اُردو میں ساختیاتی نظریۂ تنقید – – – – رافداُویس احمد بھٹ

Share

Rafed ساختیاتی

اُردو میں ساختیاتی نظریۂ تنقید

رافداُویس احمد بھٹ
پی۔ ایچ ۔ڈی اسکالر(اردو) ‘ یونیورسٹی آف حیدر آباد
گچی باؤلی، حیدر آباد، تلنگانہ،۵۰۰۰۴۶
فون: 07730866990

ترقی پسندی،جدیدیت اور مابعد جدیدیت بذات خود کوئی ادبی تنقید ی نظریات نہیں ہیں بلکہ یہ مختلف ادوار ہیں جن کے تحت مختلف ادبی وتنقیدی رجحانات نے جنم لیا ہے۔مثال کے طور پر ترقی پسند دور میں مارکسیت نے جنم لیا،جدیدیت کے تحت وجودیت ،ہیئتی تنقید ،نئی تنقید اور ساختیاتی تنقیدی رجحانات سامنے آئے اور مابعد جدیدیت کے تحت پس ساختیات،رد تشکیل ،نوتاریخیت، تانیثیت، بین المتونیت اور قاری اساس جیسے تنقید ی رجحانات متعارف ہوئے۔ترقی پسند تحریک کے خلاف بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ایک رجحان کا آغاز ہوا جسے جدیدیت کے نام سے موسوم کیا گیا جس نے سابقہ فلسفوں اور نظریوں سے’’ ناوابستگی کا سلوک کیا‘‘ ۔

