ہرتخلیق کارکی پٹاری میں مختلف رنگوں کی کترنیں موجود ہوتی ہیں
نامورشاعرہ وافسانہ نگار فرحین چوہدری سے دلچسپ گفتگو
انٹرویو: ابنِ عاصی
جھنگ ۔ پاکستان
ادبی حلقوں میں خوش خیال، خوش خصال اور خوش لباس فرحین چوہدری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اس باوقار ،سنجیدہ اور ہنس مکھ خاتون سے پچھلے دنوں ہم نے اردو زبان و ادب اور دیگر ایشوز پر تفصیل سے بات چیت کی جو کہ یہاں پیشِ خدمت ہے۔
سوال:پہلے تواپنے بارے میں کچھ بتائیے۔۔۔؟
جواب:پہلا نام ،شہابہ گیلانی تھا لیکن ممتاز ٹی وی پروڈیوسر جنا ب قاسم جلالی نے کہا کہ ،آپ ،فرحین چوہدری لکھا کریں اور ان کے مشورے کے بعد میں،فرحین چوہدری ہوگئی ۔اب جہاں تک ادب کی طرف آنے کا معاملہ ہے تو عرض یہ ہے کہ اسکول کے زمانے سے ہی نظمیں اور کہانیاں لکھنے کا شوق تھااسی زمانے کے میگزینز میں میری تحریریں شائع ہوئیں اور ریڈیو سے نشر بھی ہوئیں کالج کے زمانے سے ہی ریڈیو کی ،اے لیول،آواز تھی کمپئرنگ بھی کی لیکن وہی بات کہ ،شاید ہمارے اندر ،کمپرو مائز، کرنے کا حوصلہ نہیں ہے اسی لیے اس فیلڈ میں دوسروں کی طرح جم نہ سکے اصل میں میرے اندر کا خوددار انسان کوئی ناجائز بات برداشت نہیں کر سکتا اس لیے اس دنیا کو چھوڑ دیا۔
سوال:ایک گھڑا گھڑایا سوال ہمیشہ کی طرح آپ سے بھی کہ،شاعری کی طرف کیسے آنا ہوا۔۔؟کس سے اتنی زیادہ متاثر ہوئیں کہ۔۔؟
جواب:ادب میرے اند ر رچا بسا ہو اہے27برس کا طویل ادبی سفر ہے لیکن اس پورے عرصے میں کبھی کسی کا سہارا نہیں لیا ،یہ میرے اند ر ہے ہی نہیں،اپنے آپ کو اپنے بل بوتے پر منوایا ،بہت رکاوٹیں آئیں پیدا بھی کی گئیں لیکن فرحین چوہدری ڈٹی رہی اور آج جیسی بھی ہوں سب کے سامنے ہوں ۔
سوال:کیا وجہ ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں کوئی ایسی شاعرہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ہے جس کا قد و کاٹھ غالب،میر،داغ،مومن،مصحفی اور انشا وغیرہ کے آس پاس بھی ہو۔۔؟یہ تاریخ عورت کے بارے میں ایک ،غلط تاثر، پیدا نہیں کرتی۔۔؟
جواب:اردو کی تاریخ میں ہی نہیں آپ کو دنیا بھر کی تاریخ میں بھی مرد ہی زیادہ نظر آتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت میں کسی بھی صلاحیت یا تخلیق کی کمی ہے اصل مسئلہ عورت یا مرد کے سماجی کرداروں کا ہے جو معاشرے نے ان کے ذمے لگا دئیے ہیں اس لیے بہت ساری خواتین نہ تو اپنی تخلیقی خداداد صلاحیتوں کو پوری طرح نکھار سکتی ہیں اور نہ ہی منظرِ عام پر لاسکتی ہیں یہی معاملہ اردو ادب کا بھی ہے عورت گھر بار اور بچوں میں الجھ کر اپنی تخلیقی سرگرمیوں کو وقت نہیں دے پاتی ۔لہذاوہ اس پروجیکشن سے محروم رہ جاتی ہے جو مرد حاصل کرلیتے ہیں دوسرا ہمار سماجی رویہ عورت کو بطور تخلیق کار قبول کرنے سے گریزاں ہے ایسے حالات میں بہت ساری شاعرات جو کہ غالب،مومن یا میر سے بھی شاید بہترثابت ہوتیں چار دیواری میں ہی اپنے فن سمیت دفن ہو گئیں۔
سوال:ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی شاعرہ کوئی اچھی غزل یا نظم کہتی ہے تو کسی نہ کسی کونے سے یہ سرگوشی سی ضرور سنائی دیتی ہے کہ اس کو کسی نے لکھ کے دی ہوگی۔۔؟یہ رجحان کس بات کی علامت ہے۔۔؟کیا عورت کو بطور تخلیق کار ابھی تک قبول نہیں کیا گیا ہے۔۔؟
