بسمل شمسی کی نعتیہ شاعری
محمد خرم یاسین
ریسرچ سکالر ۔ فیصل آباد
موبائل : 923457818002+
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
محمد خان عر ف بسمل شمسی دورِحاضر کے ان اہم اور مشہور شعرا میں سے ہیں جو اپنی تمام زندگی شعر و ادب کی نذر کر چکے ہیں اور ان کی زندگی درحقیقت خدمت و فروغِ ادب سے ہی تعبیر ہے ۔وہ ان معدودے چند حیات شخصیات میں بھی شامل ہیں جنھوں نے نہ صرف اپنی آنکھوں کے سامنے پاکستان بنتے دیکھا اور اس کے ماضی کے امین رہے بل کہ حال کے شناسا اور مستقبل کے نباض بھی ہیں۔اس کے علاوہ ان کی زندگی کا ایک بڑاحوالہ لائل پور کاٹن ملز کے وہ مشاعرے ہیں جنھوں نے عالمی شہرت پائی اور لائلپور(موجودہ فیصل آباد) میں شعروادب کی اولین نرسری کا اعزازحاصل کیا ۔بسمل شمسی کی نعت کی ایک کتاب’’مرے اندر مدینہ بولتا ہے‘‘ منظرِ عام پر آچکی ہے جب کہ دو کتب کا مواد طباعت کے لیے تیار ہیں۔
آپ کا تعلق پٹیالہ کے ایک پاکباز گھرانے سے ہے اور۱۵ ستمبر ۱۹۳۵ء کو حافظ شمس الدین کے گھر بھارت کے صوبہ پنجاب (مشرقی ) کے شہر پٹیالہ میں آنکھ کھولی۔گو کہ بسمل شمسی کی مادری زبان پنجابی رہی ہے لیکن ان کی زبان کی روانی اور لہجے کی پختگی دیکھ کر ہر کوئی انہیں اہلِ زبان ہی سمجھتا ہے ۔ محمد خان نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ والدہ رحمت بی بی نے انھیں ناظرہ قرآنِ مجیدپڑھایا اور اسلام کے بنیاد ی ارکان و عقائد سے متعارف کروایا۔ اس کے بعد انھوں نے باقاعدہ مدرسے کی تعلیم کے لیے ثمانیہ پرائمری سکول کا رُخ کیا ۔ اس وقت پرائمری سکول درجہ چہارم تک محدود ہوتا تھا ۔ اس سکول میں مسلمان اور ہندودونوں مذاہب کے اساتذہ تدریس کے فرائض سر انجام دیا کرتے تھے جبکہ ہیڈ ماسٹر رحیم بخش مسلمان تھے۔محمد خان کو استاد امرسنگھ سے موسیقی کا شوق لگا۔ یہیں سے وہ آہستہ آہستہ شاعری کی جانب بڑھے اور یہی بات ہے کہ ان کی شاعری میں جا بجا موسیقیت اورغنائیت پائی جاتی ہے۔ محمد خان نے اپنی زندگی کی پہلی نظم درجہ چہارم میں کہہ دی تھی۔یہ الوداعی نظم تھی اور اسکے مطلع کا مصرعہ اولیٰ یہ تھا:
اب جا رہے ہیں ہم خوشی سے جا رہے ہیں ہم
یہ نظم سُن کر امر سنگھ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ان کے مسقبل میں شاعر بننے کی پیشنن گوئی کی جسے بعد میں وقت نے درست ثابت کیا۔
۱۹۵۷ء میں محمد خان کا خاندان ہجرت کر کے لائلپور(موجودہ فیصل آباد) آگیا اور ان کے والد مشہورِ زمانہ لائلپورکاٹن مل میں ملازم ہو گئے جبکہ وہ خود دو سال تک گل چمن ہوزری میں منشی کی نوکری کرتے رہے۔اس کے بعد انہوں نے بالترتیب ایوب ریسرچ اورمحکمہ برقیات پاکستان(موجودہ واپڈا) دونوں میں ملازمت کی اور کاروبارِ حیات کو گامزن کیا۔ اس کے علاوہ وہ عوام اخبارسے بھی منسلک رہے اور ۸۰ کی دہائی میں روزگار کے ذریعہ ثانی کے طور پروف ریڈر کی ملازمت کی ۔ ۱۹۶۶ء میں ان کی شادی جس خاتون سے ہوئی وہ دو رشتوں سے ان کی چچا زادی بھی لگتی تھیں اور ماموں زاد ی بھی ۔ لیکن نہ ہی تو بیگم اور نہ ہی اولاد میں سے کسی کو شاعری سے کبھی دلچسپی پیدا ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ محمد خاں کے بچوں میں سے کوئی بھی شاعر نہ بن سکا۔
