امتحانات میں کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار کون؟ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

محمد رضی الدین معظم

موجودہ تعلیمی ماحول کے نقائص کے پس منظر میں!
امتحانات میں کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار کون؟

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
ای میل :

موجودہ ماحول کے نقائص کے پس منظر میں معزمکرم قائرین ! امتحانات Examinations میں کامیابی یا ناکامی محض قسمت کا کھیل ہے جس کے لئے موجودہ ماحول میں پائے جانے والے نقائص Drawbacks پر غور کرنا از حد ضروری ہے ۔ بندہ عاجز عاصی محمد رضی الدین معظم کو دیرینہ تدریسی تجربات سے وابستگی رہی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے موجودہ ماحول میں پائے جانے والے نقائص کو پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ اگر کسی قاری پر میری تجرباتی نگاہ گراں گذرے تو درگذر فرمائیے اور برعکسی میرے تجربات لائق تحسین سمجھیں تو دعائے رحمت سے گریزمت کیجئے ۔

کچھ عرصہ سے خلیجی کے پھیلاؤ کے باعث مادری زبان کی تعلیم سے نفرت اور انگریزی تعلیم کا جنون ہمارے دماغوں میں سرایت کرتا جارہا ہے ۔ جس کے باعث جنگلی پودوں کی طرح جگہ جگہ گلی کوچوں میں خانگی ادارے اگتے جارہے ہیں۔ اور آج انگریزی ذریعہ تعلیم مدارس میں بچوں کو پڑھانا ایک فیشن بن گیا ہے ۔ مادری زبان میں حصول تعلیم کی افادیت واہمیت کے بارے میں ذی فہم افراد دورائے نہیں رکھ سکتے ۔ طلبا وطالبات اپنی مادری زبان میں مضمون واری نصاب Subjectwise کو جنتی آسانی وجلد سمجھ سکتے ہیں وہ دوسری زبان میں ممکن نہیں ۔ نتائج کی پرواہ کئے بغیر بچوں کو انگریزی ذریعہ تعلیم میں داخل کرانا فرض عین بن گیا ہے ۔ نہ تو والدین میں کوئی ایک انگریزی سے واقف اور نہ تو گھریلو ماحول اس ذریعہ تعلیم کے لئے سازگار رہتا ہے ۔ صرف پیسے کے بل بوتے پر اپنی شان کی خاطر انگریزی ذریعہ تعلیم میں داخل کروادیتے ہیں۔ نتیجتاً بچے چند ابتدائی جماعتوں تک ڈھیکلے جاکر آگے بڑی جماعتوں میں تعلیم سے دلچسپی کھوبیٹھتے ہیں اور والدین اپنی انا کی خاطر خود اپنے بچوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ وصاحت ضروری ہے کہ اکثر خاندانوں میں ماں باپ کی بچوں کی تعلیم کے لئے الگ الگ مرصی ہوتی ہے ۔ کہیں پر ماں بچوں کو مادری زبان یا انگریزی میں تعلیم دلوانے پر اصرار کرتی ہیں تو کہیں پر باپ انگریزی یا مادری زبان کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بہر حال خصوصاً ایسے ماحول میں جہاں ایک ہی ماں باپ کے کچھ بچے مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کچھ بچے انگریزی ذریعہ تعلیم پر راغب کئے جاتے ہیں تو ایسے بچہ جو انگریزی ذریعہ تعلیم کے ہوں تو ان کو مائیں خصوصاً ان کے کھانے پینے توشہ پانی کے باٹل نصابی کتب فیس وغیرہ کا خیال رکھتے ہیں سرکاری مدارس میں ان تمام سہولتوں سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ ان کی جانب ماں باپ کی توجہ مرکوز نہیں رہتی ۔ حالانکہ سرکاری مدارس میں پڑھنے والے طلبا وطالبات سے چھٹی تاساتویں کے لئے صرف (9) روپے اور آٹھویں تا دسویں جماعت کے لئے صرف(20) روپے فیس سالانہ دیناپڑتا ہے ۔ اس کے باوجود ماں باپ کی عدم توجہی خود ان کے لئے خطرہ ہے اور ان کی ناکامی پر سرکاری مدارس مورد الزام ٹہرائے جاتے ہیں۔ جس روز سے ممتاز کرکٹر اظہر صاحب نے سنچری بناکر تہلکہ مچا یا ہے ۔ باس اس روز سے گلی گلی سڑک سڑک قبرستانوں میں تک کرکٹ کی وباء پھیل گئی ہے ۔ بچے اسکولی اوقات کے بعد کرکٹ میں محو ہوجاتے ہیں۔ جب جب فرصت کا وقت ملتا جاتا ہے صبح سے شام تک ان کا مشغلہ کرکٹ ہی کرکٹ رہتا ہے ۔ کبھی بھی ماں باپ ان کی پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتے میری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ان کے پاس پڑھنے کا وقت کونسا ہے ؟ ماں باپ خود ان کو پڑھنے کی جانب توجہ کیوں دینا نہیں چاہتے ۔ تو پھر ان کا نتیجہ ناکامی ہی ہوگا ۔ دودہوں سے قبل کی بات ہے کہ جب بچے صرف اور صرف سرکاری مدارس میں مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتیتھے ۔ اس وقت ہر مدرسہ کی کارگذاری نقطۂ عروج پر تھی ۔ بہت ہی کم تعداد میں طلبا ناکام رہتے تھے ۔ اس وقت ماں باپ خود صبح سویرے اٹھ کر بچوں کو بھی اٹھا دیتے اور بچے اپنی اپنی مذہبی عبادات کے بعد پڑھنے میں مصروف ہوجاتے بعد مدرسہ کچھ دیر کھیل کر سر مغرب اپنے اپنے گھرواپس آجاتے اور بغیر کسی کے بولے کتابیں لے کرپڑھنے بیٹھ جاتے 1969ء میں تلنگانہ ایجی ٹیشن کے بعد جو معاشرہ کو کیسنر لگا ہے ۔ آج تک سدھارنہ آسکا اسی دوران خلیجی ممالک میں روزگار کی تلاش اور کرکٹ کی وباء نے معاشرہ کو جوتباہ کیا ہے اس کا اظہار قارئین خود کرسکتے ہیں۔ حالانکہ بہتر روزگار اور معاشی حالات میں بہتری کا یہ عالم ہوتا تھا کہ تعلیمی معیار میں اضافہ ہو تا لیکن افسوس کہ نتیجہ الٹا نکل رہا ہے ۔ طلباء وطالبات ناکامی کا منہ دیکھ رہے ہیں اور خلیجی دولت ک ومختلف طریقوں سے بے دریغ ضائع کیا جارہا ہے ۔ نتیجتاً مادری زبان کی تعلیم کو صحیح سمجھ کر کوئی انگریزی تعلیم کا جنونی ہے اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بچے اگر انگریزی تعلیم حاصل کریں گے تب ہی وہ کچھ کھاسکیں گے حالانکہ اللہ رب العزت ہر انسان کی پیدائش سے قبل ہی اس کی کتاب زیست مکمل رکھی ہے ۔ جتنا ان کے مقدر میں ہے وہ برابر ملے گا ۔ انگریزی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو خطوط لکھنے تک مجبور ہیں بقول کسی شاعر؂
میری جان مدعائے دل تمہیں کس طرح سمجھاؤں
زبان میری ہے اردو اور تمہیں اردو نہیں آتی
نہ صرف یہ بلکہ اخبارات کی جلی سرخیوں کو پڑھنے سے بھی مجبور ہیں مذہبی معلومات کے اردو زبان میں ذخائر موجود ہیں۔ ان کے لئے بے سود ہیں ان سے استفادہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں نتیجہ حلال حرام جائز ناجائز کی ناپاکی کی بھی تمیز نہیں صرف دولت کے نشے میں زندگی گذار نے کو سب کچھ سمجھا جارہا ہے ۔ آج تو ایک نئی وباء ٹی وی بھی ہے بس صبح سے شام تک ٹی وی دیکھنا یا کرکٹ کھیلنا ہی آج کے بچوں کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے ۔ تعلیم اسے انہیں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ان کے ماں باپ ان کو تعلیم اور اوقات تعلیم کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ اکثر خاندان تو ایسے بھی ہیں جنہیں رہنے کے لئے موزوں مکان نصیب نہیں ۔ ایک دوکمروں حجروں میں زندگی گذار نے پر مجبور ہیں۔ پکوان بھی وہیں گھر کا ساز و سامان بھی وہیں پڑھنا لکھنا بھی اسی میں ٹی وی بھی اسی میں پھر میاں بیوی کی ضروریات بھی اسی میں اب اندازہ لگائے ایسے گھروں کے بچوں کو پڑھنے کے لئے صحیح تعلیمی ماحول نہیں تو لازما نتیجہ ناکامی ہوتا ہے ۔ آج ایسے ہی گھرانوں کے95 فیصد بچے بچیاں سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں لازماً بنیادی ضرورتوں سے محروم ایسی نسل کو امتحانات میں ناکامی کامنہ دیکھنا پڑھ رہا ہے ۔ اس لئے ان کے والدین انہیں نہ برابر غذا پہونچاتے ہیں نہ کپڑوں کی دیکھ بھال نہ تعلیمی ضروریات کتابیں کاپیاں پنسل پن ‘یونیفارم وغیرہ کو پورا کرپاتے ہیں۔جب بھی مدارس میں ان خامیوں پر توجہ دلائی جاتی تو کہتے ہیں آئندہ تنخواہ پر پورا کردیں گے ۔ اور ہوتے ہوتے سال ہوجاتا ہے اور نتیجہ صرف اور صرف ناکامی ہوتا ہے ۔
محکمہ جاتی ماحول:
عرصہ سے تقررات پرامتناع کے باعث تمام محکمہ جات میں عموماً سرکاری اور تعلیمی اداروں کو خصوصا جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا اندازہ خود قارائین کرسکتے ہیں ۔ جب بھی کوئی ٹیچر یا لکچرر کا تبادلہ یا وظیفہ پر سبکدوش یا طویل رخصت ( زچگی‘ زیارت مقامات مقدسہ ‘ طویل علالت ‘ اتفاقی حادثات وغیرہ) یا پھر انتقال کرجائیں تو ان کی جگہ کسی دوسروں کا بروقت متبادل انتظام نہیں اور انتظام ہو تا بھی ہے تو متعلقہ مضمون کے ٹیچر نہیں ہوتے ۔ جب یہ اساتذہ کسی خاص مضمون کے حامل نہ ہوں تو ان کی کمی سے طلبا وطالبات کا ہی نقصان ہوتا ہے ۔ صدر مدرسہ جب ان کے اور زمرہ کلاس واری ٹائم ٹیبل میں تھوڑی بہت تبدیلی کرناچاہیں تو اکثر وبیشتر ہی دونوں کے درمیان تناؤ شروع ہوجاتا ہے ۔ لامحالہ ناکامی کی صورت میں سال تمام مضمون واری کلاس خالی رہ جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں سرکاری طور پر متبادل انتظام ناگزیر ہے ہی نہیں ابتداء ہی سے کئی مدارس ایسے ہیں جہاں ٹیچرس کی جائیدادیں خالی پڑی ہوئی ہیں اور مضمون واری ٹیچرس کی کمی شدت سیمحسوس کی جارہی ہے ۔ اور ان کا پرہونا ضروری ہے ۔ نصابی کتب میں مواد کا مدحجم پر ہجوم اضافہ پھر نصاب کتب کی وقت پر عدم دستیابی بھی تعلیم میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے ۔ جو طلبا وطالبات محنت کے عادی نہیں بلکہ والدین کا تعاون بھی حاصل نہیں تو طلباء وطالبات میں آگہی و اداراک کی کمی لازمی نتیجہ ہے ۔ مطالعہ کی کمی اور نصابی کتب کی بروقت عدم دستیابی کے باعث محنت سے جی چرا کر سہل پسندی کے طریقہ کو اختیار کرلیتے ہیں۔ اور مسابقتی دور میں پیچھے رہ جاتے ہںے ۔ ان نقائص کے لئے محکمہ ہی ذمہ دار ہوتا ہے ۔ بچوں کی نفسیات اور ان کی اہلیت پر غور کئے بغیر ان کے کندھوں پر بستر کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے ۔ اور دنیا بھر کی معلومات ان کے ڈھٹوں پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بلکہ اسکولی کتابیں بچوں میں معلومات کو فطری انداز میں بڑھانے کے بجائے انہیں جبراً تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش ہے ۔ اس طرح قبل ازوقت کئی مضامین پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا جب وہ پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں ‘ کیا بول رہے ہیں کیا پڑھ رہے ہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ بس طوطے کی طر رٹتے رہتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی یا ناکامی کا سبب بنتی ہے ۔ نصابی کتب میں مواد کا قابل لحاظ کمی کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے ۔
خانگی مدارس کا ماحول:
اردو ذریعہ تعلیم کے انتظامیہ کے تحت چلائے جانے والے شہر کی دومثالی نسوانی درسگاہوں مدرسہ فوقانیہ معظم جاہی مارکٹ واقع شاہ علی بنڈہ نئی روڈ اور پرنس درشہوار ہائی اسکول المعروف منہاج المشرقیہ دبیر پورہ کو چھوڑ کر گلی گلی پائے جانے والے انگریزی میڈیم کے مدارس شہرو اضلاع کا احاطہ کئے ہوئے ہیں کچھ ایسے مدارس ضرور موجود ہیں جو اپنے معیار کو ابتدائی ہی سے قائم کئے ہوئے ہیں جہاں اعلیٰ عہدیداروں ‘ ڈاکٹرس‘ انجینئر ‘ وکلاء ‘ پروفیسر ‘ صنعت کار کے نونہال تعلیم پاتے ہیں۔ بجا طور پر فخر حاصل ہے اس لئے کہ یہاں آنے والے طلبا وطالبات کے ساتھ سب سے پہلے والدین کا تعاون بلکہ خود والدین کا تعلیم یافتہ ہونا ان کی اعلیٰ کامیابیوں کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ نہ یہ ٹی وی ‘ کرکٹ جیسی وباؤں کے دلدادہ ہوتے ہیں اور نہ کسی قسم کا تضیع اوقات سے ان کو سروکار ہے ۔ برخلاف اس کے کچھ ایسے مدارس جو جنگلی پودوں کی طرح اگتے جارہے ہیں نہ ان کا ہی کوئی معیار ہے نہ ان کی مادری زبان میں اساتذہ سمجھا نے کی کوشش کرتے ہیں ان مدارس میں ہر کس وناکس کے بچے شریک کئے جاتے ہیں جن کا مشغلہ رات دن ٹی وی دیکھنا کرکٹ کھیلنا تضیع اوقات کے سوا کچھ نہیں ۔ محض انگریزی تعلیم کے جنون میں والدین انہیں یہاں پڑھاتے ہیں۔ لیکن ان پر گھریلو ماحول میں ان سے کوئی دلچسپی نہیں لی جاتی اس طرح وہ نہ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرتے ہیں اور نہ مادری زبان پر مادری زبان سے محروم ہی ہیں یہیں نہیں خانگی انتظامیہ کے تحت کچھ ایسے مدارس بھی ہیں جو مختلف ناموں سے محلہ محلہ چلائے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ حکومت کے مسلمہ نہیں ہیں ۔ نتیجتاً جب سالانہ امتحانات کا وقت آتا ہے تو ان سے فیس امتحان45روپے کے بجائے زائد رقم وصول کی جاتی ہے اور انہیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ آپ کو ریگو لر طالب علم کے بجائے خانگی امیدوار کی حیثیت سے امتحان میں بٹھانا ہے اس لئے کہ ہمارا اسکول دسویں جماعت کے لئے مسلمہ نہیں ہے ۔ بصورت دیگر آپ امتحان میں نہیں بیٹھ سکتے ۔ اس قسم کے حالات سے طلبا وطالبات ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کئی ایسے خانگی مدارس بھی ہیں جو اپنے معیار کو بر قرار رکھے ہوئے ہیں۔ سرکاری طور پر مسلمہ بھی ہیں۔ لازماً ان کی کوشش اس وقت بارآور ثابت ہوتی ہیں جب ان کا گھریلو ماحول بھی تعاون کرے ورنہ ٹی وی کرکٹ کی وباء سے متاثر ہوں تو ان مدارس کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ ورنہ یہ مدارس تو اپنے تئیں ہر وہ کوشش کرجاتے ہیں جو ان کی کامیابی کا ضامن ہو۔
