دس افسانچے
ڈاکٹرحمیرہ سعید
لیکچرار اردو ‘ گورنمنٹ ویمنس کالج
محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09346377993
(1) لپ اسٹک
مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا بالکل پسند نہیں۔
لیکن مجھے معلوم ہوا کہ اُسے ہونٹوں کی لالی بہت پسند ہے۔
آج وہ مجھے دیکھنے آرہا ہے۔
اورمیرے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی دبیز تہہ جمی ہے۔
کیوں کہ میں ایک کنواری لڑکی ہوں۔
(2) جوانی
مجھے بچپن سے سجنے سنورنے اور جوان ہونے کا شوق تھا۔
پردادی کہتی تھی ’’جوانی کا جو بن او رسنگھار سہاگ کے سامنے ہی جائز ہے ‘‘۔
اورپھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بنا جوانی کے ہی بوڑھی ہوگئی۔
(3) اعزاز
بہترین سماجی کارکن کا اعزاز مجھے عطا کیاگیا۔
کہ میں نے عورتوں کے حقوق کیلئے کامیاب جدوجہد کی
یہ اعزاز پاکر میں بے حد خوش تھی اور جشن مناناچاہتی تھی ۔
پھرمیں نے ایک پل کیلئے اپنے شوہر کی آنکھوں میں دیکھا
اور۔۔۔۔۔۔میں نے یہ اعزاز لوٹادیا۔
(4) الجھن
بچپن میں اُسے دھاگوں کو اُلجھانا بہت اچھالگتاتھا ۔
سارے الگ الگ دھاگوں کو وہ یکجا کرکے اُلجھادیتی تھی۔
لیکن آگے زندگی کی الجھنوں میں وہ خود اُلجھ کر رہ گئی۔
کیونکہ سُلجھانا اُس نے کہاں سیکھاتھا۔
(5) اعتبار
میں نے کہا وہ بہت معصوم ہے۔
سب نے کہا نہیں وہ چالاک اور ہوشیار ہے۔
تومیں نے کہا ۔لیکن وہ تو اپنے شوہر پر مکمل اعتبار کرتی ہے۔
(6) فلرٹ
فلرٹ کرنے میں مجھے بہت لطف آتاتھا۔
اورپھر لڑکیاں بھی توآسانی سے پٹتی ہیں۔
میں نے بہت لڑکیوں سے فلرٹ کیا۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔کسی لڑکی سے شادی نہ کرپایا۔
ہر لڑکی کودیکھ کر یہی لگتا
کیا پتہ اُس لڑکی سے بھی کسی نے میری طرح فلرٹ کیا ہوگا؟۔
(7) پیار (فیشن)
اُس کا خیال تھا کہ پیار تو زندگی میں کئی بار ہوتا ہے ۔
مگرسچا پیار صرف ایک بار ہوتا ہے۔
یہ اُس کے سوچنے کا اندازہے ۔بھلا اُس پگلی کو کیا پتہ
وقتیہ کشش کو پیار کانام نہیں دیا جاتا۔
لیکن کیا کریں وقتیہ کشش کو پیار محبت اور عشق کا
نام دینا آجکل فیشن ہے۔
(8) کنو ارہ
وہ چالیس سال کا ہوگیاتھا اور ابھی تک کنوارہ تھا ۔
یہ بات نہیں ہے کہ اُس نے شادی کے بارے میں کچھ سوچا نہیں
اُس نے تو کئی لڑکیوں کا ہاتھ مانگا۔ ایک دو کے ساتھ
منگنی بھی رچائی لیکن کسی بھی لڑکی کے ساتھ اُس کی شادی نہ ہوپائی۔
کیوں کہ وہ لڑکیوں کو توڑنا چاہتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔آجکل کی لڑکی
ٹوٹتی کہاں ہے بلکہ۔۔۔۔۔۔توڑدیتی ہے۔
(9) سوچ
اُس کے شوہر نے اُس کے قدموں پرپابندی لگادی تھی
اورکہیں بھی تنہا جانے سے منع کررکھاتھا۔لیکن اُسے بالکل بُرا نہیں لگتاتھا۔
کیوں۔۔۔۔۔۔؟کیوں کہ اُس نے صرف قدموں پر پابندی لگائی تھی۔
اُس کی زبان‘ الفاظ‘ دل‘ دماغ‘ خیال اور سوچ کو قید نہیں کیاتھا۔
اس سے بڑھ کر ایک شوہر اور کیا کرسکتا ہے۔
(10) ذہنی مطابقت
شادی کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے ذہنی مطابقت
پیار‘ محبت‘دولت‘ حسن سب اس کے بعد آتے ہیں۔
لیکن یہ بات اُسے شادی کے وقت سمجھ نہیں آئی تھی
وہ ظاہری حسن دیکھ کر متاثر ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔۔پر۔۔۔۔۔۔
پرآج وہ سمجھ گئی کہ ذہنی مطابقت کے بغیر ازدواجی
زندگی کامیاب نہیں ہوسکتی
یہ بات اُس نے تب سمجھی تب تک وہ چار بچوں کی ماں بن گئی تھی۔
One thought on “دس افسانچے – – – – – – ڈاکٹرحمیرہ سعید”
بہت عمدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن لفظ ”پتہ” کا جدید املا ”پتا” ہے۔