اُردواورتمل کے نمائندہ ناولوں میں سماجی مسا ئل
ایک تقابلی مطالعہ
یس ۔ جی۔انیسہ بیگم
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اُردو
اسلامیہ ویمنس آرٹس اینڈ سائنس کالج ۔وانم باڑی
ای میل :
نوٹ : یہ مضمون محترمہ انیسہ بیگم، شعبۂ اردو، اسلامیہ ویمنس کالج، وانمباڑی نے شعبۂ اردو، سی. عبد الحکیم کالج، میل وشارم کے سمینار بعنوان: ’’ہندوستانی زبانوں میں سماجی مسائل کا تقابلی جائزہ‘‘ منعقدہ: ۲۷ و ۲۸ مارچ ۲۰۱۶ میں پیش کیا گیا تھا اور اس کی بہت ستائش کی گئی تھی۔ اردو اور تامل زبانوں میں سماجی مسائل کی پیشکش پر مشتمل اس مقالہ کو افادۂ عام کے لیے جہانِ اردو پر پیش کیا جا رہا ہے۔ (ڈاکٹروصی اللہ بختیاری)
ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی انوکھا ‘ نرالا‘ نیا کے آتے ہیں ۔داستان سے یہ صنف اس لئے مختلف قرار پائی کہ داستان کی بنیاد تخیل اور ما فوق الفطرت قصوں پر رکھی جاتی ہے ۔ جب کہ ناول میں حقیقی زندگی کے واقعات کی عکاسی ہوتی ہے ۔ ناول زندگی کا عکاس بھی ہے ، اور ایک بہترین ناول زندگی کے مختلف پہلوؤں پر یاکسی خاص پہلو کی وضاحت اور ترجمانی بھی کرتا ہے ۔ ناول در حقیقت اپنے دور کی سچی معاشرتی تصویریں پیش کرتا ہے ۔ اسی طرح تمل ادب میں بھی ناول یورپ سے ملا ہوا عطیہ ہے ۔ قدیم زمانے میں نظم کے سہارے جو باتیں پیش کی گئی تھیں انھیں کو نثری انداز میں جدید پیرائے میں ناول کے روپ میں پیش کیا گیا ہے ۔مو۔ وردا راجن کے نظریہ کے مطابق :
’’ تخیل کے اظہار کو نثر کے طرز میں داخل کرکے تیزی سے ترقی کرنا ہی ناول و افسانہ ہے ‘‘
[مو۔ وارداراجن ۔ ئیلاکیہ ماربو صفحہ۱۰۵]
تمل ادب میں ناول کی تاریخ ایک سو پندرہ برس پرانی ہے ۔ لگ بھگ دو ہزار سے زائد ناول منظر عام پر آچکے ہیں۔ سماج میں جتنے بھی قصے کہانیاں ہیں وہ سب ناول نگاروں نے اپنی تخلیقات میں پیش کی ہیں ۔ناول کو تمل ادب میں پودنم کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ Novellaاطالوی زبان کا لفظ ہے جو ۱۶صدی عیسوی میں انگریز زبان ’’ناول‘‘ کے رواج سے عام ہوا۔ ویبسٹرس نے اپنی لغات میں کہا ہے :
’’انسان کے جذبات، خیالات ، واقعات، اور اس کے حرکات ان تمام عناصر کو آپس میں جوڑ کر تفصیلی طور پر اس کا اظہار کرنا ہی ناول ہے‘‘
(تا۔ اے۔ نانامورتی۔ ئیلاکیہ ترنائیویل صفحہ ۳۷۵)
ناول سے اصلاح کاکام بھی لیا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں کوئی بگاڑ ہو تو وہ ٹھیک کیا جاسکے۔ لوگوں میں احساس کو بیدار اور شعور کو زندہ کیا جاسکے، ناول کو زندگی کے لئے ایک آئینہ کی سی حیثیت حاصل ہے۔
نذیر احمد کو اُردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے ، ان کے ناول مرأۃ العروس ، بنات النعش، توبۃ النصوح، ابن الوقت، رویائے صادقہ، فسانہ مبتلا، ایامی ، سب ہی تعلیم نسواں، سماجی و تہذیبی مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ ناول کے ذریعے ڈپٹی نذیر احمد نے معاشرے کی اصلاح کا بھرپور کام لیا ہے ، اس کے بعد کے ناول نگاروں میں سرشار، عبد الحلیم شرر، مرزاہادی رسوا، کرشن چندر، پریم چند، راشد الخیری، عزیز احمد، سجاد ظہیر، عصمت چغتائی ، قرۃ العین حیدر، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان تمام ناول نگاروں کے ہاں بھی سماجی مسائل کا الگ الگ انداز سے تذکرہ ملتا ہے۔