محمد خان میں چوں کہ بچپن ہی سے ایک شاعر اور فنکار موجود تھا جو انھیں شاعری اور موسیقیت کی جانب کھینچتا تھا اس لیے انھیں لائلپور(موجودہ فیصل آباد )آنے اور با عزت روزگا رمیسر ہونے کے بعد اپنے شوق کی تکمیل کا ایک انجاناسا احساس مسلسل ستا نے لگا۔ اس سلسلے میں انہوں نے مشہورِ زمانہ لائلپور کاٹن ملزکلب میں شمولیت حا صل کی جو علم و ادب کی ترویج کے لیے نہ صرف پاکستا ن بھر میں مقبول تھا بلکہ اولین نر سریوں میں سے بھی تھا۔ یہاں وہ جمیل رامپوری صا حب کے پہلے اور با قاعدہ شاگر د ہوئے جو اعلیٰ درجے کے شاعر اور ڈرامہ نویس تھے۔ استادی شاگردی کا یہ سلسلہ ۲۶سال پر محیط رہااور آخرایک دن جمیل صا حب نے بسمل سے کہا کہ انہیں اب مزید اصلاح کی ضرورت نہیں ۔استادِ محترم سے سندِ قبولیت لینے کے بعد وہ ایک مکمل شاعر کے روپ میں ابھرے اور بڑے بڑے خوبصورت شعر کہنے شروع کیے۔انھوں نے احمد ندیم قاسمی ، قتیل شفائی،حفیظ جالندھری، احسان دانش، سید ضمیر جعفری،مظفر وارثی، حبیب جالب، فیض احمدجھنجانوی، طفیل ہوشیار پوری، ڈاکٹر ریاض مجید ، بابا ابیر ابوذری، کلیم عثمانی، عبدالحمید عدم، خاطر غزنوی، فارغ بخاری، عبدالعزیز خالق، شوق عرفانی، جمیل رامپوری، محمود ایاز سرحدی ، عبدالعزیزخالق ودیگر بڑے شعرا کرام کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھے۔محمد خاں کے احسان دانش کے ساتھ اچھے مراسم رہے ۔ حبیب جالب ، بابا ابیر ابو ذری اورشوق عرفانی ان کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔ جب کہ فیصل آباد کے ادبی گہوارے میں ان کی رفاقت منظور احمد منظور، پروفیسر شور علیگ(ڈاکٹر ریاض مجیدکے استادِ محترم )،خلیق قریشی، صابر ایوبی، نایاب فاروقی، احمد حسین عارف، ڈاکٹر عبدالواحد نقیب، سلیم بیتاب، فیض جھنجانوی، حبیب العیشی، کامل دہلوی، ڈاکٹر ریاض مجید، علامہ عیش فیروز پوری، مزاق العیشی،پروفیسر ڈاکٹر احسن زیدی، پروفیسر انور محمود خالد، نواب بے چین کانپوری، ندرت امروہوی،نصرت صدیقی، ناصر کمال، فیروز نظر،شفاعت احمد شفاعت و دیگر شامل ہیں۔
بسمل کی شاعری کی اصناف میں دلچسپی ہمیشہ سے غزل میں رہی ۔ محمد خان کا غزل سے نعت کی طرف سفر کوئی طویل داستان نہیں بل کہ اس کا سبب ایک صاحبِ علم و بصیرت شخص ڈاکٹر پروفیسر علی محمد چوہدری ہیں جنہیں ان کے پیرو مرشد کی حیثیت بھی حاصل ہے ۔محمد خاں چوں کہ خود صاحبِ علم شخص تھے اس لیے پروفیسر علی محمد چوہدری جیسے پڑھے لکھے صاحبِ طریقت و شریعت کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مزاج میں صوفی منشی چوں کہ والد کی جانب سے ملی تھی اس لیے روحانیت کی منازل طے کرنے میں زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی ۔ دل میں عشق مصطفی ﷺ موجزن ہوا تو وہ غزل کے میدان کو خدا حافظ کہہ کر نعت کے میدان میں آگئے۔ ان کی نعتوں کی پہلی کتاب’’ میرے اندر مدینہ بولتا ہے‘‘کی تقریبِ رونمائی ۲۰۱۳ء میں ہوئی ۔
