آئینۂ ایام :دوسری قسط
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل : afarruqgmail.com
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سوانح کے ضمن میں قارئین کا یہ خیال ہے کہ اس میں خود ستائی اور دروغ گوئی کے عناصر کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ شاید یہ بات درست بھی ہو۔ معاشرہ میں خود کو برتر ثابت کرنے کا رجحان، اناپسندی اور تکبر کی حد تک دیکھا بھی گیا ہے۔ میری نظر میں سوانح کو ذات سے زیادہ اطراف پر مرکوز ہونا چاہیئے۔ اظہارِ ذات کی خواہش تو فطرت ہے۔ ہر ذرہ چاہتا ہے کہ اس کے اندر کی کائنات بازیافت کی جائے۔ اس کے اندر بھی فطرت کا سماں رقص کرے ہے۔ اس کے بھی جلوے ہیں، اس کی بھی تابانی ہے۔ جو ’ہے‘ وہی بہت کچھ ہے۔ تفوقِ ذات تو خود سری بھی ہے ، احساسِ کمتری کی علامت بھی۔ لاکھ خوش رنگ سہی لیکن اس پیرہن سے کیا حاصل جہاں قبا چست نہ ہو، موزوں نہ ہو۔ لباس میں پیوند عیب نہیں ، عریانئ تن کو ڈھانکنے کے لیے پیوند بھی خوب وسیلہ ہے۔ ٹاٹ میں ٹاٹ ہی کا پیوندتو ہر بینا کو بھی دکھائی دے جاتا ہے لیکن مخمل کا پیوند تو اندھے کو بھی دکھائی دیتا ہے۔ روح کے لیے تو لباسِ تہذیب کافی ہے۔ یہ جو ہو جائے تو عریانئ تن کچھ بھی نہیں۔ ایسے میں چھپانا کیا اور دکھانا کیا۔
ہرگرزتا ہوا لمحہ ماضی سے پیوست ہوا چاہتا ہے اور مستقبل‘ حال کی دہلیز پر دستک سی دیئے جاتا ہے۔ یہی وقت کا تسلسل ہے۔ یہ درست ہے کہ گزرا ہوا پَل لوٹایا نہیں جاسکتا لیکن یہ بھی درست ہے کہ تاریخ بھیس بدل کر اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ انسان ماضی سے روشنی طلب ہے۔اس روشنی تک رسائی کے لیے راوی اگر مخلص ، بے ریا، امین اور دیانت دار ہو تو تاریخ بھی روشن روشن دکھائی دیتی ہے لیکن اگر راوی ‘ ریا کار، مصلحت کوش، منعفتِ ذاتی کا شکار ہو، قول و قرار میں تضاد ہو تو تاریخ آلودہ ہوکر رہ جاتی ہے، پھر اس کے بعد تو
بوئے گل، نالۂ دل ، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
یہ چند سطور جو میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں، ان میں ماضی کے راوی خوش اعتبار بھی ہیں ‘ بلند کردار بھی، ان کی صداقت ان کے لہجے اور عمل سے یوں آشکار ہے کہ ان کے قول و عمل میں کبھی تضادنہیں پایا گیا۔ وہ غربت و فلاکت میں بھی مطمئن اور آسودہ تھے۔ حق و باطل میں تمیز کرنا ان کے لیے کبھی دشوار نہیں رہا۔ وہ حق آشنا اور باطل بیزار تھے، اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ اپنے بدن پر چہرہ رکھتے تھے۔ چہروں پر نقاب نہیں۔ زندگی کے بائیس سال میں اپنی دادی کے ساتھ رہا۔ 42سال والد کے زیر سایہ گزارے۔ تین سال کی عمر سے شفیق اساتذہ نے میری ذہنی تربیت کی۔ ماحول کی سچائیاں اور محبتیں مجھے اپنے حلقے میں لئے لئے رہیں۔ بزرگوں نے اپنی یادوں کے بیش بہا خزانے میرے قبضہ و تصرف میں دیدیے۔ حیدرآباد کی گِلِ محبت سے میرا خمیر اٹھا۔ اور یہ نغمہ میرے وجود سے ابل پڑا ’’اٹھے ہیں جھومتے ہوئے خاکِ دکن سے ہم۔‘‘