تمل زبان کا پہلا ناول ۱۸۷۶ .ء میں لکھا گیا۔ مائیلا ڈودورائی ’’ویدا نائیگا پلئی کا لکھا ہوا ناول ’’مدلیار سریتّرم‘‘ ‘ ’’سوگنہ سندری‘‘ ہے۔ اس کے بعد کے ناولوں میں ’’راجم ائیر کا لکھا ہوا ناول ’’کملمّال سریترم ‘ مادوایار کا ’’پدماوتی سریترم یہ تین ناول تمل زبان کے ابتدائی اہم ناول ہیں ۔ تمل ادب کے مشہور ناول نگاروں میں ’’وید نائیگم پلئی ، راجم ائیر،مادوایار، نڈیسا ساستری، پُونّو سامی پلئی وغیرہ ہیں۔ ناول نگاری ادب کی ایک اہم شاخ ہے ، جو ہماری زندگی کی مختلف گتھیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے ۔ ناول میں ہر طرح کے موضوع کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ وا۔ را۔ کا لکھا ہوا ’’سندری‘‘ ارینجر انّا کا لکھا ہوا ’’پارودی بی۔ اے الگن کا لکھا ہوا ’’والوؤینگے وغیرہ ناولوں میں سماج کے مسائل کو بروئے کار لایا گیا ہے۔
اردو ناولوں کے میدان میں پریم چند نے وہ کارنامہ انجام دیا کہ ان کا نام ادبی روایت کا ایک اٹوٹ حصہ بن گیا اور اُردو ادب کی اس کم مایہ صنف کو اہمیت اور وقعت حاصل ہوگئی۔انہوں نے عام انسان کی زندگی کے مسائل کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنا کر ان کی اہمیت ہم پر اجاگر کردی ۔ ان کی انفرادیت کا رازاس بات میں مضمر ہے کہ انہوں نے اردو میں پہلے پہل دیہاتوں کی زندگی، شہر کے متوسط طبقے کی زبوں حالی، کسانوں کے استحصال اور عورتوں کے حقوق کی پامالی کو موضوع بنایا۔ پریم چند نے کل بارہ ناول لکھے۔ ان کا پہلا ناول ’’اسرار معابد‘‘تھا جس کا موضوع بھی اصلاحی تھا۔ ان کے ناولوں میں گوشۂ عافیت ، چوگانِ ہستی، نرملا، میدانِ عمل اور گؤدان بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔انہوں نے ان مذہبی پیشواؤں کی چال بازیوں پر سے پردہ اُٹھایا ہے جو سماج میں شرافت کا لبادہ اوڑھے پھرتے ہیں۔ ان کا ناول ’’نرملا‘‘ میں عورت کی نفسیات، اس کے دکھ درد، اس کی الجھنوں اور اس کی پریشانیوں کو اچھی طرح نشاندہی کی گئی ہے ۔’’نرملا‘‘ کا موضوع وہی مسائل ہیں جو جہیز کی لعنت کی وجہ سے ہندوستانی سماج میں پیدا ہوچکے ہیں۔ اس کا شکار ہونے والی لڑکیوں کو ناگفتہ بہ حالات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہ در اصل ایک سماجی روگ ہے جس کی تشخیص اور علاج ہر انسان دوست ادیب کا فریضہ ہے جسے پریم چند نے بخوبی ادا کیا ہے ۔ جہیز ایک معاشرتی لعنت اور سماجی روگ ہے اس کا اعتراف سبھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ کسی نہ کسی صورت میں ہندوستان کے مختلف طبقوں میں رائج ہے ۔ پریم چند کے نزدیک معاشرتی زندگی کے انتشار کا یہ ایک اہم سبب ہے ۔ نرملا کی کہانی کسی تنہا بے کس عورت کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس پورے ہندوستان کے سماج کی کہانی ہے جو ہر طرف سے مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہے ۔ ایک طرف معاشی ناہمواری عورت کے استحصال کا سبب بنتی ہے تو دوسری طرف توہم پرستی اس کے لئے وبال جان بن جاتی ہے ۔ جہیز کا مسئلہ معاشی ناہمواریوں سے جڑا ہوا ہے اور توہم پرستی کا معاملہ تعلیم اور عقلیت پسندی یا سائنسی شعور کی کمی سے وابستہ ہے ۔
