ممتازفکشن نگارقمرالاسلام عثمانی سے ایک مصاحبہ
ڈاکٹرتہمینہ عباس
لیکچرار اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ بوائز کالج،
گلستان جوہر بلا ک ون(ایوننگ)
مین یونیورسٹی روڈ ،کراچی
قمر الاسلام عثمانی 10اگست 1940کو ’کاٹ گاؤں‘ میں پیدا ہوئے کاغذات میں تاریخ پیدائش 1942درج ہے۔ان کے ددھیال کا تعلق ’رتگاھ‘ سے ہے۔عثمانی صاحب قیام پاکستان کے بعد ابھرنے والے نوعمرقلم کاروں میں سے ہیں۔ جس وقت قمرالاسلام عثمانی پیدا ہوئے وہ دور دوسری عالمی جنگ کا تھا جس کے اثرات ان کی زندگی پر بھی پڑے۔ان کے والد سراج الدین صاحب قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں ریلوے کے ملازم تھے۔پہلے ان کے والد کی پاروتی پور میں ریلوے میں پوسٹنگ تھی بعد میں جب چٹا گانگ پورٹ قائم ہوا تو والد کی تعیناتی وہاں ہوگئی ۔چٹاگانگ میں ان کے خاندان نے مال گاڑی کے ڈبے میں رہائش اختیار کی۔پہاڑ تلی میں ایک ریلوے اسٹیشن اور ایک انگریزوں کا بنایا ہوا اسکول تھا جہاں ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔مال گاڑی میں رہنے کی وجہ سے خاندان میں بیماریاں شروع ہوگئیں۔گاڑی کے ڈبے میں کوئلہ جلانے کی وجہ سے دھواں بھر جایا کرتا تھا۔مضر صحت غذا، پانی اور دواؤں کی قلت نے گھر کے تمام افراد کو بیمار کرنا شروع کردیا۔قمرا لاسلام عثمانی کا کہنا ہے کہ وہ دور میں بھلائے نہیں بھول سکتا ۔
پہاڑ تلی کے اسکول میں لوکل ٹرین سے آیا جایا کرتا تھا اکثر گھر واپسی پر مجھے اپنا گھر ڈھونڈنا پڑتا تھا۔ کیونکہ ریلوے والے اکثر اپنے کام کے سلسلے میں مال گاڑی کے ڈبوں کو آگے پیچھے کردیا کرتے تھے۔ایک دفعہ ناسمجھی میں میں اور میرے ہم عمر بچے ایک مسلسل چلنے والی ریل گاڑی میں بیٹھ گئے۔جب پہاڑ تلی کے اسٹیشن پر بھی وہ گاڑی نہیں رکی تو میں نے چلتی ہوئی گاڑی سے چھلانگ لگادی۔شاید میرے ساتھیوں نے بھی یہ ہی کیا ہوگا ۔جب چٹاگانگ میں پورا خاندان بہت زیادہ بیمار ہوگیا تو والد صاحب نے پریشان ہو کر مجھے میری چھوٹی بہن اور بھائی کو والدہ کے ساتھ الہ آباد ان کے بھائی کے پاس’ کاٹ گاؤں‘ بھیج دیا جب کہ میں اپنے چچا کے پاس ’صلّا پور‘ آگیا۔’صلّا پور‘ میں میرا پورا ددھیا ل تھا۔ میرے چچا ’’صلّا پور‘ میں استاد تھے ۔اس وقت مجھے ہندی لکھنا پڑھنا نہیں آتی تھی البتہ اردو میں مہارت حاصل تھی بعد میں ہندی لکھنا پڑھنا سیکھی۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے کہانیا ں لکھنے کا آغاز کب سے کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ مجھے یاد ہے کہ کرشن چندر کا ایک افسانہ ’’آتا ہے یاد مجھ کو‘‘ میرے نصاب میں شامل تھا جس کے آخر میں مشق تھی کہ آپ بھی ایسی کہانی تحریر کریں۔اس مشق کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی کی پہلی کہانی لکھی جس کا عنوان تھا’’جب میں چھوٹا تھا‘‘پھر لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔مطالعے کی عادت کس طرح پڑی ؟تو اس سوال کے جواب میں عثمانی صاحب نے بتا یا کہ’رتگا‘میں دادا کا بڑا سا گھر تھا قیام پاکستان کے بعد جب میں وہاں گیا تو دادا کا ایک بڑا صندوق نکلا جس میں بے شمار کتابیں تھیں۔کھلونا(نئی دہلی) ،توبتہ النصوح اور اردو ادب کی مشہورو معروف کتابیں اسی دور میں پڑھیں۔اس زمانے میں صادق سردھنوی، عبدالحلیم شررجیسے دو تاریخی ناول نگاروں کو بڑی تفصیل سے پڑھا۔اس دور میں کہانی کی طلسم میں گرفتار ہو کر ان بھول بھلیوں میں کھو کر رہ گیا تھا۔اسی زمانے میں ایک جاسوسی ناول لکھا جو ایک دن میرے چچا کے ہاتھ لگ گیا بظاہر تو انھوں نے مجھے ڈانٹا مگر بباطن بہت خوش ہوئے۔