میں نے اپنی زندگی کے جن سات برسوں کا تذکرہ کیا ہے، اس کی اپنی ایک جداگانہ تاریخ ہے، لیکن اس تاریخ کا بھی ایک ماضی ہے۔ 1943 تک نظامِ دکن میرعثمان علی خاں نے حیدرآباد کو ایک ترقی یافتہ ملک کی سی حیثیت دے دی تھی۔ اگرچہ کہ یہ ہندوستان ہی میں ایک ریاست تھی لیکن اس کاقانون ، عدالتیں، محکمہ جاتی انتظام و انصرام ، دفاترِ معتمدی، مشاورتی کونسل ، ڈاک، تار، عدالتی رسوم، ذرائع حمل و نقل، تعلیمی انتظام، بلدیہ، حفظانِ صحت، عصری آلات سے لیس دواخانے، پختہ سڑکیں، شاہراہیں، مسافر خانے، ذرائع آبپاشی، ذرائع آب رسانی،بجلی ، کروڑ گری، بندوبست، اصلاحات ذرعی اراضی، انتظامِ مواضعات، صنعتیں، سب کچھ مکمل تھا۔ میں اپنے تئیں اسے ایک ہی عہد کا کارنامہ کہنے کے بجائے اسے حیدرآباد کا نصف النَّھار کہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ تو دراصل تقریباً 90برس پہلے کی تخم ریزی کی ثمر آوری تھی۔
1853سے 1857کی پہلی جنگِ آزادی ،کہنے کو تو صرف چار برس کا وقفہ ہے۔ ان چار برسوں میں ریاستِ حیدرآباد کا قیمتی علاقہ برار جس کی حفاظت کے لیے انگریزی فوج متعین کی گئی ، اسی فوج کی تنخواہ کے عوض انگریزوں نے ہڑپ لیا۔ ریاست کا بال بال قرض سے بندھا ہوا تھا۔ عرب، روہیلے اور پٹھان جاگیروں پر قابض تھے۔ بادشاہ سلامت کے شخصی خزانے کے زیورات بھی برطانیہ میں مکفول تھے۔ ریاست کے دیوان سراج الملک ‘برار کی ضبطی کی تاب نہ لاکر تیسرے دن جاں بحق ہو چکے تھے۔ ریاست کو پھر سے ایک نئے دیوان کی ضرورت تھی۔ میرے خیال میں حیدرآباد کی تیرہ بختی اپنے آخری لمحوں میں سسک رہی تھی اور شاید نئی سحر کے انتظار میں تھی کہ آثارِ طلوع کے ساتھ خوش قسمتی حیدرآباد کے دروازے پر دستک دے۔ یہ یوں اچانک نہیں ہو جاتا، تیرہ شبی اپنے آخری لمحوں تک بھی قوت آزما ہوتی ہے،پھر نئی سحر اس کے دامن میں اپنا لہو اُگل کر سرخ سویرے کی روشنی بکھیر دیتی ہے۔
شاہی محل ہوں یا امراء کی دیوڑھیاں، محلاتی نظام ہندوستان بھر میں کم و بیش مشترک رہا۔ ایک ریاست اگر بیرون محل ہوتی ہے تو کم و بیش ایک ریاست محل و محل سرا میں پائی جاتی ہے۔ ریاستوں میں اگر حصولِ اقتدار کے لیے سازشیں رچائی جاتی ہیں تو محلاتی سازشوں کا جال بھی زلفِ خم شدہ سے شروع ہو کر گیسوئے برہم پر تمام ہوتا ہے۔ حیدرآباد بھی کچھ اس سے مبراء نہیں تھا۔ البتہ شمال کی طرح یہاں خواجہ سراؤں کا رواج نہیں رہا۔ اس کے بجائے یہاں کے محلاتی امور میں مامائیں بڑی دخیل رہی ہیں۔ چنانچہ ماما برونی، ماما چمپا ، ماما جمیلہ ، ماما بختاور نہ صرف آج تک مشہور ہیں بلکہ ماما جمیلہ کی دیوڑھی اور ماما بختاور کا ہاٹ آج بھی مشہورِ عام ہے۔ تمکین کا ظمی اور کرامت علی خاں نے ’’دورِ آصفیہ کی مامائیں ‘‘ کے عنوان سے تفصیلی تذکرے میں یہ بات بتلائی ہے کہ یہ مامائیں نہ صرف پڑھی لکھی بلکہ اتنی ذہین اور فطین ہوا کرتی تھیں کہ اگر محل کے اندر ان کا طوطی بولتا تھا تو قاضئ شریعت پناہ کی عدالت میں بھی یہ مقدمہ کی وکیل ہوا کرتی تھیں اور بیشتر شرع شریف کے حوالوں سے اپنے مقدمے کو ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑا کرتی تھیں۔
