کتاب : اساتذۂ جامعہ عثمانیہ اور اقبال شناسی
ڈاکٹرسید حامد ماہتابؔ
موبائل : 09948998297
ای میل :
اقبال شناسی دنیا کے لئے کوئی نیا موضوع نہیں ہے باوجود اس کے ہر عہد میں اس پر کام ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔ راقم الحروف کو یقین ہے کہ مستقبل میں بھی اقبال شناسی پر تحقیق کے ذریعہ کئی گوشے منظرِ عام پر آئیں گے جواقبالیات میں ایک اہم اضافہ ہوں گے اسی سلسلہ کی ایک کڑی راقم الحروف کی یہ کتاب ہے اس مقالہ پر عثمانیہ یونیورسٹی نے ایم۔ فل کی ڈگری عطا کی ہے جو اپنے موضوع کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے یوں تو اقبالؔ کی سیرت، شاعری، فلسفہ اور ان کے علمی وادبی کمالات پر مضامین اور کتابیں لکھی گئیں مگر راقم الحروف کی اس کتاب میں ایک نئے موضوع کو جگہ دی گئی جہاں جامعہ کے اساتذہ صاحبین کی اقبال شناسی پر روشنی ڈالی گئی ہے- وقتاً فوقتاً ان کے کلام کا مطالعہ راقم کرتا رہتا۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا کلام پڑھنے کے بعد راقم نے محسوس کیا کہ کوئی نئی طاقت اس میں آگئی ہو اور وقتی طورپر ہی صحیح راقم میں عمل کا جذبہ پید اہونے لگا۔ شاید مطالعہ کلام اقبال سے عمل کا احساس پیدا ہونا فطری بات ہے ۔
احساسِ عمل کی چنگاری جس دل میں منّور ہوتی ہے
اس آنکھ کا آنسو ہیرا ہے اس لب کا تبسم موتی ہے
علامہ اقبال کی شاعری محض طبع تفریح کا سامان نہیں بلکہ بھولے بھٹکوں کو راہِ راست پر لانے کا بہتر ین ذریعہ ہے ۔اقبالؔ ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ ذہن کے حامل انسان بھی تھے انہوں نے ان دونوں صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انسانی فلاح و عظمت کا کام لیا اور اُردو شاعری کو ایک نئی آب و تاب عطا کی۔ شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کی زندگی ہی میں حیدرآباداور لاہور اقبال شناسی کے دوبڑے مرکز بن گئے تھے ۔ حیدرآباد دکن میں اقبال فہمی کو کئی جہتوں میں فروغ ملا اور اس کی ایک عالمانہ روایت قائم ہوئی اور حیدرآباد دکن کے باشندوں نے علامہ کے کلام اور پیغام کی تشریح میں گہری دلچسپی لی جس کی وجہ سے آج بھی اقبال شناسی پر بڑے بڑے سمینار منعقد ہواکرتے ہیں اس کا ثبوت خود راقم کی یہ کتاب بھی ہے جو اقبالؔ اور حیدرآباد کے ارد گرد گھومتی ہے حیدرآبادیوں نے علامہ کی ذات سے ہمیشہ والہانہ محبت اور عقیدت کا ثبوت دیا ہے ۔علامہ کی قدر شناسی میں نہ صرف شعبہ اُردو بلکہ جامعہ عثمانیہ کے دیگر شعبہ جات سے وابستہ اساتذہ صاحبین بھی پیش پیش رہے ۔ اساتذہ جامعہ عثمانیہ کی خدمات اقبالیات کے ضمن میں ناقابلِ فراموش ہیں انہوں نے علامہ کے شعر و آہنگ اور فکر وفلسفہ پر جو بیش بہا کام انجام دیئے ہیں اسے کبھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ جامعہ کے کئی اساتذہ کی تو علامہ سے خط وکتاب بھی رہی ۔
اساتذۂ جامعہ عثمانیہ کی اقبال شناسی کوضبطِ تحریر لانا کوئی آسان کام نہیں۔ باوجود اس کے راقم الحروف نے سعی کی ہے کہ اس موضوع کو منظم انداز میں پیش کرسکے۔ اس کتاب کو جملہ پانچ ابواب میں تقسیم کیاگیاہے پہلے باب میں جامعہ عثمانیہ کا قیام اور اس سے متعلق تمام تر تفصیلات درج ہیں دوسرے باب میں علامہ اقبال کی حیدرآباد سے وابستگی کا ذکر کیاگیاہے اور ایسے حقائق پیش کئے گئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبالؔ حیدرآباد سے تعلق خاطر رکھتے تھے۔ تیسرا باب شعبہ اُردو کے اساتذہ اور ان کی اقبال شناسی سیمتعلق ہے جبکہ چوتھے باب میں دیگر شعبہ جات کے اساتذہ اور ان کی اقبال شناسی پرروشنی ڈالی گئی ہے اقبال چونکہ ایک آفاقی شاعر تھے اور وہ اُردو کے علاوہ دیگر زبانوں پر بھی کافی قدرت رکھتے تھے شاید اسی وجہ سے ہر زبان شناس ان کے متعلق کچھ نہ کچھ جانتا تھا اس باب میں بھی یہی کوشش کی گئی ہے کہ دیگر زبان شناسوں کی خدمات کو اقبالیات کے ضمن میں اُجاگر کیاجائے تاکہ ادبی دنیا اقبالیات کے سلسلہ میں ان کی خدمات کو یادرکھے۔ اس کتاب کا پانچواں اور آخری باب عمومی جائزہ ہے جس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس کتاب میں موجود دیگر چار ابواب سے اخذ کردہ نتائج کو اجمالاً پیش کردیاجائے۔ جامعہ عثمانیہ ،حیدرآباد نے اس مقالہ پر۲۰۰۷ء میں ایم ۔فِل کی ڈگری تفویض کی۔ راقم الحروف کی مصروفیات اور دیگر معاملات نے اسے کتابی شکل دینے میں بڑے ہی رخنے کھڑے کئے بہر کیف یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا ہے ۔ (پی
صفحہ سازی : جینئس گرافکس، قلعہ روڈ نظام آباد
طباعت :جینئس گرافکس، قلعہ روڈ نظام آباد9966939332
قیمت :ایک سوپچاس روپیئے
بیرون ملک :5۔امریکی ڈالر
ملنے کے پتے:
*مصنف:8-4-350،دھاروگلی ،نظام آباد503001(ریاست تلنگانہ)
*اُردو ہال، حمایت نگر۔ حیدرآباد(ریاست تلنگانہ)
*ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤز ،نئی دہلی
Dr.Syed Hamed Mahtab