بسمل شمسی کی نعتیہ کتاب ’’مرے اندرمدینہ بولتاہے‘‘کی تقریظ عصرِ حاضرکے ممتازعالمِ دین ڈاکٹرطاہرالقادری نے تحریر کی جوان کے بارے میں اس طرح سے رقمطرا ز ہیں:
’’زیرِ نظر منظور مجمو عہ ’’مرے اندر مدینہ بولتا ہے‘‘کے نعتیہ کلام کے خالق محترم بسمل ؔ شمسی نے بھی سرخیل عاشقانِ رسول ﷺ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی ہم نوائی میں دل کی دھڑکنوں میں سمائی ہوئی اسی عاشقانہ آرزو اور تمنا کا شعوری اظہار بزبانِ شعر کیا ہے۔ ان کے سارے نعتیہ کلام میں اسی تمنا کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ وہ اپنے دل کے آنگن میں جھانک کر جذبِ دروں کی اسی کیفیت کو یوں اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں کہ ان کے قلب و باطن میںیہ تصور جاگزیں ہوجاتا ہے جس کا اظہار وہ اسی طرح کرتے ہیں:
میں جب بھی چاہوں دیکھوں بسمل ؔ
مرے دل کا آنگن مدینہ مدینہ
بسملؔ شمسی کے اس مختصر نعتیہ مجمو عے کی محبت مدینہ منورہ کی خوشبو سے معطر نعتیہ شاعر ی کا خوبصورت پیرایہ اظہار کہنا چاہیے۔ اس کے ہر شعر میں نوائے شوق کی کارفرمائی اپنے پورے آب و تاب سے نظر آتی ہے ۔
بسمل شمسی کی کتاب ’’مرے اندر مدینہ بولتا ہے ‘‘کے لیے ریاض احمد قادری (صدارتی ایوارڈ یافتہ)کے مضمون کا تراشہ ملا حظہ کیجیے :
بسمل شمسی شہر فر خندہ نہاد فیصل آبا د کے بزرگ اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ ان کی ساری عمر پرورش لوح و قلم میں گزری ہے ۔ بسمل شمسی کی شہرت بزم آرائی اور مجلس آرائی کے حوالے سے بھی رہی ہے وہ اپنے دور جوانی میں شہر میں ہونے والے تمام مشاعروں کے نقیب محفل ہوتے تھے۔ ان کا ترنم بھی خاصے کی چیز ہے ۔ ملک بھر میں مترنم پڑھنے والے شعرا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آج بھی ان کی خوش گلوئی اور ترنم ضرب المثل ہیں۔ جناب بسمل شمسی غزل سے نعت کی طرف آئے تو ایک خاص تقدس اور عقیدت ساتھ لائے۔ اب وہ نعت کہتے بھی ہیں اور اپنے مخصوص ترنم میں پڑھتے بھی ہیں، ان کے ہاں محبتِ رسول ﷺ اور عشق و عقیدت کے جذبات فراواں ہیں۔
جناب بسمل شمسی نعت برائے نعت نہیں کہتے ان کے نعتِ رسولِ مقبول ﷺ حضرت محمد ﷺ کے معجزات بیان کرنے، آپ ؐ کی سیرت پاک کی جھلکیاں دکھانے اور آپؐ کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کرنے کا نام ہے۔ بسمل شمسی کی بہت سی نعتو ں میں معجزات مصطفیﷺ کا ذکر بڑی خصوصیت سے ملتا ہے۔ ان کے ان اشعار میں معجزات کا ذکر ملا حظہ فرمائیں:
مرے رہنما نے کیا کیا نہیں معجزے دکھائے
کہیں سنگ ریزے بولے ، کہیں پیڑ چل کے آئے
