کتاب: اردومیں تجریدی افسانہ
مصنفہ: ڈاکٹر آمنہ آفرین
مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل
لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج ،محبوب نگر
ای میل :
ہندوستان کے میعاری جامعات میں شعبۂ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد اپنی ایک نمایاں پہچان رکھتی ہے ،جہاں پر اردو کے قابل اساتذہ اکرام کی نگرانی میں جدید موضوعات پر تحقیق کا میعاری اور منفرد کام انجام دیا جارہاہے، قابل مبارکباد ہیں پروفیسرمظفرعلی شہ میری صدر شعبۂ اردو کہ جن کی سرپرستی میں یہاں سے قابل ترین اسکالرس ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرتے ہوئے اپنی اپنی منزل کی طرف گامزن ہیں ، مختلف جامعات میں آج بھی یہ روایات برقرار ہے کہ شخصیت پر تحقیق کے کام کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اردو کے جدید موضوعات کو تحقیق کیلئے منتخب کیا جائے اور اردو زبان و ادب کی وسعت میں اضافہ کیا جائے۔
میرے علم کے مطابق حالیہ عرصہ میں’’یونیورسٹی آف حیدرآباد ‘‘سے فارغ طالب علموں کی15 یا 16تصانیف اردو کے منظرنامہ پر رونما ہوئی ہیں ان میں ،آمنہ آفرین کی تصنیف ’’ اردو میں منی افسانہ‘‘ شاہانہ مریم کی ’’یونیورسٹیوں میں اردو تحقیق‘‘،سمیہ تمکین کی’’ناصر کاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی،ناہیدہ سلطانہ کی’’ علی ظہیر شخص اور شاعر‘‘،محمد محامدہلال اعظمی کی ’’مولانا شبلی کی اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ‘‘انورالدین کی ’’ مصطفی کمال کی علمی و ادبی خدمات‘‘ رئیسہ ناز کی’’ قاضی مشتاق احمد بحیثیت افسانہ نگار‘‘ عارفہ شبنم کی’’ پیغام آفاقی کی افسانہ نگاری‘‘ واجدہ بیگم کی ’’ قرۃالعین حیدر کی رپورتاژ نگاری‘‘ و دیگر شامل ہیں ۔حالیہ دنوں ڈاکٹرآمنہ آفرین کی دوسری کتاب ’’اردو میں تجریدی افسانہ ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے۔
ڈاکٹر آمنہ آفرین یونیور سٹی آف حیدرآباد کی ہونہار قابل طالبہ ہیں انہوں نے یہیں سے ایم اے (اردو)،ایم فل ، پی ایچ ڈی کی تکمیل کیں اور اب وہ اسی یونی ورسٹی کی پوسٹ ڈاکٹورل فیلو ہیں ۔ ڈاکٹر آمنہ آفرین کی یہ تصنیف’’اردو میں تجریدی افسانہ ‘‘ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی نے شائع کی ہے،جو ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس کوبعد ترمیم و تبدیلیوں کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کا پیش لفظ ’’بیٹی ہو تو ایسی‘‘ کے عنوان سے پروفیسر مظفرعلی شہ میری، صدر شعبہء اردو ،یونی ورسٹی آف حیدرآباد نے رقم کیا ہے ، وہ آمنہ آفرین سے متعلق لکھتے ہیں’’میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب تصور کرتا ہوں کہ مجھے زیادہ تر ریسرچ اسکالر ایسے ملے،جن میں تحصیل علم کی لگن اور تحقیق کا شوق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،سری وینکٹیشوارا یونیورسٹی تروپتی اور یونیورسٹی آف حیدرآباد میں مجھے ایک سے بہتر ایک ریسرچ اسکالر ملے،ان میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینا ایساہے جیسے اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا،تاہم مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ڈاکٹر آمنہ آفرین میری وہ ریسرچ اسکالر ہیں جن پر میں جتنا بھی فخر کروں کم ہے،وہ ذہین بھی ہیں،محنتی بھی اور پاکیزہ اخلاق و اقدار کی پیکر بھی میں اپنے اہلِ خانہ سے اکثر کہتا ہوں :بیٹی ہو تو ایسی‘‘ پروفیسر صاحب نے موضو ع کی باریک بینی سے متعلق آگے لکھا ہے ’’تجریدی افسانے پر کام کرنا چاول کے دانے پر قل ھواللہ لکھنے کے مصداق ہے‘‘۔