یہاں تمل ادب کے ناولوں میں بھی جابجا تقریباً اسی طرح کے مسائل کوپیش کیا گیا ہے ۔خاص طور سے عورتوں کے مسائل،عورتوں کی نا خواندگی،مرد اساس معاشرے میں عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم،کم عمری کی شادیاں ، رسوم ورواج ، جہیز اور توہم پرستی کی برائیوں پر تمل ناولوں میں نہایت دل نشین انداز سے مختلف پیرایوں میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ والدین کے لئے اپنی بیٹی کی شادی ایک بوجھ بن جاتی ہے ۔ اس سے زیادہ عورت کی تذلیل کیا ہوگی کہ دولت کے مقابلے میں اس کے شخصی اوصاف اور جوہروں کی کوئی قیمت نہ ہو۔ جہیز کی خاطرانسانی قدروں کی بلی چڑھادی جائے ۔ اسی بات کو لے کر متوسط اور غریب گھرانوں میں لڑکی کی پیدائش کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ بچی کی پیدائش کے فوراً بعد اس معصوم کا قتل ہوجاتا ہے ۔ ماہر تعلیم ’’وینگڈیش نے ۱۹۹۵ .ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ جہیز کا ہی مسئلہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ لڑکی کے والدین کا خود کشی کرنا، یا لڑکی کا گھر چھوڑ کر بھاگنا، وغیرہ اکثر اسی سبب سے ہے، یا پھر لڑکی کی شادی کے بعد میاں بیوی یا ساس بہو کے جھگڑوں میں لڑکی کے ساتھ تشدد یا جلا کر مارنا وغیرہ ۔ یہ تمام کیفیات راجم کرشنن کے ناول ’’ویڈو‘‘ منّگا تو پونتولگل آنگالوڈو پین گلُم اور عیسک ارومیی راجن کا ’’کیرلگل‘‘ ناول میں بڑے الم ناک انداز سے کہانیوں کا حصہ بنے ہیں ۔
خدیجہ مستور کا ناول آنگن ، جس میں ایک متوسط مسلم خاندان کی معاشرتی زندگی اور اس کے بنیادی مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حجاب امتیاز کے ناول ’’میری ناتمام محبت‘‘ میں معاشرتی زندگی کے کئی اہم پہلو ؤں کوروشنی میں لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس ناول میں عشق و محبت کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ فرسودہ رسم و رواج کے خلاف بغاوت کی گئی ہے ۔ اس ناول میں کشمکش کی دو جہتیں ہیں ۔ ایک نسلوں کے درمیان فکر و عمل کے اختلاف سے پید اہونے والی کشمکش یعنی دادی زبیدہ تصور بھی نہیں کرسکیں کہ ان کی طئے کی ہوئی شادی سے ان کی نوجوان پوتی انکار کرسکتی ہے۔ جب کہ نوجوان روحی کے نزدیک یہ خیال وحشت انگیز ہے کہ کوئی دوسرا خواہ وہ اس کی دادی کیوں نہ ہو اس کی قسمت کے فیصلوں کا مختار ہو اوردوسری جہت عشق و روایت میں تضاد کی ہے ۔
اسی طرح تمل ادب میں جیسو داس کا لکھا ہوا ناول پوتم ویڈو میں مختلف عورتوں کے مختلف جذبات کو بہترین طریقہ سے پیش کیا ہے ۔سماج میں مرد کے مقابلے میں خواتین کو کم اختیارات ہی حاصل ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ لڑکی کی شادی کا مسئلہ بھی۔ اگر کوئی لڑکی کو اپنی پسند سے شادی کرنے کا مسئلہ در پیش آتا ہے۔ تو اس کو بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خود لڑکی کے ماں باپ ایسا نہیں چاہتے۔ اس لڑکی کی وجہ سے خاندان کی عزت و بھرم ختم ہونے کا اندیشہ ہوجاتا ہے۔ناول’’پو تم ویڈو‘‘ میں جیسو داس نے متوسط گھرانوں کی جیتی جاگتی تصویریں بڑی خوبصورتی سے پیش کی ہیں۔اس کے بعد ’’پرنجن‘‘ کے ناول ’’مہا ندی‘‘ میں گو گلہ کے کردارکے ذریعہ کہانی میں جان ڈال دی گئی ہے اور اس کردار کے ذریعے کئی سماجی مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ ناول’’کنوؤ میں پڑاوینڈوم میں یہی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔
تمل ناولوں میں جابجا خواتین کی مختلف حیثیات ،خواتین کی نفسیات اور ان کے مسائل مثلاً خواتین پر ظلم ، جہیز کے نام پر لڑکی پر تشدد کرنا،خود عورت کا عورت کے خلاف ہونا، مرد کی عورت پر بالا دستی، لڑکی کی پیدائش کو نحوست سمجھنا، ان تمام مظالمات کو ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے ۔ لکشمی اور راجم کرشنن جوتانیثی مسائل پرلکھنے کے لئے شہرت رکھتے ہیں اپنے ناولوں میں ان مسائل پر کھل کر بحث کی ہے۔ اس کے علاوہ عصر حاضر کے ناولوں میں سِلا نیر ینگلیل سِلا مندرگل‘‘ ’’ویلوتّی‘‘ کیرلگل کڈل پورتّل وہ سیگل اڈینگیہ پراگو اور ’’مہاندی‘‘ وغیرہ ناولوں میں بھی ان مسائل کی طرف نشاندہی کی گئی ہے
تمل ادب کے بیشتر ناولوں میں معاشرتی اقدار سے بغاوت یا اصلاح کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ چاہے لڑکی کی تعلیم کا مسئلہ ہو یاملازمت کا، ناول نگار اپنے کرداروں کے احساسات اور جذبات کی عکاسی زیادہ بہتر اور موثر طریقے سے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’واسندی‘‘ کا لکھا ہوا ناول ’’یادوماگی‘‘ میں سندر اپنی بیوی’’سوجاتا‘‘ پرشک کرتا ہے جوملازمت کرتی ہے۔یہ در اصل ملازمت کرنے والی خواتین کے گھروں کی ایک عمومی کشمکش ہے جہاں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا پڑتا ہے وہاں اکثر اس طرح کی سچویشن کا بھی سامنا ہوتا ہے۔یہ اقتباس ملاحظہ ہو :۔
’’ تم ایک عورت ہو یہ مت بھولو، اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھتی ہو؟ اور گھر کے تمام فرد تمہارے لئے حقیر ہیں؟ آفس میں اتنے لوگوں کی موجودگی میں صرف تم کو پروموشن دینا اور آنے جانے کی سہولت مہیا کرنا بغیر وجہ کے تو نہیں ہے نا؟
(واسندی ’’یادوماگی‘‘ صفحہ نمبر ۸)
یہ ناول میں چار الگ الگ گھرانوں کی چار خواتین کے گرد قصہ گھومتا ہے۔
اس طرح کی کشمکش اردو کے ناولوں میں بھی ملتی ہے۔لیکن اردو میں زیادہ تر مسلمان خواتین کی پس پردہ جنسی نفسیات اور عورتوں کو پردے کے نام پر دنیا داری سے معطل کردئے جانے سے پیدا ہونے والے مسائل پر زیادہ شرح و بسط سے روشنی ڈالی گئی ہے۔عصمت چغتائی بنیادی طور پر ایک حقیقت پسند اور ترقی پسند ناول نگار تھیں۔ ان کا بنیادی مقصد سماج کی فرسودہ ، بناوٹی اور غیر منصفانہ اقدرا پرتنقید کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے زندگی کے جن کرداروں کو منتخب کیا وہ بظاہر عمومی اور غیر اہم کردار تھے مگر ان کے اندر حزن و ملال، محرومی و تشنہ کامی کی ایک دنیا آباد تھی جو قاری کے ذہن و دل میں نشتر کی طرح اتر جاتی ہے۔ متوسط اور نچلے طبقے کو اس محرومی و تشنہ کامی نے عصمت چغتائی کی سائیکی کو بے حد متاثر کیا جہاں ان کا ٹکراؤبے شمار مسائل سے ہوا، جیسے متوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں اور بالخصوص اس طبقے کے نوجوانوں کی اُلجھنیں، جنسی محرومیاں اور آلودگیاں، اخلاقی اور رواجی ممنوعات اور ان سے پیدا ہونے والی گھٹن وغیرہ کو بڑی خوبصورتی سے اپنے ناولوں میں روشناس کیا ہے ، ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ اور ’’ضدی‘‘ ان کے نمائندہ ناول ہیں۔ ناول ٹیڑھی لکیر کا موضوع ایک لڑکی کی جنسی نفسیاتی کشمکش ہے۔اس کردار کی کج روی اور اس کے اسباب پر بھی عصمت نے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ’ ’ثمن‘‘ کے کردار کا ٹیڑھا پن ناول کے نام سے ہی ظاہر ہے ۔عصمت نے اس کردار کے ارتقاء کو پیش کرتے ہوئے جس طرح معاشی اور نفسیاتی عوامل کا تجزیہ کیا ہے وہ اپنا جواب نہیں رکھتے۔ بچے کی جذباتی زندگی کا ارتقاء والدین سے بچے کے تعلقات پر منحصر ہوتا ہے ۔ اس بات کو مصنفہ نے حد درجہ نفسیاتی بصیرت سے کام لے کر پیش کیا ہے ۔