لکھنے کا شوق کیسے ہوا؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ لکھنے والی صلاحیت یا ایک چنگاری مجھے میرے دادا سے ہی ورثے میں ملی ہے۔نہ وہ کتابوں کا اتنا بڑا صندوق چھوڑ کر جاتے نہ میں پڑھتا اور نہ لکھنے کی خواہش پیدا ہوتی۔1956میں ’صلّا پور‘ سے میٹرک کرنے کے بعد ہم دوبارہ چٹاگانگ آگئے۔چٹاگانگ میں بنگالی بولنے والوں کو ترجیح دی جاتی تھی اور اردو والوں سے ناروا سلوک کیا جاتا تھا۔اس دور میں میں نے ابن صفی کے ناولوں کو پڑھا اور ان کے طرز تحریر سے بہت متاثر ہوا۔1958میں والدہ اور ایک بھائی کے ساتھ کراچی آگیا جب کہ بہن اور ایک بھائی کا الہ آباد میں انتقال ہو گیا تھا۔1961میں اردو کالج مولوی عبدا لحق کیمپس سے انٹر پاس کیا ۔بی اے بھی 1973اردو کالج سے کیا ۔اردو کالج میں میرے استادوں میں ابوالخیر کشفی شامل تھے اس وقت وہ ڈاکٹر نہیں ہوئے تھے۔آفتاب زبیری، ڈاکٹر محفوظ، آشکار حسین(فلسفے کے پروفیسر) پروفیسر احمد سعید،فائق صاحب (نفسیات) کے پروفیسر تھے۔اسی دور میں جامعہ کراچی سے پرائیوٹ اردو میں ماسٹرز کیا۔
استاد کا پیشہ کیسے اختیار کیا؟ تو اس سوال کے جواب میں انھوں نے بتا یا کہ1961میں ریلوے میں کلرک کی ملازمت مل گئی تھی مگر بنیادی طور پر مجھے استاد بننے کا شوق تھا دلی خواہش تھی جو ایم اے کے بعد پوری ہوئی اور ایم اے کے بعد کراچی کے نامور این جی وی اسکول میں ملازمت مل گئی اس زمانے میں اس اسکول میں ملازمت بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی اس ملازمت کے بعد میں بھی ہواؤں میں اڑنے لگا۔اس دوران روزگار کی مصروفیت کی وجہ سے زیادہ لکھنے لکھانے کا موقع نہیں ملا۔اسی دوران اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے بی ایڈ کرنے کی شرط آگئی ۔اس زمانے میں بی ایڈ کالج جامعہ کراچی کے موجودہ کیمپس کے برابر میں تھا۔ تنخواہ آدھی ہوگئی تھی۔وہاں سے بی ایڈ کیا اور گھر کی دال روٹی چلانے کے لیے دوبارہ سے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا ۔کیو نکہ 1965میں شادی ہو گئی تھی اخراجات میں اضافہ ہو گیا تھا کسی اور کام کی طرف طبیعت مائل نہ تھی اس وجہ سے میں نے کاغذ قلم کا رشتہ دوبارہ سے تھام لیا۔
فارسی سے ترجمہ نگاری کیسے شروع کی؟ عثمانی صاحب نے بتا یا کہ این جی وی اسکول میں ملازمت کے دوران خانۂ فرہنگ سے جدید فارسی سیکھی۔اس پریشانی کے دور میں کچھ دوستوں (مشرق میگزین کے نسیم صاحب اور مساوات کے ایڈیٹر احفاظ الرحمن )نے مشورہ دیا کہ خواتین کے مسائل پر لکھو۔تو میں نے مشرق کے میگزین ’’اخبار خواتین‘‘ کے لیے فارسی سے ترجمہ شروع کردیا۔پھر ترجمہ نگاری کا سلسلہ شروع ہوگیا کبھی ریگل کے کتابوں کے بازار سے، تو کبھی اردو بازار سے، تو کبھی بک اسٹالوں سے کتابیں لے کر انگریزی، فارسی، فرانسیسی اور ہندی سے اردو میں کہانیاں اور مضامین ترجمہ کرنا شروع کیے۔