’’اردو میں تجریدی افسانہ ‘‘کی خالق ڈاکٹر آمنہ آفرین نے اس تخلیق کے وجود میں آنے کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے ’’حرف آغاز‘‘ میں رقمطراز ہیں’’اردو میں تجریدی افسانہ ‘‘اس موضوع پر تحقیقی کام کرتے وقت ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ اسے منظر عام پر لانا چاہئے ،کیوں کہ اس پر مواد بہت کم دستیاب ہے جب کہ ’’تجردیت‘‘جدیدیت کے اہم رحجانات میں سے ایک اہم رحجان ہے۔۔اس موضوع پر چند مضامین کے علاوہ زیادہ کچھ نہیں ملتا،ان مضامین میں بھی فنِ تجرید پر بحث کی گئی ہے یا پھر تجریدی افسانہ نگاروں پر تنقید ملتی ہے۔تجریدی افسانہ کیا ہے؟ اس فن پر بہت کم لکھا گیا ہے،تجریدی افسانہ کی تعریف کے لیے وہ ناکافی ہے۔اس مقالے میں ،میں نے یہی کوشش کی ہے کہ تجریدیت اور تجریدی افسانہ کی ایک شکل سامنے آجائے۔‘‘
زیر نظر تصنیف کوپانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔باب اول کو’’تجریدیت کیا ہے؟‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جن موضوعات کو اس باب میں شامل کیا گیا ہے ان میں تجریدیت کی تعریف،تجریدی موسیقی،تجریدی مصوری،تجریدی مصوری مختلف دانشوروں کی نظر میں،تجری مصوری:خصوصیات ۔دوسر ا باب ادب اور تجریدیت کا رشتہ ،کے عنوان پر شامل ہے، جن کے موضوعات اردو ادب میں تجردیت کے نقوش،ادب اور تجردیت کا رشتہ ،شاعری اور تجریدیت،ڈراما اور تجریدیت،اردو ادب اور جدیدیت،علامت نگاری،پیکریت،اظہاریت،معریٰ حقیقت،تجریدیت اور مختلف رحجانات کا تنقیدی جائزہ۔ باب سوم تجریدی افسانہ:شناخت کا مسئلہ کے تحت ،تجریدی افسانہ کی خصوصیات اور تجریدی افسانہ کی پہچان روایتی افسانے کے مقابلے میں۔ باب چہارم :اردو مختصر افسانے کا ارتقاء: اس باب کے تحت ،تجردیت کا حصہ،اردو مختصر افسانہ:انگارے،ترقی پسند تحریک،جدیدت،تجردیت،آغاز و ارتقا،مابعد جدیدت،موجودہ صورتحال۔آخری اورپانچواں باب کو اردو تجریدی افسانہ کا تنقیدی جائزہ کانام دیا گیا ہے جس میں شامل موضوعات اس طرح ہیں تجریدی افسانہ میں کہانی پن ،موضوعات،پلاٹ،واقعہ نگاری،کردار نگاری،زماں و مکاں،اسلوب، ریاضی کا اسلوب۔ کتاب کے آخر میں حاصل مطالعہ،کتابیات اور رسائل کی تفصیلات کو شامل کیا گیا ہے۔
زیر نظر کتاب ’اردو میں تجریدی افسانہ ‘‘ میں ڈاکٹر آمنہ آفرین نے موضوعات کا جو انتخاب کیا ہے اس سے انداز ہوتا ہے کہ واقعی یہ قابل تعریف کارنامہ ہے، کارنامہ اس لیے کہا کہ پرانے موضوعات پر تحقیقی مواد تو وافر مقدار میں دستیاب ہو جائے گا لیکن جدید موضوعات کا انتخاب اور مواد کے حصول کی کوشش اور پھر مواد کی تدوین دراصل یہ وہ مراحل ہیں جن میں منجھا ہوا اسکالر ہی کامیاب ہو پاتا ہے ، ڈاکٹر آمنہ آفرین نے بھی ایک تحقیق کار کے طور پر اپنے موضوع سے متعلق برابر انصاف کیا ہے ۔ان کی تحقیق کاوشیں لائق تحسین و قابلِ ستائش ہیں۔
