سرزمین حیدرآباد سے
زبیدہ رعنا: بچوں کی نمائندہ شاعرہ
از: پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد
موبائل : 09440378371
کسی بھی شاعر یا ادیب کی تخلیقات میں اُس کے دور کی بھرپور نمائندگی کا عکس موجود ہوتا ہے، لیکن بعض شاعر اور ادیب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی تحریروں اور شاعری سے مستقبل شناسی کا پتہ چلتا ہے اور وہ آنے والے زمانے کی چاپ کو سن کر اسے اپنے شعر و ادب کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انگریزی ادب میں اِس قسم کی تحریروں کو Futuralogy یا پھر مستقبلیات کا موقف حاصل ہوتا ہے۔ اِس طرز کی تحریروں میں نہ صرف آنے والے زمانہ کی اخلاقی گراوٹ اور تہذیب و شائستگی کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ انسان کی قدر و قیمت گھٹ جانے کی نمائندگی کا امکان ہوتا ہے۔ انگریزی ادب میں باضابطہ طور پر فیوچرالوجی یا مستقبلیات پر تحقیقات کا کام جاری ہے۔ شاعروں اور ادیبوں کی تحریروں سے نمائندہ نقوش فراہم کرکے یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے شاعروں اور ادیبوں نے اپنی تحریروں میں اکیسویں صدی کی بے ضابطگی اور بے اعتدالی کو مؤثر نمائندگی کے طور پر پیش کیا ہے۔
اردو ادب کی تحقیقات میں فیوچرالوجی یا مستقبلیات کے بارے میں بہت کم غور کیا گیا ہے ، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات میں بھی فیوچرالوجی یا مستقبلیات کی جھلکیوں کی نمائندگی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ اردو کے مقبول ادب لکھنے والے اور معیاری ادب کے علاوہ خواتین اور بچوں کا ادب لکھنے والوں کی تحریروں میں بھی مستقبلیات کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اس خصوص میں سمینار اور سمپوزیم کے انعقاد کا عمل بھی ضروری ہے ، مستقبلیات کے ذریعے اردو کے نئے قلمکاروں کو نئے موضوعات پر لکھنے اور اُن کے امکانات پر غور و خوض کا موقع بھی حاصل ہورہا ہے۔ اِس مختصر سی تمہید کے ذریعہ اس حقیقت کا انکشاف ہوجاتا ہے کہ بچوں کے ادب میں بھی اکیسویں صدی کے اثرات کا غلبہ ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ کمی شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے کہ اردو کے شاعروں اور ادیبوں میں بچوں کا ادب لکھنے کی روایت دن بہ دن رو بہ زوال ہے۔ ایک کمزوری یہ بھی دیکھی جاتی ہے کہ بچوں کے یا خواتین کے ادب پر لکھنے والے تخلیق کاروں کو اردو کے نقاد اور محقق خاطر میں نہیں لاتے۔ بچوں کے رسالوں کی تعداد میں دن بہ دن گراوٹ آنے لگی ہے۔ ایک دَور تھا کہ بچوں کے رسالوں میں ’’کھلونا‘‘ ، ’’نونہال‘‘ ، ’’کلیاں‘‘ ، ’’پیامِ تعلیم‘‘ ، ’’پھلواری‘‘ ، ’’الہلال‘‘ اور ایسے ہی بے شمار رسالے ملک کے مختلف خطوں سے شائع ہوا کرتے تھے۔ دہلی اردو اکیڈیمی اور کرناٹک اردو اکیڈیمی کی سخن فہمی کو قبول کیا جانا چاہیے کہ اِن اکیڈمیوں نے بچوں کے ادب پر لکھنے والوں کی ہمت افزائی کا بیڑہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نے باضابطہ ماہانہ بچوں کے رسالہ ’’بچوں کی دنیا‘‘ کا اجراء کیا۔ طویل عرصہ سے دہلی اردو اکیڈیمی سے بچوں کا رسالہ ’’امنگ‘‘ شائع ہورہا ہے۔ شہر حیدرآباد کی اردو دوستی کا ثبوت یہ رہا کہ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے بعد ابوالفہم وحید علی خان جیسے بچوں کے ادیب نے طویل عرصہ تک جدوجہد کرتے ہوئے ماہنامہ ’’ہمارے نونہال‘‘ شائع کیا ، جو قارئین کی کمی کی وجہ سے مسدود ہوگیا۔ حیدرآباد کے ایک اور بچوں کے ادیب مسعود جاوید ہاشمی نے بیسویں صدی کی نویں دہائی میں بچوں کے رسالے ’’فن کار‘‘ کا اجراء عمل میں لایا، جو نامساعد حالات سے دورچار ہے۔ آزادی کے بعد شہر حیدرآباد میں بچوں کے ادب کی نمائندگی کرنے والے رسالوں اور ان کی صورتِ حال کے جائزہ سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ بچوں کے ادب کو فروغ دینے والے ادیبوں اور قلم کاروں میں صرف وہی قلم کار باعمل ہیں جو حیدرآباد کی سرزمین میں کھلونا ، کلیاں اور پیامِ تعلیم جیسے ماہناموں کے قلمکاروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ایسے ہی قلمکاروں میں حیدرآباد کی بچوں کی ادیبہ کی حیثیت سے زبیدہ رعنا کا شمار ہوتا ہے، جو شہر حیدرآباد میں سرکاری پرائمری اسکول یاقوت پورہ کی صدر معلمہ کی حیثیت سے ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ ان کے بچوں کے شعری مجموعہ کا انتخاب دسمبر 1995ء میں عمل میں آیا۔ انہوں نے بچوں کی نظموں کے اس مجموعہ کا نام ’’سب رنگ‘‘ رکھا ہے۔ اس کتاب کو آندھرا پردیش اردو اکیڈمی کی جزوی مالی اعانت حاصل رہی ہے۔ اس شاعرہ نے کتاب کا انتساب اپنے والد محترم مولوی محمد رفیع الدین صاحب مرحوم کے نام نامی فرمایا ہے ، جو حیدرآباد کے منتخب روزگار استاد تھے، جو فن طغریٰ نویسی کے علاوہ آرٹ میں اپنی شناخت رکھتے تھے۔ ان ہی کی صاحبزادی زبیدہ رعنا نے کتاب کے پیش لفظ میں مختصر انداز کے ذریعے یہ لکھا ہے کہ ان کی نظمیں ہندو پاک کے بچوں کے رسائل اور جرائج جیسے کھلونا ، چاند ، پیامِ تعلیم ، پھلواری ، ہندی رسالہ چندا ماما کے علاوہ الحمراء ، شہناز ، شہباز ، جامِ نو اور ماہِ نو میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ انہوں نے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے کہ مدرسہ کے لڑکے لڑکیوں اور ان کی ضرورتوں کے علاوہ فرمائش پر انہوں نے کئی نظمیں ، کہانیاں اور مضامین لکھے، جن میں سے شعری مجموعہ کو انہوں نے ’’سب رنگ‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے، جس کی اشاعت سے عصر حاضر میں حیدرآباد کی خواتین کی جانب سے ’’ادبِ اطفال‘‘ کے فروغ کی نمائندگی کا اندازہ ہوتا ہ۔ غرض خواتین نے موضوعاتی نظمیں لکھ کر ’’بچوں کے ادب‘‘ کی شاعری کو نئے مسائل سے ہم آہنگ کرنے کی جانب پیشرفت انجام دی ہے۔
