پینگوئین Penguin ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی

Share

پینگوئین

پینگوئین Penguin
وہ پرندہ جو ہربرس ایک مہینے کے روزے رکھتا ہے
یخلق ما یشاء (وہ جسے بھی چاہتا ہے پیدا کرتا ہے5-17)

ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی – ورنگل
موبائل : 09866971375

پینگوئین کا ذکر( جہاں تک میرا مطالعہ ہے) قرآن یا انجیل یا ہندؤں کی کسی بھی مقدس کتاب میں نہیں ہے اور احادیث کی کسی بھی کتاب میں اس پرندے کا تذکرہ میں نے نہیں پایا۔Penguin اپنی نوعیت کا عجیب جاندارہے جس کو اردو اورعربی میں’’بطریق‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ پرندہ قطب جنوبی میں پایا جاتا ہے لیکن اس کی بعض انواع دنیا کے دوسرے مقامات جیسےGalapagos میں بھی رہتی ہیں، لیکن قطب شمالی میں یہ جاندار نہیں پایا جاتا۔قطب جنوبی برفیلا علاقہ ہے جہاں کی زمین پر 5کلو میٹر موٹی برف کی تہہ جمی رہتی ہے ،اس برف کی وسعت اور حجم کا ااندازہ اس بات سے لگائیں کہ بالفرض محال اگر انتارتیکا کی تمام برف پگھل جائے تو ہمارے سمندروں کی اونچائی کم ازکم 50 میٹر بڑھ جائے گی۔اس علاقے میں بعض مقامات پر انسانی آبادی بھی پائی جاتی ہے، ان افراد کی زندگی بڑی سخت ہے کہ جب برف پڑتی ہے توان برفیلے مہینوں میں بقیہ دنیا سے ان کا رابطہ منقطع ہو جاتا ہے،اس وقت ان کی زندگی ایسی ہوجاتی ہے گویا انہوں نے اپنے آپ کو ’’چاند یا مریخ‘‘ میں قید کرلیا ہوکہ نہ کوئی فرد وہاں سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی مدد ان تک پہنچ سکتی ہے اور اللہ نے وہاں جس مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اس کا نام ہے ’’پینگوئین‘‘۔

پینگوئین ایک خوبصورت پرندہ ہے جو اسی علاقے یعنی قطب جنوبی میں پایا جاتا ہے ، ان میں کئی ایک خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ان خصوصیات میں ایک اس جاندار میں بکثرت’’پروں‘‘(Feathers) کا پایا جانا ہے کہ ایک مربع انچ جگہ میں اس جاندار کے جسم پر تقریباً 70پر موجود ہوتے ہیں اور، پروں کی کثرت اور ان کا مخصوص انداز مین جما رہنا دراصل حرارت کو روکنے کا ایک خوبصورت ذریعہ ہے کہ یہی’’ پر‘‘ ایک دوسرے پر Overlap ہوکر جاندار کے جسم کی حرارت کو اعتدال پر رکھتے ہیں ۔اگر کبھی ضرورت پڑے تو یہ پرندہ اپنے ’’پروں‘‘ کو کھول کر ماحول کی ٹھنڈک کو محسوس کر سکتا ہے لیکن عام طور پر یہ پرندے اپنے پروں کو بند رکھتے ہیں اور ٹھنڈک کو اندر داخل ہونے نہیں دیتے ، ان کے پر(Feathers) پانی میں گیلے نہیں ہوتے یعنی واٹر پروف ہوتے ہیں اور ٹھنڈک کو روکنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں تاکہ ان کا جسم سردی محسوس نہ کر سکے۔ ان کے اگلے جوارح ’’چپو‘‘ جیسے عضو Flippers میں تبدیل ہوجاتے ہیں اوران کے پچھلے جوارح جھلی نما ساخت میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ Penguins اپنا 75فیصد وقت پانی کے اندر گذارتے ہیں اور غذا کی تلاش میں سرگرداں رہتے ،ان کا تیرنا اور پرندوں کا اڑنا مجھے ایک جیسا نظر آتا ہے اسی لئے جب بھی یہ پانی میں تیرتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہوا میں اڑان بھر رہے ہیں ، یہ پانی میں 15کلو میٹر کی رفتار سے تیر سکتے ہیں ، یہ ہوا کی آکسیجن کے ذریعہ تنفس انجام دیتے ہیں لیکن باوجود اس کے یہ پانی کے اندر بڑی دیر تک سانس روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔علاوہ اس کے یہ اچھلتے نہیں بلکہ Bounce ہوتے ہیں اور ان میں 6فٹ تک باؤنس ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔یہ سال میں ایک بار پرانے پروں کو گرا کر نئے پروں کو اگاتے ہیں۔ ان میں بیرونی کان نہیں ہوتے لیکن ان کی قوت سماعت بہترین ہوتی ہے پروں کے نیچے پائی جانے والی Ear Canal انہیں سننے میں مدد دیتی ہے،اسی لئے بڑے سے بڑے مجمع میں اپنی مادہ کی آواز سن لیتے ہیں۔یہ پرندے جب سونے لگتے ہیں تو اپنا سر پروں میں چھپالیتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔ عام طور پر ان کی عمر 20برس ہوتی ہے ۔سائز میں سبسے چھوٹا پینگوئین Sphenisciformes سے تعلق رکھتا ہے اس کو Eudyptula minor یا Little Blue کہا جاتا ہے ، اس کا سائز 12 انچ تک ہوتا ہے جبکہ بڑے سائز کا پینگوئین 4فٹ تک اونچا ہوتا ہے جس کو Emperor Penguin کہا جاتا ہے،اس پرندے کا سائنسی نام Aptenodytes forsteri ہے ۔پینگوئین کی دنیا میں تقریباً18انواع موجود ہیں ، یہ گوشت خور جاندار ہے جو مچھلیوں، جھینگوں وغیرہ کا شکار کرتا ہے ویسے یہ زیادہ تر Krill بھی استعمال کرتا ہے، یہ جاندارپانی پینے کے بجائے برف کھانے کو ترجیح دیتا ہے، ایک لحاظ سے اس کو برف سے محبت ہوتی ہے، اس کا سر اور گردن کالی ہوتی ہے،جبکہ جسم سفید ہوتا ہے،اس کی ہڈیاں موٹی اور ٹھوس ہوتی ہیں تاکہ چلنے میں توازن برقرار ررکھا جا سکے۔اس پرندے کی آنکھیں پانی کے اندر بھی اسی طرح کام کرتی ہیں جیسے پانی کے باہر، یعنی اس کی آنکھوں کے لئے پانی ماحول کو دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بنتا، کیونکہ اس کی آنکھ کا Retina موٹا ہوتا ہے اور آنکھوں پر ایک تیسری پرت (Nictitating) بھی پائی جاتی ہے۔ ویسے یہ تیسری پرت ہر پرندے کی خصوصیت ہے لیکن ان میں یہ پرت بہتر نمو یافتہ ہوتی ہے،ان کی آنکھیں نیلے، ارغوانی اور سبز رنگ کو محسوس کر سکتی ہیں۔اس کی آنکھوں کے نیچے خاص غدود پائے جاتے ہیں جو جسم میں جمع شدہ زائد نمک کو باہر خارج کرتے ہیں ۔ پینگوئین آپس میں اپنے پروں اور سر کی حرکت یا باڈی لنگویج سے بات چیت کرتے ہیں ۔ جب سیاحوں نے قطب جنوبی کا دورہ کیا اور اپنے تجربات کو قلمبند کیا تو بتایا کہ پینگوئین انسانوں سے خوف نہیں کھاتا بلکہ وہ انسانوں کے قریب آتا ہے اور اپنائیت کا اظہار کرتا ہے،دوستی کرنا چاہتا ہے،لیکن یہ الگ بات ہے کہ انسان اس جاندار کی دوستی کو سمجھتے ہوئے بھی انجان ہوجاتا ہے کیونکہ اس کو اس کے’’ پروں‘‘ سے پلاسٹک کو جو بنانا ہوتا ہے۔یہ پرندہ عام طور پر گھونسلے نہیں بناتا لیکن اس کی بعض انواع کبھی کبھی اپنا گھونسلہ بھی بناتی ہے ، یہ اپنا گھونسلہ پتھروں سے بناتے ہیں،عمومی طور پر یہ پرامن جاندار ہے لیکن اس موقعہ پر ان میں بہتر پتھروں کے حصول کے لئے زور آزمائی شروع ہوجاتی ہے۔
