افسانہ : دوسرا ریپ
محمد نواز ۔ کمالیہ پاکستان
سول ہسپتال کے زنانہ وارڈ میں بستر نمبر 15 پہ خون میں لت پت کچی کوٹھی کے منشی اللہ دتہ کی چودہ سالہ بیٹی جسے چند نا معلوم اوباشوں نے اپنی حوس کا نشانہ بنا یا اور گندے نالے کے پاس بے ہوشی کے عالم میں پھینک کر فرار ہو گئے تھے ۔ درندوں نے بے دردی سے منشی اللہ دتہ کی کلی کو مسل ڈالا تھا ۔ڈاکٹر زاس کوہوش میں لانے کی تگو دو میں تھے ۔ ہسپتال کے باہر لوگوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کی ایک بڑی تعداد جمع تھی ۔الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندوں نے آن کی آن میں اس خبر کو بریکنگ نیوز بنا ڈالا ۔’’ محنت کش کی بیٹی سے درندوں کی اجتماہی زیادتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نامعلوم ملزمان لڑکی کو اجتماہی زیادتی کے بعد گندے نالے کے پاس پھینک کر فرار۔۔۔۔۔‘‘ الیکڑونک اور پرنٹ میڈیاکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پربھی یہ خبر آگ کی طرح پھیلا دی گئی ۔پھر کیا تھا ہر بندے کی زبان پر منشی اللہ دتہ کچی کوٹھی والے کی بیٹی سے اجتماعی زیادتی کی خبرتھی۔
چند گھنٹوں کے بعد منشی اللہ دتہ کی جواں سال بیٹی کو ہوش آیا تو پولیس کی ہمراہی میں میڈیا نمائندگان اپنے کیمرے اٹھائے بیان ریکارڈ کرنے آ پہنچے ۔ اب کیا تھا سوالات پوچھے جانے لگے ۔تصاویر بنائی جانے لگیں ۔سول ہسپتال کا زنانہ وارڈ ،کیمروں کے چکا چوند فلیشز میں کسی نیوز چینل کا اسٹوڈیو نظر آنے لگا ’’ وہ کتنے لوگ تھے ؟ وہ تمھیں کہاں لے گئے تھے ؟ کیا تم ان کو پہچانتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس طرح کے کئی ایک سوالا ت تھے جو اس وقت صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے متاثرہ لڑکی سے پوچھے جا رہے تھے ۔
ٍٍ نیوز چینل پر خبر بریک ہوتے ہی ۔انتظامیہ حرکت میں آئی ،ڈی ۔سی۔اواور ڈی۔ پی۔ او صاحبان نے ملزمان کی گرفتاری کیلئے ٹیمیں بنا دیں ۔جنہوں نے ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارنے شروع کر دیئے ۔ ایک بار پھر سول ہسپتال کا زنانہ وارڈ نیوز چینل بنا جب باری باری ڈی ۔سی۔او اور ڈی۔ پی۔ او صاحبان نے متاثرہ لڑکی سے اظہار ہمدردی کیلئے ہسپتال کا دورہ کیا ۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اعلیٰ افسران کی خبریں نشر کر رہا تھا جب کہ سوشل میڈیا پر متاثرہ لڑکی کی تصاویر، پولیس اور انتظامیہ کی ملزمان کی گرفتاری میں غفلت والی پوسٹ نشر کی جانے لگیں ۔ سوشل میڈیا پر کئی طرح کے کمنٹس دیئے جانے لگے ۔ جو بھی پوسٹ کو پڑھتا ،آگے شئیر کرنے کی تلقین ضرور کرتا ۔جیسے یہ ثواب کا کام ہو ۔ سارا شہر منشی اللہ دتہ کی بیٹی سے ہونے والی زیادتی سے باخبر ہو چکا تھا ۔ سوشل میڈیا نے وہ کام کر دیکھایا جو کسی زمانے میں محلے میں ہونے والے واقعات کو پھیلانے کیلئے عورتیں کرتی تھی ۔ جنہیں عام طور پر لگائی بجھائی کرنے والی عورتیں کہا جاتا تھا ۔ ان میں اور آج کے سوشل میڈیا میں فرق صرف یہ ہے کہ عورتوں کا خبر پھیلانے کا دائرہ کار محلے تک محدود تھا جبکہ سوشل میڈیا پورے ملک بلکہ پوری دنیا کا احاطہ کرتا ہے ۔
