آبی قلت اورمؤسم گرماءکی شدت: آنے والی نسلوں کیلئے ایک تحفہ ۔ ۔ ۔ یحییٰ خان

Share

change of season

خدارا ہماری آنے والی نسلوں پر رحم کیجئے ….!

ماحولیات کی تباہی‘ مؤسموں کی تبدیلی ، آبی قلت، مؤسم گرماء کی شدت
آنے والی نسلوں کیلئے ایک تحفہ !!

یحییٰ خان
اسٹاف رپورٹر‘روزنامہ راشٹتریہ سہارا
تانڈور۔ تلنگانہ
ای میل :

گزشتہ چند سالوں تک بھی ہمارے یہاں ہر طرف ہرے بھرے جنگل ، سڑک کے کنارے درختوں کی قطاریں ، ندیوں ، نالوں اور تالابوں میں موسم گرماء میں بھی پانی کی موجودگی کہ جس سے انسانوں کیساتھ ساتھ جنگلی جانور بھی مستفید ہوا کرتے تھے اور ساتھ ہی تمام مؤسموں کے دؤران بلدیہ کیجانب سے نلوں کے ذریعہ بلاناغہ گھنٹوں پانی کی سربراہی ہوا کرتی تھی۔ موسم گرماء میں موسمی پھلوں آم ، جام ، جامن ، سیندولے ، منجل ، کاجو کے پھول، مُرلی پنڈواور دیگر پھل باآسانی اور انتہائی کم قیمت پر ملا کرتے تھے جس کے دؤران لوگ گرمی کا اپنا مزاہ لیا کرتے تھے لیکن افسوس آج یہی چیزیں غریب طبقہ کی قوت خرید سے دور ہوگئی ہیں ان کی کم پیداواریا پھرانکے درختوں کی پامالی اسکی اہم وجہ ہے !!!