زبیدہ رعنا نے اپنی کتاب میں کہیں بھی تعارف اور سوانحی حالات کو جگہ نہیں دی، بلکہ موقع اور مناسبت سے قلمی تصاویر شائع کی ہیں جن سے نظموں کی تدریس اور تفہیم میں آسانی ہوجاتی ہے۔ غرض اِس کتاب میں چالیس موضوعاتی نظمیں شامل ہیں اور ان تمام موضوعات کا تعلق بچوں کی نفسیات ، اُن کی عمر اور اُن کی دلچسپیوں سے براہِ راست قائم ہے۔ اِن موضوعات میں جہاں فطری مناظر کو جگہ دی گئی ہے وہیں زبیدہ رعنا جیسی شاعرہ کا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس شعری مجموعہ کے ذریعے بچوں کی سوجھ بوجھ کو اکیسویں صدی کی ترقیات اور امکانات سے بھی وابستہ کردیا ہے۔ چالیس نظموں میں سے اُن کی اہم نظم ’’واہ رے بیسک ایجوکیشن‘‘ بھی اکیسویں صدی میں بنیادی تعلیم کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں ملک و قوم کی ترقی کے لیے اختیار کیے جانے والے پنچ سالہ منصوبوں کو بھی شاعرہ نے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے۔ اگرچہ فطری موضوعات اور مظاہر کائنات کو شاعری میں شامل کرنا بہت آسان ہے ، لیکن سائنس اور ٹکنالوجی کے علاوہ ملک کی ترقیات کے لیے اختیار کیے جانے والے موضوعات کو شاعری کا حصہ بنانا مشکل نہیں تو دشوار ضرور ہے ۔ اس سے زیادہ مشکل کام یہ ہے کہ بچوں کی نفسیاتی خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر بچوں کی نظموں میں موضوعات اور متن کو پیش کرنا بھی دشوار امر ہے، لیکن ان دشواریوں پر قابو پانے کا ہنر زبیدہ رعنا کو خوب آتا ہے۔ ان کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی اہم نظم ’’آٹھواں پنج سالہ منصوبہ‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تیز دریاؤں کو سنبھالے گا
جھومتی کھیتیوں کو پالے گا
سوکھی دھرتی میں جان ڈالے گا
ہند کو دے گا حسن مطلوبہ
آٹھواں پنج سالہ منصوبہ
اور اُبھرے گی صنعتِ برقی
پوری ہوگی ضرورتِ برقی
پھیل جائے گی قوتِ برقی
ہند کو دے گا حسنِ مطلوبہ
آٹھواں پنج سالہ منصوبہ
آدمی فخرِ آدمی ہوگا
اونچا معیارِ زندگی ہوگا
شوقِ امدادِ باہمی ہوگا
ہند کو دے گا حُسنِ مطلوبہ
آٹھواں پنج سالہ منصوبہ
زبیدہ رعنا کو بچوں کی حددرجہ منفرد حیدرآبادی شاعرہ کا موقف حاصل ہے ، جنہیں مناظر قدرت سے ہی نہیں بلکہ بچوں کی دلچسپیوں اور اُن کی فطرت سے بھی خصوصی لگاؤ دکھائی دیتا ہے۔ اُن کی نظموں میں ہندوستان کی اکیسویں صدی کی سب سے اہم ضرورتوں کی نمائندگی کا جائزہ بھی موجود ہے۔ اُن کی ایک نظم ’’پنج سالہ منصوبہ‘‘ کے مطالعہ کے بعد جب ایک اور نظم ’’بنیادی تعلیم‘‘ پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اِس نظم میں انہوں نے وطن پرستی کے جذبہ کے ساتھ ساتھ بھارت میں نئی سائنسی اور ٹکنالوجی کی تعلیم سے ہونے والی ترقیات اور انسانوں کو فراہم کردہ سہولتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ نظم ’’بنیادی تعلیم‘‘ کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے جو تصویر نمائندگی کے طور پر شامل کی گئی ہے اُس میں ہندوستان کے نقشہ میں الکٹرانک آلات ، ٹاور ، میزائل اور ہوائی جہاز کے علاوہ ہیلی کاپٹر کو اڑتے ہوئے بتایا گیا ہے، تاکہ طالبِ علموں میں یہ تاثر ابھارا جاسکے کہ بنیادی تعلیم کا مقصد جدید سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی ہے اور اس کی اہمیت سے انسانیت کے فروغ کو اُبھارا جاسکے۔ زبیدہ رعنا نے اپنی بیشتر نظموں کو یا تو غزل کے انداز میں پیش کیا ہے یا پھر مخمس ، مسدس اور مثلث کے طور پر بھی واضح کیا ہے۔ ان کی نظم ’’بنیادی تعلیم‘‘ بلاشبہ اکیسویں صدی میں تعلیم کی روشنی سے ہندوستان کو بقعۂ نور بنا دینے کا حوصلہ بخشتی ہے ، چنانچہ اُن کی نظم ’’بنیادی تعلیم‘‘ سے چند منتخب بند پیش ہیں:
سحر میں دلکشی آجائے رنگیں شام ہوجائے
پریشاں حال صنعت کار کو آرام ہوجائے
بہت سے کام ادھورے ہی سہی یہ کام ہوجائے
نئی تعلیم بھارت کی فضا میں عام ہوجائے
میسر ہو ترنم کو نئی پرواز کی عظمت
جگہ کرلے دلوں میں نغمہ پرور ساز کی عظمت
دوبالا ہو کسی عنوان سے آواز کی عظمت
نئی تعلیم بھارت کی فضا میں عام ہوجائے
بنایا جائے گا گھر کا نمونہ پاٹھ شالے کو
ملے گی گودیوں ہی میں جگہ گودی کے پالے کو
پڑھانے والے سے عزت ملے گی پڑھنے والے کو
نئی تعلیم بھارت کی فضا میں عام ہوجائے
ان اشعار میں شاعرہ نے دعائیہ لب و لہجہ استعمال کیا ہے اور جا بجا مستقبل کے ارادوں کو نظم کرنے کے دوران شاعرانہ خیالات کی پوری طرح نمائندگی انجام دی ہے۔ نظم کا لب و لہجہ خود بتاتا ہے کہ زبیدہ رعنا نے شاعری کو مقصدیت سے وابستہ کرکے ایک جانب تو ترغیب دلانے والے انداز کو نمائندگی دی ہے تو دوسری جانب نئے مستقبل کی تعمیر کا اشارہ بھی دیا ہے۔ بچوں کی نظموں میں مستقبل کی فکر اور اکیسویں صدی میں قدم رکھتے ہوئے نئے ارادوں سے ترقی کی نمائندگی، خود اس بات کی دلیل ہے کہ شاعرہ نے نظمیں نہیں لکھیں، بلکہ اپنے دلی جذبات اور احساسات کو بڑے دلچسپ انداز میں شعری پیرائے کا ذریعہ بنایا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین میں عام طور پر بڑھتی ہوئی سستی ، کاہلی اور بے کاری پر اپنے انداز سے اشعار لکھتے ہوئے انہوں نے انسان کی فطرت سے سستی اور کاہلی کو دور کرنے کے طریقے اپنانے پر زور دیا ہے، اس لیے اُن کی نظمیں ترغیبات کے اعلیٰ نمونہ کی نشاندہی کرتی ہیں اور وہ اپنی شاعری سے نئی نسل کو بیدار کرنے اور اُن میں نئے ولولے پیدا کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں۔ بیکار وقت گذارنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے زبیدہ رعنا اپنی نظم ’’وقت بے کار کیوں گذارتے ہو؟‘‘ میں یہ لکھتی ہیں:
کھیل میں اس طرح نہ کھوجاؤ
علم سے جی لگاکے پھل پاؤ
سخت محنت سے تم نہ گھبراؤ
وقت بے کار کیوں گذارتے ہو
کھیلنا کودنا سبھی کرنا
ہاں مگر یاد درس بھی کرنا
کام کے وقت کام ہی کرنا
وقت بے کار کیوں گذارتے ہو
تم جہاں جاؤ کرکے نام آؤ
خود نہ دشمن کے زیرِ دام آؤ
وقت پر دوستوں کے کام آؤ
وقت بے کار کیوں گذارتے ہو
زبیدہ رعنا کی نظموں میں اکیسویں صدی کی دھمک سنائی دیتی ہے ۔ وہ بیسویں صدی کی خوبیوں کو اکیسویں صدی تک پھیلانا چاہتی ہیں، اس لیے ان کی نظموں میں بنیادی تعلیم کو اہمیت حاصل ہے اور اس کے ساتھ ہی پنج سالہ منصوبے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بیسک ایجوکیشن کی ضرورت اور اہمیت کو بھی شاعری میں نمایاں کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے دیش بھگتی اور دیش کے رہنماؤں کو بھی خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے نظمیں تحریر کی ہیں۔ اُن کی نظموں میں بیسویں صدی کے دوران ہائی اسکول کے طلباء میں عظیم اتحاد پیدا کرنے والی تنظیم کو بھی نظم کا وجود بخشا گیا ہے، چنانچہ وہ ’’بلبل‘‘ (اسکاؤٹ) کی تنظیمی صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے اُس کو طلباء کے لیے مفید قرار دیتی ہیں۔ اسکاؤٹ کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھوں نے نظم ’’بلبل‘‘ لکھی ہے، جس کے چند بول بطورِ نمونہ پیش ہیں:
ایک بلبل کی کائنات نہ پوچھ
کتنی دلچسپ ہے حیات نہ پوچھ
ہر مرض اس سے دور ہے کتنا
تندرستی کا نور ہے کتنا
رات بھر میٹھی نیند سوتی ہے
اُٹھ کے منہ ہاتھ صبح دھوتی ہے
بال اپنے سنوارتی ہے وہ
میلے کپڑے اتارتی ہے وہ
دل ، کلی کی طرح سے جب کِھل جائے
وقت پر ناشتہ نہ کیوں مل جائے
دھن ہے ورزش کی بھی ہواؤں میں
کھیلتی ہے کُھلی ہواؤں میں
پھر سبق اپنا یاد کرتی ہے
دل بزرگوں کا شاد کرتی ہے
زبیدہ رعنا نے اِسکاؤٹ کے طریقوں سے انسانی جسم میں پیدا ہونے والی چستی ، پھرتی اور چالاکی کے علاوہ انسانیت دوستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اسکاؤٹ کی وجہ سے انسان کی زندگی میں خاص قسم کا نظم پیدا ہوتا ہے، اس لیے ایسی نظم کے ذریعہ اکیسویں صدی کی نسلوں میں اتحاد اور بھائی چارگی کو منتقل کرنے کا نظریہ پیش کرتی ہیں۔ اس نظم کے ذریعہ انھوں نے وقت کی قدر کرنے اور وقت پر کام کرنے کو انسانی زندگی کا مقصد قرار دیا ہے اور اگر وہ اِس مقصد میں ناکام ہوجائے تو انسانی زندگی اندھیروں میں اُجالوں کو تلاش کرتی رہ جائے گی۔ غرض بچوں کی نظموں کے ایک دلچسپ اور مختصر مجموعہ ’’سب رنگ‘‘ کا تحفہ دے کر زبیدہ رعنا نے نہ صرف بچوں کے دل بہلائی کی سبیل نکالی ہے بلکہ اپنے جذبات اور احساسات کی نمائندگی کے ذریعہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ جن خوبیوں کو پسند کرتی ہیں، ان خوبیوں کو شاعری کے ذریعہ وہ اکیسویں صدی کی نسلوں تک پھیلانا چاہتی ہیں۔ غرض زبیدہ رعنا کے شعری مجموعہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے حیدرآبادی ادیبوں کی فہرست میں ایک خاتون کا حق نبھاتے ہوئے بچوں کی شاعرہ کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ اُن کی شاعری میں ایسے تمام اہم موضوعات نکھرے اور ستھرے انداز سے شعری حسیت کا وسیلہ بنتے ہیں جنہیں اکیسویں صدی کے بچوں کے ادب کے منظرنامہ میں اوّلیت کا درجہ حاصل ہوسکتا ہے۔ غرض بچوں کی شاعری کو مقصدیت اور اکیسویں صدی کی جانب متوجہ کرکے زبیدہ رعنا نے بچوں کے شعری کارناموں میں اٹوٹ حقائق کی جلوہ گری کا سامان فراہم کیا ہے۔ بلاشبہ اس رویے کو حیدرآباد کی ایک محترم شاعرہ کی جدوجہد ہی نہیں بلکہ اُن کی عقلی و فکری کوششوں کا نتیجہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ غرض اکیسویں صدی میں قدم رکھتے ہوئے بیسویں صدی کے بچوں کے شاعروں اور ادیبوں نے اہم کارنامے انجام دیئے ہیں، جن میں زبیدہ رعنا بھی ایک حیدرآبادی شاعرہ ہے، جن کے کلام سے اکیسویں صدی کے لیے اردو ادیبوں اور شاعروں کے عظیم تحفے پیش کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
Prof.Majeed Bedar