شفیع عقیل : دنیائے ادب کا ایک دمکتا ستارہ
ڈاکٹرتہمینہ عباس
کراچی
ای میل :
شفیع عقیل صحافت و ادب کا ایک اہم نام ہیں۔آپ۱۹۳۰ء میں لاہور چھاؤنی کے قریب ایک گاؤں تھینہ میں پیدا ہوئے ابتدائی عمر دھرم پورہ(مصطفیٰ آباد) میں بسر کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۴۸ ء میں ادیب عالم اور ۱۹۴۹ء میں ادیب فاضل کیا اور ۱۹۵۰ء میں کراچی آکر شین عین کے ادبی و قلمی نام سے روزنامہ’’ جنگ‘‘سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ ’’جنگ ‘‘ میں بچوں کے میگزین ایڈیٹر ہو نے کے ساتھ ساتھ آرٹ پر کالم لکھا کرتے تھے۔آپ بچوں کا سنڈے میگزین اس قدر خوبصورتی سے ترتیب دیتے تھے کہ لوگوں نے آپ کو بچوں کا ماہنامہ نکالنے کی ترغیب دی ۔جس کے نتیجے میں شفیع عقیل نے اپنے دور کا ایک بے حد کامیاب رسالہ’’بھائی جان ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔بچوں کے لیے لکھنا بہت مشکل ہے اس کے باوجود شفیع عقیل اور ان کے ساتھی مصنفین نے ایسی تحریریں لکھیں کہ جنھیں پڑھ کر،لوگ اپنا بچپن بھول جاتے ہیں بچوں کی زبان،بچوں کی باتیں،بچوں کے شوق اور ان کے دل کی امنگوں کو شفیع عقیل اور ان کے ساتھی لکھاری بہ خوبی سمجھتے تھے۔
احمد ندیم قاسمی نے ’’تین کتاب اور ایک مصنف‘‘ کی تقریب میں شفیع عقیل کے بارے میں کہا تھا کہ ’’علم و ادب کی تاریخ میں اس طرح کی مثالیں یقیناََ موجود ہیں کہ مصنفین اور مرتبین نے کسی علمی ادبی کام کے لیے اپنی پوری زندگیا ں وقف کردیں اور متعدد جلدوں اور بے شمار صفحات پر مشتمل کئی غیر فانی کارنامے اپنی یادگار چھوڑ گئے مگر دورِ حاضرمیں یہ اعزاز صرف اور صرف شفیع عقیل کو حاصل ہے کہ انھوں نے تصنیف و ترتیب و تالیف کا کام جس حیرت انگیز لگن اور کاوش سے کیا اس کی کوئی دوسری مثال ،فی زمانہ ،باآسانی نہیں مل سکے گی ۱۔
’’انھوں نے شاعری،سوانح نگاری،افسانہ نگاری،سفر نگاری،ناول نگاری،طنزو مزاح نگاری،رپور تاژ نگاری کے علاوہ مرزا غالبؔ اور میاں محمد بخش جفاوری شعراء کے تراجم سے بھی ادب کو مالا مال کیااور سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین ،جاپان،ایران،جرمنی اور اپنے پنجاب کی لوک کہانیوں ،لوک داستانوں،لوک حکایتوں،لوک کتھاؤں کی اکھٹا دس ایسی کتابیں مرتب کی ہیں کہ وہ صرف یہ ہی کام کرکے قلم رکھ دیتے تو جب بھی ادب کا تاریخ میں اپنا نقشِ دوام چھوڑ جاتے‘‘۲۔