اس وقت کا ایک منظر میری کتاب ’’مرقعِ حیدرآباد‘‘ کے ایک ورق میں ملاحظہ فرمائیں۔
’’ ناصر الدولہ کے مزاج میں تین آدمیوں کا بڑا رسوخ تھا۔ ان میں برہان الدین سرِ فہرست تھا۔ اس کے بعد ماما جمیلہ اور آخر میں لالہ بہادر دفتر دار‘ ان کے بہت قریب رہا۔ برہان الدین تو اتنا منہ چڑھا تھا کہ اگر دیوانِ ریاست کو بھی بادشاہ سے ملاقات کرنی ہوتی تو بغیر برہان الدین کے ممکن نہ تھا۔ ایک ایسے دور میں جب کہ ریاست میں دیوان کی تلاش جاری تھی، شمس الامراء کے فرزند عمدۃ الملک بھی امید وار تھے۔ انگریزوں کی ترجیح بالمُکند تھی۔دربار میں بھی کئی ایسے امیدوار تھے جو اس منصبِ جلیلہ کے خواہش مند تھے لیکن وہ بھی ان تینوں کی خوشنودی کے بغیر کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے۔
ان تینوں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا جس میں ہر ایک کو اپنا اپنا کردارادا کرنا تھا۔ چنانچہ برہان الدین نے پہل کی ۔ ایک شام جب گیسوئے شب سے نکہتِ گل چھیڑ کر رہی تھی، جام و مینا رقص کے لیے تیار تھے، ناصر الدولہ کی آنکھیں خمارطلبی کا تقاضہ کر رہی تھیں۔ شعلہ رخ ، شعلہ بدن کنیز نے حاضر ہونے کی اجازت چاہی ۔ ناصرالدولہ دیوان پر نیم دراز تھے۔ وہ روبرو ہوئی، جھک کر کورنش بجا لائی، مرصع کشتی میں صراحی اور بلوریں جام سجا کر سیدھے جو ہوئی تو گویا شاخِ گل جھوم کر سیدھی ہوئی۔ ناصر الدولہ نے ایک نظر جام و مینا پر ڈالی، پھر نظر اٹھا کر مجسّم میکدہ کو دیکھا ۔ شاید ان کی طبیعت دو آتشہ چاہتی تھی۔ نگاہوں کو پہچان کر وہ مجرا بجا لائی اور الٹے قدم لوٹ گئی لیکن ساتھ ہی پیام لے گئی ۔ انتظار اور ابھی ، اور ابھی، اور ابھی۔ ایسے میں برہان الدین اجازت طلب ہوا۔ ناصر الدولہ نے جنبشِ ابرو سے اجازت مرحمت فرمائی۔ تسلیمات عرض کر کے قدموں میں جھکا اور دونوں پیر چھو کر ہاتھ اپنی آنکھوں سے مس کر لئے۔ ناصر الدولہ نے صراحی کی طرف دیکھا تو جام بھر کر خدمت میں پیش کیا اور قدموں میں بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ پاؤں دابنے لگا، پھر کہا:
’’حضورِ والا کا اقبال بلند ہو۔ ظلِ الٰہی کا سایہ تا قیامِ شمس و قمر رعایا پر قائم رہے۔ حکومت چار سو پھیلے ۔ غلام جب حضور کے قدموں میں بیٹھ جاتا ہے تو اسے ہفت اقلیم ہیچ نظر آتے ہیں۔‘‘
