردو صحافت،مذہب،ادب ،بچوں اور خواتین کے رسائل اسپورٹس،جاسوسی اور تحقیقاتی صحافت کو پیش کیا ہے باب چہارم میں صحافت کے جدید دور سے متعلق ہے جس میں کمپیوٹر، کیلی گرافی،انٹرنیٹ،موبائل فونس،سوشیل میڈیا،ویب سائٹس کی تفصیلات شامل ہیں،پانچواں اور آخری باب اردو صحافت کو درپیش مسائل اور چیلنجز پر مشتمل ہیں۔
کتاب کے پہلے باب میں شامل مضمون’’اردو زبان کل آج کل‘‘جو کہ کتاب کا ٹائٹل بھی ہے کافی اہمیت کا حامل ہے جس میں اردو کی ابتداء اور تاریخ پر مدلل گفتگو کی گئی ہے،اس باب میں آصف جاہی عہد اور عصر حاضر میں اردو کے موقوف کو پیش کیا گیا ہے،اس کے بعدقلم کے موضوع پر ایک معلوماتی مضمون شامل ہے جس میں قلم اور تحریر کے آغاز اور ارتقائی مراحل ،کاتبین اور خوش نویسی سے متعلق بہت سی باتیں شامل ہیں،مواصلات کی تاریخ کے موضوع پر 6000قبل مسیح سے لیکر 2012ء تک کی تفصیلات سال کے اعتبار سے بیان کی گئی ہیں جوقارئین کیلئے جنرل نالج میں اضافہ کا باعث ہے۔
ا س کتاب کے پہلے باب کا ایک اور اہم موضوع’’ صحافت کیا ہے‘‘جس کے متعلق فاضل مصنف لکھتے ہیں’’صحافت ایک ایسا لفظ ہے جس کے مفہوم بحر بیکراں کی طرح وسیع ہیں،عربی لفظ صحف سے صحیفہ اور صحافت نکلی ہے صحیفے مختلف پیغمبروں پر نازل ہوے جس کا مقصد ان کی امتوں کو حقائق سے اور باتوں سے واقف کروانا تھاجس سے وہ لا علم تھے،ایک طرح سے صحافت اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کا ذریعہ ہے‘‘
زیر نظر کتاب کا دوسرا باب جو الکٹرانک میڈیا پر مشتمل ہے جس میں ریڈیو کی ایجاد و ارتقاء ہندوستانی ریڈیواور اردو صحافت ،ٹیلی ویژن،ٹی وی چینلس ٹی وی اور اردو صحافت،فلم،ہندوستانی سینما اور فلم و اردو صحافت جیسے عنوانات شامل ہیں،الکٹرانک میڈیا کا بھر پور تعارف اور اردو کے حوالے سے بہت ہی اہم معلومات کو اس باب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
باب سوم اردو صحافت قومی یکجہتی ادب خواتین اسپورٹس جرنلزم کے حوالے سے اہم موضوعات کواجاگر کیا گیا ہے اس باب میں مذہبی صحافت کے تحت ہندو مسلم ،عیسائیت کو ماننے واے احباب کے رسائل و اخبارات کی فہرست دی گئی ہے جو اردو صحافت کے نئی نسل کیلئے معاون و مددگار ثابت ہوگی،باب چہارم میں کمپیوٹر اور صحافت،سافٹ ویرکا تعارف،انٹرنیٹ اور اردو صحافت،سرچ انجن اور سوشیل میڈیا پر مشتمل ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ باب میں جن موضوعات پر لکھا گیا ہے وہ دراصل موجودہ دور میں عصری صحافت کابہترین نمونہ ہے جس سے نسل نو کو واقفیت رکھنا لازمی ہے۔ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے مذکورہ عنوانات پر نہ صرف معلومات فراہم کی ہے بلکہ ان کے فوائد اور نقصانات کو بھی پیش کیا ہے اور اس کے استعمال کے طریقوں کو بھی یہاں پیش کیا کتاب کے اس باب کو منفرد حیثیت حاصل ہے یہ کتاب کی جان ہے اس لیے کے اس میں عصری صحافت سے متعلق اہم امور کو شامل کیا گیا ہے ،ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز سوشیل میڈیا سے متعلق رقمطراز ہیں’’اکیسویں صدی کو سوشیل میڈیا کی صدی کہا جاسکتا ہے،دنیا اگر ایک عالمی گاوں بن گئی ہے تو اس میں بڑا رول جہاں انٹرنیٹ ،ٹیلی ویژن،موبائیل فونس کا ہے تو اس عالمی گاؤں کو ایک دوسرے سے بیک وقت مربوط کرنے میں سوشیل میڈیا کا بڑا اہم رول رہا ہے۔اینڈریز کیپلا اور مائیکل ہیزی کے الفاظ میں سوشیل میڈیا انٹر نیٹ پر مبنی اپلیکشن کا ایک گروپ ہے جو نظریاتی اور ٹکنیکی بنیادوں پر کھڑا ہے‘‘