شفیع عقیل نے بے شمار اعزازات حاصل کیے جن میں تمغۂ امتیاز ۲۰۰۴ء، داؤد ادبی انعام پاکستان رائٹرز گلڈ۱۹۶۸ء ،’’پنجاب رنگ ‘‘، حبیب ادبی انعام پاکستان،رائٹرز گلڈ ۱۹۷۶ء،پنجابی لوک داستانیں ،پاکستان بک کونسل بہترین کتاب ایوارڈ۱۹۷۷ء،خوشحال خان خٹک ایوارڈ حکومتِ پنجاب۱۹۹۰ء، ’’سیف الملوک‘‘،سر عبدالقادر ایوارڈ عالمی اردو کانفرنس ہندوستان۱۹۹۰ء،آزادی صحافت کی خدمات کاا یوارڈ۱۹۹۵ء،کراچی یونین آف جرنلٹس،لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ،پریس کلب کراچی ۲۰۰۵ء،نشانِ سپاس کراچی پریس کلب ۲۰۰۹ء،لائف فیلو ورلڈ پنجابی کانفرنس۲۰۰۵ء،لائف فیلو اکادمی ادبیات پاکستان۲۰۰۹ء شامل ہے۔
شفیع عقیل نے مختلف ممالک کے سفر کیے اور جن میں ایران،متحدہ عرب امارات ،جرمنی ، برطانیہ ، کینیڈا ، ترکی ، تھائی لینڈ ، جاپان ، آسٹریا ، بیلجیم ، پولینڈ ، سلطنتِ عمان ، شام ، ہالینڈ، فرانس ، امریکا ، بھارت ، ازبکستان شامل ہیں۔
شفیع عقیل قابلیت پر یقین رکھتے تھے اورباصلاحیت لوگوں کی حو صلہ افزائی کرتے تھے ۔وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ کون لکھ رہا ہے۔سنڈے ایڈیشن ہو یا ’’بھائی جان‘‘ یا پندرہ روزہ’’ نمکدان‘‘نہایت سلیقے سے اسے تر تیب دیتے ،صفحات کی تر تیب میں ان کا جمالیاتی ذوق جلوہ گر ہوتا تھا۔شفیع عقیل نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور اس لحاظ سے بڑے دل اور کھلے ذہن کے مالک تھے وہ اپنی ذات میں خود ایک ادبی ادارہ تھے۔آج کے بڑے بڑے لکھنے والوں نے اپنے سفرکا آغاز شفیع عقیل کی رہنمائی سے کیا۔جن میں حسینہ معین،عبید اللّہ علیم،محسن بھوپالی،رشیدہ رضویہ،مستنصر حسین تارڈ،اطہر شاہ خان،نسیم درانی،افسر آذر،نعیم آروی،علی ظفر جعفری،عبدالقیوم شاد،غازی صلاح الدین،انور شعور،قمر علی عباسی،رضا علی عابدی،خالدہ شفیع،عفت گل اعزاز،نوشابہ صدیقی،محمد عمر میمن،طلعت اشارت اس کے علاوہ بے شمار نام شامل ہیں جو ’’ نونہال لیگ‘‘ اور بچوں کی ادبی تنظیم’’ بزم نو آموز مصنفین‘‘ کے رکن تھے۔بچوں کی یہ ادبی تنظیم بھی شفیع عقیل کی سر پرستی میں شروع ہوئی جس کا اجلاس انجمن ترقی اردو کراچی کی لائبریری (پاکستان چوک )میں منعقد ہوا کرتا تھا۔شفیع عقیل تریسٹھ سال ’’روزنامہ جنگ‘‘ سے وابستہ رہے انھوں نے مختلف عنوانات پر ان گنت کالم لکھے۔بے شمار کتابوں کے ترجمے کیے۔
شفیع عقیل کی لوک داستانوں کے ذخیرے پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان داستانوں میں سے بہت سی ترجمہ شدہ داستانیں ایسی ہیں کہ انھیں سرسری مطالعے کے لیے بچوں کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے وہ کہانیاں ویسی ہی سبق آموز ہیں جیسی گلستانِ سعدی کی حکایتیں ہیں ۳