ناصرالدولہ زیرِ لب مسکرائے ، پھر برہان الدین نے کہا’’ حضور کے ان قدموں پر میرے ماں باپ فدا، میں ، میرا گھر بار صدقے ، میری اولاد تصدق، سرکارکی غلام نوازی نے مجھے جس دولت و عزت سے نوازا ہے، میں کبھی اس لائق نہ تھا، لیکن سرکار کے الطاف و کرم نے ذرہ کو آفتاب کر دیا۔ نا چیز کی کیا مجال کہ امورِ سلطنت میں کچھ عرض کر سکے۔ سرکار دانائے جہاں، فریسِ امورِ جہانبانی، زیبِ تاجِ سلطانی ہیں۔ اگر جاں بخشی ہو تو عرض کروں کہ دیوان کے انتخاب کا مسئلہ حضورِ والا کی سرگرانی کا باعث ہو رہا ہے۔ یقیناًسرکارِ والا تبار کے ذہنِ عالی میں اس کا حل ہوگا کہ وہ کون خوش نصیب ہے جس کے سرپر حضور اپنی جوتی رکھدیں اور وہ دیوان بن کر اترائے گا۔ ‘‘
ناصر الدولہ کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی ۔ انہوں نے کہا: ’’برہان الدین ! تم ہمارے نمک خوار بھی ہو، وفادار بھی۔ کیا خیال ہے اگر ہم تمہیں دیوان مقرر کر دیں؟
برہان الدین نے بہت سی برساتیں دیکھی تھیں ۔ اس نے فوراً کہا:
’’ توبہ ۔ توبہ ! میری زندگی اور میری سوچ کی آخری حد بس سرکار کے قدمِ مبارک ہیں۔ ان کو پانے کے بعد بھلا کچھ اور پانے کی تمنا کروں؟ غلام اپنی حد کو پہچانتا ہے۔‘‘
’’تو پھر کون ؟ ‘‘ ناصر الدولہ نے خمار سے بو جھل آواز میں پوچھا۔
برہان الدین اپنا کردار ادا کر چکا تھا۔ وہ قدموں سے اٹھا تو شعلہ رخ داخل ہوئی۔ ناصر الدولہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس نے ہاتھ تھام لیا۔ ایک طرف آگ لگی تھی ، دوسری طرف شعلہ تھا، ایسے میں چراغ خود بخود خاموش ہوگئے ۔
برہان الدین جو قدموں سے اٹھا تو اس نے ماما جمیلہ اور لالہ بہادر سے ساری روداد بیان کردی اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ ’’حضورِ پُر نور تو مجھے ہی دیوانی عطا کیا چاہتے تھے، لیکن میں صاف دامن بچا گیا۔‘‘
ماماجمیلہ نے ہلکے سے تبسم کے ساتھ ایک نگاہِ غلط انداز ڈالی لیکن کہا کچھ نہیں۔
دوچار دن بعد آفتابہ بدلنے کے بہانے ماما جمیلہ ناصر الدولہ کے دیوانِ خاص کے دروازے پر تسلیم کے لیے جھک گئی ۔ گویا اجازت طلب ہو۔ ناصر الدولہ کو خیال ہوا ‘ شاید بیگم صاحبہ نے کچھ کہلوایا ہو۔ جنبشِ ابرو سے باریابی کی اجازت بخشی۔ ماما جمیلہ روبرو ہوئی اور سینے پر ہاتھ رکھ کر تسلیم میں خم ہو گئی۔ ناصر الدولہ نے دریافت کیا : ’’بیگم نے کچھ کہلوایا ہے؟‘‘
جمیلہ نے کہا: ’’ نہیں سرکار ! جانے کس کی نظر لگ گئی تھی، صبح سے طبیعت میں گرانی سی محسوس فرما رہی تھیں تو میں نے صدقہ اتروا کر تقسیم کروادیا تو کچھ بحال ہوئیں۔مسہری پر آرام فرما رہی تھیں تو میں نے چمیلی کا تیل سر میں داب دیا۔ شاید ذرا سی راحت ہو گئی ہو۔ آرا م سے آنکھ لگ گئی ۔ میرا جی سنبھل گیا۔ سوچا حضور کی قدم بوسی کا شرف حاصل کرلوں۔ شاید کوئی خدمت میرے لائق نکل آئے۔ دنیا تو آپ کی جوتیوں کے تصدق میں سنور گئی ، شاید قدموں کے طفیل عاقبت بھی سنور جائے۔‘‘
ناصر الدولہ مسکرائے ، ماما قدموں میں بیٹھ گئی اور پیر دابنے لگی۔ پیر دابتے دابتے کہا: ’’ حضور! ناگوارِ خاطر نہ ہو تو یہ کنیز اپنی ایک الجھن عرض کرے۔‘‘