Penguin عجیب وغریب اوصاف کا حامل آبی پرندہ ہے ،عام طور پر یہ نہایت سرد علاقوں خصوصاً جنوبی برفانی علاقوں میں کالونی کی شکل میں رہتا ہے۔ یہ پرندہ منفی88 ڈگری درجہ حرارت میں بھی زندگی گذار سکتا ہے،لیکن اس کی بعض انواع سرد علاقوں سے ہٹ کر بھی پائی جاتی ہیں۔ جیسے کہ بتایا گیا ہے ان میں شدید سردی برداشت کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے اس لئے کبھی کبھار ان علاقوں میں جب 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سرد ہوائیں چل رہی ہوں تو یہ جاندارموج و مستی کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے ، یہ گرم خون رکھنے والا جاندار ہے یعنی ان کے جسم کا درجہ حرارت مستقل ہوتا ہے جس طرح ہمارے جسم کی مستقل درجہ حرارت 98.4 ہوتی ہے اسی طرح ان کے جسم کی حرارت 100 فارن ہیٹ ہوتی ہے، سرد ترین ماحول اور ان برفیلی چٹانوں میں کھیلتے اس پرندے کے جسم کا مستقل درجہ حرارت انسان کو بہت کچھ سونچنے پر مجبور کرتا ہے ، بیرونی ماحول منفی 88 ڈگری یعنی منفی 126 فارن ہیٹ اور Penguin کے جسم کی اندرونی حرارت 100 فارن ہیٹ۔ آخر کوئی تو ہوگا جس کی قوت اس ماحول میں بھی ان پرندوں کو مستقل درجہ حرارت کے ساتھ زندگی گذارنے کی طاقت عطا کرتی رہتی ہے۔اس کی سائنسی توضیح بہت آسان ہے کہ اس جاندار کی جلد کے نیچے ایک موٹی پرت پائی جاتی ہے جو اس جاندار میں درجہ حرارت کو مستقل رکھنے کی ذمہ دار ہے، اس پرت کو Blubber کہا جاتا ہے جو اس ماحول میں بھی جاندار کو راحت کا احساس پیدا کرتی ہے اور درجہ حرارت کو استقلال پر رکھتی ہے،لیکن مجھے اس سائنسی وضاحت سے تشفی نہیں ہوتی بلکہ میرا دل کچھ اور ہی سونچنے لگتا ہے اور یہی سونچ انسانی زندگی کا جوہر ہے اور یہی جوہر اس دنیا کی واحد حقیقت ہے۔اگر ہم Penguin کی دوسری خصوصیات پر نظر کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ حیرت انگیز سماجی جاندار ہے جو کبھی کبھی پانچ ہزار سے زائد کی تعداد میں ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں اور عجیب اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں جب یہ یکجا ہوجاتے ہیں تو اپنے کندھوں کو ایک دوسرے سے ملا کر جڑ جاتے ہیں اور جتھے کے اندرونی حصے کو اس قدر گرم بنا دیتے ہیں کہ انسانی عقل حیران ہوجاتی ہے،اس موقعے پر یہ پرندے اپنے جسم میں پائے جانے والے غدود کو رگڑ کرچکنائی نکالتے ہیں اور اپنے ’پروں‘‘ کو تر کرتے ہیں تاکہ نا موافق حالات کو بھی ساز گار بنا یا جاسکے ،انسانی عقل کو حیران ہونے کا موقعہ اس وقت بھی دیکھنے میں آتا ہے جب یہ پرندے اپنے مقام سے جنوب کی جانب ہجرت انجام دیتے ہیں تو اس ہجرت کرنے والے گروپ میں چار لاکھ پرندے تک جمع ہوجاتے ہیں،تصور کیجئے اس قدر کثیر مجموعہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ منظرخدا کی قدرت کا مظہر بن کر نہ صرف ان پرندوں کے وجود کو بلکہ اس کا تصور ہماری ذات کو بھی گرماتا ہے اور میرا احساس ہے کہ اس بڑے مجموعے میں پرندوں کی آپسی قربت کے باعث کالونی کی اندرونی فضا پر ان پرندوں کا اتحاد گرمی کی چادر بن کر چھا جاتا ہے اور انہیں اس سرد موسم میں بھی خطرات سے محفوظ رکھتا ہے، برفیلی زمین ۔ برف کی طرح سفید آسمان ۔ ٹھنڈی ہواؤں کے چلتے جھکڑ۔ ایسے ماحول میں لاکھوں سیاہ و سفید جانداروں کا مجمع جوخراماں خراماں نا معلوم منزل کی طرف رواں دواں ہے ، اگر اس منظر کا طائرانہ جائزہ لیں تو انسانی ذہن عاجز آجائے ،کس قدر تربیت یافتہ ہیں یہ پنگوئین ،جنہیں خالق نے روز ازل ہی مجموعے میں چلنے کا سلیقہ عطا کردیا کہ یہ سلسلہ روز ابد کے آخیر پینگوئین تک دراز ہے جو جبلت کی نئیشکلوں میں ڈھل کر ان جانداروں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔اس موڑ پر میں چلنے میں سلیقے کی وضاحت کردوں کہ جب یہ قافلہ رواں دواں رہتا ہے تو اس کثیر مجموعے میں لمحہ بہ لمحہ حلقے پیدا ہوتے رہتے ہیں کیونکہ وہ پینگوئین جو مجمع کے بیرونی کنارے سردی کی لہروں کو برداشت کر رہے ہوتے ہیں وہ ایک کے بعد دیگرے مجمع کے اندر آتے جاتے رہتے ہیں تاکہ انہیں بھی سردی کی شدت سے راحت ملے، ا س طرح ہر پینگوئین اپنی جگہ بدل بدل کر اندرونی گرمی کے ماحول سے مستفید ہوتا رہتا ہے اور جب اس کی باری آتی ہے تو وہی پینگوئین مجموعے کے کسی ایک کنارے پر شان بے نیازی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ علاوہ اس ان پرندوں کو دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اللہ کی نعمتوں سے واقف ہیں ۔ ’’یعرفون نعمت اللہ‘‘کیونکہ ان میں کوئی بھی کسی بھی معاملے میں اختلاف نہیں کرتا۔ اور اللہ نے ان کو جاڑے کے سفر سے مانوس کردیا ہے اِیلاٰفھم رحلۃ الشتاء (القریش) اور یہ تمام جاندار اس بڑے مجمع میں اپنی عبادت کرتے آگے بڑھتے جارہے ہیں اور ہم ان کا طریقہ ہائے عبادت نہیں جانتے کیونکہ ہر جاندار اپنے انداز سے عبادت کرتا ہے میں کبھی کبھی سونچتا ہوں کہ کیا یہ خدا کے حضور نماز کا نذرانہ نہیں ہوسکتا۔ یہاں آپ تصور کیجئے اور اللہ کی ذات پر ایمان لے آیئے کہ بیک وقت چار لاکھ ہجرت کرنے والے پرندوں کا گروپ ۔ کیا منظر ہوتا ہوگا دل کو لبھانے والا ، دل میں خدا کے تیءں اعتماد اور یقین کی کیفیت پیدا کرنے والا ۔کیونکہ ان پرندوں میں اس قدر قوت کہاں کہ ایسی ہجرت کا فیصلہ کرسکیں، اللہ قرآن میں انسانوں سے کہہ رہا ہے کہ الم تکن ارض اللہ واسعتۃفتھاجروا فیھا(4-97) یعنی کیا ۔ خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے اور اس پر عمل یہ پرندے کر رہے ہیں ، اس ہجرت کا فیصلہ دراصل خدائی طاقت ہی ہے جو ان کو مسلسل اشارہ کرتی رہتی ہے اور تمام پرندے اسی پر عمل پیرہ ہو کر ہجرت کے لئے نکل پڑتے ہیں اور یہی کیفیت خدا پر ایمان کو اور مضبوط کرتی ہے۔
پرندوں میں ہجرت، عمل تولید کا ا بتدائی مرحلہ ہے ،پرندوں کے اس بڑے گروپ میں ایک ’’نر‘‘ کسی مادہ(Female)کو پسند کرلیتا ہے اور محبت کے گیت کو سمجھنے اور مادہ کی آواز کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے۔ یعنی ان لاکھوں میں ایک نر اپنی پسند کردہ مادہ کی آواز کو پہچانتا ہے اور اس کے متوجہہ کرنے پر اس کے قریب پہنچ جاتا ہے ، اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی آوازیں یقیناً شور کی کیفیت ہی پیدا کرتی ہونگی لیکن ان آوازوں کے غل میں اپنی پسند کردہ مادہ کی آواز کو پہچاننااس خالق کے نظام کی جانب اشارہ کرتاہے جو اس دنیا کے کارخانے کو چلا رہا ہے۔