جواب:اصل میں عورتیں نازک جذبات اور احساسات کو زیادہ بہتر طریقے سے بیان کر سکتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ حقیقی شاعرات کو اول تو آگے آنے نہیں دیا جاتا،اگر وہ ہمت کر کے کسی طرح اپنا راستہ بنا بھی لے تو ان کے مقابلے میں کچھ،مخصوص، خواتین کو سامنے لایا جاتا ہے جن میں نچلی سطح کی تخلیقی صلاحیت یاسرے سے شاعری ہوتی ہی نہیں مگر وہ شہرت یا دیگر مادی فوائد کی خاطر شاعرات بننے پر تلی ہوئی ہوتی ہیں اور پھر مختلف قسم کی ،سودے بازیوں ، کے بعد جب دنوں میں ایسے لوگوں کی کتابیں آنے لگتی ہیں تو ان شاعرات کی حیثیت مشاہدے اور شواہد کی بنا پر ،مشکوک، ہو جاتی ہے اس سارے کھیل میں مرد اورخواتین دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں مگرکبھی کبھاران الزامات کی زد میں حقیقی شاعرات بھی آجاتی ہیں لیکن وقت کبھی نہ کبھی سچائی سامنے لے ہی آتا ہے۔
سوال:شاعری میں نئے تجربات کا سلسلہ کبھی رکا نہیں ہے ہر دور میں جناب ظفر اقبال جیسے لوگ موجود رہے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ایسے تجربات کے نتیجے میں سامنے آنے والی کوئی،نئی چیز، شعراء نے پوری طرح اور باقاعدگی سے،Adoptنہیں کی ہے۔۔؟مثلا دیکھا جائے تو عدیم ہاشمی مرحوم کی ،مکالماتی غزل، کا تجربہ کوئی ایسا برا بھی نہیں تھا شاید۔۔۔؟
جواب:صرف شاعری ہی نہیں ہمارے ہاں تو ہر میدان میں نئے خیالات نئی سوچ اور نئے تجربات کی شدت سے مخالفت کی جاتی ہے چاہے وہ کتنے ہی سود مند اور مثبت کیوں نہ ہوں ۔ادب اور شاعری تو بہت سارے طبقوں کے نزدیک محض تفریح اور وقت گزاری کا ذریعہ ہے شاعری میں نئے تجربات کرنے سے بہت سے شاعر اسی لیے ڈرتے ہیں کہ لوگ نئے انداز یا نئے تجربے کو قبول نہیں کریں گے اور ان کا کام ضائع ہو جائے گادوسری وجہ شاید یہ ہے کہ ہم ناک کی سیدھ میں چلنے کے عادی ہو گئے ہیں خوف کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تازہ ہوا کے جھونکوں سے ہم نباہ نہیں پاتے اور انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
سوال:اگر آپ سے پوچھا جائے کہ ادا جعفری،کشور ناہید، پروین شاکر اور فہمیدہ ریاض میں سے بہترین شاعرہ کو ن ہے۔۔۔؟
جواب:ہر تخلیق کار کی پٹاری میں مختلف رنگ کی کترنیں ہوتی ہیں اب اسے کون سارنگ زیادہ پسند ہے؟یہ اپنی اپنی مرضی ہے کشور ناہید ،پروین شاکر اور فہمیدہ ریاض کی شاعری میں کچھ چیزیں مجھے پسند ہوں گی اور کچھ نہیں ۔باقی مجھے ذاتی طور پر ادا جعفری کی شاعری زیادہ پسند ہے کیونکہ شہرت کا سبب ضروری نہیں کہ شعر بھی ہوں ۔کچھ لوگوں کی خوش قسمتی بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے ادا جعفری کے ایک شعر نے لڑکپن میں مجھے بہت متاثر کیا تھا۔وہ شعر کچھ یوں تھا
ویرانیاں دلوں کی بھی کچھ کم نہیں تھی ادا
کیا ڈھونڈنے گئے ہیں مسافر خلاؤں میں
سوال:سرکاری ادبی اداروں پر عرصہ دراز سے ،ایک شہر کے چند مخصوص لوگ،ہی براجمان نظر آتے ہیں۔۔۔باقی ملک کے اہلِ ادب میں کیا ان اداروں کی سربراہی کی اہلیت نہیں ہے؟آپ لوگ اس ،لاہور پروری، پر احتجاج کیوں نہیں کرتے ہیں۔۔؟