*
دو اور معجزے بھی میں سپرد نعت کردوں
کبھی چاند کا ٹ ڈالا کبھی شمس مو ڑ لائے
*
وہ اعجازِ خاک پا ان کا
کور چشموں نے روشنی پائی
جناب بسمل شمسی معجزات کے ساتھ ساتھ تعلیماتِ مصطفی ﷺ کا ذکر بھی بڑے خاص پیرائے میں بیان کرتے ہیں جب وہ یہ بتاتے ہیں :
حضور کا مقصد بعثت گم کردہ راہ انسانیت کی بھلائی اور رہنما ئی تھا
حدیثِ مصطفی پر میں تقدس نبیﷺ کا نقشِ پا بھی بولتا تھا
جناب بسمل شمسی کے ہاں عشقِ رسالت مآب ﷺ جذبوں کی فراوانی کی صورت رچ بس گیا ہے ۔ ان کے لوں لوں اور انگ انگ میں عشقِ رسولﷺ کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمند ربولتا اور موج اڑاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے ہر بنِ مو سے اب مدینہ مدینی کی صداآتی ہے ۔ ان کے جذباتِ عقیدت کو انھوں نے نہایت محبت اور عقیدت سے اپنی نعتوں میں رقم کیا ہے ۔
ڈھونڈتے پھرتے ہو بسمل ؔ کو کہاں گلیوں میں
وہ سرِ شام مدینے میں ہوا کرتا ہے
*
دے کے بسملؔ کو شعورِ نعت پاک
بخش دی معراجِ فن شاہِ زمن ﷺ
*
بذاتِ خود تو میں کچھ بھی نہیں ہوں
مرے اندر مدینہ بولتا ہے
میں یادِ شاہ دو عالم میں مست رہتا ہوں
وہ میرے دل کو مدینہ بنائے رہتے ہیں
حضورنبی کریمﷺ اللہ تعالیٰ کے تمام خزانوں کے مالک ہیں وہ جس کو چاہیں جب چاہیں اور جسے جیسے چاہیں نواز دیں یہ سب ان کا کرم ہے اور ان کی بندہ پروری ہے۔ حضور ﷺ کی انھی صفات کا ذکر بسمل شمسی کے ہاں ان الفاظ میں ملتا ہے ۔
جب وہ چاہیں نواز دیں مجھ کو
دل کا آنگن مرے حضورؐ کا ہے
*
جس میں ہر گز کمی نہیں آئی
ایسا مخزن مرے حضور کا ہے
*
پیکرِ حسنِ وفا میرے نبی ﷺ
منبعِ جو د و سخا میرے نبی ﷺ
مناجات و استمداد و استغاثہ جدید نعت کے اہم مو ضوعا ت ہیں اس میں شاعر اپنے اپنے ملک کے اور اپنی قوم کے دگر گوں حالات اور ابتر قسمت کا ذکر کرتاہے اور حضور نبی کریم ﷺ سے ان کا علاج اور درماں مانگتا ہے ۔ آج کی نعت میں امت مسلمہ کی زبوں حالی اور بے عملی اور بدقسمتی کا ذکر ایک مستقل مو ضوع کے طور پر شامل ہوگیا ہے۔ جناب بسمل شمسی کے ہاں بھی ایسے بے شمار اشعار ملتے ہیں جن میں فریاد و استمداد و استغاثہ بحضور سرورِ کونین ﷺ ملتا ہے ۔
یا رسولِ خدا احمدِ مجتبیٰ ایک نظرِ کرم ہم کو درکار ہے
امت مسلمہ متحد جو نہیں اس لئے زندگی ہم پہ دشوار ہے
*
زخمِ دل آپﷺ ہی کو دکھائیں گے ہم
آپﷺ ہی کو ہر اک غم سنائیں گے ہم
*
آپ ﷺ کے بن ہمارا شہہ دو جہاں
کون ہے آسر ا کون ہے
نعت لکھنے کی توفیق ملنے پر جہاں وہ رب کریم کا شکر ادا کرتے ہیں وہاں مزید نعتیں لکھنے کی ہمت اور توفیق بھی ما نگتے ہیں ۔ ان کی نعتوں میں دعائیہ رنگ بھی بہت نمایاں ہے اپنے لئے بھی دعائیں مانگتے ہیں امت مسلمہ کے لئے بھی دعائیں مانگتے ہیں۔