شفیع عقیل کوفنِ مصوری پر عبور حاصل تھااور انھوں نے عصرِ حاضر کی مصوری کا اپنے کالموں میں بھرپور جائزہ پیش کیا ہے۔فن مصوری پر ان کے یہ کالم اب کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ان کالموں میں شفیع عقیل نے مصوروں کو ایک عام انسان کی شکل میں پیش کیا ہے ۔جس سے ہمیں ان کی روز مرہ زندگیوں کے وہ رخ دکھائی دیتے ہیں جو مصوروں کے کام پر اثر انداز ہو تے ہیں۔شفیع عقیل سادہ طبیعت اور وطن سے محبت کرنے والے انسان تھے انھیں اپنی مٹی اور اپنی روایات سے بے حد لگاؤ تھا۔جس کا اندازہ ان کی مصنفہ و مترجمہ لوک داستانوں سے کیا جاسکتا ہے۔یہاں ان کی کتابو ں کے نام درج ذیل ہیں۔
۱۔ بھوکے (افسانے) ۱۹۵۲ء ‘ ۔۲۔ ایک آنسو ایک تبسم (طنز و مزاح) ۱۹۵۳ء ‘ ۔ ۳۔ ڈھل گئی رات (ناول) ۱۹۵۷ء ‘ ۔ ۴۔ مجید لاہوری (سوانح حیات،تنقیداور تحقیق) ۱۹۵۸ء ‘
۔۵۔ تیغِ ستم (طنزو مزاح) ۱۹۶۳ء ‘ ۔ ۶۔ پنجابی لوک کہانیاں تحقیق،تہذیب اور تحریر) ۱۹۶۳ء ‘ ۔ ۷۔ ہماری منزل غازی یاشہید (رپور تاژ) ۱۹۶۸ء ‘ ۔ ۸۔ پنجاب رنگ (تحقیق و ترجمہ)۱۹۶۸ء ‘ ۔ ۹۔ غالب جنھوں ہر کوئی چنگا آکھے (پنجابی ترجمہ) ۱۹۶۹ء ‘ ۔ ۱۰۔ پنجابی کے پانچ قدیم شاعر(تحقیق ،تنقید اور ترجمہ) ۱۹۷۰ء ‘ ۔ ۱۱۔ مجید لاہوری کی حرف و حکایت (انتخاب اور ترتیب) ۱۹۷۳ء ‘ ۔ ۱۲۔ پنجابی لوک داستانیں (تحقیق،تہذیب اور تحریر) ۱۹۷۵ء ‘ ۔ ۱۳۔چینی لوک کہانیاں (تہذیب و ترجمہ) ۱۹۷۵ء ‘ ۔ ۱۴۔ سوچاں دی زنجیر
(پنجابی شاعری) ۱۹۷۵ء ‘ ۔ ۱۵۔ سیر و سفر (سفرنامہ) ۱۹۸۰ء ‘ ۔ ۱۶۔ زہر پیالہ (پنجابی شاعری) ۱۹۷۵ء‘ ۔ ۱۷۔ جاپانی لوک کہانیاں (تہذیب و ترجمہ) ۱۹۸۰ء ‘ ۔ ۱۸۔ جاپانی لوک داستانیں (تہذیب و ترجمہ) ۱۹۸۲ء‘ ۔ ۱۹۔ جاپانی لوک کتھائیں (تہذیب و ترجمہ) ۱۹۸۳ء‘ ۔ ۲۰۔ جاپانی لوک حکایتیں (تہذیب و ترجمہ) ۱۹۸۳ء‘ ۔ ۲۱۔ جرمن لوک کہانیاں (تہذیب و ترجمہ) ۱۹۸۴ء ‘ ۔ ۲۲۔ ایرانی لوک کہانیاں (تہذیب و ترجمہ) ۱۹۸۶ء‘ ۔ ۲۳۔ سیف الملوک (تحقیق ،تلخیص اور ترجمہ) ۱۹۹۰ء‘ ۔ ۲۴۔ جاپان کی عوامی کہانیاں (تہذیب و ترجمہ)
۱۹۹۵ء ‘ ۔ ۲۵۔ قائد اعظم محمد علی جناح :تقریراں تے بیان (پنجابی ترجمہ) ۱۹۹۷ء‘ ۔ ۲۶۔ پاکستان کی لوک داستانیں (تحریر و تہذیب) ۱۹۹۷ء‘ ۔ ۲۷۔ نامورادیبوں اورشاعروں کا بچپن (انتخاب اور ترتیب) ۱۹۹۸ء‘‘ ۔ ۲۸۔ نامور ادیبوں کی نایاب کہانیاں اور ڈرامے (انتخاب اور ترتیب) ۱۹۹۸ء‘ ۔ ۲۹ ۔ نامور شاعروں کی نایاب منظومات (انتخاب اور ترتیب)
۲۰۰۲ء ‘ ۔ ۳۰۔ نامور ادیبوں کے نایاب مضامین (انتخاب اور ترتیب) ۲۰۰۲ء ‘ ۔ ۳۱۔ ادب اور ادبی مکالمے (نامور ادیبوں سے گفتگو) ۲۰۰۲ء ‘ ۔ ۳۲۔ سسی پنوں ہاشم شاہ