ناصر الدولہ نے ایسے دیکھا گویا اجازت مرحمت ہوی۔ اس نے کہا: ’’ حضور کے فہم و فراست کا عشرِ عشیر بھی کسی کو میسر آجائے تو پیر زمین پر نہ لگیں ۔ کنیز یہ جاننے کی جسارت کر رہی ہے کہ کیا ماں باپ یا ان کے بزرگوں سے کوئی خطا ہو گئی ہو تو ان کی سزااولادوں کو ملتی ہے۔‘‘
ناصر الدولہ نے کہا:’’ نہیں! خداوند تعالیٰ ایک کی جزاء تو دوسرے کو دے سکتا ہے کہ وہ کریم ہے لیکن سزا نہیں دے سکتا اسلئے کہ وہ عادل ہے۔‘‘ پھر خود ہی رک کر کہا:’’ لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو ۔ کیا تمہارا اشارہ کسی خاص شخصیت کی طرف ہے؟‘‘
جمیلہ نے کہا: ’’ مزاجِ عالی، مزاجِ نوشیروان ہے۔خاندانِ میر عالم حضور کے گھرانے کاقدیم نمک خوار ہے۔ یہ تو سرکار ہی بہتر جانتے ہیں کہ حضور کے مزاج پر کیا بات گراں گذر گئی ۔ ورنہ دیوانی کا عہدہ خلدآشیانی ، جنت مکانی اعلیٰ حضرت نظام الملک آصف جاہ ثانی کے دور میں بھی ان کے پاس رہا ہے۔ ‘‘
ناصرالدولہ کی پیشانی پر بل پڑگئے۔’’ تمہارا مطلب مشیر الملک اور سراج الملک کی اولادوں سے ہے، جن کے ہاتھوں برار جیسا علاقہ ہمارے قبضے سے نکل کر انگریزوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ اب کیا ہم یہ محل بھی انگریزوں کے حوالے کردیں؟۔‘‘
جمیلہ نے کہا: ’’ خدانخواستہ ۔دشمنوں کے کان بہرے۔ کوئی ہمیشہ کے لیے گیا ہے۔ چند دن کی بات ہے، ابھی محصول آجائیں گے تو خیر سے محل سرا میں چراغاں ہوگا۔ رعایا میں خیرات عام ہوگی۔ امراء اور جاگیرداروں کو خلعتِ بے بہا سے نوازا جائے گا۔ کنیز تو صرف یہ سوچ رہی تھی کہ شاید تراب علی خاں کو قدرت نے ان کے باپ داد کے کئے کی سزا دی ہے کہ اتنے لیاقت مند ہو کر بھی ظلِ الٰہی کی عنایات سے محروم ہیں۔ ‘‘ ناصر الدولہ نے دزدیدہ نگاہوں سے جمیلہ کو دیکھا لیکن اس کے آہستہ آہستہ پیر دابنے میں کوئی فرق نہ آیا ۔ ناصر الدولہ نے کہا: ’’ تم جاؤ اور لالہ بہادر سے کہلواؤ کہ وہ حاضر ہو۔‘‘
ماما جمیلہ قدم بوس ہوکر اٹھ گئی۔ کچھ دیر میں لالہ بہادر دفتر دار درِ دولت پر حاضری کے لیے اجازت طلب ہوا۔ جھک کر کورنش بجا لایااور دست بستہ کھڑا رہا۔ ناصرالدولہ نے ریاست کے خزانے اورمالی صورتِ حال پر استفسار کیا۔ اس نے جواب عرض کیا: ’’ حضور! شاید صرفِ خاص کے لیے بھی قرض لینے کی ضرورت پڑ جائے۔ ابھی تو مالگزاری کی وصولی میں بھی دیر ہے۔ اور …. ‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔
’’ اور کیا…؟‘‘ ناصر الدولہ نے دریافت کیا۔
اس نے کہا: ’’ حضور ! جاں بخشی ہو تو عرض کروں۔ ریاست کی کل آمدنی کا دارومدار مالگزاری پر ہے۔مالگزاروں کی زمینات بٹائی پر اٹھ جاتی ہیں۔ جاگیر داروں کے کارندے جب تک بٹائی میں اپنا حصہ ادانہ ہو جائے، فصل کٹنے نہیں دیتے۔ پھر لگان اس کے سواء ہے۔ جن ٹھیکے داروں نے زمینیں ٹھیکے پر اٹھائی ہیں، وہ بدلتے رہتے ہیں۔ ہر ٹھیکے دار جلد سے جلد اپنی رقم حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اگلے ٹھیکے دار کا تقرر نہ ہوجائے اور سرمایہ ڈوب جائے۔ اس کی وجہ سے کسان بدحال ہے۔ آگے غلام کی زبان قاصر ہے۔‘‘