جواب:سرکاری ادبی اداروں پر ایک خاص گروپ کی اجارہ داری نے عرصہ دراز سے ادبی فضا پر تناؤ کی کیفیت طاری کر رکھی ہے کسی اور کی بات نہیں کرتی لیکن میں نے ذاتی حیثیت میں کئی بار ان اداروں کے سربراہوں سے بھی احتجاج کیا ہے کیونکہ چند مخصوص لوگوں کو ہی ہمیشہ آگے لایا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے اور کچھ دوسرے سرپھروں کو بہت ساری اہم تقریبات سے دور رکھنے کی سعی کی گئی اور اس دوران جب خانہ پری اور کرسیاں بھرنے کے لیے بلایا گیا تو ہم نے انکار کر دیا۔۔ایک خوددار نسان اس کے علاوہ کیا کر سکتا ہے؟
سوال:اکادمی ادبیات کی چئیر پرسن شپ کبھی کسی شاعرہ یا ادیبہ کو کیوں نہیں تھمائی گئی؟کیا عورتوں کے ساتھ یہاں بھی ،صنفی امتیاز، نہیں برتا جا رہا ہے؟
جواب:صاحب!چئیرمینی کسی شاعرہ یا ادیبہ کو ملنا تو دور کی بات ہے کسی غیر جانبدار شاعرہ یا ادیبہ ہی کو مل جائے تو بڑی بات ہے سرکاری اور گروہی مفادات سے جڑی یہ کرسی جن لوگوں کو دی جاتی ہے وہ آپ جانتے ہی ہیںیہاں ادب معیار نہیں تعلقات اور سفارش سے بات بنتی ہے۔
سوال:ا ب ادبی کانفرنسز دھڑا دھڑ ہو رہی ہیں لیکن ایک طرف سے یہ آواز بھی بلند ہو رہی ہے کہ ،ان کانفرنسز میں بلائے جانے والوں اور والیوں کی ایک ،مخصو ص لسٹ، منتظمین کے پاس پہلے ہی سے ہوتی ہے جس سے اہل لوگ نظرا نداز ہو جاتے ہیں اور نالائق،سفارشی اور نااہل آگے آجاتے ہیں۔۔۔کیا آپ اس سے اتفاق کریں گی۔۔؟
جواب:یہی حال ادبی کانفرنسز کا ہے جہاں مخصوص ٹولے کو نوازنے کے لیے غیر ادبی سرگرمیوں اور بندر بانٹ کا کلچر فروغ پا رہا ہے ہر ادبی کانفرنس میں چند مخصوص چہرے ہی نمایاں نظر آتے ہیں ایسے میں کوئی کرے تو کیا کرے؟اور کہاں جائے ۔؟آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جی ۔
سوال:ادبی پرچوں کی بھی اب کوئی کمی نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ،ا ن میں سے بھی کوئی بہت معیاری،اعلیٰ اور سنجیدہ پرچہ نہیں ہے۔۔۔۔کیا یہ سچ ہے؟یا کوئی پرچہ ایسے معیار پر پورا اترتا ہے؟آپ اس کا نام بتانا پسند فرمائیں گی۔۔؟
جواب:ادبی پرچوں کا معیار گرنے کی ایک وجہ تو مالی مشکلات ہیں جن کے باعث ایڈیٹرز مالی تعاون کرنے والوں کے ساتھ کچھ۔کمپرومائز، کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جن میں غیر معیاری ادب کو چھاپنا یا ڈائجسٹی کلچر کو فروغ دینا بھی شامل ہے سو خالص ادب سسک رہا ہے چند گنے چنے ادبی پرچے ابھی بھی معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جن میں ،تخلیق،چہار سو، اور ،فنون ،وغیرہ شامل ہیں۔
سوال:ذرا ہٹ کر ایک سوال کہ یہاں ہر کوئی اپنے پسند کے شاعر یا شاعرہ کانام تو فی الفور بتا دیتا ہے لیکن ناپسندیدہ کا نام بتانے کی ہمت کوئی نہیں کرتا ہے۔۔۔۔۔حالانکہ اگر کوئی پسند ہے تو ناپسند بھی ضرور ہو گا۔۔۔کیا آپ اپنے ناپسندیدہ شاعر یا شاعرہ کا نام بتانا چاہیں گی؟
جواب:(مسکراتے ہوئے)ہر وہ شاعر یا شاعرہ نا پسند ہے جس کا کلام چوری شدہ ،غیر موزوں اور غیر معیاری ہو ۔
سوال:اخبارات کے ادبی ایڈیشنز میں شائع ہونے والامواد کس سطح کا ہوتا ہے۔۔؟