اس طرح قدرت نے انسان کو ایک سے بڑھ کر ایک نعمتیں عطا کی تھیں لیکن افسوس ! ترقی کے زعم میں حضرتِ انسان جسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے نے خود اپنے ہاتھوں سے انسانی تباہی کے ایسے سامان پیدا کردئے کہ اب آنے والی نسلوں کو اس نے ماحولیات کی تباہی ، مؤسموں کی تبدیلی ،شدید آبی قلت ، شدید مؤسم گرماء جیسے ناقابل قبول تحفہ دے دئیے جو کہ مستقبل میں انکے لئے ناقابل برداشت ہونگی ، ابھی چند سال قبل تک بھی مؤسم گرماء میں عام درجہ حرارت 34؍ڈگری یا پھر 35؍ڈگری سیلسیس ہوا کرتا تھا جو کہ اب بڑھ کر 44 ؍ اور 45؍ڈگری سیلسیس کے اوپر چلا گیا ہے ماہرین موسمیات و ماحولیات نے انتباہ دیا ہیکہ آنے والے سالوں میں یہ درجہ حرارت بڑھ کر 50؍ڈگری کے اوپرتک بھی جاسکتا ہے ! ماحولیات کی تباہی اسکی اہم وجہ ہے شہروں اور مواضعات میں درختوں کی بے تحاشہ کٹوائی ،سرکاری سرپرستی میں جنگلوں کا صفایہ جس سے موسموں میں بے اعتدالی پیدا ہوئی ہے وہیں ہم انسانوں نے اپنے مفاد کی خاطر خود غرضی سے کام لیتے ہوئے ان جنگلوں میں رہنے والے چرند ، پرند اور جنگلی جانوروں کیلئے بھی سخت مشکلات و مصائب پیدا کردئے ہیں جنگلوں کی صفائی سے اب یہ حالت ہیکہ جانور چارہ اور پانی کی تلاش میں بے چین ہوکر آبادیوں کا رخ کرنے لگے ہیں یہ انسانی غلطیوں ، انکے گناہوں اور قدرتی معاملات میں دخل اندازی کا ہی نتیجہ ہیکہ گزشتہ دو سالوں سے ناکافی بارش کی وجہ سے آج موسم گرماء اپنے عروج پر ہے کیونکہ جہاں کہیں بھی درخت ہونگے وہاں بہترین بارش ہوا کرتی ہے ان دنوں مؤسم گرماء کا یہ حال ہیکہ بشمول ریاست تلنگانہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی لو لگنے کے باعث سینکڑوں امواتوں کی سرخیاں اخبارات میں روز پڑھنے کو مل رہی ہیں اور ملک کے کئی ایسے مقامات ہیں جہاں پانی کیلئے ہا ہا کار مچی ہوئی ہے خود تلنگانہ میں 44؍سال بعد اتنی ہولناک گرمی ریکارڈ کی جارہی ہے اور زیرزمین پانی کی سطح بھی خطرناک حد تک نیچے جاچکی ہے اس پرآجکل ہر عام وخاص انسان اپنی آرائش کیلئے گاڑی نشین بھی ہوگیا ہے اور ترقی کے نام پر صنعتوں کا قیام بھی بناء کسی ماحولیاتی منصوبے کے جاری ہے اسکی وجہ سے فضائی آلودگی بھی انسانوں کیلئے زہر کا کام کررہی ہے دوسری جانب اسی انسان نے محض اپنے فائدہ کیلئے ندیوں ، نالوں اور تالابوں کے نام و نشان مٹاکر اپنے لئے عالیشان مکانات بھی بنالئے ! عالمی ادارۂ صحت ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن کی گزشتہ سال جاری کردہ رپورٹ دل دہلانے کیلئے کافی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہیکہ فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں ماہانہ 5؍لاکھ 83؍ہزار انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں ، فضائی آلودگی ، عالمی حدت اور ماحولیات کی تبدیلی کا جائزہ لیا جائے تو باآسانی پتہ چلتا ہیکہ یہ سب بربادی کے سامان ہم نے ترقی کے نام نہاد دعوؤں کیساتھ پٹرول ، ڈیزل اور برقی کی پیداوار کیلئے کوئلہ کے بے تحاشہ استعمال ،کوئلہ کے حصول اورصنعتی ترقی کے نام پر جنگلوں کی کٹوائی ،شہروں کے پھیلاؤ،ندیوں ، نالوں اور کنٹوں پر قبضہ کرکے کنکریٹ جنگل کی تعمیر کے ذریعہ ماحول کو تباہ و تاراج کررکے رکھ دیا ہے کہ جسکے ذریعہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی پیدوار میں شدید اضافہ ہوا ہے جبکہ یہی وہ درخت ہوتے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرکے انسانوں کیلئے