اس رجحان نے ترقی پسندی کی خارجیت سے یکسر انحراف کرکے فرد کی ذات اور اُس سے جڑے مسائل کو اپنا مقصد ٹھہرایا۔یعنی جدیدیت نے فرد کے سماجی،تاریخی اورسیاسی حالات وکوائف سے رشتہ منقطع کرکے صرف اُس کے باطن اور اُس سے جڑے میلانات ومسائل کواجاگر کرنے کی سعی کی۔حالانکہ جب ہم جدیدیت کا ادب کے حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں تو اس نے فنی اور موضوعاتی دونوں سطحوں پر ادب کو متاثر کیا ہے۔ بیزاری، غیر وابستگی، بے کیفی ، محدودیت وزوالیت،انکاروبغاوت،لاشخصیت ولافردیت جیسے موضوعات جدیدیت کے دور کے ادب میں ملتے ہیں۔یعنی ایک ادیب کو خارجی زندگی سے بالکل الگ کردیا گیا اور اجتماعیت،خارجیت اور وابستگی کے مقابلے میں فردیت،داخلیت اور غیر وابستگی کو تقویت مل گئی۔شافع قدوائی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔جدیدیت نے ذات پرستی،شکست ذات،خوابوں کی شکت وریخت،داخلیت،اضطراب،بے گانگی،لایقینیت اوریاسیت پر اصرار کیا اور یہ بھی باور کرایا کہ فن پارہ ایک خود مختار اور خود کفیل وجود رکھتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادب کی تعین قدر اول اور آخر فنی لوازم کی رہین منت ہونا چاہیے۔‘‘ ۱؂
جدیدیت نے ایک تخلیق کار کو پوری آزادی دے دی لیکن خارجی حالات کی بجائے فرد کی ذات کو اہمیت دے کر ادب کو اظہار ذات کا ذریعہ قرار دیا۔حالانکہ جس طرح سے جدیدیت نے فرد اور اُس کی ذات کو اہمیت دی ٹھیک ویسے ہی جدید شعر وادب کے متن کو بھی خود مختار اور خود مکتفی قراردیا۔یعنی فن پارے کے تجزیہ کے دوران خارجی عناصر سے بالکل بے نیاز ہوکر اُس کی قدر وقیمت کا تعین فنی اقدار پر ہونے لگا۔یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے دور میں جوتنقید ی نظریات سامنے آئے اُن میں متن کے خارجی پہلوؤں سے لا تعلقی برتی گئی اور سارازور متن پر دیا گیا۔جدیدیت کی پہچان کے سلسلے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ یوں لکھتے ہیں:
’’اول یہ کہ فنکار کو اظہار کی پوری آزادی ہے،دوسرے یہ کہ ادب اظہار ذات ہے،تیسرے یہ کہ فن کی تعین قدر فنی لوازمات کی بناپر ہوگی نہ کہ سماجی اقدار کی بناپراور چوتھے یہ کہ فن پارہ خود مختار اور خود کفیل ہے۔‘‘ ۲؂
جدیدیت کے تحت جو تنقیدی نظریات اُردو ادب میں متعارف ہوئے ہیں اُن میں ساختیاتی نظریۂ تنقید ایک اہم نظریہ کے طور پر اُبھرا ہے۔ اس نے جہاں ایک طرف تنقیدی نظریہ کی حیثیت سے متن کے معنیاتی نظام میں کئی بحثیں چھیڑی ہیں وہیں لسانیات کی ایک اصطلاح کے طور پر متن میں لفظ و معنی کے لسانیاتی نظام میں بھی کئی اہم نکات کا اضافہ کیا ہے۔Dictionary of Literary terms and literary Theories میں ساختیات کی تعریف یوں کی گئی ہے:
"…it(structuralism) is Concered with Language in a most general sense:not just the language of the utterance in speech and writing, it is concerned with sings and thus with signification.structuralist theory Considers all Connections and Codes of Communication for example,all forms of signal( smoke,fire traffic Lights,mores,hags, gestures)bodly language Clothes artifacts,status, symbols and so on ” ۳؂
انگریزی لفظ’’ساخت‘‘(Structure) سے’’ ساختیات‘‘(Structuralism) کی اصطلاح وضع ہوئی ہے۔ساختیات ایک ادبی اور لسانی اصطلاح ہونے کے باوجود اپنے وسیع معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔کیو نکہ ساختیات نہ صرف زبان کی ساخت اور ڈھانچے کے تعلق سے جانکاری فراہم کرتی ہے بلکہ یہ متن میں لفظ اور معنی کے رشتے کے نظام سے تعلق رکھتی ہے۔اس کے مطابق متن بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتا اور اگر معنی قائم ہوتاہے تو وہ انہی رشتوں کے نظام سے ہوتا ہے ۔پروفیسر گوپی چند نارنگ فلسفہ ساختیات کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ساختیات کا فلسفیانہ چیلنج یہ ہے کہ ذہن انسانی حقیقت کا ادراک کس طرح کرتا ہے اور حقیقت جو معروضِ وجود ہے کس طرح پہچانی اور سمجھی جاتی ہے۔یہ بات خاطرنشان رہنا چاہیے کہ ساختیات صرف ادب یا ادبی اظہار سے متعلق نہیں بلکہ اساطیر،دیو مالا،قدیم روایتیں،عقائد ،رسم ورواج،طورطریقے،تمام ثقافتی معاشرتی مظاہر مثلاً ،لباس وپوشاک،رہن سہن،خوردنوش،بودوباش،نشت وبرخاست وغیرہ یعنی ہروہ مظہر جس کے ذریعے ذہن انسانی ترسیل معنی کرتا ہے یا اداراک حقیقت کرتا ہے،ساختیات کی دلچسپی کا میدان ہے۔‘‘ ۴؂