زیر تبصرہ کتاب کا آخری باب جرائد،رسائل اور اردو صحافت کا مستقبل جس میں اردو ویب سائٹس،آن لائن شاعری،جرنلسٹس اور روزگار کے مواقع اور جرنلزم کورسس کو موضوع بنا یا گیا ہے ،نئی نسل کو ٹکنالوجی کے استعمال اور اس کے ذریعے اپنے مستقبل کی تلاش کیلئے بہت سی معلومات فراہم کی گئی ہے میڈیا کے میدان میں دن بہ دن تبدیلیاں تیزی سے رونما ہورہی ہے اور اب صحافت بھی ڈیجیٹلزڈ ہورہا ہے یعنی اب اخبارات انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں اردو کے قارئین ٹکنالوجی کی مدد سے گھر بیٹھے مختلف اردو اخبارات کا مطالعہ اپنے لیپ ٹاپ ،موبائیل فون پر کر سکتے ہیں،فاضل مصنف نے اس باب میں اردو سیب سائٹس کا تعارف اور ان کے پتے ایک ڈائرکٹری کی شکل میں پیش کی ہے ساتھ ہی جرنلزم کورسس کے بارے میں معومات دی گئی ہے کتاب کے آخر میں نئے امکانات سے متعلق جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔کتاب کے آخر میں فرہنگ۔اصطلاحات بھی پیش کی ہے جو کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ کا باعث ہے۔ بہر حال اردو میڈیا کل آج کل صحافت سے متعلق ایک اہم دستاویزی کتاب ہے جس کی اشاعت اردو دنیا میں ایک نیا اضافہ ہے میں ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کے بہتر مستقبل کیلئے دعا گو ہوں۔کتاب میں حوالے جات اگرصحیح ڈھنگ سے دئے جاتے تو کتاب کے میعار میں مزیداضافہ ہوتا،بہر حال ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز کی یہ تصنیف عصر حاضر کے صحافتی تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔اردو صحافت سے وابستہ افراد کیلئے یہ کتاب ایک رہنمایانہ گائیڈ ہے۔
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی کی تصنیف‘‘ اردو میڈیا کل آج کل ‘‘کی اشاعت کے مختصر سے عرصہ میں خوب مقبولیت حاصل کرچکی ہے جس کے پیش نظر بہت جلد انہوں نے اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت عمل میں لائی جس کارسم اجراء ڈاکٹر محمد اسلم پرویزوائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ہاتھوں بروزہفتہ 5 دسمبر 2015ء کو سالار جنگ میوزیم ویسٹرن بلاک آڈیٹوریم میں عمل میں آیا۔اس تقریب میں جناب محمد محمود علی ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ جناب سید وقار الدین مدیر اعلیٰ روزنامہ رہنمائے دکن نے تقریب کی سرپرستی کی۔ اس تقریب میں پروفیسر فاطمہ بیگم پروین سابق وائس پرنسپل و صدر شعبہ اردو جامعہ کالج آف آرٹس جامعہ عثمانیہ حیدرآباد ، پروفیسر ایس اے شکور سکریٹری / ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی تلنگانہ ، جناب ظفر جاوید جنرل سکریٹری فیڈریشن آف اے پی ماینارٹیز ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس ، مہمانان اعزازی اور جناب علیم خاں فلکی ( جدہ ) ، جناب سعید الدین صدر انڈین انجینئرس اسوسی ایشن جدہ خصوصی مدعوئین میں شامل تھے۔’’ اردو میڈیا کل آج کل ‘‘کو اردو اکیڈیمی اتر پردیش نے انعام سے بھی نوازہ ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو میڈیا کل آج کل کے نئے ایڈیشن میں 110 موضوعات اور 500 صفحات پر مشتمل برصغیر ہندو پاک میں اردو میں میڈیا سے متعلق اس نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں 500 تصاویر بھی شامل ہیں۔جب کے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن میں420صفحات شامل تھے اور قیمت250روپئے رکھی گئی تھی جس کے ناشر ھدیٰ پبلشرز۔حیدرآباد ہیں۔
Dr.Syed Fazil Hussain Parwez