بسمل شمسی کی نعت میں جد ت بھی ہے ، ندرت بھی اور ترنم بھی، لے بھی ہے ،موسیقیت بھی ہے دھن بھی ہے۔ غرض اس میں ہر وہ خوبی ہے جو موجودہ دور کی جدید نعت میں ہونی ضروری ہوتی ہے ۔بسمل شمسی کی نعت میں ایک سلیقہ ہے ، ایک قرینہ ہے ، ایک ادب ہے ۔ انھوں نے نہائیت عشق و احترام اور عقیدت و محبت سے نعت کہی ہے ۔
غزل اور نظم کی پہچان بسمل
ہے حمد و نعت میں ذیشان بسمل
ثنائے مصطفی کیا خوب لکھی
ہوا خوش تجھ سے رب رحمان بسمل
عقیدت کے نگینوں سے مزین
تری ہر نعت کا عنوان بسمل
یہ مجموعہ ثنائے مصطفی کا
تری بخشش کا ہے سامان بسمل
بسمل شمسی کے بارے میں جن ناقدین نے بہت کچھ لکھا اور کہا ہے ان میں حکیمِ سخن، حکیم محمد رمضان اطہر بھی شامل ہیں جو خود اعلیٰ درجے کے معمر شاعر ہیں اوران پر ایم اے کا مقا لہ لکھا جا چکا ہے۔ وہ بسمل شمسی کوجس نظر سے دیکھتے ہیں اس کا ا ظہا ر وہ اپنے ان ا شعا ر میں کرتے نظر آتے ہیں:
یہ شہرِ نعت کا ممتاز شاعر
ہے طیب فکر دانشور مدبر
قلم کی آبرو کا پاسباں ہے
ہے بسمل گو مگر جذبہ جواں ہے
عصرِ حاضر میں جدید لب و لہجہ کے شاعر اور بسمل شمسی کے شاگردِ رشیدسرور خان سرور نے بھی ان الفاظ میں اپنے استادِ محترم کو نظرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔
کروں میں کیسے بیاں عظمتِ بسمل شمسی
ہر ایک پر ہے عیاں عظمتِ بسمل شمسی
غزل کو چھوڑ کر آئے وہ نعت کی جانب
قتیلِ شہرِ بتاں عظمتِ بسمل شمسی
بسمل شمسی نے جب غزل کا میدان چھوڑ کر نعت کا میدان اپنایا تو اس میں بھی وہ اپنے غزلیہ تجربات سے صرفِ نظر نہ کر سکے بل کہ یہ رنگ ان کی نعتیہ شاعری میں بھی جھلکنے لگا۔ اگر ان کے کلام کو نعت نگاری کے پیمانے پر جانچا جائے تو وہ جوہرجو بڑے نعت گو شعرا جن میں احمد رضا خان بریلوی سے حفیظ تائب تک شامل ہیں ان میں بھی نظر آتے ہیں۔ اگر نعت میں منظر نگاری کے حوالے سے بسمل کی نعتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی جدت ا و ر تازگی دکھائی دیتی ہے ۔تمام مناظر صاف ستھرے اور نئے نئے دکھائی دیتے ہیں ۔کہیں پر یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ شاعر خود ان مناظر میں گم ہو چکا ہواور اپنے قلم سے یہ تمام مناظرتراش کے قاری کے سپرد کر رہا ہو ۔ نمونہ ملا حظہ ہو:
ہزاروں قدسیوں کا آگے پیچھے ان کے پہرہ تھا
بظاہر دیکھنے میں کملی والا تنہا رہتا تھا
*
بڑے چرچے تھے د نیا میں سنا ہے حسنِ یوسف ؑ کے
جمالِ مصطفیؐ کے نور کا وہ ایک عشرہ تھا
*
عالمِ شش جہات میں آپکے دم سے ضیاء
مظہرِ نورِ حق نما صلّ وسَلّم دَائما
موجدِ امن و آشتی نیبوں میں سب سے منفرد
میرے محمد مصطفی ﷺ صلّ وسَلّم دَائما
*
طیبہ کی گلی ہے کہ یہ گلزارِ نبی ﷺ ہے
ہر پھول کی پیشانی پہ انوارِ نبی ﷺ ہے
شاعری میں علم العروض ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور بحور ہوں یا اوزان سب اسی کے تابع آتے ہیں۔ بسمل شمسی کی شاعری کا بغور تجزیہ کیا جائے تو ان کی عروض پر گرفت خاصی پختہ دکھائی دیتی ہے ۔وہ چھوٹی اور بڑی دونوں قسم کی بحورمیں شاعری کرتے ہیں لیکن اس سب کے درمیان بین السطور کا ربط بھی ٹوٹنے نہیں پاتا۔بڑی بحور میں نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