ناصر الدولہ گہری فکر میں ڈوب گئے، پھر کہا:’’ کوئی حل ہے اس مسئلہ کا؟‘‘
لالہ بہادر نے کہا :’’ حضور کا اقبال بلند ہو۔ ‘‘
ناصر الدولہ نے کہا:’’ بند کرو یہ ٹیپ کا بند۔ اقبال بلند ہو۔ بیان ہوتم کہنا کیا چاہتے ہو۔ ‘‘
ؒ ٓؒ لالہ بہادر کچھ اور خمیدہ ہو گیا، پھر کہا: ’’ حضور سے کیاچھپا ہے۔ سرکار روشن ضمیر ہیں۔ میر تراب علی خاں خدمتِ عالی میں باریاب ہونے کے متمنی ہیں۔ یہ خاندان دولتِ آصفیہ کا پشتینی نمک خوار ہے۔ ریاست کے حالات سے پوری طرح واقف ہے۔ تراب علی خاں کے والد کی جاگیرفرنگیوں کی زیر نگرانی چلی گئی تھی۔ جسے انہوں نے نہایت دانائی اور بینائی سے بقایہ جات ادا کرکے واپس حاصل کرلیا اوراسے یوں منظم کیا کہ جاگیر بھی بچ گئی اور رعایا بھی نہال ہو گئی۔ ‘‘ ناصر الدولہ نے کہا: ’’ تراب! وہ تو شاید ابھی لڑکا ہے ۔ لالہ بہادر نے کہا :’’ حضور ! نو عمر ضرور ہیں ، لیکن ماشاء اللہ چوبیس برس کے ہیں۔ شاہوں کے محلات اور محل سرائیں تو عقل و دانش کی آماجگاہ ہوتے ہیں ، سو فراست، دانائی، بینائی، دوررسی تو ورثہ میں ملی ہی ہے، تعلیم نے رنگ چوکھا کر دیا۔ وہ صرف حاضری کے لیے تیرہ لاکھ روپیہ نذر گزراننا چاہتے ہیں۔ ‘‘
یوں حیدرآباد کی خوش بختی نے 3اگست 1853کو حیدرآباد کی دہلیز پر دستک دی۔ میر تراب علی خاں ‘ ریاست کے نئے دیوان مقرر ہوئے۔ نیا حیدرآباد نئے افق پر طلوع ہوا چاہتا تھا۔ سالار جنگ نے اپنے تقرر کے ساتھ ہی یہ عہد کیا تھا کہ انہیں صرف ایک ریاست ہی کو مستحکم کرنا نہیں تھا بلکہ ایک پر وقار معاشرے کی تشکیلِ نو بھی کرنی تھی۔ گویا اپنے شاندار ماضی کی روایات کے پیش نظر حال سے نبردآزمائی کے بعد روشن مستقبل کی تعمیر کرنی تھی۔ انہوں نے اپنے جائزے کے ساتھ ہی یہ عہد اور اعلان کیا تھا کہ’’ ان شاء اللہ میں بہت جلد ریاستِ حیدرآباد کو نہ صرف قرض کے چنگل سے نجات دلاؤں گا بلکہ اس کو ترقی کی راہ پر گامزن کروں گا۔‘‘ اپنے تیس سالہ دور میں وہ نہ صرف اپنا عہد پورا کر چکے تھے بلکہ ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کرکے وہ قرض بھی اتار چکے تھے جو اُن پر واجب بھی نہیں تھے۔ ‘‘
ماضی کا یہ ورق جو آپ پڑھ رہے تھے ، یہ میری زندگی کا ورق نہیں تھا۔ یہ میری کہانی بھی نہیں تھی۔ یہ تو میرے اندر کے آدمی کی داستان ہے جو حیدرآباد کا فرزند ہے۔ صدیوں کا بیٹا ۔ میں تو کئی بار سولی پر لٹکا یا گیا ۔ کئی بار میرے لیے دار سجایا گیا۔ میں کئی مرتبہ کوچۂ قاتل میں لایا گیا۔ رقصِ بسمل کے لیے ۔ دریچوں سے پردے بھی سرکائے گئے ۔ میں سنگسار ہوا۔ میں تو اعجاز فرخ مرحوم ہوں۔ اپنی لاش اپنے کندہوں پر اٹھائے اٹھائے پھر تا ہوں ، اپنے مدفن کی تلاش میں ۔ لیکن میرے اندر کا آدمی بے قرار بے قرار سا ہے۔ وہ اب بھی ماضی میں صدیوں کا سفر کرتا ہے۔ جانے کس کی تلاش میں ہے؟ کون چہرہ ہے، جو اسے بے قرار رکھے ہوئے ہے؟ آپ کو وہ چہرہ کہیں مل جائے تو مجھے اطلاع دیں۔ آپ نے دیکھا تو میں سمجھوں گا میں نے دیکھ لیا ۔