محلے کی عورتوں کا ایک ہجوم تھا جو منشی اللہ دتہ کے گھر امڈ آیا تھا ،ہر عورت کے منہ میں الگ ہی طرح کی زبان تھی اور اس زبان سے نکلنے والے الفاظ کے معنی و مطالب بھی الگ ہی تھے ۔ ہر عورت ایک الگ ہی کہانی سنا رہی تھی ۔ کسی نے لڑکی کو برا کہا تو کسی نے ماں باپ کی تربیت کو ۔ کسی نے زیادتی کرنے والوں کو درندہ صف انسان جانا تو کوئی لڑکی میں بیسیوں خامیاں گنوانے لگی ۔’’ توبہ توبہ ۔۔۔۔۔۔کیسا زمانہ آگیا ہے ،ابھی لڑکی کی عمر ہی کتنی ہے ،جوانی کی دہلیز پر اس نے ابھی پچھلے ہی ماہ تو قدم رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ درندوں نے اسے داغ دار کر دیا‘ ‘ایک اور عورت بولی ’’ لڑکا ہوتا تو اور بات تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو لڑکی ہے اس طرح کے واقعات کے بعد کون ہو گا جو اس سے نکاح کرے گا آخر ایک دن اس کو پرایا ہونا ہے ‘‘ ’’ ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو بہن ۔۔۔۔۔۔۔آخر دھی کا دھن ہے اس واقعہ نے اس کی زندگی کو جیسے گھن لگا دیگا‘‘ کسی حد تک اس عورت کی بات بالکل ٹھیک تھی ۔ معاشرہ کسی لڑکی کو اس طرح کے واقعات کے بعد قبول نہیں کرتااور اگر قبول کر بھی لے تو اس کے ساتھ ساری زندگی نا روا سلوک رکھا جاتا ہے ۔ اسے بار بار ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے اس کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اس کی مرضی سے کی گئی ہو ۔جیسے وہ اس مکرہ فعل میں برابر کی شریک ہو ،جیسے اس گنا کو اس نے اپنی مرضی سے کیا ہو ۔
ہسپتال سے منشی اللہ دتہ کی بیٹی گھر آئی تو کچی کوٹھی کے اس کی تیمار داری کو کم اسے دیکھنے زیادہ آئے ۔ہر وقت ایک بھیڑ سی لگی رہتی ۔ رشتے دار ،دوست احباب ،سب جمع دو ٹولیوں میں بٹے تھے ۔ ایک ٹولی کا خیال تھا کہ ملزمان کی گرفتاری تک انہیں چین سے نہیں بیٹھنا چاہیے ۔آج اگر منشی اللہ دتہ کی پھول جیسی بیٹی کی سرے راہ عصمت دری کی گئی ہے تو کل کسی اور کی معصوم کلی کو بھی کچلا جا سکتا ہے ۔ دوسری ٹولی کا خیال ان سے بالکل مختلف تھا۔وہ بچی کھچی عزت کو مزید لٹانے کے حق میں نہ تھے۔ ان کا خیل تھا کہ جو جگ رسوائی ہونا تھی ہو چکی اب مزید عزت کا جنازہ نہ نکالا جائے ۔ منشی اللہ دتہ منہ پہ بوکل ڈالے ایک چار پائی پہ بیٹھا دونوں ٹولیوں کی باتیں سن رہا تھا مگر کچھ کہنے سے قاصر تھا ۔اس کا ذہین کچھ بھی سوچنے کی کیفیت میں نہ تھا ۔
’’ منشی اللہ دتہ ۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ تیری بیٹی کے ساتھ ہوا ہے اس کا ہمارے ساتھ ساتھ ہماری حکومت کو بھی بڑا دکھ ہے ‘‘ منشی اللہ دتہ کو اپنے پہلو میں دبوچے ایک سیاسی پارٹی جو برسراقتدار بھی تھی کا نمائندہ ، تسلی دے رہا تھا ۔ چیف منسٹر نے واقع کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ڈی پی او کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی ہے ۔ جو ملزمان کو جلد گرفتار کر کے آپ کو انصاف ضرور دے گی ‘‘ پھر سیاسی پارٹی کے اس نمائندے نے جو ممبر صوبائی اسمبلی بھی تھا ، نے دس بارہ نوٹ نکالے اور منشی اللہ دتہ کی مٹھی میں تھما دئیے ۔ منشی اللہ دتہ نے ایک نظر نوٹوں کو دیکھا اور دوسری نظر اس سیاسی نمائندے کی طرف جس نے سر کا اشارہ کیا ۔میڈیا کے کیمروں نے سیاسی پارٹی کے نمائندے کو بھر پور کورج دی اور کچی کوٹھی کا منشی اللہ دتہ آنسوؤں سے تر آنکھوں کے ساتھ ایک بار پھر الیکڑونک اور سوشل میڈیا کی سہ سرخیوں میں تھا ۔