جاسوسی کہانیا لکھنے کا باقاعدہ آغاز کب کیا؟ عثمانی صاحب نے بتا یا کہ اس زمانے میں ’’سب رنگ ‘‘ڈائجسٹ کا بہت شہرہ تھا۔اپنی کہانیوں کے ترجمے لے کر میں ’سب رنگ‘ کے ایڈیٹر شکیل عادل زادہ کے پاس گیا تو وہ انھیں بہت پسند آئے۔ اور ’سب رنگ‘ میں میری ترجمہ کی ہوئی کہانیاں شائع ہونا شروع ہوگئیں۔شہرت اور مقبولیت ملتی گئی اور پھر دوسرے رسالوں کے مدیروں نے رابطہ کرنا شروع کیا۔ایک دوست کے میگزین کا سب ایڈیٹر بھی رہا اور اس کے لیے ’’اعتماد کا بحران‘‘ کے عنوان سے جامعہ کراچی کی طالبات کے انٹرویو بھی کیے۔’’الف لیلہ‘‘ کے ایڈیٹر ایچ اقبال تھے ۔’’الف لیلہ ‘‘کے لیے بھی سلسلہ وار کہانیاں تحریر کیں۔’’الف لیلہ ‘‘میں شائع ہونے والی کہانیاں اخذ شدہ طبع زاد تھیں۔
’دوشیزہ‘ کے حوالے سے انھون نے بتا یا کہ میں نے خواتین کے ماہنامے’’دوشیزہ‘‘میں سلسلے وار طبع زاد کہانیاں لکھیں ۔جن میں سے کئی ایک عوام میں بہت مقبول ہوئیں۔’’دوشیز ‘‘ میں ایک سلسلے وار کہانی ’’ فرار ‘‘ نے بہت مقبولیت حاصل کی۔’’دوشیزہ‘‘ میں مستقل لکھنے کی وجہ سے ’’دوشیزہ‘‘ والوں نے میری خدمات کے اعتراف میں ایک ایوارڈ بھی دیا۔میری سلسلے وار کہانیوں میں ،فرار،جانور، رضاویر ، نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔میں نے اس زمانے میں مضامین بھی تحریر کیے اور کالم بھی، افسوس تو یہ ہے کہ بعض اوقات دوست احباب میری تحریریں اپنے نام سے بھی شائع کردیا کرتے تھے۔
میں ’’سب رنگ ‘‘ کے لیے جو خصوصی کہانیا ں لکھا کرتا تھا اسے شکیل عادل زادہ بہت پسند کیا کرتے تھے۔ میرے دادا کتابوں سے بھرے صندوق کی شکل میں میرے لیے ایک ایسی چنگاری چھوڑ گئے تھے جو اندر ہی اندر مجھے جلاتی رہی اور جس کی وجہ سے پڑھنے اور لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔مگر اب تفریح طبع کے لیے نکلنے والے ماہانہ پرچوں کا وہ معیار نہیں رہا ہے ان کی حالت بری ہے اور نہ ہی میرے اندر وہ امنگ رہی ہے۔ادب لطیف، اوراق، سویرا، نقوش، عصمت جیسے پرچے نہیں رہے۔ اور اب معیار سے گر کر میں نہیں لکھنا چاہتا۔جب ان سے موجودہ لکھنے والوں کے حوالے سے سوال کیا گیا توانھوں نے ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے زمانے میں وہ بچوں کے رسالے’’بھائی جان‘‘ میں کہانیاں لکھتے تھے اور اب اردو زبان و ادب کے ایک بہت بڑے محقق اور ایک معروف انگریزی اخبارکے مشہور کالم نویس ہیں۔
عثمانی صاحب نے تقریبا تین سو سے زیادہ کہانیا ں تحریر کیں۔پوری زندگی درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔کراچی کے مختلف اسکولوں میں پرنسل رہے اور آخر میں ایس ڈی او کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ترجمہ اور تخلیقی کاموں کی طرف رغبت رہی۔عثمانیصاحب کا کہنا ہے کہ مطالعہ اور درس و تدریس سے بڑھ کر کوئی پیشہ نہیں۔میں کتابوں سے محبت کرتا ہوں،کتابوں میں کیسے کیسے برگزیدہ بزرگ، کردار اور کہانیاں موجود ہیں۔جو لوگ کتابوں سے وابستگی رکھتے ہیں وہ کتابوں کے بنا جی نہیں سکتے۔میں بھی کتابوں ہی کی وجہ سے زندہ ہوں۔کتابیں نہیں تو زندگی میں کچھ بھی نہیں۔آخر میں عثمانی صاحب نے کہا کہ اللہ تعالی نے حضورﷺ کی امت میں پیدا کر کے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے ۔قمرالاسلام عثمانی صاحب کے پاس ان کی کہانیاں ،افسانے، سلسلے وار ناول جو مختلف رسالوں میں شائع ہوئے رسالوں کی شکل میں آج بھی محفوظ ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے افسانوں اور ناولوں کو باقاعدہ کتابی شکل میں شائع کروایا جائے تاکہ ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے اس ادیب کے افسانے اور ناول کتابی شکل میں محفوظ ہوجائیں۔ اور اسی کے ساتھ ہم نے عثمانی صاحب سے گفتگو کا اختتام کیا