سوا شنکری کا ناول ’’پا لنگل‘‘ اور جید گاندھن کا ناول ’’سلا نیر نیگلیل سِلا منیدرگل‘‘ اور ئیندومدی کا ’’پیسہ نگار تّو گوبورنگل‘‘ وغیرہ ناولوں میں ، متوسط گھرانوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بڑے عمدہ طریقے سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ نوجوانوں کے بے شمار مسائل اور خاص کر جنسی محرومیوں اور دیگرپیچیدہ سماجی اور نفسیاتی مسائل پر کارآمد گفتگو کی گئی ہے ۔ جاگیر دارانہ نظام کا ظلم و ستم ، معاشی استحصال، سماجی نابرابری، اور طبقاتی کشمکش کو پوری شدت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔زندگی اور سماج کے وسیع تر پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے عصمت چغتائی نے اپنے ناولوں میں نا انصافیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے اور نوجوانوں کے احساسات ، جذبات اور ان کی ذہنی کشمکش کا پردہ فاش کرتے ہوئے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے ۔جو باتیں عموماً گناہ اور سماجی جرم گردانے جاتے ہیں ان کی تہ میں بھی کسی مجبوری کو تلاشنے کی کوشش کی ہے۔
اسی طرح اردو کی ایک اور معروف ادیبہ جیلانی بانو نے اپنی تحریروں کے ذریعہ عورتوں کے حقوق کی حمایت میں آواز بلند کی ہے ۔ عورتوں کی ابتر حالت پر افسانے لکھ کر سماج میں ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم و ستم کو بیان کرکے طبقۂ نسوان کے اندر بیداری لانے کا کام بھی انہوں نے انجام دیا ہے۔ جیلانی بانو نے اپنے ناول’’ایوان غزل‘‘ میں عورتوں کی سماجی حیثیت اور ان کے حالات و مسائل کو مرکزی حیثیت دی ہے ۔ جاگیر دارانہ معاشرے کے اعلیٰ طبقے میں عورتوں کی زندگی اور ان کے پیچیدہ حالات و مسائل کو اُجاگر کیا ہے ۔ اس سے نہ صرف اس عہد اور نظام میں ان کو سماجی حیثیت اور مسائل کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ عورتوں کی نفسیات، جذبات و احساسات اور ان کی ذہنی گھٹن اور جنسی استحصال جو اس معاشرے کی عام بات تھی اس کا بھی کامیاب احاطہ کیا ہے۔
حاصل بحث اردو اورتمل زبان کے نمائندہ ناولوں کے تقابلی مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر دونوں زبان کے ناولوں میں سماجی برائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اورسماج کے اتارچڑھاؤ، ظلم و استبداد، ناانصافیوں اورحق تلفیوں کی سچی اور پر تاثیر مرقع کشی کر کے سماج میں بیداری کی ایک روح پھونکنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس سلسلے میں تمل اور اردو کے ناول نگاروں کی مساعی ہم پایہ نظر آتی ہیں۔
One thought on “اُردواورتمل کے نمائندہ ناولوں میں سماجی مسا ئل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یس ۔ جی۔ انیسہ بیگم”
محترمہ انیسہ بیگم کا مقالہ پڑھ کر تامل ناڈو کے ناول میں سماجی مسایل پربہت کچھ معلوماتحاصل ہوئیں میرا خیال ہیں کے وہ تمل زبان میں شایع مشہور ناولوں کو اردو مین ترجمہ کرکے شایع کرے تاکہ اردو دنیا تامل ادب سے واقیف ہوجاۓ انیسہ پیگم بھی ترجمہ کر سکتی ہیں ۔ مقالہ بہت خوب لکھا ہے اردو والوں کو ایک نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
ڈاکٹرعطااللہ ۔ شکاگو