نثرغالبؔ کی مضمرات خطوط کے حوالے سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرقطب سرشار

Share

 نثر ۔ غالب

ڈاکٹرقطب سرشار
ڈاکٹرقطب سرشار

نثرغالبؔ کی مضمرات خطوط کے حوالے سے
مکاتیب غالب کے تناظر میں

ڈاکٹرقطب سرشار
موظف لکچرر، محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09703771012

اللہ جسے دینے پر آتا ہے تو بے حساب دیتا ہے۔ ویرزق من یشاء بغیر حساب کے مصداق ، اللہ نے غالب ؔ کو بھی بہت کچھ عطا کیا تھا اردو دنیا کے عوام تو غالبؔ کو صرف ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے جانتے اور مانتے ہیں لیکن خواص جانتے ہیں کہ غالبؔ ایک کثیر الجہات شخصیت کا نام ہے۔ غالبؔ ایک بے مثال شاعر اردو نثر کا مجتہد، ایک مستحکم کردار منفرد انسان، عظیم مفکر، دم آخر تک بے شمار زخموں کے لباس میں مسکراتا ہوا پیکر۔ غالبؔ کو پیوند خاک ہوئے ایک صدی بیت گئی لیکن غالبؔ اپنی تحریروں کے وسیلے سے ہر صدی پر بھی غالب نظر آتے ہیں۔

غالبؔ کو اپنی فارسی شاعری پر ناز تھا لیکن ان کی اردو شاعری نے انھیں زندۂ جاوید بنادیا۔ جو لوگ غالبؔ کو بحیثیت شاعر یکتائے روزگار مانتے ہیں وہ یہ بھی مان لیں کہ غالبؔ نے اپنی نثر نگاری کا بھی اس طرح لوہا منوایا کہ اہل بصیرت کو چونکا کر رکھ دیا، غالبؔ نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا تھا۔
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
یہ بات ان کی نثر نگاری پر بھی صادق آتی ہے۔ اہل بصیرت غالبؔ کو اردو مکتوب نگاری کا باوا آدم مانتے ہیں یقیناًغالبؔ اردو میں نئے لب ولہجے اور جدید اسلوب کے بانی رہے ہیں۔ کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج ۱۸۰۰ء میں قائم ہوا اس کالج نے اردو نثر کی ترقی کے لئے جو مختصر عرصے میں غیر معمولی اقدامات کئے خود اہل اردو ایک صدی میں بھی نہ کرپاتے۔ اس کالج میں کلاسیکی زبانوں سے جو ترجمے ہوئے ان کی نثر پر داستانی اسلوب کی چھاپ نظر آتی ہے تاہم رفتہ رفتہ طرز اظہار میں سادگی، سلاست اور روز مرہ کو روارکھا گیا۔ اس طرح اردو نثر کو داستانی اور روایتی لب ولہجے سے برات حاصل ہوئی اور جدید اسلوب کو رواج دیاگیا۔ غالبؔ سے پہلے اردوزبان تخلیقی نثر سے محروم تھی۔ فورٹ ولیم کالج کے روپ میں جو کچھ کام نثر میں ہوا وہ تراجم پر مبنی تھا۔ غالبؔ کی نثر نگاری کا آغاز پنچ آہنگ (۱۸۴۹ء) سے ہوتا ہے یہ کتاب فنی اور لسانی موضوعات پر مبنی ہے اس کے بعد خاندان تیمور یہ کی تاریخ کی پہلی جلد مہر نیم روز لکھی۔ مولوی محمد حسین تبریزی کی مشہور نعت برہان قاطع اور دساتیر پر غالب نے اپنے علمی اختلافات کو رقم کیا اور اسے قاطع برہان کا نام دیا۔ اسی دوران غالب نے نثر میں ایک اردو کتاب ’’ دستنبو‘‘ لکھی۔ اس کا اندازِ تحریر روز نامچے جیسا ہے اس کتاب کی اشاعت نے ایک اور تہلکہ مچادیا۔ برہان قاطع پر اعتراضات پر مبنی اس کتاب کی اشاعت پر مختلف سمتوں سے غالب پر اعتراضات کی برچھیاں چلنے لگیں۔ پھر کیا تھا غالبؔ ذہنی طور پر اس تنازعہ میں پیوست ہوگئے اس تنازعہ میں غالبؔ نے ’’تیغ تیز‘‘ اور ’’نامۂغالبؔ ‘‘ دو رسالے اور تحریر کئے اور شائع بھی کروائے۔ ۱۸۴۸ء میں غالبؔ جوے کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ ۱۸۴۱ء اور ۱۸۴۷ء کے دوران غالبؔ نے شاعری ترک کردی۔ ۱۸۵۰ء میں قلعہ معلی میں ملازم ہوئے تو بادشاہ اور شہزادوں کے اصرار پر اردو میں غزلیں کہیں، لیکن یہ آورد کا دور رہا۔ چونسٹھ برس کی عمر ہوئی تو غالبؔ کے قویٰ مضحمل ہوگئے تھے۔ شعر گوئی سے ان کی رغبت تقریباً ختم ہوگئی انہوں نے مکتوب نگاری کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ شاعری کے لئے جوش اور ولولہ کی ضرورت ہوتی ہے غالبؔ نے محسوس کیا کہ ان کے اندر جوش اور ولولہ کم ہونے لگے ہیں۔ ؂
سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش فشانی
یقیں ہے ہم کو بھی لیکن اب اس میں دم کیا ہے
مکتوب نگاری کے دوران چودھری عبدالغفور سرورؔ کو لکھتے ہیں۔
’’ صناعت شعر، اعضاء وجوارح کا کام نہیں، دماغ چاہئے، ذوق چاہئے، امنگ چاہئے۔ یہ سامان کہاں سے لاؤں جو شعر کہوں، چونسٹھ سال کی عمر ولولہ شباب کہاں، رعایت فن، ان کے اسباب کہاں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
غدرکے انقلاب کے بعد غالبؔ تنہا اور گوشہ نشین ہوگئے۔ شاعری کا میلان ختم ضرور ہوا لیکن ان کے اندر کا فنکار مرنے نہیں پایا۔ یہ فنکار نثر کے وسیلے سے اپنے وجود کا احساس دلانے لگا۔ غالبؔ کے خطوط اپنے عہد کی سماجی تہذیب اور سیاسی زندگی کی اہم دستاویز ہیں ان کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے۔ غالبؔ ابھی مرے نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع دنیا کااحاطہ کرنے کے لئے مکتوب نگاری کا سہارا لیاہے۔ غالبؔ کی مکتوب نگاری کا اسلوب منفرد تھا ان سے پہلے کسی نے یہ انداز اختیار کیا اور نہ ہی بعد میں کسی سے اسلوب کی کما حقہ تقلید ہوسکی۔ مکاتیب غالبؔ کی مضمرات کو اجاگر کرنے کے لئے ہم یہاں چند عنوانات مقرر کرتے ہیں۔ اردو معلی اور عود ہندی کے پیش نظر ۔
۱۔ آداب والقاب
۲۔ مکالماتی انداز
۳۔ زندگی کا کرب، آلام ومصائب
۴۔ مرقع نگاری
۵۔ ظرافت وشوخی
القاب وآداب
غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنادیا۔ اسی لئے ان کے خطوط میں طویل اور پرتکلف اور پر تصنع القاب نہیں ملتے، محض ایک طرز تخاطب گویا گفتگو کر رہے ہوں نہ کہ تحریر لکھ رہے۔ بس ایک چھوٹا سا القاب اور مطلب کی بات شروع غالبؔ پنج آہنگ کے آہنگ اول میں القاب نگاری کے ضمن میں القاب وآداب کو حشو زاید قرار دیتے ہیں۔
’’ مکتوب الیہ کو اس کی حیثیت کے مطابق پکارتا ہوں۔ القاب وآداب اور عافیت حشو زاید ہے۔۔۔ ‘‘ ( مکتوب غالب ؔ )
غالبؔ نے اپنے مکتوبات میں مکتوب الیہ کے لئے ایسے القاب لکھے ہیں۔ نور چشم، راحت جاں میری جان، اجی مولانا، صاحب، میاں، یار، بھیجتے بھائی، مہاراج، بندہ پرور، برخوردار، نور نظر، لخت جگر وغیرہ۔
مکاتیب غالبؔ میں القاب کے وسیلے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ سے غالبؔ کا ذہنی اور جذباتی رشتہ کیا ہے۔ پیر مرشد بندہ پرور، جناب عالی، قبلہ وکعبہ ، قبلہ حاجات جیسے القاب انھوں نے صاحب وقار لوگوں کے لئے لکھے تو چھوٹوں کے لئے برخوردار، میری جان، سید صاحب، میاں، فرزند دلبند، راحت جاں، اقبال نشاں، جان من وغیرہ لکھے۔
مکتوب نگاری کو تکلف اور تصنع سے پاک رکھنے کے فطری رویے کا آغاز مکاتیب غالب میں القاب وآداب ہی سے ہوتا ہے۔ مثلا :
’’ بھائی!