ادھر ڈی۔سی۔او ،ڈی ۔پی۔او ملزمان کی گرفتاری کیلئے پورے شہر میں چھاپے مار رہے تھے تاہم ان کو تا حال کوئی کامیابی نہ ملی ۔ میڈیا نے کچی کوٹھی کے منشی اللہ دتہ ،زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی اور اہل خانہ کے تاثرات کے ساتھ رات کو خصوصی بلیٹن چلایا ۔خصوصی بلیٹن نے ڈی۔سی۔او ،ڈی ۔پی۔او کی انتظامی نااہلی کا پول کھول کے رکھ دیا ۔ جس نے شہر کے ساتھ ساتھ شہر اقتدار کو بھی ہلا کے رکھ دیا۔صبح کا سورج طلوع ہو رہا تھا جب پورے شہر کی انتظامیہ ڈی۔سی۔او ،ڈی ۔پی۔او سمیت کچی کوٹھی پہنچ چکی تھی ۔ وہ سڑک جو شہر سے نکل کر کچی کوٹھی کی طرف جاتی تھی کو میونسپل کمیٹی کے خاکروب صاف کر رہے تھے ۔ سڑک گرد اور مٹی سے اٹی پڑی تھی ۔ کبھی بھولے سے بھی اس سڑک پر کوئی خاک روب نہیں بھیجا گیا تھا ،کوئی خاک روب اس طرف آتا ہی کیونکر ۔یہ سڑک کوئی شارع خاص تو نہ تھی اور نہ ہی اس طرف کسی شہر کے کسی رئیس،انتظامیہ کے کسی اہل کار کاآنا جانا تھا ۔ اس سڑک پر پر بس کچی کوٹھی کے مکین ہی آیاجایا کرتے تھے ۔
سہ پہر کے بعد ایک ہیلی کاپٹر شہر کی فضا میں چکر لگاتا ہوا کچی کوٹھی کے پہلو میں واقع ایک کھلے میدان میں اتر گیا ۔ صوبے کے چیف منسٹر شان و شوکت کے ساتھ اپنے وزیروں، مشیروں اور ملکی و عالمی میڈیا کے ساتھ باہر نکلے ۔پولیس کے حصار میں کچی کوٹھی میں واقع منشی اللہ دتہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ہیلی پیڈ سے منشی اللہ دتہ کے گھر تک پولیس کے تازہ دم دستے تعینات کیئے گئے تھے ۔ ’’ منشی اللہ دتہ ۔۔۔۔۔ یہ دل دہلا دینے والا واقع تیری بیٹی کے ساتھ نہیں ہوا ،یہ ہماری بھی بیٹی ہے ،بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم فکر نہیں کرو ،میں نے ڈی۔سی۔او اور ڈی ۔پی۔او کو احکامات صادر کر دئیے ہیں کہ وہ کل تک ملزمان کو گرفتار کر کے مجھے رپورٹ کریں ‘‘
چیف منسٹر کے ایک پہلو میں منشی اللہ دتہ بیٹھا تھا اور دوسرے پہلو میں اس کی متاثرہ بیٹی ،اور ان کے سامنے مقامی،ملکی اور عالمی میڈیا کے سینکڑوں نمائندے فلیش پہ فلیش چمکا رہے تھے ’’ ایک نیوز چینل پر نیوز بریک ہو رہی تھی ’’ ناضرین ۔۔۔۔۔۔۔۔ صوبے کے چیف منسٹر اس وقت کچی کوٹھی میں چند دن پہلے اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کے گھر پہنچ گئے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چیف منسٹر نے متاثرہ لڑکی اور اس کے والدین کو یقین دلایا ہے کہ ان کو انصاف ضرور ملے گا ،ملزمان کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناظرین آپ اس وقت سکرین پر چیف منسٹر کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے کی لڑکی اور اس کے خاندان کے دوسرے افراد کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ چیف منسٹر منشی اللہ دتہ اور اس کی بیٹی کو تسلی و تشفی دے کر امور سلطنت میں مصروف ہو گئے ۔ ڈی۔سی۔او ،ڈی ۔پی۔او صاحبان ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارنے لگے ۔ کچی کوٹھی اور شہر کے مکین اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے ۔’’ بیٹی کیا تو ان درندوں کو پہچانتی ہے جنہوں نے تیری عصمت دری کی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ ماں نے چار پائی پہ لیٹی متاثرہ لڑکی کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا جو اس وقت آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی ’’ ماں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ دو بار زیادتی کی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک انسانوں کے روپ میں درندوں نے جو اپنی ہوس مٹانے کے بعد فرار ہو گئے ان کو میں نہیں پہچانتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ دوسرا میڈیا ، جنہوں نے میری انصاف کے نام پر عزت کو گلی گلی ۔شہر شہر ، پامال کر دیا ،میں ان کو تو پہچانتی ہوں مگر ان کے خلاف رپٹ درج نہیں کرا سکتی ۔
Mohammed Nawaz