ساختیات اپنے سابقہ نظریات کے ردعمل میں ایک ایسا تنقید ی نظریہ ہے جو فن پارے کے سطحی معنی یا ہئیت کو موضوعِ بحث بناکر مصنف کی ذات کو مرکزیت عطا کرکے فن پارے کو وحدانی اور مستقل معنی پہنانے پر اصرار کرتی ہے۔ساختیات نہ صرف چَھپے ہوئے الفاظ تک خود کو محدود رکھتی ہے بلکہ متن کے اندر چُھپے معنی اور معنیاتی نظام کا گہرائی وگیرائی کے ساتھ مطالعہ کرتی ہے۔یعنی زبان کی سطحی واقفیت سے تفہیم کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ہیں بلکہ متن کے اصل معنی تک رسائی حاصل کرنے سے ہوتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب متن مصنف کے معنوی امکانات اور زبان کے تمدنی انسلا کات کے علم سے آگہی رکھتا ہو تب جا کے متن کی نچلی تہوں میں چُھپے معنی تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ساختیاتی مطالعہ کی انتہا شعر وادب کی شعریات کا مطالعہ نہیں بلکہ شعریات کی تلاش وجستجو میں مضمر ہے جس سے متن کے اُس معنیاتی نظام سے شناسائی ہوتی ہے جس سے معنی متشکل ہوتے ہیں۔
ساختیاتی تنقید میں فن پارے کا تجزیہ ثقافتی تناظر میں ہوتا ہے۔کیو نکہ ساختیاتی نقادوں کا ماننا ہے کہ فن پارہ اپنے دور کی ثقافتی معاشرتی نظام کا مظہر ہوتا ہے لہٰذا فن پارے میں جو زبان تشکیل پاتی ہے اُس کے معنیاتی نظام کو سمجھنے کے لیے اُس کے ثقافتی تنا ظر میں جھا نکنا ضروری ہے کیو نکہ فن پارہ خود مختار اورخود مکتفی یا خودکفیل نہیں ہوتا ہے۔ساختیاتی تنقید کے نظریے کے مطابق فن پارے میں پہلے سے ہی طئے شدہ معنی نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ فن پارے کے متن کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد قاری کی ذہنی ساخت فن پارے کو معنی عطا کرتی ہے۔اس طرح ساختیات سوسئیر کے نظریہ لسان کے قریب ہو جاتی ہے جس کے مطابق اشیاء بذات خود کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں بلکہ انسان اُن کے لئے معنی خلق کرتا ہے۔گوپی چند نارنگ اس ضمن میں رقمطراز ہیں:
’’نقاد فن پارے کا محض تماشائی نہیں ہے۔نہ تو فن پارہ کوئی تیارشدہ (Ready made) مال ہے نہ نقاد محض اس کا صارف (Consumer) ہے۔ساختیات کے نزدیک نقاد فن پارہ کو اپنی قرأت (Reading) سے معنی دیتا ہے۔چنانچہ نقاد کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ نیازمندانہ طور پر فن پارے کے امکانات کے آگے سرجھکا دیں۔اس کے برعکس نقاد عملی طور پر معنی کی تعمیر کرتا ہے ۔وہ فن پارے کو ’’ موجود‘‘ بناتا ہے۔‘‘۵؂
فن پارے کی معیناتی تکمیل نقاد یا قاری کی ذہنی ساخت میں مضمر ہے۔حالاں کہ فن پارے کے جو معنی متعین کئے جاتے ہیں بظاہر وہ اُس کے معنی نہیں ہوتے ہیں بلکہ صحیح معنی تک پہنچنے کے لیے نقاد کو متن کی گہرائی میں اُتر کر الفاظ کی نشست وبرخاست سے واقفیت حاصل کرکے فن پارہ کے اندر استعمال ہوئی زبان کے معنیاتی رشتوں کے نظام کو جاننے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
ساختیاتی نظریہ کا آغاز فرانس سے ہوا اور اس سلسلے میں Claude levi Strouss کی تصنیف Anthropology Structuralism بڑی اہمیت رکھتی ہے۔اس کے بعد روس میں اس کو تقویت ملی جس میں پیلی فنیوف،شکلووسکی،اچن بام اور ٹوما چوسکی کا نام اہمیت کے حامل ہیں۔اردوتنقید میں جن نقادوں کی خدمات اس سلسلے میں نا قابل فراموش ہیں اُن میں گوپی چند نارنگ،شمس الر حمن فاروقی،ڈاکٹرشارب ردولوی،ڈاکٹر فہیم اعظم،قمر جمیل،ڈاکٹر وزیر آغا،احمد سہیل اور قاضی قیصرالالسلام کے نام شامل ہیں۔
حوالہ جات
۱؂ شافع قدوائی، بیسویں صدی میں اردو تنقید: ہندوستانی تناظر میں، مشمولہ: بیسویں صدی میں اردو ادب، مرتبہ، گوپی چند نارنگ،۲۰۰۲ء ،ص ۲۷۲
۲؂ ، گو پی چند نارنگ ،اُردو میں ما بعد جدیدیت پر مکالمہ، ء،ص ۵۱
۳؂ J.A.Cuddon,London,Penguine book,1998,p.868
۴؂ گوپی چند نارنگ،ادبی تنقید اور اسلوبیات۔۱۹۸۹ء، ص ۱۴۔۱۳
۵؂ گوپی نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات،۱۹۹۳ء،ص ۱۷۳

Share
Share
Share