پدومائی پتّن اور پریم چند کا تقابلی مطالعہ
یم. تزئین جمال
صدر،شعبہ اردو ، جین کالج، وانمباڑی
09047659426
سو ۔ وردا چلم نے پدومائی پتن کے نام سے کئی مختصر افسانے لکھے ہیں۔ ان کی کہانیاں اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں کہ وہ مذکورہ نام کے مکمل طور پر مستحق تھے۔ ادب کے میدان میں انھیں جد ت سے جو لگاؤ تھا اور تخلیقی فن کا ان پر جنون سوار رہتا تھا وہ قابل صد ستائش ہے۔ نئے پلاٹ، ان کے لئے نیا فنی ڈھانچہ، لکھنے کے نئے نئے طریقے، جدید اسلوب ، سماج کے امیر طبقے پر طنز کرنے والا جرات منددل ، غریب عوام کے مصائب پر افسوس کا اظہار کرنے والا قلم، ان تمام خصوصیات نے ان کی کہانیوں کو ایک نیا حسن عطا کیا۔
قدیم متروک تامل الفاظ کو ترک کرکے انھوں نے بول چال کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے تامل اسلوب میں ایک نئی لچک پید ا کی۔ ان میں خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان میں اس بات کا اعتماد تھا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے واقعات اور اپنے ذہن میں پیدا شدہ خیالات کو مختصر افسانوں کے ذریعے پیش کرکے تمل عوام کے احساسات کو جگائیں گے۔ انھوں نے ایسا ہی کردکھا یا بھی تھا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ طنز و مزاح پیدا کرنا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا یہ عنصر ان کہانیوں میں فطری انداز میں پایا جاتا ہے۔ سماج کیساتھ رشتہ قائم کرنے اور اسی سماج کے ساتھ تصادم اور جدو جہد کی تصویران کی مختصر کہانیوں میں فطری انداز میں پائی جاتی ہے۔ سماج کے ساتھ رشتہ قائم کرنے اور اسی سماج کے ساتھ تصادم اور جد و جہد کے لئے مختصر کہانیاں گویا ان کے لیے ہتھیار کا کام دیتی تھی۔ اپنی نفرت کا اظہار کرکے کسی کو طنز کا نشانہ بنانے کے لیے بھی وہ کہانیوں کو بظور ہتھیار استعمال کرتے تھے۔
وہ ایسے فنکاروں میں سے تھے جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کو جس طرح لکھتے اور ان کے متعلق جس انداز میں محسوس کرتے ہیں اسے من و عن پیش کردیتے ہیں۔
وہ خوابوں کو تخئیل کی شکل نہ دیتے ہوئے زندگی کا مختلف زاویوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد وہ جس طرح محسوس کرتے اپنی آنکھوں دیکھی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنے تاثرات کی آمیزش کے ساتھ من و عن اسے مختصر افسانے کی شکل دیتے ہیں ان کی کہانیاں طنز و مزاح سے بھر پور ہوتی ہیں۔ انھوں نے اپنی آس پاس کی زندگی کا مشاہدہ کرنے کے بعدسماج کی تلخیوں اور ناہمواریوں کو محسوس کیا تھا اور اس میں اپنی ذاتی رائے شامل کئے بنا انھوں نے جو کچھ دیکھا بلاکم و کاست اپنی تخلیقات میں پیش کردیا۔وہ ایک فوٹو گرافر کی طرح سماج کی انوکھی تصاویراورسماج کے رستے ہوئے ناسوروں کے دردناک مناظر پیش کئے ہیں۔انھوں نے کبھی اپنے لئے اس طرح کے اصول وضع نہیں کیے کہ زندگی اسی طرح ہونی چاہئے یا کہا نی میں ، کسی خاص مقصد کا ہونا ضروری ہے۔ جو کچھ بھی دیکھتے محسوس کرتے اسے من و عن دل چسپ انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت ان میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔ فطری طور پر فن ان کے دل میں سمایا ہوا تھا اس طرح دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے دل میں نقش واقعات اور خیالات جب فن کا روپ دھا لیتے تو خوب صورت کہانی کا جنم ہوتا ہے۔
تامل ادب کی دنیا میں پدومائی پتن کوبابائے مختصر افسانہ کے نام سے شہرت حاصل ہے۔ ۱۹۳۳ میں منی کوڈی نام کے رسالہ کے آغاز ہی سے ان کی افسانہ نگاری کا بھی آغاز ہوگیا تھا۔ اسی زمانے میں وہ ایک اہم افسانہ نگار کی حیثیت سے تمل افسانوی ادب کی افق پر ابھرے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں غربت اور ناخواندگی اوراس سے پیدا ہونے والے مختلف سماجی مسائل کے ساتھ تو ہم پرستی پر بھی شدید حملہ کیا ہے۔ ” بھگتہ کو سیلا ” و نائیگا ستورتی” جیسی کہانیوں کی سرخیاں پر انوں میں ملنے والے عنوانات کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ تنبا کینی، ناساگار کمبل ، میندانیدرم، پون نگرم، مشین یگم جیسی کہانیوں کے عنوانات موجودہ زمانے سے تعلق رکھتے ہیں اور مواد بھی اس زمانے کے مسائل پر مبنی ہے۔