جواب:ان ایڈیشنز میں ملا جلا ادب شائع ہوتا ہے لیکن یہاں بھی یہی مسئلہ آتا ہے کہ ادبی ایڈیشن کا /کی انچارج ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کران لوگوں کی تخلیقات شائع کرتا /کرتی ہے جن سے اس کو کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے اس میں کبھی کبھار اخبار کی پالیسی کا بھی دخل ہوتا ہے۔
سوال:آپ کے خیال میں حکومتِ پاکستان کو فروغِ ادب کے لیے سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے۔۔؟
جواب:حکومت اچھی شہرت کے حامل ادیبوں اور شاعروں کی نگرانی میں ادبی کتابوں کو مفت شائع کروائے اور ان کی مارکیٹنگ کا اہتمام کرے کیونکہ مالی مسائل کی وجہ سے کئی نایاب تخلیقات دیمک کی نظر ہو جاتی ہیں۔
سوال:ہر سال سرکاری سطح پر اہلِ ادب کو ایوارڈز دئیے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد ایک ہنگامہ سا بپا ہو جاتا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے میرٹ کا خیال نہیں کیا گیا ۔۔۔کیا واقعی ایوارڈز میرٹ کوپامال کرتے ہوئے دئیے جاتے ہیں۔۔؟
جواب:پھر وہی دل جلانے والا سوال۔۔۔دیکھئے جب اداروں کے سربراہان اور ادبی فضا ہی غیر جانبدار اور ادب دوست نہیں ہے تو اہلِ ادب کو میرٹ پر ایوارڈز کیونکر مل سکتے ہیں۔۔؟ہاں کچھ ایوارڈزضرور ایسے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر کا میرٹ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
سوال:آپ سمجھتی ہیں کہ آپ نے ادبی میدان میں جو کرنا تھا کر لیا۔۔؟یا ابھی وہ منزل نہیں آئی۔۔؟
جواب:ارے کہاں۔۔!ابھی تو شاید میں نے اپنے خواب کا عشر عشیر بھی پورا نہیں کیا ۔۔۔ابھی تو سفر جاری ہے
سوال:ایک بڑا تلخ سا سوال ہے کہ اکثر اہلِ ادب کے بچے ان سے نہ صرف نالاں نظر آتے ہیں بلکہ ان کی ادبی سرگرمیوں کو وقت کا ضیاع گردانتے ہیں اور اسی لیے ان کی موت کے بعد ان کی کتب اور ادبی سرمائے کو ہم فٹ پاتھ پر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اہلِ ادب کے بچوں کی اس بیزاری پر آپ کچھ کہنا چاہیں گی۔۔۔؟
جواب:یہ بات کافی حد تک درست ہے اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ جب بچے دیکھتے ہیں کہ ادیب اور شاعر کی سماجی اور مالی حیثیت عبرت ناک ہے تو وہ کیسے بیزار نہ ہوں۔؟ہمارا معاشرہ مغربی معاشرے کے برعکس واہ واہ تو کرتا ہے لیکن کسی قسم کی مالی،سماجی یا معاشرتی سیکیورٹی دینے کو تیار نہیں ۔ان حالات میں بچوں کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا یہ بے حس معاشرے کا قصور ہے جہاں ایک جرائم پیشہ شخص کی حیثیت ایک تخلیق کار سے بہت برتر ہے۔
سوال:آج کل جس طرح کا ادبی کام ہو رہا ہے۔۔اس سے مطمن ہیں۔۔؟
جواب:آج کل کے ادبی کام سے پوری طرح مطمن نہیں ہوں۔
سوال:کوئی نئی کتاب آرہی ہے آپ کی۔۔۔؟
جواب:میری چار نئی کتابیں چھپنے کے لیے دو سال سے بالکل تیار ہیں لیکن وہی مالی مشکلات،پبلشنگ اور مارکیٹنگ کے مسائل وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔تین کتابیں تو چھپ چکیں اور یہ بھی 27سال کے عرصے میں شائع ہوئی ہیںیہاں بڑے پبلشرز سفارش نہ ہوتو لمبی لائن میں لگا دیتے ہیں اور چھوٹے پبلشرز جیبیں خالی کرنے پر تلے رہتے ہیں اور سرکاری ادارے من پسند لوگوں کی کتب ہی شائع کرتے ہیں بس۔۔۔ایسے میں حقیقی ادیب جائے تو جائے کہاں۔۔۔؟
Ibne Aasi