سائباں نور کا دل پہ چھانے لگا لطف خلوت کا جلوت میں آنے لگا
لب پہ جاری ہوا جب یہ حرفِ ثنا ذکرِ خیرالوریٰ روشنی روشنی
*
زخمِ دل آپؐ ہی کو دکھائیں گے ہم ،آپ ؐہی کو ہر اک غم سنائیں گے ہم
آپؐ کے بن ہمارا شہہ دوجہاں کون ہے آسرا کون غم خوار ہے
*
چشمِ تسکین و رحمت ادھر کیجیے، یا حبیبِ خدا اب مدد کیجیے
ہجرِ طیبہ میں جینا ہوا ہے کٹھن سانس دو دھار کی جیسے تلوار ہے
چھوٹی بڑی دونوں بحورمیں نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
جب سے اُن کی نظر ہوگئی
زندگی معتبر ہوگئی
*
ذکرِ خیرالانام ہوجائے
قصۂ غم تمام ہوجائے
م ح م د ہو لب پر
زندگانی کی شام ہوجائے
مرے آقا محمد مصطفی ﷺ ہیں
وہی خیرالبشر خیرالوریٰ ہیں
*
ان کے نعتیہ کلام میں کئی جگہ پر سوالیہ نشانات بھی ملتے ہیں لیکن یہ سوالات بھی اکثر حسنِ مناظرت سے جڑے ہوئے اور دعوتِ فکر ودانش دیتے نظر آتے ہیں۔
کہو کیسا لگا دل کو مدینہ دیکھنے والو
زمیں کے دوش پر عرشِ معلی دیکھنے والو
تراکیب کا استعمال بسمل شمسی کا خاص ہنر ہے لیکن کئی جگہوں پر وہ تراکیب کے ساتھ ساتھ فارسی و عربی الفاظ کو بھی بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی نعت میں جدید و قدیم لہجے کی آمیزش دکھائی دیتی ہے ۔نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
زِخستہ عاجز و مسکین بسملؔ
کرم بر حالِ ما آقاؐ ہمارے
*
جانِ من ایمانِ من شاہِ زمن ﷺ
ہیں مرا روئے سخن شاہِ زمن ﷺ
*
شافعِ روزِ جزا کا کوئی بھی ثانی نہیں
آپ ﷺ ہیں دُرِّ ثمیں، دُرِّ ثمیں، دُرِّ ثمیں
بسمل کے سلام (بحضور سرورِ کائنات اورشہدائے کربلا ) بھی ایک امتیازی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں بھی انھوں نے نہائیت مشاقی سے کام لیا ہے۔ اس حوالے سے کوثر علیمی کے ایک طویل مضمون کا کچھ حصہ ذیل میں دیا جا رہا ہے:
’’بسمل شمسی نہ صرف ایک سچے عاشقِ رسولؐ ہیں بل کہ ایک سچے محبِ آلِ رسولؐ بھی ہیں۔وہ خاص طور پر کربلا والوں کے حضور جب بھی کوئی سلام، منقبت یا مرثیہ پیش کر تے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا کہ قلم کو کوثر و تسنیم میں دھو کر تحریر کیا ہے۔ دشمنانِ خدا و رسولؐ و علیؓ و بتولؓ و حسنینؓ کریمین سے برملا نفرین کرتے ہیں۔ سلام امام عالی مقام جناب حسینؓ کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ ‘‘
میرا خلوص میری محبت حسینیت
میرے لیے ہے باعثِ عظمت حسینیت
بسمل شمسی کو بلا شبہ عہدِ حا ضر کے اہم نعت گو شعرا میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اس اہم اور مقبول صنفِ سخن میں طبع آزمائی کر کے اپنا لوہا منوایا ہے بلکہ اس صنفِ سخن کو حتی الامکان وسعت بھی بخشی ہے۔ خدا ان کے درجات بلند فر مائے اور ان کی زندگی میں وسعت بخشے ۔آمین
Khurram Yaseen