پھلوں کا بادشاہ آم‘اب عام نہیں رہا
جاریہ سال آم کی پیداوار میں زبردست کمی
یحییٰ خان
اسٹاف رپورٹر‘روزنامہ راشٹتریہ سہارا
تانڈور۔ تلنگانہ
ای میل :
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور یہ قومی پھل کی حیثیت بھی رکھتا ہے یہ مؤسمی پھل ہر طبقہ کی اولین پسنداور اسکی قوت خرید میں شامل ہوا کرتا تھا لیکن اب آم کے شائقین کیلئے یہ بری خبر ہیکہ اس کی کم پیداوار کے باعث اب اسکی قیمتیں بھی آسمان چھونے لگی ہیں اوراب آم ہر”عام و خاص "کی قوت خرید سے باہر ہوگیا ہے !
ماہرین کے مطابق آم انسانی صحت کے لیے مفید ہے اور یہ دل اور معدے کے امراض کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے آم کے استعمال سے خون بننے میں مدد ملتی ہے۔ اور اس سے پیٹ کی بیماریاں ختم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس کا جوس پینے سے جسم میں طاقت آتی ہے اور یہ جسم کو طاقت پہنچاتا ہے علاوہ کچے آم سے چٹنیاں،اچاراور آمچور بھی بنائے جاتے ہیں ۔
آم کی پیداوار میں ہندوستان اول نمبر پر ہے جہاں 1,600,000 ؍ ہیکٹر س اراضی پر آم کی فصل کی جاتی ہے یوں تو آم کی کئی اقسام ہیں لیکن الفانسو،الماس،انور رٹول،بادام ،بنگن پلی ،بیگم پسند،ثمر بہشت ،دسہری ،سرولی،سفیدہ،سندھڑی،سہارنی،سیندوریا،طوطا پری،فجری،لال پری،لنگڑا،مالدا،نیلم،پرنس، چونسہ اورگولا عوامی مقبولیت رکھتے ہیں ۔ حیدرآباد سے 70؍کلومیٹر اور وقارآباد سے 10؍کلومیٹر کے فاصلہ پر مؤجود منے گوڑہ میں سینکڑوں ایکڑ اراضی پرآم کی کاشت کی جاتی ہے اور یہاں آم کے کئی مشہور باغات ہیں جہاں زیادہ تر درخت کی شاخوں پر ہی آم کو پکایا جاتا ہے اورجہاں سے آم حیدرآباد کی مارکیٹس میں فروخت کیلئے روانہ کئے جاتے ہیں اور ساتھ ہی آم کے مؤسم میں منے گوڑہ پر ہی کئی ایک دکانات آم کی فروخت کیلئے لگائی جاتی ہیں جہاں روزآنہ صبح سے نصف شب کے بعد تک آم کے خریداروں کا ہجوم دیکھا جاتا ہے اور بیجاپور ۔ حیدرآباد قومی شاہراہ پر مؤجود منے گوڑہ سے آم خرید کر شائقین آم ملک کے دیگر مقامات تک لے جاتے ہیں جبکہ حیدرآباد کے شائقینِ آم خود کیلئے اور تحفہ کے طور پر اپنے عزیز و اقارب کو دینے کیلئے آم یہاں سے بڑی تعدادمیں خرید کر لے جاتے ہیں ۔ یہاں کے آم کے ایک بیوپاری محمد جہانگیر نے بتایا کہ دو سال سے ناکافی بارش اور زیر زمین آبی سطح کی کمی کے باعث جاریہ سال آم کی فصل صرف 35؍تا 40 ؍فیصد ہی ہوپائی ہے انہوں نے بتایا کہ اگر ایک باغ میں ایک ہزار آم کے درخت مؤجود ہیں تو صرف 200 ؍ درختوں پر ہی آم کی پیداوار ہوئی ہے انہوں نے بتایا کہ جاریہ سال کئی ایسے آم کے درخت ہیں جس پر آم کے پھول تک پیدا نہیں ہوئے اور کئی ایسے درخت ہیں جوکہ ماہ مارچ سے ہی گرماء کی شدت کے باعث ان پر مؤجود آم کے پھول یا پھر کیریاں تباہ ہوگئی ہیں انہوں نے بتایا کہ منے گوڑہ میں زائد از 30؍اقسام کے آموں کی پیداوار ہوتی ہے اس سال بیوپاریوں کو آم کی کم فصل کے باعث نقصان کا سامنا ہے اور جتنا صرفہ آم کی فصل پر ہوا تھا اس کا حاصل ہونا بھی مشکل نظر آرہا ہے انہوں نے بتایا کہ آم کی فصل کو حیدرآباد کی مارکیٹ بھیجا جاتا تھا لیکن وہاں بھی اسکی بڑھتی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے بیوپاری خریدنے سے گریز کررہے ہیں۔ دوسری جانب گزشتہ سال دسہری آم جہاں 50؍ روپئے تا 60 ؍روپئے فی کیلو بازار میں دستیاب تھا اب یہی دسہری آم یہاں 150 روپئے تا 160؍روپئے کیلو فروخت ہورہا ہے جو کہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہی کہا جاسکتا ہے ! آم کی مؤجودہ قیمتوں پر بس یہی کہا جاسکتا ہیکہ اب دیگر اشیائے ضروریہ کیساتھ غریب اور متوسط طبقہ کو آم کی لذت اور فوائد سے محروم ہونا ہوگا ۔
آم کو شہرت دلانے میں اردو شاعروں اور ادیبوں کا زبردست رول رہا ہے اور اس معاملے میں مرزاغالب ‘ اکبرالہ آبادی اورعلامہ اقبال بہت پیش پیش رہے تھے ۔ کہتے ہیں ایک بار مرزا غالب ؔ گلی میں بیٹھے آم کھارہے تھے ان کے ساتھ ایک ایسے دوست بھی بیٹھے تھے جن کو آموں سے ذرہ برابر بھی رغبت نہیں تھی اتنے میں ایک گدھا آیا، مرزاغالب نے آم کے چھلکے اس کے سامنے رکھ دئے مگراس گدھے نے صرف ان کو سونگھا اور آگئے بڑھ گیا، مزراغالب کے دوست نے طنزیہ کہا، دیکھ لو گدھا بھی آم نہیں کھاتا ،مرزا غالب نے ہاتھ میں پکڑے آم کو مزے سے چوستے ہوئے بڑے اطمینان سے جواب دیا "بے شک ! گدھا آم نہیں کھا تا "۔
آم کے معاملے میں غالب کا فلسفہ یہ تھا کہ آم میٹھے ہوں اور بہت ہوں۔
شاید اکبرالہ آبادی کو آنے والے وقتوں میں آم کی ان قیمتوں کا اندازہ ہوگیا تھا جس کا اندازہ ان کی اس نظم سے لگایا جاسکتا ہے۔ جو کہ انہوں نے منشی نثار حسین ایڈیٹر( گلدستہ) کو فرمائش کے طور پر یہ ایک نظم لکھ بھیجی تھی کہ
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسا ضرور ہو کہ انھیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگر بیس تو دس خام بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی! پہلے مگر دام بھیجئے
آموں کی ایک فصل علامہ اقبال پر بہت بھاری گزری۔ حکیم صاحب نے انھیں ہدایت کی کہ آموں سے پرہیز کیجیے۔ مگر جب دیکھا کہ مریض بہت مچل رہا ہے تو کہا کہ اچھا آپ دن میں ایک آم کھا سکتے ہیں۔ تب علامہ صاحب نے علی بخش کو ہدایت کی کہ بازار میں گھوم پھر کر دیکھو۔ جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہ خرید کر لایا کرو۔
ایک دفعہ اکبر الٰہ آبادی نے علامہ اقبال کے لیے الٰہ آباد سے لنگڑے آموں کا پارسل بھیجا۔علامہ اقبال نے پارسل کی رسید پر دستخط کرتے ہوئے یہ شعر بھی لکھ دیا۔
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے چلا لنگڑا، لاہور تک آیا
Yahiya Khan