دام‘ ہر موج میں ہے حلقٗہ صد کا م نہنگ
دیکھیں کیاگذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
Allama Aijaz Farruq
۵ thoughts on “آئینۂ ایام 2: دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”
علامہ اعجازصا حب کا مضمون پڑھا‘ چند باتیں بتانی ہیں وہ یہ کہ حیدرآباد کی تاریخ پر معاصر امرأ میں بہہت کچھ واقعات دور نظام حکومت کے ملتے ہیں ۔ڈاکٹر داود اشرف کی کتاب حرف عتبار میں وہ لکھتے ہیں کے برار اسٹیٹ کا معاہدہسراج الملک نے کیا تھا اس بات پر ناصرالدولہ بہت ناراض ہوگئے تھے جس سے خوف زدہ ہو کرسراج الملک تین دن بعد انتقال کرگئے ’ یہ بات داوود اشرف صاحب نےآرکائیوز کے ریکارڈز کے حوالے سے لکھی ہے جبکہ علامہ نے چھ دن لکھا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ علامہ نے لکھا کہ سالار جنگ نے تیرا لاکھ کا نذرانہ ناصر الدولہ کو دیا تھا۔ ایسی کوئی بات تاریخ میں نہیں ہے ۔ کتاب کا حوالہ کا حوالہ دیں تو مہربانی ہوگا۔
ڈاکٹرمحمدعطااللہ خان ۔ شکاگو
مضمون میں سراج الملک کے تیسرے دن ہی انتقال کا تذکرہ ہے۔ چھ دن کا نہیں۔ عطااللہ خان صاحب دوبارہ ملاحظہ فرمالیں۔ ١٣ لاکھ کی پیشکش کا لالہ بہادر نے کہا ، یہ تذکرہ آکسفورڈ پریس کی کتاب بیاگرفی آف حیدر آباد میں موجود ہے لیکن یہ رقم دی گئی اس کا کوئی دستاویز نہیں ملتا ۔اسلئیے اسے جوں کا توں لکھا گیا۔
آپ کی خود نوشت پڑھ کر مزہ آیا – زبان و بیان خوب ہے – جہاں تک میرا خیال حیدرآباد کی اصل ترقی سالار جنگ کی مرہون منّت ہے . اگر ہندوستان کی کیسی ریاست کو سالار جنگ مل جاتا تو ایک اور حیدرآباد ریاست بن جاتی – آپ نے جن ماما اور کنیزوں کا ذکر کیا ہے وو یقینن بہت دانشور تھیں اور بادشاہ ان پر بھروسہ بھی کرتے تھے – مرقع حیدرآباد ” ایک دلچسپ کتاب ہوگی – کیا وو مجھے مل سکتی ہے ؟ میں اس کتاب کو خرید کر پڑھنا چاہونگی – میرا موضوع تاریخ ہے – کتاب کہاں مل سکتی ہے –
فاطمہ انور
نی دہلی
یہ آپ کی آپ بیتی نہیں بلکہ جگ بیتی ہے علامہ. اس مضمون کے حوالے سے بہت سی باتیں معلوم ہوئیں. بہت شاندار مضمون، اب تو ہر قسط کا انتظار رہے گا. بادشاہوں کے وزراء ہی نہیں بلکہ مامائیں بھی زیرک تھیں. تب حیدرآباد ریاست ایک ترقی یافتہ ریاست تھی. آپ نے محل کا اور کنیزوں کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ لاجواب ہے. یہ پیراگراف آپ خود پڑھئے اور مزہ لیجیے گا. ’’ ایک شام جب گیسوئے شب سے نکہتِ گل چھیڑ کر رہی تھی، جام و مینا رقص کے لیے تیار تھے، ناصر الدولہ کی آنکھیں خمارطلبی کا تقاضہ کر رہی تھیں۔ شعلہ رخ ، شعلہ بدن کنیز نے حاضر ہونے کی اجازت چاہی ۔ ناصرالدولہ دیوان پر نیم دراز تھے۔ وہ روبرو ہوئی، جھک کر کورنش بجا لائی، مرصع کشتی میں صراحی اور بلوریں جام سجا کر سیدھے جو ہوئی تو گویا شاخِ گل جھوم کر سیدھی ہوئی۔ ناصر الدولہ نے ایک نظر جام و مینا پر ڈالی، پھر نظر اٹھا کر مجسّم میکدہ کو دیکھا ۔‘‘