تم کیا فرماتے ہو جان بوجھ کر انجان بنے جاتے ہو واقعی غدر میں میرا گھر نہیں لٹا مگر میرا کلام میرے پاس کب تھا نہ لٹا۔ ہاں بھائی ضیاء الدین خان صاحب اور ناظر حسین مرزا صاحب ہندی اور فارسی نظم ونثر کے مسودات مجھ سے لے کر اپنے پاس جمع کرلیا کرتے سو ان دونوں کے گھروں پر جھاڑو پھر گئی نہ کتاب ہی نہ اسباب، پھر اب میں اپنا کلام کہاں سے لاؤں‘‘
نثرغالب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے فارسی کی بجائے اردو کو خطوط نویسی کا وسیلہ بنا کر اردو زبان کو ایک سادہ ، سلیس ، بے ساختہ، بے تکلف ، اثر آفریں انداز اور پر لطف اسلوب سے روشناس کیا۔ یہ بھی دلچسپ اور چونکادینے والی بات ہے جس نے شعری وسیلۂ اظہار کو مشکل اور مبہم بنائے رکھا تھا وہ شاعری کے با ب میں کہتا ہے۔
گر خاموشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ مری بات سمجھنی محال ہے
اخفائے حال پرخوش ہونے والے نے سادگی پسند اور آسان لب ولہجے کو کیسے اپنالیا؟ بعض نقادوں کا یہ استدلال ہے کہ شاعری آرائش گفتار کی متقاضی ہوتی ہے اور اس کے لئے جوش ، ولولہ، ذہنی وجسمانی توانائی اور طاقت درکار ہوتی ہے۔ غالبؔ عالم ضعیفی میں یہ سب کچھ کھوچکے تھے۔ انہوں نے اردو میں خطوط نگاری کو اپنی تنہائی اور گوشہ نشینی کے مشغلے کے بطور اپنایا‘‘۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہوسکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ غالبؔ ذہنی تھکان کے شکار تھے۔ غالبؔ کی مکتوب نگاری خارجی اور داخلی دونوں اعتبار سے سنجیدہ اور ذمہ دارانہ اور شعوری کوشش کا نتیجہ کہی جاسکتی ہے چنانچہ انھیں مکتوبات میں فضولیات، غیر متعلق احوال نا پسند تھے وہ مطلب کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں۔
’’ دوسرا یہ کہ شوقیہ خطوط کا جواب کہاں تک لکھوں اور کیا لکھوں۔ میں نے آئین نامہ نگاری چھوڑ کر مطلب نویسی پر مدار رکھا ہے۔ جب مطلب ضروری التحریر نہ ہو تو کیا لکھوں ‘‘ ۔ (بنام قاضی عبدالجمیل جنون)
’’ واہ حضرت کیا خط لکھا ہے۔ اس خرافات کو لکھنے کا کیا فائدہ۔ بات اتنی ہے کہ میرا پلنگ مجھ کو ملا۔ میرا بچھونا مجھ کو ملا۔ میرا حمام مجھ کو ملا۔۔۔‘‘
(میر مہدی مجروحؔ کے نام )
غالبؔ کے خطو ط کے تنوع کا ایک اورقابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے ایک سنجیدہ، خشک اور رسمی مراسلے کو مکالمہ بنادیا۔ مکتوب نگاری کے ضمن میں غالبؔ کا مکالماتی انداز روایتی اور رسمی اظہار کے بوجھل پن سے پاک ، دلچسپ اور پر لطف نظر اتا ہے۔ غالبؔ کو اپنی مکاتیبی نثر کی تمام تر جدتوں اور محاسن کا احساس اور ادراک بھی تھا۔ چنانچہ اس کا اظہار انہوں نے اپنے مکتوب میں اس طرح کیا ہے۔
’’ بھائی ۔
مجھ میں اور تم میں نامہ نگاری کا ہے کو ہے ، مکالمہ ہے۔ (بنام مرزا ہرگوپال تفتہؔ )
’’ مرزا صاحب میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنادیا۔ ہزار کوس سے بہ زبان قلم باتیں کیا کرو۔ ہجر میں وصال کے مزے لیاکرو۔‘‘ ( مرزا حاتم علی مہر کے نام )
’’ میں یہ باتیں کر رہا ہوں خط نہیں لکھتا مگر افسوس کہ اس میں گفتگو میں وہ لطف نہیں جو مکالمۂ زبانی میں ہوتا ہے۔ یعنی میں ہی بک رہا ہوں تم کچھ نہیں کہتے ‘‘۔( منشی بنی بخش حقیر کے نام )