(سوانح تحقیق و تنقید) ۲۰۰۲ء ‘ ۔ ۳۳۔ دو مصور:بشیر مرزا ،آزر زوبی (سوانح ،یاداشتیں اور تنقید) ۲۰۰۳ء ‘ ۔ ۳۴۔ مشہور اہلِ قلم کی گمنام تحریریں (تلاش ا،انتخاب اور ترتیب)
۲۰۰۴ء ‘ ۔ ۳۵۔ پیرس تو پھر پیرس ہے (سفر نامہ) ۲۰۰۴ء ‘ ۔ ۳۶۔ سلطان باہو:حیات و فن (سوانح حیات،تحقیق و ترجمہ) ۲۰۰۴ء ‘ ۔ ۳۷۔ زندگانی پھر کہاں (چھ ممالک کا سفر نامہ)
۲۰۰۶ء ‘ ۔ ۳۸۔ چار جدید مصور(سوانح ،یاداشتیں اور تنقید) ۲۰۰۶ء ‘ ۔ ۳۹۔ تصویر اور مصور(تنقیدی مضامین) ۲۰۰۷ء ‘ ۔ ۴۰۔ مصوری اور مصور(تنقیدی مضامین) ۲۰۰۸ء ‘
۔۴۱۔ جاپان کی مقبول لوک کہانیاں (تہذیب و ترجمہ) ۲۰۰۸ء ‘ ۔ ۴۲۔ سرخ سفید سیاہ (سوانح ،یاداشتیں اور تنقید) ۲۰۱۱ء ‘ ۴۳۔ پاکستان کے سات مصور (سوانح ،یاداشتیں اور تنقید)
۲۰۱۱ء ‘ ۴۴۔ میری پنجابی شاعری (کلیات) ۲۰۱۱ء ‘ ۔ ۴۵۔ مصوری میں قدیم اور جدید رحجانات (مرتبہ) ۲۰۱۲ء۔
شفیع عقیل کے کالم نے آرٹ کو اس وقت حیات بخشی جب دور دور تک آرٹ پر لکھنے والا کوئی نہ تھا۔ان کے لکھے گئے تجزیے اور تنقید بہت سے آرٹ کے شائقین کا سفر آسان کر گئے۔شفیع عقیل کا نام پاکستانی ثقافت کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں انھوں نے پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب کو قومی زبان میں منتقل کرنے کا کام انجام دیا اور بالخصوص پنجاب کے صوفیانہ ادب کو قومی سطح پر روشناس کرانے میں قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں شفیع عقیل کی بابت ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ڈگری یافتہ نہیں تھے لیکن ان کا مطالعہ وسیع تھااور مصوری پہ گہری نظر تھی ۔شفیع عقیل آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کی تحریریں ہمیں ہمیشہ ان کی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں گی۔۱۹۳۰ء میں طلوع ہونے والا دنیائے ادب کا یہ ایک دمکتا ستارہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ۶ ستمبر ۲۰۱۳ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔شفیع عقیل اپنی علمی اور ادبی تصانیف کی وجہ سے علمی و ادبی حلقوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حواشی
۱۔ قاسمی،احمد ندیم،شفیع عقیل کے ادبی کارنامے،مشمولہ شفیع عقیل ایک مصنف تعارفی تقریب،اکادمی بازیافت،کراچی،س ن،ص۱
۲۔ ایضاََ
۳۔ حسین،ممتاز،پروفیسر،شفیع عقیل اور لوک ادب،مشمولہ شفیع عقیل ایک مصنف تعارفی تقریب ص ۶
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر تہمینہ عباس
لیکچرار اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ بوائز کالج،
گلستان جوہر بلا ک ون(ایوننگ)
مین یونیورسٹی روڈ ،کراچی