عثمانیہ یونیورسٹی
بات اتنی تھی کہ میں اُس کے برابرہوگیا
علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل : afarruqgmail.com
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دنیا کا کوئی وجودبے چہرہ نہیں ہوتا‘ چٹان ہو کہ شاخ گل‘ چڑیا ہوکہ عقاب‘ معصوم چرند ہو کہ درندہ‘ ہر وجود کی شناخت اس کے اپنے چہرہ سے ہے۔ فیاض قدرت نے تو ہر وجود کے چہرے کو اپنی مصوری کا شاہکار بنایا‘ لیکن انسان کے اندر کے فنکار نے اپنی انا کے پیش نظر لاکھوں برس کی چٹانوں کے قدرتی چہرے کو مسخ کرکے اس پر اپنی پسندیدہ نقاب چڑھا دی۔ اس لمحے سے آج تک نقابوں کی فروغِ صنعت کا موسم شباب پر ہے۔ شجر تو سایہ دیتا ہے ہی‘ لیکن اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ چہرۂ برگ پر نقابِ رنگ نمو کی ہے یا زہرکا رنگ۔ یہی حال انسانوں کا ہے‘ جب تک زمین قدرتی وسائل سے مالا مال تھی۔ ہوس زر تمنائے بقا تھی بھی نہیں تب انسانوں کے بھی چہرے ہوا کرتے تھے۔ سادہ‘ معصوم‘ بے ریا ہرشخص اپنے چہرے سے اپنی شناخت بھی رکھتا تھا۔
بچپن کا چہرہ ماں باپ کا دیا ہوا چہرہ‘ جوانی کا چہرہ قدرت کی فیاضی کا چہرہ اور بڑھاپے کا چہرہ اپنی کمائی کا چہرہ۔ جس کی ہر شکن میں صدیوں کی داستان پوشیدہ۔ جیسے ہاتھ کی لکیروں میں چھپا ہوا مقدر۔ دراصل نفس میں چھل کپٹ‘ ریا‘ مکر‘ فریب‘ منافقت‘ مصلحت کوشی‘ ہوس مل جل کر انسان کو بے چہرہ کردیتیہے۔ یہ بے چہرگی تاریک‘ زہرآلودہ‘ تفاخرنفس‘ پندار انا‘ فروغ صنعتِ قدآوری کا مرکب ہوتی ہے‘ جس میں آئینہ کے روبرو ہونے کی ہمت اور حوصلے کا فقدان ہوتا ہے۔ تب جہل کے چہرے پر علم کی نقاب‘ ریاکاری کے چہرے پر تقدس کی نقاب‘ ہوس کے چہرے پر بے نیازی کی نقاب‘ بخالت کے چہرے پر سخاوت کی نقاب‘ مصلحت کوشی پر سادگی کی نقاب‘ مکر کے چہرے پر معصومیت کی نقاب‘ رہزن کے چہرے پر رہبری کی نقاب‘ دشمنی کے چہرے پر دوستی کی نقاب‘ فتنہ پردازوں کے چہرے پر درد انسانیت کی نقاب اور منافقت کے چہرے پر نیکو کاروں کی نقاب اور پھر نقاب اندر نقاب یوں زندگی بھر چسپاں ہوکر رہ جاتی ہے کہ کمر خم ہوکر کنویں جھکوائے لیکن نہ صرف یہ کہ اصلی چہرہ نہیں دکھائی دیتا‘ بلکہ اسی نقاب اندر نقاب چہرے کو خود اپنا چہرہ بھی اس لئے یاد نہیں رہ جاتا کہ بے چہرگی کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔ انسانیت کو قدمبوس کرواکر آخر کار اس کی جھوٹی خدائی کے نقاب کے اندر اس کا نفسِ فرعون مزاج اور شدّاد سامان اپنے وجود کی خود ساختہ جنت میں مسرور و شادماں رہتا ہے۔ اس کو اپنے انجام کی اس لئے بھی فکر نہیں ہوتی کہ اس کے حلقہ بگوش جب اسے یہ یقین دلا دیتے ہیں کہ وہ لائق پرسش نہیں بلکہ لائق پرستش ہے تو آخرت کا لفظ اس کے پاس اپنا مفہوم کھو دیتا ہے اور وہ زندہ بے عقل لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنی قدآوری کا دعویدار ہو جاتا ہے۔ اسے سوائے اپنی ذات کے کسی اور پر نظر کرنے کی نہ فرصت ہوتی ہے نہ ضرورت‘ لیکن سلاطین دکن نے خواہ وہ قطب شاہی ہوں کہ آصف جاہی‘ ان کو یہ ادراک حاصل تھا کہ شاہی فقط کرّوفر سے قائم نہیں رہتی‘ بلکہ اپنی دھڑکن کو رعایا کی دھڑکن سے ہم آہنگ کرنے سے باقی رہتی ہے۔ خاص طورپر محبوب علی پاشاہ نے کبھی زمین پر حکومت کی ہی نہیں‘ وہ دلوں کے حکمراں تھے۔ رعایا سے ان کا اٹوٹ رشتہ تھا‘ بلکہ رعایا ان کے وجود کا ایک حصہ تھی۔ چنانچہ میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کے انتقال کے فوراً بعد شہاب جنگ نے نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کی فرمانروائی کا اعلان کردیا۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی اور نہ کوئی سازش‘ بلکہ نواب میر محبوب علی خاں نے اپنے دوسرے فرزند میر عثمان علی خاں میں وہ جوہر حکمرانی ان کے لڑکپن ہی میں دیکھ لئے تھے‘ جہاں اوائل عمری ہی سے ان کی پوری توجہ اپنے والد کے طرز حکمرانی کے ساتھ ساتھ امراء کی ریشہ دوانیوں کو بھی نہ صرف بغور دیکھ رہی تھیں‘ بلکہ لڑکپن ہی سے ان کے تیز مشاہدے نے وقت کی سوئیوں کی رفتار کو محسوس کرلیا تھا۔ چنانچہ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے جہاں اردو‘ فارسی اور عربی کے اساتذہ مقرر کئے گئے‘ وہیں 13 برس کی عمر میں ان کے لئے SIR BURTON EAGARTON کو انگریزی کی تعلیم کے لئے مقرر کیا گیا۔ اس کے علاوہ سر افسر الملک کمانڈر انچیف کی نگرانی میں نشانہ بازی‘ گھڑسواری اور فوج کی باضابطہ تربیت بھی ان کے نصاب کا حصہ تھی۔ اس کے علاوہ میر عثمان علی خاں کی اپج اور فطری صلاحیتوں‘ امور جہانبانی میں غور و خوض‘ قوت فیصلہ کے پیش نظر میر محبوب علی خاں کی ہدایت پر باب حکومت کی تمام اہم مسلیں ہر صبح نوعمر شہزادے کی خدمت میں بغرض ملاحظہ پیش کی جاتیں۔ رفتہ رفتہ ان امور میں آصف جاہ سادس ان سے مشورہ طلب بھی ہوتے‘ تاکہ دیکھ سکیں کہ تربیت کے رنگ نے کتنا اثر قبول کیا۔ بہت جلد میر عثمان علی خاں نے اپنے آپ کو سلطنت کی حکمرانی کے لئے اہل ثابت کردیا اور تمام امراء میں اندرونی طورپر یہ بات سمجھ میں آچکی تھی کہ حکمراں کون ہوگا۔ لیکن چوں کہ بصالت جاہ بڑے فرزند بھی تھے اور ان کی والدہ سردار بیگم آصف جاہ سادس کی پہلی بیگم بھی تھیں‘ اس لئے وہ خود کو تخت و تاج کا دعویدار سمجھتے تھے۔ سادات بارہہ کی طرح ہر حکومت میں ایسے کردار پائے جاتے رہے ہیں‘ تاکہ تخت و تاج کی اس کشمکش میں وہ اپنی مرضی کا حکمراں مقرر کرکے اپنی منفعت حاصل کرسکیں۔ لیکن شہاب جنگ کی دانائی و بینائی نے اس کا موقع ہی فراہم نہ ہونے دیا‘ بلکہ نواب میر محبوب علی خاں کے انتقال کی خبر کے ساتھ ہی میر عثمان علی خاں کی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔
/11 اگست 1911 ء مطابق /4 رمضان 1329 ھ آصف سادس اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ اس وقت تک ریاست حیدرآباد ایک خوشحال اور ترقی پزیر ریاست میں تبدیل ہوچکی تھی۔ آصف سادس کے انتقال کے ساتویں دن رسم تخت نشینی حسب سابق خلوت مبارک کے دربار ہال میں /10 رمضان 1329 ھ مطابق /18 ستمبر 1911 ء کو عمل میں آئی۔ آصف سابع کی تاریخ ولادت /29 جمادی الثانی 1303 ھ مطابق /5 اپریل 1886 ء ہے۔ 1912 ء میں مہاراجہ سرکشن پرشاد نے وزارت عظمی کی ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی خواہش کی‘ البتہ پیشکاری دربار کا عہدہ نظام نے ان کے پاس برقرار رکھا۔ نظام دکن نے مہاراجہ کی جگہ میر یوسف علی خاں سالار جنگ سوم کو وزیر اعظم مقررکیا۔ دو سال تک سرسالار جنگ سوم نے اپنے دادا سرسالار جنگ اول کی طرح اصلاحات کو فروغ دیا اور نظام حیدرآباد کے ساتھ حیدرآباد کی ترقی کو ایک نئی جہت دینے میں مصروف رہے۔ دسمبر 1914 ء میں سرسالار جنگ صرف دو سال کی مدت کے بعد اس عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔ اس کے بعد نظام نے فوری کوئی تقرر نہیں کیا‘ بلکہ راست عنان حکومت اپنے ہاتھ میں رکھی۔ انھوں نے اپنے والد نواب میر محبوب علی خاں کی طرز حکمرانی آئین‘ فلاحی اور ترقیاتی کاموں کو بغور دیکھا تھا۔ ان کی حرکیاتی شخصیت نے حیدرآباد کو ایک نئی جہت دینے کی ٹھانی۔ چنانچہ سب سے پہلے نظام نے ریاست میں تعلیمی ترقی پر توجہ دی۔ ہرمحلہ میں پرائمری‘ مڈل اسکول اور ہائی اسکول قائم کئے‘ جنھیں مدرسہ تحتانیہ‘ وسطانیہ اور فوقانیہ کہا جاتا تھا۔ ان مدارس میں برائے نام فیس رکھی گئی۔ مثلاً تحتانیہ مدارس کی فیس تین پیسے ماہانہ‘ وسطانیہ کی چار آنے‘ یعنی 25 پیسے ماہانہ اور فوقانیہ کی ایک روپیہ ماہانہ فیس مقرر تھی‘ لیکن صدر مدرس کو یہ اختیار تھا کہ اولیائے طلبہ کی ماہانہ آمدنی کے پیش نظر وہ فیس معاف کرے یا نصف فیس قرار دے۔ اس کے علاوہ جن طلبہ کی فیس معاف کردی جاتی یا نصف کردی جاتی‘ انھیں ہر سال نصابی کتب اور کاپیاں بھی مفت تقسیم کی جاتی تھیں۔
آصف سابع کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اپنی تخت نشینی کے چھٹے سال یعنی 1917 ء میں انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ ہندوستان میں یہ پہلی یونیورسٹی ہے‘ جس نے انگریزی زبان کی بجائے ہندوستانی زبان میں طرز تعلیم کو مروج کیا۔ اردو جو میر محبوب علی خاں کے دور حکومت میں سرکاری زبان کا درجہ اختیار کرچکی تھی‘ نواب میر عثمان علی خاں کے دور میں جامعاتی تعلیم کے درجہ تک ترقی کر گئی۔ عثمانیہ یونیورسٹی 1400 ایکڑ پر قائم کی گئی۔ کبھی یہ زمین مہ لقا بائی چندا کی زمین تھی‘ لیکن اس کے بعد بندوبست اولیٰ میں چوں کہ اس کا کوئی دعویدار نہیں تھا‘ اس لئے یہ زمین سرکاری قرار پائی اور یہی زمین عثمانیہ یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے مختص کردی گئی۔ مہ لقا بائی چندا کا کردار ایک علحدہ مضمون کا متقاضی ہے‘ لیکن یہ ایک جملہ کہ مہ لقا بائی چندا کا باغ جس میں اس کا مزار بھی ہے‘ مولا علی کے دامن میں خوشحال خاں کی کمان سے متصل ہے‘ جو درج رجسٹر اوقاف بھی ہے‘ اس وسیع باغ کو انتہائی معمولی کرایہ پر جس میں شاید آج ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہ آئے‘ وقف بورڈ نے کرایہ پر دے کر اس سے اپنی آمدنی کو خاطر خواہ وسعت دی ہے۔ بہرحال وہ تو ہمیشہ کے لئے سو رہی اور بقول علی حیدر نظم طبا طبائی:
چراغاں اور صندل یا گل ریحاں نہیں تو کیا
یہ ہے گور غریباں اک نظر حسرت سے کرتا جا
جو خوش الحان کوئی قاری قرآں نہیں تو کیا
جو اس رستے گزرتا ہے تو ٹھنڈی سانس بھرتا جا
کا منظر آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی کی زمین پر عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہے۔ 1917 ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کی تعمیر پر 36 لاکھ روپے خرچ ہوا۔ یہ عالیشان عمارت آج بھی آصف جاہی طرز تعمیر کا نہ صرف یادگار نمونہ ہے‘ بلکہ علم اپنی جگہ خود نور ہے۔ اس جامعہ کو جو مخزن علم ہے‘ ضیا پاش ہونا ہی چاہئے۔ اونچی کرسی کی یہ وسیع اور عالیشان عمارت درمیان میں وسیع و عریض ہال اور سیڑھیوں کے عین اوپر شیشے میں نفیس کاریگری کے ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی کا مونوگرام جس کے وسط میں کسی عمدہ خطاط کا لکھا ہوا ’’ع‘‘ نواب عثمان علی خاں کے نام کا پہلا حرف تھا۔ اسی مونوگرام کے اوپر قوس نما شیشہ کی پٹی پر ’’انا مدینۃ العلم وعلی بابہا‘‘ شیشہ میں تراشیدہ تھا۔ زوال حیدرآباد کے بعد سیکولرازم کی دعویدار حکومت نے اس ارشاد نبوی کو ہٹاکر‘ اس کی جگہ کچھ اور لکھ دیا ہے۔ لندن کے قریب ایک قصبہ میں ایک یونیورسٹی قائم ہے۔ نام آپ نے بھی سنا ہے۔ دنیا بھر میں اس کی شہرت ہے۔ پنڈت جواہرلال نہرو تو کیمبرج سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے اور وہ ملک کے نامور وکیل امیر و کبیر موتی لال نہرو کے فرزند بھی تھے۔ ان کی طالب علمی کے دور کے ٹھاٹ باٹ‘ مشاغل‘ دوست احباب کے ساتھ تفریحات‘ موتی لال نہرو نے بینکوں کے چیک پر دستخط کرکے حوالے کردےئے تھے کہ ان کے اکلوتے بیٹے کو کسی کمی کا احساس ہی نہ ہو۔ موتی لال نہرو نے بیٹے کی تعلیم اور ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنی ساری دولت صرف کردی‘ حتی کہ الہ آباد کا آنند بھون جو ان کا گھر تھا‘ وہ بھی قوم کے نام کردیا۔ اپنے اور اپنی اولاد اور خاندان کے لئے کچھ نہیں رکھا‘ صرف ہندوستان کی ’’وزارت عظمی‘‘ کا معمولی سا عہدہ ان کے نام کردیا۔ بھلا بتلائیے کسی نے ہندوستان کی آزادی کے عوض اتنی بڑی قربانی دے کر اتنی معمولی کرسی حاصل کی ہے؟۔ لیکن میں کیمبرج یونیورسٹی کی گفتگو نہیں کر رہا تھا‘ میں در اصل اس قصباتی یونیورسٹی کی بات کر رہا تھا‘ جس قصبہ کا نام آکسفورڈ ہے اور وہیں آکسفورڈ یونیورسٹی بھی قائم ہے۔ ہندوستان بلکہ آندھرا پردیش کے ایک دیہات سروے پلی کا ایک معمولی طالب علم رادھا کرشنن جس نے ٹمٹماتے دےئے کی لو میں اپنی تعلیم حاصل کی اور مدراس کے کرسچن کالج سے نکل کر آکسفورڈ جا پہنچا۔ وہ ڈاکٹر راجندر پرشاد کے بعد ملک کے صدر جمہوریہ کے عہدے تک پہنچ گیا اور آخر تک بھی آکسفورڈ کا VISITING PROFESSOR رہا۔ اس عظیم ہستی نے خود کو ہمیشہ صرف ایک استاد سمجھا اور استاد بھی نہیں بلکہ طالب علم۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا مونوگرام لاطینی زبان میں یونیورسٹی کے باب الداخلہ پر کندہ ہے۔ انگریزوں جیسے کٹر بنیاد پرستوں نے بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم تو انگریزی رکھا‘ لیکن اس کا مونوگرام یا EMBLEM تبدیل نہیں کیا‘ اس لئے کہ زندہ قومیں اپنے ماضی کی یادگاروں کو محفوظ رکھتی ہیں‘ نہ اس کو تبدیل کرتی ہیں نہ اس کو مٹاتی ہے کہ یہ ان کے شاندار ماضی کا حصہ ہے۔ شاید شاہی اور جمہوریت کا یہی فرق ہے کہ شاہی نے تو عظمت رفتہ کے نقوش ہوں یا روم کے ایمپی تھیٹرجو نیرو کے ظلم کی آماجگاہ رہی‘ ان کو بھی محفوظ رکھا‘ لیکن جمہوریت یونان کی ملکہ اولمپیا کے آغاز کردہ کھیلوں کی علامت اولمپک گیمس کی مشعل کو تو لے کر دوڑنے میں افتخار محسوس کرتی ہے‘ لیکن عثمانیہ یونیورسٹی کے طرز تعلیم تو کجا‘ اس کے مونوگرام کو بھی باقی رکھنے پر تیار نہیں۔
نظام نے جتنا روپیہ عثمانیہ یونیورسٹی کی تعمیر پر خرچ کیا‘ اس سے زیادہ رقم دارالترجمہ پر خرچ کی‘ تاکہ دنیا کے تمام علوم‘ فنون‘ سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ اردو میں ہو جائے اور حصول علم میں کوئی زحمت نہ ہو۔ میرے وہ احباب بلکہ مجھ سے دس بیس برس کم عمر کی نسل بھی اس بات کی گواہی دے گی کہ اس وقت TRIANGLES کو مثلث‘ مثلث مساوی الاضلاع‘ مثلث مساوی الساقین SQUARE کو مربع‘ RECTANGLE کو مستطیل‘ CYLINDER کو استوانہ‘ TUBE کو نکاس نلی اور FUNNEL کو کنول قیف کہا جاتا تھا۔ اسی اردو میڈیم میں یہی سب کچھ پڑھ کر زین یارجنگ جیسے انجینیر‘ڈاکٹر عبد المنان جیسے ڈاکٹر‘محی الدین زور جیسے محقق‘ حبیب الرحمن‘ ہاشم علی اختر جیسے ماہرین تعلیم‘ شاہد صدیقی‘ مخدوم محی الدین جیسے شاعر‘ میر حسن‘ رائے محبوب نارائن جیسے انشاء پرداز‘ عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر جیسے صحافی‘ غرض ہر فن کے ماہرین پیدا ہوئے اورعجیب بات تو یہ تھی کہ ان میں سے جو بھی ولایت گیا اسے تعلیم حاصل کرنے میں اس لئے بھی دشواری نہ پیش آئی کہ آصف سابع کے دور میں اگرچہ کہ ذریعہتعلیم اردو تھا‘ لیکن انگریزی اورتلگو بھی نصاب میں شامل تھیں۔ بلکہ 1954 ء تک فارسی بھی جزو نصاب رہی۔ اسی لئے طالب علم اگرابتدائی تعلیم ہی کے دوران اگر غالبؔ اور میرؔ سے واقف رہتا تو ولیم شکسپیر اور رابرٹ براؤننگ بھی اسے ازبر تھے اورتلگو شاعر بھاسکرکی نظمیں تو ہمیں آج بھی یاد ہیں۔ دارالترجمہ میں مولوی عبد الحق‘ علی حیدر نظم طبا طبائی‘ ضامن کنتوری‘ جوش ملیح آبادی‘ مولانا مناظر احسن گیلانی جیسی شخصیتیں ہمہ تن تراجم میں مصروف رہتیں۔ سقوط حیدرآباد کے 60 سال بعد عمارت تو وہی ہے‘ زمین بھی وہی ہے‘ نہ وہ طرز تعلیم ہے نہ وہ شفیق اساتذہ‘ نہ وہ خوش ذوقی‘ نہ وہ لباس‘ نہ وہ معیار‘ کوئی صرف اتنا بتلا دے کہ شخصی بغض وعناد کی تو وجہ ہو سکتی ہے‘ لیکن علم دشمنی اور زبان دشمنی دنیا کے کس حصے میں روا ہے اورکس مذہب میں جائز ہے؟۔ کیا عثمانیہ یونیورسٹی کا یہ کوئی جرم ہے کہ اسے نظام نے تعمیر کیا تھا اوراگر یہی جرم ہے تو آپ کس کس عمارت کو ڈھائیں گے‘کس کس تعمیر کو منہدم کردیں گے اور اگر یہ سب آپ کردیں گے تو پھر آپ رہیں گے کہاں اورآپ کی تاریخ میں کیا رہ جائے گا۔ آپ غور کیجئے تو بات کچھ بھی نہیں‘ بات صرف یہ ہے کہ:
ہر گھڑی ہر پل وہ میرے قتل کی سازش میں ہے
بات اتنی تھی کہ میں اُس کے برابر ہو گیا
۳ thoughts on “عثمانیہ یونیورسٹی : بات اتنی تھی کہ میں اُس کے برابرہوگیا ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”
اپنے ماضی کی بازیافت اور آثار و باقیات کا تحفظ، ماضی سے وابستگی اور ثقافتی ورثہ کے بغیر کسی متمدن قوم کا تصور نہیں کیا جا سکتا-
حضرت العلامۃ محترم علامہ اعجاز فرخ Allama Aijaz Farruq صاحب قبلہ ہمارے لیے ایک روشن مینارۂ نور اور ماضی سے رابطہ کی ایک واحد کڑی 🔗 ہیں، آپ کی تحریریں ہمیں اپنے ماضی کی آن بان، شان و شوکت، آب و تاب، جاہ و جلال، وقار و تمکنت، عظمت و رفعت، وجاہت و سطوت اور عظمتِ رفتہ کے روشن نقوش، تابندہ واقعات، زندۂ جاوید شخصیات، ناقابلِ فراموش اخلاق و کردار کے حامل اصحابِ فضل و کمال سے ملاقات کرواتی ہیں- لسانِ صدق کی مصداق ہستیوں سے ہمیں شناسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، گویا آپ کی تحریریں ہمیں ہمارے روشن ماضی سے آشنا کرواتی ہیں اور ع:
عجب چیز ہے یہ لذت آشنائی.
نظام کے عطیہ سے تعمیر شدہ ہوسٹل ابھی بھی پشاور یونیورسٹی میں خدمت ِ طلبا کر رہے ہیں اور نام بھی عثمانیہ ہوسٹل ہی ہے اور طرز ِ تعمیر بھی حیدرآبادی اسلامک اسٹائل کا ہے ۔
جامعہ عثمانیہ، اردو کی پہلی جامعہ ہے. اردو میں تمام مضامین میں کورسسز شروع کرنے کا حوصلہ نظام پاشاہ کے ہاں ہی تھا. کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی. یہ دنیا کی پہلی اردو یونیورسٹی تھی. جسے ظالموں نے نہایت عیاری سے اس کے اسٹیٹس کو بدل دیا. آپ نے بہت سی یادیں تازہ کردیں علامہ. اللہ آپ کو خوش رکھے