’’ اس خط کے اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالبؔ نے بھلے ہی مراسلے کو مکالمہ بنالیا ہے لیکن اس امر کا اعتراف بھی ہے کہ یہ مکالماتی تحریر مکالمۂ زبانی کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔ایک اور خط نواب علاء الدین کے نام ملاحظہ ہو۔
’’محمد علی بیگ آئے تو میں نے ان سے لوہارو کی سواریوں کے بارے میں پوچھا۔
’’ بھئی محمد علی بیگ لوہارو کی سواریاں روانہ ہوگئیں ؟
’’ حضرت ابھی نہیں ‘‘۔
’’ کیا آج نہ جائیں گی ؟
’’ آج ضرور جائیں گی تیاری ہو رہی ہے۔‘‘
مکاتیب غالب ؔ میں اگرچہ کہ دلی کی زبان محاورے، صنائع وبدائع ، ظرافت شوخی اور کرب پایا جانا ہے لیکن غالبؔ نے اپنے مدعا اور مضمون کو مرکزی اہمیت کا حامل رکھا۔ مکتوب الیہ کی تحریر کے جواب میں مختلف موقعوں پر مختلف موضوعات پر لکھا ہے۔ پینسٹھ برس کی عمر ، غدر کے حالات کا دل ودماغ پر اثر ، تنہائی اور گوشہ نشینی مصائب آلام میں بھی غالبؔ زندگی سے فرار اختیار نہیں کرتے۔ بلکہ صبر وتحمل عزم وحصلہ استقلال کے باوصف ان کی شخصیت مستحکم نظرآتی ہے۔
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جانِ عزیز
یہ نہیں کہ انھوں نے اپنے حالات اور احساس کا اخفا کیا بلکہ انھیں ظرافت اور شوخی کے پیرائے میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کو پریشانی نہ ہو۔ میر مہدی مجروح کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں۔
’’ یہ میرا حال سنو۔ بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آگیا ہے اس طرف سے خاطر جمع رکھنا رمضان کا مہینہ روزہ کھا کھا کر کاٹا آئندہ خدا رازق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا تو غم تو ہے بس صاحب جب ایک چیز کھانے کو ہوئی اگرچہ غم ہی ہو تو پھر کیا غم ہے ۔ ‘‘
روزہ رکھتا ہوں مگر روزے کو بہلائے رکھتا ہوں کبھی پانی پی لیا کبھی حقہ پی لیا کبھی کوئی روٹی کا ٹکڑا کھالیا یہاں کے لوگ عجب فہم ہیں طرفہ روش رکھتے ہیں۔ میں تو روزہ بہلاتا رہتا ہوں یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ رکھنا اور چیز ہے روزہ بہلانا اور بات ہے۔
’’ میاں بڑی مصیبت میں ہوں محل سرا کی دیواریں گر گئی ہیں پائے خانہ ڈھ گیا۔ چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ دیوان خانے کا حال محل سرا سے بدتر ہے۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا۔ فقدان راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ چھت چھلنی ہے ابر دوگھنٹے سے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے مالک مکان اگر چاہے تو مرمت کرتے توکیوں کر کر مہینہ کھلے تو سب کچھ پھر اثنائے مرمت میں بیٹھا کس طرح رہوں ۔۔۔ ‘‘
میاں تم میرے ساتھ ہو جو معاملہ کرتے ہو احیا سے موسوم ومعمول ہے اس ہجوم امراض جسمانی وآلام روحانی کو ان باتوں سے کا ہوتا ہے ہر دم نزع ہے دل وغموں سے خوں ریز ہوگیا کہ کسی بات پر خوش نہیں ہوسکتا مرگ کو نجات سمجھے ہوئے ہوں۔