ضیاء انصاری
مالیگاوں
میں بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ:
’’آئینۂ ایام‘‘ بلاشبہ اردو کے خودنوشت سوانحی ادب میں ایک اہم اضافہ کی حیثیت رکھنے والی آپ بیتی ہے۔
آئینۂ ایام کی دوسری قسط میں حضرت علامہ اعجاز فرخ صاحب مدظلہ العالی نے حیدرآباد کی تاریخ کے اہم اوراق کو الٹنے کی کوشش کی ہے اور اس قسط کو اپنی کتاب’’مرقعِ حیدرآباد‘‘ کے ایک ورق سے مزین فرمایا ہے ۔ایک نہایت خوبصورت اور دلکش تحریر جس میں اختصار کے ساتھ تاریخ کی کڑیوں کو کچھ اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ اس میں ایک عہدکی منظر کشی بھی ہے، امورِ سلطنت میں ماماؤں کی دخل اندازی بھی اوراس میں مکالموں کا حسن بھی ہے اوردلچسپی و دل آویزی بھی۔
یہ وہی حیدرآباد ۔ فرخندہ بنیاد ہے جو آپ کا مولد ومنشا اور موطن و مسکن ہے، جس کے اثرات‘ آپ کی زندگی اور آپ کی شخصیت پر بہت گہرے مرتب ہوئے ہیں۔ آپ کے شعور اور تحت الشعور پراس کی تفصیلات و جزئیات کے نقش و نگار مرتسم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہرِ محبت کے احوال و آثار،اس کی تہذیب و تمدن ، اس کی ثقافت و مدنیت ،اس کا عروج و زوال اور اس کے اشخاص و رجال ، یہ سب مشخّص و مجسّم ہو کر ہمیں علامۂ محترم کی آپ بیتی میں ملتے ہیں۔
یقینِ کامل ہے کہ یہ خودنوشت کافی طویل اور مبسوط ہوگی۔ اس میں ایک عہد، ایک زمانہ، ایک دور، ایک تہذیب، ایک سلطنت، ایک عروج، ایک زوال، ایک داستانِ فصلِ گل، ایک تذکرۂ رنگ و بوئے گلستاں، کہیں حکایتِ ادبار و خزاں، کہیں ذکرِ حدیثِ دلبراں، کہیں اشاراتِ دردِ سوزِ نہاں، کہیں اسلوبِ نگارش خنداں، کہیں طرزِ تحریرگریہ کناں، کہیں حکایاتِ خونچکاں، کبھی قاری شاداں و فرحاں، کبھی ماتم کناں، کبھی افتاں و خیزاں، کہیں لرزاں و ترساں، کہیں حیران و پریشاں، ماضی کا ایسا بیاں کہ جس سے تقابلِ حال و ماضی ہو نمایاں، کبھی تذکرہ فرما اور کہیں کہیں تذکرہ سے گریزاں، کہیں سجی ہوئی اہلِ علم و فضل کی کہکشاں، کہیں ذکرِ شام شہر یاراں، کہیں تذکرۂ شعر و شعرائے قدرداں، حیدرآباد شہر نگاراں، رعایاپروریٔ حکمراں، کہیں بے مہریٔ چرخ اور کہیں وقت مہرباں، کبھی اندیشۂ نفع و نقصاں، کہیں ماورائے سود و زیاں، کہیں عظمتِ رفتہ کے نشاں، کہیں سطوتِ ماضی کا سماں، کہیں اپنا بیاں، کہیں حدیثِ دیگراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گویا – ’’لذیذ بود حکایت، درازتر گفتم‘‘ کے مصداق ایک شاہکار خودنوشت۔
____ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری۔
۸/اپریل ۲۰۱۶ع