سرکاری مدارس کا ماحول :
سرکاری مدارس کو دور آصفیہ پھر آزاد ی کے بعد1969ء تک اپنا ایک اعلیٰ معیار کے حامل تھے تلنگانہ ایجی ٹیشن پھرخلیجی دولت کے پھیلاؤ کے بعد مسلسل گہرے اثر کا شکار ہیں آج کئی ایسے سرکاری مدارس بھی ہیں جس پر سرسری نظر دوڑائی جاتی ہے تو سب سے پہلے مخدوش عمارت استقبال کرتی ہے ناقابل گنجائش کمرہ جماعت میں فرش پر بیٹھے ہوئے طلباء وطالبات اپنی کسمپرسی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کلاسوں میں تختہ سیاہ( بلاک بورڈ) بھی ایسے حالت میں ہوتے ہیں جن پر لکھنے کے بعد ٹیچرس بھی نہ پڑھ پاتے کمرہ جماعت میں نہ روشنی کا انتظام اور نہ میز کرسی کا ‘ اطراف واکناف کے ماحول سے پھیری والوں کی آوازیں گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں چھتوں کا یہ عالم کے کئی کئی جگہ سراخ نظر آتے ہیں صاف صفائی کا انتظام تو کوسوں دور رہتا ہے ۔ مضمون واری اساتذہ کی کمی کی شکایت تو ہر مدرسہ کو ہے ۔ والدین کی عدم توجہ سے اکثر طلبا وطالبات کے پاس نہ کا پیاں برابر ہوتی ہیں اور نہ کتابیں حتیٰ کہ اپنا بال پن تک نہیں لاتے اور جب ان پر سختی کی جاتی ہے تو دو تین روزتک غیر حاضر ہوجاتے ہیں جب ان کے والدین کو بلایا جاتا ہے تو کبھی آکر نہیں ملتے پتہ نہیں چلتا ہے کہ بچے اپنے والدین کو بولتے بھی ہیں یا نہیں ؟ آج سرکاری اساتذہ تمام مصائب کے باوجود کوشش کرتے ہیں کہ اپنے فرائض کو پورا کریں ۔ لیکن مضمون واری اساتذہ کی کمی کا آج یہ عالم ہے کہ فزیکل انسٹرکٹر فیلو ٹیچرڈرائنگ ماسٹرس بلکہ اٹنڈرس تک کلاسس لے رہے ہیں۔ اور طلبا وطالبا ت کو متعلقہ مضمون پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی کچھ مضامین کی تعلیم رکاوٹ کا سبب بنی ہوئی ہیں اس لئے ایسے مضامین کے ٹیچر کے تبادلہ کردئیے جائیں یا سبکدوش ہوجائیں یا رخصت پر چلے جائیں تو لازماً ان کا متبادل انتظام نہ ہونے کے ب اعث صدور مدرسہ پر بوجھ سا رہتا ہے ۔ سرکاری مدارس میں تعلیم متاثر ہونے کی اہم ترین وجہ اساتذہ سے مختلف قسم کے دوسرے محکمہ جاتی سرکاری فرائض بھی ہیں ۔ جن میں مردم‘ شماری الیکشن امتحانات کی نگرانی برسر موقع پرچوں کی جانچ شامل ہے کئی مدارس ایسے بھی ہوئے ہیں۔ جو مختلف محکمہ واری امتحانات کا سفر بنتے ہیں۔ تو کچھ دن کے لئے تعلیم متاثر ہوجاتی ہے ۔ آخر سال خصوصاً ہر سال نو مبر دسمبر میں اساتذہ سے زیادہ سے زیادہ رخصت اتفاقیC.L.S کا استفادہ کرتے ہیں یہی عالم تمام سرکاری محکموں کا بھی ہوتا ہے ۔ ان ایام میں حاضری10 تا20 فیصد رہتی ہے ۔ اساتذہ کے لئے خصوصاً رخصت اتفاقی کو محفوظ کرنے کا حق دیا جائے تو تعلیم میں بہتری پیدا ہونے کارجحان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے سرکاری مدارس میں صرف وہی بچے اور بچیاں تعلیم پاتے ہیں جن کے والدین گندی بستیوں‘ جھکی جھونپڑیوں یا پھر ایک دو کمروں والے مکانات میں اپنی زندگی گذارتے ہیں اور صرف یومیہ اجرت پاتے ہیں نہ انہیں اپنے بچوں کی تعلیم کی جانب کوئی دلچسپی رہتی ہے نہ اسکول آکر پوچھتے ہیں کہ آخر یہ اسکول میں پڑھ بھی رہے ہیں یا نہیں گھربار سے انہیں فرصت نہیں رہتی ان بچوں کی دلچسپی صرف ٹی وی دیکھنا پھر کرکٹ کھیلنا رہتا ہے اور جب اساتذہ ان پر سختی کرتے ہیں تو مدرسے سے اکثر غائب رہتے ہیں اور اپنا آپ نقصان کرلیتے ہیں۔ محض والدین کی ان کے ساتھ مسلسل لاپرواہی و عام توجہی ان کی ناکامی کا سبب بن رہا ہے ۔ حالانکہ اکثر اساتذہ اسپیشل کلاسس لے کر کمزؤر طلبا و طالبات کی کوچنگ کا انتظام کرتے ہیں اس پر بھی اپنے بچوں کو ماں باپ بنیادی ضرورتوں کھانے پینے‘ یونیفارم کتابیں کا پیاں ‘ بال پن وغیرہ سے محروم رکھنا اور پڑھائی کی جانب لاپر واہی برتنا انتہائی افسوس کا مقام ہے ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ خ انگی مدارس کے ساتھ سگی ’’ ماں‘‘ کی طرح اور سرکاری مدارس کے ساتھ سوتیلی ’’ ماں‘‘ کی طرح کا سلوک آج کے ماں باپ اپنا کرا پنے بچوں سے خود ان کی عدم توجہی ولا پرواہی سرکاری مدارس کے نتائج کو بری طرح اثر انداز کررہے ہیں۔
امتحانی ماحول:
ایک اوراہم وجہ امتحانات کا موسم گرمامیں انعقاد ہے موسم گرما اور اس کی شدت اور برقی بورڈ والوں کا بریک ڈاؤن طلباء وطالبات کی اسٹڈیز بری طرح اثر انداز ہوتا ہے ۔ کئی محلہ جات ایسے ہیں جس میں ٹرانسفارمرس کی خرابیوں کے باعث دوچار دن تک درستگی نہیں ہوتی اور برقی کی عدم سپلائی کے باعث طلبا وطالبات اپنے اسٹیڈیز سے محروم رہ کر اپنا امتحان خراب کرلیتے ہیں اس لئے کہ اکثر طلبا وطالبات کو عین امتحانات کے دنوں ہی میں پڑھنے کا شوق ہوتا ہے ۔ باقی دنوں میں صرف کھیل کود کر ٹی وی کی لعنتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح یہاں بچوں کے ساتھ ساتھ ماں باپ بھی ذمہ دار ہیں جس کا نتیجہ صرف ناکامی ہے ایسے ذہین طلبا وطالبات جو سال بھر اسٹیڈیز کے عادی رہتے ہیں وہ اس طرح کی عارضی خرابیوں یا برقی رکاوٹوں کے باوجود اپنے امتحان سے بہتر طور پر اثر انداز ہوتے ہیں جہاں ان کے ماں باپ بھی ان کا پروا پورا تعاون کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد صرف پڑھنا اور کامیاب ہوتا ہے ۔ جب کبھی امتحانات کا آغاز ہو اپنے سکونتی مکان سے امتحانی سنٹر کا فاصلہ قبل از قبل معلوم کرنا نہایت ضروری ہے ۔ خصوصاً لڑکیوں کے لئے اہم ترین ہوتا ہے ۔ اپنی معمولی سی لاپرواہی یا کسی بھی سواری ‘ ناشتہ وغیرہ کی رکاوٹ کے باعث طالبات مراکز امتحان پر دیرسے پہنچتے ہیں اور جب یہ دیکھتے ہیں کہ امتحان شروع ہوچکا ہے ہر طرف سنا ٹا ہے اچانک دم بخود یا بے ہوش یاروتے ہوئے بھی دیکھا گیا ۔ عموماً پہلے دن کیحاضری نصف گھنٹے کے بعد25 فیصد کم رہتی ہے ۔نصف سے زائد گھنٹے کاو قت گذرنے کے بعد آنے والے طلبا وطالبات اپنا وقت آپ ضائع کرلیتے ہیں۔ اور لازماً اس تاخیر کے سبب اکثر ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں اس لئے کہ وہ پورا پرچہ برابر حل نہیں کرپاتے۔ ہمیشہ امتحانی مرکز پر پندرہ منٹ پہلے پہنچ جانا ضروری ہے ۔ بعض مراکز امتحان پر خصوصاً خانگی مدارس والے ہر پرچے کے لئے امتحان ہال یا کمرہ بدلتے رہتے ہیں اور روزانہ ایک نئے ہال یا کمرہ میں امتحان دینا پڑتا ہے جب تاخیر سے امتحان کے لئے پہنچیں گے تو لازماً ڈھونڈ نے میں مزید وقت خراب ہوجاتا ہے ۔ اس کے علاوہ تاخیر سے پہنچنے پر شک وشبہ کا بھی امکان رہتا ہے ۔ لہٰذا چیف سپرنٹنڈنٹ کو اختیار ہے کہ وہ اس روز امتحان دینے کی اجازت دیں یا نہ دیں ان کی مہربانی پر منحصر ہے ۔ یہ تمام الجھنیں تاخیر سے آنے والے طلبا وطالبات کو امتحانات میں ناکامی کا سبب بناتے ہیں۔ یہ سب مسائل والجھنوں سے والدین نا واقف رہتے ہیں۔ اکثر وہ اپنے والدین سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امتحان ہال میں روزانہ ہر ایک کو اپنا اپنا ہال ٹکٹ ساتھ لانا لازمی ہے ۔ محض لاپرواہی سے ہال ٹکٹ بھو جانے سے پھر انہیں امتحان ہال میں بھجوانے میں تاخیر تھی۔ یہاں بھی چیف سپرنٹنڈنٹ کی مرضی پر منحصر رہتا ہے اس معمولی لیکن اہم ترین وجہ سے بھی کئی طلبا وطالبات چیف سپرنٹنڈنٹ نے خواہ مخواہ الجھ کر اپنا امتحان خراب کرلیتے ہیں ۔ ہال ٹکٹ ساتھ نہ لانے کا اہم ترین نقصان یہ ہوتاہے کہ وہ اپنا رول نمبر بھو جاتے ہیں لازماً ایسے وقت چیف سپرنٹنڈنٹ کی جھڑکیاں بھی سننی پڑتی ہیں اس قسم کی خرابی کا شکار زیادہ لڑکیاں ہوں اس کا خاص خیال رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ آئے دن مختلف خرابیوں و نقائص جن میں نقل نویسی بھی شامل ہے ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا امیدوار کے عوض دھوکہ دہی کے تحت امتحان میں شرکت کرنے قصداً ہال ٹکٹ نہ لاکر امتحان دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر رنگے ہاتھ پکڑے جاتے ہیں ۔ انہیں چیف سپرنٹنڈنٹ پولیس کے حوالے کردیتے ہیں۔
بندہ عاجز محمد رضی الدین معظم کا ایک شخصی تجربہ ہے کہ ایک امتحان میں ایک لڑکی جس کی بہن کی شبیہ ایک جیسی تھی اور ایم اے کامیاب تھی چھوٹی بہن کے لئے میٹرک ایس ایس سی کا متحان دیتی رہی تیسرے روزاچانک جب فلائنگ اسکواڈ نے جب ہال ٹکٹ چیک اپ کرنے کے لئے دیکھا تو پتہ چلا کہ امتحان دینے والی لڑکی اصل میں دوسری ہے ۔ اس کی اطلاع کسی ساتھی امتحان دینے والے نے دفتر امتحان کو کردی تھی ۔ اور اسی بناء پر فلائنگ اسکواڈ نے بجائے نقل نویسی کو چیک اپ کرنے کے ہال ٹکٹ چیک اپ کئے اور غلطی پکڑی گئی ۔ بہرحال اس قسم کے حالات ہر امتحان میں ہورہے ہیں ۔ جہاں یکساں شبیہ والے لڑکے اور لڑکیاں اس قسم کی حرکت کرتے پائے جاتے ہیں ۔ اس قسم کی حرکت مت کیجئے اور اپنے آپ کو خطرے میں مٹ ڈالئے۔ ورنہ اس کی سزا بہت بدترین ہے ۔ اللہ اسے سب کو محفوظ رکھے ۔ اکثر وبیشتر طالب علموں کی لاپرواہی کا یہ عالم رہتا ہے کہ یہ تک معلوم نہیں رہتا کہ نظام الاوقات امتحان ( امتحان ٹائم ٹیبل) کے لحاظ سے کب کونسا پرچہ دینا ہے ۔ یہاں بھی اکثر لڑکیاں اپنی گھریلو مصروفیات میں الجھ کر کچھ پڑھ کر آتی نہیں اور امتحان ہال میں رونے لگ جاتے ہیں۔ جس کا نقصان صرف انہیں کو ہوتا ہے امتحان کو جانے سے قبل اپنے قلم کو اچھی طرح جانچ کر لینا بھی نہایت ضروری ہے ۔ قلم ہی امتحان کا اہم ترین ہتھیار ہے لیکن قلم کی جانب سے بھی لاپرواہی برت کر قلم بھول آتے ہے ں۔ یا پھر درمیان امتحان میں رفل ختم ہوجاتی ہے ۔ جب دوسروں سے مانگتے ہیں کوئی نہیں دے سکتا ۔ جب تک دوسرا قلم مہیانہ ہوجاتا وقت کافی ضائع ہوجاتا ہے ۔ او راکثر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ اس خرابی کے لئے بھی زیادہ تر لڑکیاں ہی لاپرواہ ثابت ہوئیں ۔ اسی طرح ریاضی اور سائنس کے پرچوں کے لئے کمپاس بکس کا بھی ہونا ضروری ہے ۔ عموماً صرف30 فیصد طلبا وطالبات ہی اپناکمپاس بکس ساتھ رکھتے ہیں۔ باقی مانگ کر کام چلاتے ہیں۔ ایسے وقت بھی اکثر انویجی لیٹرس کی جھڑکیاں سننی پڑتی ہیں۔ اس سے امتحان ہال میں گڑبڑیا نقل نویسی کا شبہ غالب آتا ہے ۔ اور اکثر بچے ‘ بچیاں امتحان دیتے ہوئے اٹھادئیے جاتے ہیں ۔ دوران امتحان اہم ترین مسئلہ طلبا وطالبات کی صحت کا رہتا ہے ۔ تیاری امتحانات میں مسلسل راتیں جاگ جاگ کر اثر اپنی صحت خراب کرلیتے ہیں۔ اس خرابی کا شکار زیادہ تر لڑکیاں پائی گئیں۔ جب امتحان شروع ہوا تو انہیں چکر آیا یا پھر قئے یا پھر ضرورت کے لئے جانے کی نوبت آئی ۔ اس طرح ان تمام صورتوں میں وقت ضائع ہو کر ایک پرچہ بھی خراب ہوجائے تو لازماً ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ وقت پر سوکر صبح سویرے اٹھنے برعکس رات دیر تک جاگنے سے لازمی طورپر صبح دیر میں نیند سے ہوشیار ہو نے کا اندیشہ غالب رہتا ہے ۔ اس طرح بھی اسٹیڈی متاثر ہوتی ہے گھروالوں کو بھی ان کی جانب کوئی دلچسپی یا توجہ نہیں رہتی ۔ بہت کم گھرانے ایسے ہیں جہاں تعلیم کی اہمیت ہوتی ہے وہاں طالب علم کو وقت پر سلا کر وقت پر جگایا جاتا ہے ۔ وقت پر نہ جاگنے کی وجہ سے بھی طالب علم قلم ہال ٹکٹ کمپاس بکس وغیرہ بھولنے کے عادی رہتے ہیں۔ ان عادتوں سے بازآئیے ۔ دوران امتحان خصوصاً کسی بھی تقریب دعوت شادی بیاہ وغیرہ میں شرکت کرنے سے حتی الامکان گریز کیجئے ۔خواہ آپ سے کوئی بھی رشتہ دار سہیلیاں دوست احباب ناراض ہی کیوں نہ ہو اگر آپ کامیاب یا ناکام ہوجائیں تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ دعوت میں آئے تھے یا نہ آئے تھے آخری اہم نقطہ بندہ عاجز محمد رضی الدین معظم کا امتحان دینے والے یہ نقش کرلیں کہ روزانہ امتحان کو باوضو جائے خواہ آپ کو کسی شرعی مجبوری ہی کیوں نہ ہو وضو کرنے میں کوئی قباحت نہیں اس حسن عمل سے آپ امتحانات میں انشاء اللہ کامیاب و کامران رہیں گے اپنے اپنے مذہب کے لحاظ سے عبادت کا بھی لحاظ رکھئے یہی ایک ذریعہ ہے مالک حقیقی کو اپنے مقصد میں کامیابی کے لئے منانے کا جو ضرور آپ کی کامیابیوں میں ممدومعاون ثابت ہوگا ورنہ آپ ہی کی مختلف قسم کی کوتاہیاں ناکامی کا سبب بن جاتے ہیں اس نئے بندہ عاجزمحمد رضی الدین معظم یہ کہنے پر مجبور ہے کہ امتحانات میں کامیابی وناکامی محض قسمت کا کھیل ہے ۔

Share
Share
Share