غالبؔ کے خطوط میں ان کی طبیعت کا عکس یعنی ظرافت وشوخی بکثرت پائی جاتی ہے۔ غالبؔ سے قبل اردو زبان طبع زاد اور تخلیقی نثر سے محروم تھی (خلیق انجم) غالبؔ کی ساری زندگی غم وآلام سے نبرد آزمائی میں کٹ گئی لیکن اس کا اثر ان کی انا اور خوش مزاجی پر نہیں پڑسکا۔ غموں کے اژدھام میں غالب بجھ نہیں گئے بلکہ اس باشعور اور دانشور انسان نے جوانمردی سے ان کا مقابلہ کیا اور انھیں ظرافت میں لپیٹ کر ہلکا کردیا۔
رنج کا گوہر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
اس شعر کے مصداق اپنے خط میں غالبؔ مرزا قربان علی سالکؔ کو لکھتے ہیں۔
’’ یہاں خدا سے بھی توقع باقی نہیں، مخلوق کا کیا ذکر ، کچھ بن نہیں آتی اپناآپ تماشائی بن گیا ہوں۔ رنج وذلت سے خوش ہوتا ہوں یعنی میں نے اپنے آپ کو غیر تصور کیا جو دکھ مجھے پہنچتا ہے کہتا ہوں کہ غالبؔ کو ایک جوتی لگی، ‘‘
مرزا حاتم علی مہر کی محبوبہ کے انتقال پر ان کے خط کے جواب میں غالبؔ لکھتے ہیں۔
’’ مرزا صاحب ہم کو یہ باتیں پسند نہیں پینسٹھ برس کی عمر ہے پچاس برس میں عالم رنگ وبو کی سیر کی۔ ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے نصیحت کی ہے ہم کو زہد وورع منظور نہیں ہم مانع فسق وفجور نہیں۔ پیو کھا۔ مزے اڑاؤ مگر یاد رہے مصری کی مکھی بنو۔ شہد کی مکھی نہ بنو۔ میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ کسی کے مرنے کا وہ غم کرے جو آپ نہ مرے۔ کیسی اشک فشانی کہاں کی مرثیہ خوانی۔ آزادی کا شکر بجالاؤ۔ غم نہ کھاؤ۔ اگر ایسے ہی اپنی گرفتاری سے خوش ہو تو چنا جاں نہ سہی منا جان سہی۔ جب میں بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں اگر مغفرت ہوگئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی اقامت جاودانی اور وہی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے وہ حوراجیرن ہوجائیگی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی وہی زرد سن کا رخ وہی طوبیٰ کی ایک شاخ چشم بدور وہی ایک حور۔ بھائی ہوش میں آؤ کہیں اور دل لگاؤ۔
مرزا حاتم علی مہر کے ایک اور خط کا اسی لب ولہجہ میں غالبؔ کا جواب ملاحظہ ہو۔
جناب مرزا صاحب
آپ کا غم افزا نامہ پہنچا۔ سنو صاحب شعراء میں فردوسی اور فقراء میں حسن بصری اور عاشق میں مجنوں۔ یہ تین آدمی تین فن میں سر دفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہوجائے۔ فقیر کی انتہاء یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے۔ عاشقی کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو۔ لیلیٰ اس کے سامنے مری تھی۔ تمہاری محبوبہ تمہارے سامنے مری بلکہ تم اس سے بڑھ کر ہوگئے۔ لیلیٰ اپنے گھر میں اور تمہاری معشوقہ تمہارے گھر میں مری۔ بھئی مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں۔ جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی مغل بچہ ہوں عمر بھر میں نے ایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھا ہے۔ خدا ان دونوں کو بخشے اور ہم تم دونوں کو بھی کہ زخم مرگ دوست کھائے ہوئے ہیں۔ جانتا ہوں تمہارے دل پر کیا گزرتی ہوگی صبر کرو۔ اب ہنگامۂ عشق مجازی چھوڑدو۔
سعدیؔ اب عاشقی کنی وجوانی
عشق محمدؐ بس است وآلِ محمد

Share
Share
Share