زیر نظر کتاب کا پہلا باب میں شامل مضمون تجریدیت کیا ہے اور اس کے معنی و مفہوم کے تعین کیلئے کس لغت میں کیا معنی دئے گئے اس کاتجزیہ ڈاکٹر آمنہ آفرین نے بہت خوب کیا ہے لغت ابجدی شماری کے حوالہ سے بیان کرتی ہے کہ تجریدی کے معنی ’’خیال و قیاس ‘‘ کے ہیں اور فیروز لغت کے حوالے سے تجریدی فن کی تعریف بیان کرتی ہیں کہ’’جدید مصوری اور مجسمہ سازی جس میں مصور اقلیدس شکلوں اور دوسری علامتوں کے ذریعہ اظہار خیا ل کرتا ہے‘‘آخر میں وہ نتیجہ کی طرف آتے ہوئے رقمطراز ہیں’’اردو اور انگریزی الفاظ کے ان معنوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تجرید یا تجریدیت کے لغوی معنی خیالی،قیاس یا برہنگی کے ہیں۔فن کار کا وہ خیال برہنہ جسے ابھی لفظوں کا لباس نہیں پہنایا گیا ہے۔ تجرید یا تجریدیت ہے۔‘‘
اس کتاب کے دوسرے باب’’ادب اور تجریدیت کا رشتہ ‘‘ میں ڈاکٹر آمنہ آفرین دونوں کے رشتوں کو بالکل واضح انداز میں بیان کیا ہے اور اپنی بات میں مضبوطی پیدا کرنے کیلئے انہوں نے مختلف کتابوں کے حوالے پیش کئے ہیں،وہ ادب اور تجریدیت کے رشتہ سے متعلق لکھتی ہیں کہ’’ادیب یا فن کار کے ذہن میں آنے والا پہلا خیال ہی تجرید ہے۔یعنی وہ تخیل جو کسی واقعہ یا کسی چیز سے متاثر ہونے کے بعد فنکار کے ذہن میں ابھر تا ہے۔جب تک فنکار ان خیالات کو اپنے شعور میں داخل کر کے ترتیب نہیں دیتا وہ تجریدہی کی شکل میں رہتے ہیں،ان کی شروعات ہی تجرید سے ہوتی ہے،ہر فن پارے کی پہلی صورت تجرید ہے۔‘‘
زیر نظر کتاب میں تجریدی مصوری سے لے کر تجریدی افسانہ نگاروں اور ان کے تجریدی افسانے اور ان افسانوں پر تنقید کر نے والے ناقدین پر اور اس رحجان کو فروغ دینے والے رسائل پربحث ملتی ہے اور یہاں تجریدی افسانوں کے حوالوں سے جن رسائل کے نام پیش کئے گئے ہیں ان میں شب خون،سوغات،اوراق،سطور،آہنگ،الفاظ کے نام شامل ہیں ان حوالوں میں انہوں نے عصر حاضر میں اردو ادب کے اہم ستون شمس الرحمن فاروقی صاحب کا بھی تذکرہ کیا ہے، اور جن افسانہ نگاروں کے نام اہم ہیں ان میں بلراج مینرا ور سریندر پرکاش ہیں۔
بہر حال انوکھے اور منفرد موضوع پر اس کتاب کی اشاعت اردو کے نئے موضوعات کے حوالے سے ایک محرک ثابت ہوگی،اردو اسکالرس کیلئے اس طرح کے موضوعات کا مطالعہ ان کے ذہنی وسعت کو فروغ دینے میں اہم ثابت ہوگا۔ میں اردو میں تجریدی افسانہ کی خالق ڈاکٹر آمنہ آفرین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید بھی ہے کرتاہوں کہ وہ اپنی محنت جستجو سے ادب کے حدود اور وسعتوں میں مزید اضافہ ضرورکریں گی،کتاب کے مجموعی جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اب تک اردو ادب کے جدیدرحجانات میں سے ایک رحجان تجریدیت پر کچھ زیادہ کام نہیں ہواتھا اور اس رحجان کو سمجھنے سے قارئین قاصر تھے وہ کمی اس کتاب سے پوری ہوسکتی ہے اور خاص کر ریسرچ اسکالروں کو اس جدید رحجان کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے بہت ہی سادہ اور واضح اسلوب میں لکھی گئی یہ کتاب ’’ اردو میں تجریدی افسانہ‘‘ میں مستند حوالوں کے ساتھ مدلل بحث کی گئی ہے جو ایک کامیاب محقق اور نقاد ہی کرسکتا ہے۔ کتاب میں پروف ریڈنگ کی کہیں کہیں غلطیاں در آئی ہیں اگر اس جانب توجہہ دی جاتی تو اور بھی بہتر ہوتا۔
اس کتاب کے ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ہیں ،280 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 300روپئے رکھی گئی ہے جو ہدی ٰبک ڈسٹری بیوٹرس ، پرانی حویلی،حیدرآباد،انجمن ترقی اردو ، اردو ہال حمایت نگر ،حیدرآباد سے خریدی جاسکتی ہے۔
Dr.Amina Afreen ۔ مصنفہ