جس زمانے میں تمل ادب میں پدومائی پتن کو عروج حاصل ہوا تقریباً یہی دور اردو میں پریم چند کے بھی عروج کا زمانہ تھا۔انھوں نے ایک درجن سے زائد ناول ” اسرار معابد” (۱۹۰۵ء)”(۱۹۰۷ء) ” ہم خرما و ہم ثواب ” جلوہ ایثار” (۱۹۱۲ء)”بیوہ” (۱۹۱۲ء)،” بازار حسن” (۱۹۲۱ء)،” گوشۂ عافیت” (۲۹- ۱۹۲۸ء)”نرملا ” (۱۹۲۹ء) ” غبن ” (۱۹۲۸ء) ” چوگان ہستی” (۱۹۲۷ء)،”پردۂ مجاز” (۳۲- ۱۹۳۱ء)،”میدان عمل” (۱۹۳۶ء)، گؤدان (۱۹۲۶ء)اور منگل سوتر”(۱۹۳۶ء نامکمل) کے نام سے لکھے۔ پریم چند اپنے دور کے مخصوص حالات اور سماجی تبدیلیوں سے پوری طرح آگاہ تھے ۔ سماج اور فردکے مابین جو عمل اور رد عمل ہورہا تھا، اُسے انھوں نے اپنے ناولوں کے موضوعات بنا ئے۔ اسی لئے ہندوستان کے سماجی، تاریخی ، سیاسی اور معاشی حالات کی تبدیلی ان کے ناولوں کے موضوعات بنے ہیں۔پدومائی پتن کی طرح پریم چند بھی اردو اور ہندی میں جدت طرازی کے علم بردارہیں۔ان دونوں ہی قلم کاروں کی نظریں آنے والے زمانے پر مرکوز تھیں۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے نتیجے میں وقوع پذیر معاشرے کی صحت مند اقدارکی تعمیر میں ان دونوں ہی فکشن رائٹروں نے اپنے اپنے دائروں میں کارہائے نمایاں انجام دئے۔
پریم چند نے خاص طور سے عورتوں کے مسائل کو اپنی نگارشات کا موضوع بنایا۔ عورت کی نفسیات ، اسکے دُکھ درد ، اس کی اُلجھنوں اور اسکی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عورت کی پس ماندگی کے اسباب پر مباحث اٹھائے۔ان مسائل پر ان کے مباحث کا ارتقا ” بیوہ ” اور "بازارِ حسن ” سے ہوتے ہوئے "نرملا” میں فن کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔
ان کے ناول "نرملا” کا موضوع وہی مسائل ہیں جوجہیز کی لعنت کی وجہ سے ہندوستانی سماج میں پیدا ہو چکے ہیں اسکا شکار ہونے والی لڑکیوں کو نا گفتہ بہ حالات سے گذرنا پڑتا ہے اور یہی دکھانا ناول نگار کا مقصد ہے ۔ یہ در اصل ایک سماجی روگ ہے جس کی تشخیص اور علاج ہر انسان دوست ادیب کا فریضہ ہے جسے پریم چند نے بخوبی ادا کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ضمن میں ان کا نقطۂ نظر خالص اصلاحی رہا ہے اور وہ اسکے خلاف کوئی انقلابی محاذ قائم کرنے میں نا کام رہے ہیں۔ یہ در اصل اس دور کی خامیاں ہیں جس دور کے وہ پروردہ تھے جیسا کہ احتشام حسین نے لکھاہے کہ :
” پریم چند کو بیسویں صدی کے ابتدائی اور انیسویں صدی کے آخری دور کا انسان سمجھنا چاہئے”پریم چند کے یہاں ایک واضح اور منفرد سماجی شعور موجود ہے۔ ان کی نظر اپنے ماحول کی ناہمواریوں پر مرکوز رہتی ہے اور وہ ہمیں سماج کے ناسوروں کی طرف متوجہ کرنے کی برابر کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ جزئیات نگاری، ماحول کا پُر خلوص تجربہ اور کرداروں کے د ھڑکتے ہوئے دلوں سے ہم آہنگی، یہ تمام باتیں ان کی تحریر میں طنز کی وہ تلخی بھی پیدا کرتی ہیں جو ان کے معاصرین کی تحریروں میں موجود نہیں۔ پریم چند حقائق سے زیادہ قریب ہونے کے باعث سماج کے ناسوروں کی تہہ تک پہنچ حاصل کرتے ہیں جو معاشرے کے رگ و پئے میں بلا کی تیزی اور شدت سے پھیلتے جا رہے ہیں۔اس معاملے میں جس فنکاری ،محنت،لگن اورخلوص کے ساتھ پریم چند نے لکھا اردو کاکوئی اور فکشن رائٹر ان کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکا۔جو کام اردو اور ہندی میں پریم چند نے انجام دیا یہی کارنامہ تمل ادب میں پدومائی پتن نے انجام دیا ہے۔دونوں ناول نگاروں میں جو قدر مشترک ہم کو نظر آتی ہے وہ ان کی قدامت پرستی کے خلاف جہاد اور جدت پسندی اور ترقی پسندی ہے۔
One thought on “پدومائی پتّن اور پریم چند کا تقابلی مطالعہ ۔ ۔ ۔ یم. تزئین جمال”