آکسیجن فراہم کرتے ہیں بتایا جاتا ہیکہ خود ہندوستان میں ہائی ویز کی تعمیر و توسیع کے نام پر گزشتہ تین سالوں کے دؤران زائد از دس کروڑ ہرے بھرے ،گھنے اور برسوں قدیم درختوں کو زمین دوزکردیا گیا ! اس ماحولیاتی تباہی کے باعث اب حالت یہ ہیکہ ملک کی کئی ریاستیں بشمول تلنگانہ سخت خشک سالی اور آبی قلت سے دوچار ہیں عوام کئی کئی کلومیٹر دور جاکر پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں ہر کوئی مو سم گرماء کو کوس رہا ہے لیکن اپنی کوتاہیوں اور مجرمانہ غلطیوں کا اعتراف کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ! اسی مسئلہ کو دیکھتے ہوئے تشکیل تلنگانہ کے بعد حکومت تلنگانہ نے ایک بہترین شروعات یہ کی تھی کہ "ہریتا کو ہارم "کے نام سے جون 2015ء سے بڑے پیمانے پر ریاست میں شجر کاری کیلئے تین سالہ منصوبہ تیار کیا تاکہ ریاست تلنگانہ کے 33؍فیصد جغرافیائی حصہ کو ہرا بھرا اور جنگلاتی علاقہ بناتے ہوئے ماحولیات دوست بنایا جائے اس سلسلہ میں ریاستی وزیراعلیٰ کے سی آرنے اعلان کیا تھا کہ جنگلات کے معاملے میں بھی ریاست تلنگانہ کو سنگاپور کی طرز پر ترقی دی جائیگی اس تین سالہ منصوبہ کے تحت حکومت تلنگا نہ اپنی وزارت جنگلات کی نگرانی میں ریاست کے 10؍ اضلاع میں جملہ230؍کروڑ پودے لگانے کا منصوبہ بنایا جن میں سے 100؍کروڑ پودے جنگلاتی علاقوں میں،120؍کروڑ پودے غیر جنگلاتی علاقوں میں اور حیدرآباد میٹرو پولٹین ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( ایچ ایم ڈی اے )کے دائرہ میں 10؍کروڑ پودے ۔ جبکہ فی اسمبلی حلقہ 40؍لاکھ پودے سربراہ کئے جائیں حکومت کیجانب سے اس تین سالہ ہریتا کوہارم پروگرام پر سالانہ 800؍ کروڑ روپئے صرفہ کا نشانہ ہے ا س مہم کے آغازی سال 2015ء میں بڑے پیمانے پر یہ شجر کاری بھی کی گئی تھی لیکن افسوس کہ 2015ء میں مانسون کی ناکامی کے باعث ہریتا کو ہارم پروگرام کے تحت لگائے گئے پودے خشک ہوگئے !!اسی طرح ایک اور قدم آگے بڑھ کر ریاستی وزیراعلیٰ کے سی آر نے 5؍سالہ منصوبے کے تحت 20؍ہزار کروڑ روپیوں کے مصارف سے ریاست تلنگانہ میں قبضہ شدہ اور مٹی سے بھرے ہوئے45؍ ہزارتالابوں اور نہروں کی قدیم حالت بحال کرنے کی غرض سے 12 ؍ مارچ 2015ء کو "ہمارا گاؤں ، ہماراتالاب ” کے عنوان سے مشن کاکتیہ کا آغاز کیا تھا جو کہ اب بھی جاری ہے اور کئی مقامات پر ندیوں میں چیک ڈیمس بھی تعمیر کئے گئے لیکن ناکافی بارش کے باعث بد قسمتی سے ان دونوں تاریخی کاموں سے ریاست کوزیادہ فوائد حاصل نہیں ہو پائے لیکن مستقبل میں ان سے عوام اور ریاست کو بہت بڑا فائدہ ہوگا ۔ محکمہ موسمیات کے ماہرین نے گزشتہ دنوں یہ حوصلہ افزاء انکشاف کیا ہیکہ جاریہ سال 106؍فیصد مانسون کا امکان ہے اور ماہ جون کے دوسرے ہفتہ سے ملک میں مانسون حوصلہ بخش ہوگا ! ضرورت شدید ہیکہ عوام اس جانب آگے آئیں اور بڑے پیمانے پر کہیں اور نہ سہی اپنے اپنے مکانات، کالونیوں ، ٹاؤنس اور شہروں میں شجر کاری کو ممکن بنائیں ، واٹر ہارویسٹنگ کے ذریعہ برساتی پانی کو محفوظ کرنے کے آسان طریقہ کو اپنائیں اور ساتھ ہی ندیوں سے غیرقانونی ریت کی اسمگلنگ کیخلاف کھڑے ہوجائیں تاکہ زیر زمین آبی ذخائر میں اضافہ ہو۔ ورنہ آنیوالے دنوں میں نئی نسلوں کیساتھ ساتھ خود ہمیں مؤسموں کی سختی کا مزید شکار ہونا پڑے گا ۔
Yahiya Khan
KHAN

Share

۲ thoughts on “آبی قلت اورمؤسم گرماءکی شدت: آنے والی نسلوں کیلئے ایک تحفہ ۔ ۔ ۔ یحییٰ خان”

Comments are closed.

Share
Share