نہ صرف نر اور مادہ ایک دوسرے کی آواز پہچانتے ہیں بلکہ انکے بچے بھی اپنے اپنے ماں باپ کی آوازوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ان کے ’’نر‘‘ عام طور پر ایک ہی مادہ کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ جب یہ کسی مادہ کو پسند کرتے ہیں تو ان کی جانب ایک پتھر پھینکتے ہیں جو مادہ کے پیروں تک پہنچتا ہے،اس اثنا میں ’’نر‘‘ اپنی چونچ سینے کی طرف جھکائے کھڑا رہتا ہے اگر مادہ ’’نر‘‘ کے پیغام کو مناسب سمجھتی ہے تو دونوں ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور محبت کے گیت Mating song گانے لگتے ہیں ،’’نر‘‘ کامادہ منویہ(Sperms) ان کے Cloaca (مجرور) میں اور مادہ کے انڈے ان کے ’’مجرور‘‘ میں رہتے ہیں ’’نر‘‘ پینگوئین اپنے Cloacaکو دبا کر اسپرمس مادہ کے Cloacaمیں داخل کرتے ہیں اس طرح ان کا سنجوگ ختم ہوجاتا ہے۔ ان میں سنجوگ کا عمل صرف تین منٹ میں ختم ہوجاتا ہے ،اس کے بعد پھر ’’نر‘‘ اور مادہ اس برس ایک دوسرے سے عمل سنجوگ کے لئے نہیں ملتے۔جب مادہ انڈے دیتی ہے تو نہایت احتیاط سے ان انڈوں کو ’’نر‘‘ تک منتقل کرتی ہے ،ان انڈوں کو برف سے مس ہونے نہیں دیتی کیونکہ اگر انڈے برف سے مس ہوجائیں تو منجمد ہوجاتے ہیں اور ان میں زندگی کی رمق بھی باقی نہیں رہتی۔
پینگوئین کی ایک انوکھی خصوصیت ان کے انڈے سینے(Incubation) کا عمل ہے اس عمل کو ’’ عمل حاضنہ‘‘ کہا جاتاہے ، یہ خصوصیت اس جاندار کی منفرد خصوصیت ہے جس سے ہم انسان بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ، اس پرندے کی یہ خصوصیت ہمیں صبر کرنا سکھاتی ہے، اتحاد کا درس دیتی ہے ، جذبہ قربانی کو فزوں تر کرتی ہے اور قناعت کے سبق کو دل میں اتارتی ہے ۔پینگوئین میں عمل تولید کے بعد مادہ (Female) جب ایک انڈا(Egg)دیتی ہے (بعض انواع دو انڈے بھی دیتے ہیں) تو’’ نر‘‘(Male) تقریباًمنفی35ڈگری سیلسیس (-35 degree)درجہ حرارت میں اس انڈے کو سیتا ہے ۔ بعض انواع میں انڈے کی حفاظت نر اور مادہ مل کر بھی کرتے ہیں لیکن Emperor Penguin میں قدرت نے اس جاندار کے ’’نر‘‘ کو انڈا سینے کا عمل سپرد کررکھا ہے اور ساتھ ہی نر کی جھولی کو ایسے صوفیانہ تصورات سے بھر دیا ہے کہ اگر ان میں سے چند ایک پر بھی ہم سختی سے عمل کرنے لگیں تو ہماری گھریلو زندگی باغ و بہار ہوجائے۔اس پرندے کی مادہ جب انڈے کو ’’نر‘‘ کے سپرد کرکے غذا کی تلاش میں سمندر چلی جاتی ہے تو ایک عرصہ تک نہیں لوٹتی ،جب انڈے سے بچہ نکل آتا ہے تو ’’نر‘‘ اپنی مادہ کو بلانے کے لئے آواز کرتا ہے، مادہ اپنی نر کی آواز کو پہچانتی ہے اور سینکڑوں میٹر دور ہونے کے باوجود وہ اس آواز کی جانب لپکتی جہاں اس کا نر اور اس کا بچہ اس کے منتظر ہوتے ہیں،عام طور پر ایک مادہ ایک ہی ’’نر‘‘ کے ساتھ زندگی گزارتی ہے اگر کسی وجہہ باہم ساتھ رہنے والے پینگوئین ایک دوسرے سے نہ مل سکیں تو وہ کسی دوسری مادہ کو ڈھونڈ لیتا ہے،ایک اندازے کے مطابقبیس تا پچیس فیصد جوڑے کئی برس تک ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔جب مادہ انڈا ’’نر‘‘ کے حوالے کر جاتی ہے تو یہ پرندہ 65دن تک اس انڈے کو سیتا ہے اور اس عرصے میں ایک لمحے کے لئے بھی وہ اس مقام سے نہیں ہٹتا،ہر طرف کڑاکے کی سردی اسی لئے پینگوئین اس انڈے کو وہ اپنے پیروں پر لیتا ہے اور اس پر بیٹھ جاتا ہے اور انڈے کو ہلکی سی سردی بھی پہنچنے نہیں دیتا۔ ان 65دنوں میں اس کو کوئی غذا نہیں ملتی کیونکہ وہ شکار کے لئے وہاں سے کہیں جا نہیں سکتا اسی لئے جب انڈا سینے کا عمل مکمل ہوجاتا ہے توMale Penguin کا ایک تہائی یا کبھی کبھی آدھا وزن کم ہوجاتا ہے ،چونکہ توانائی کی مقدارمتعین ہے اسی لئے اس اثنا میں توانائی کی کم مقدار خرچ کرنے کے لئے یہ پرندہ زیادہ وقت نیند میں گذارتا ہے تاکہ فعلیاتی عمل آہستگی سے انجام پاتا رہے اور قوت کا ذخیرہ دیر تک باقی رہے،اس کے علاوہ قدرت کا ایک اور انتظام بھی ملاحظہ فرمایئے کہ اس وقفہ حیات میں تنفس کا ایک عجیب و غریب نظام دکھائی دیتا ہے،یہ دنیا کا سائنسی اصول ہے کہ ہر جاندار سانس کے اخراج کے وقت حرارت خارج کرتا ہے،لیکن پینگوئین سانس کے ذریعہ خارج کرنے والی حرارت کا 80فیصد حصہ نتھنوں میں موجود پیچیدہ تنفسی نظام کے ذریعہ واپس حاصل کرلیتا ہے تاکہ اس طویل ریاضت کے دوران متوقع کمزوری سے بچا جاسکے ۔ یہاں ہم کچھ دیر ٹہر کر غور کریں کہ 65دنوں تک بغیر کھائے پیئے آخر وہ کون سی طاقت تھی جو رضا کارانہ طور پر اسے وہاں روکے ہوئے تھی اور اسے ’’روزہ ‘‘ رہنے پر اکسا رہی تھی ، جیسے بتایا گیا ہے کہ ہر جاندار کا طریقہ عبادت مختلف ہوتا ہے۔مجھے اس کی مختلف خصوصیات میں ایک عجیب و غریب خصوصیت ہر برس ایک سال کا روزہ رکھنا ہے۔ پینگوئین ہر سال اپنے’’پروں‘‘ کو گرا دیتا ہے اور اس مدت میں وہ کوئی بھی شئے کھانے سے مکمل پرہیز کرتا ہے ، اس پرندے کا پروں کو گرانے کے عمل یعنی (Moulting) کے وقت بھوکا رہنا مجھے اس کا طریقہ عبادت اور ایک مجاہدہ ہی نظر آتا ہے جس کا ذکر خدا نے قرآن میں کیا ہے کہ ہر کوئی اپنے طریقے سے عبادت کررہا ہے اور ہم ان کی عبادت کے طریقے کو نہیں جانتے۔ یہی عمل خدا کے وجود کو ظاہر کرتا ہے جس کا انکار سائنسدان کرتے ہیں بالفرض محال اگر اس عمل کو ہم اس پرندے کی ذہانت پر محمول کریں تو یہ بات مسلمہ ہے کہ پینگوئین کی ذہانت پستانئے (Mammals) کے برابر بھی نہیں،اسی لئے مجھے پینگوئین کے بھوکے رہنے کا عمل خدا کی قدرت کے اظہار کا ایک بڑا نشان نظر آتا ہے اور یہ بات حق ہے کہ ہمیں صرف پینگوئین ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی ہر شئے میں اس کی قدرت کا نشان بڑی آب تاب کے ساتھ نظر آجاتا ہے ،لیکن شرط یہ ہے کہ ہم آنکھ کی بینائی کو تعصب سے دور رکھیں۔
پینگوئین اس مکمل عرصے’’ حاضنہ‘‘ یعنی Incubation کے دوران جس صبر اور استقامت کا اظہار کرتا ہے وہ انسانوں سے قطعی ممکن نہیں بغیر غذا کے انسان کے زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انسان بعض ایسی خصوصیات نہیں رکھتے جن سے جانور متصف ہے،، بالفرض محال اگراس عمل پر انسان فائز ہوں اور انہیں ان دنوں بھر پیٹ غذا بھی فراہم کی جاتی رہے تو کیا ایسے صبر کا مظاہر ہ کوئی انسان کرسکتا ہے، میرا احساس ہے کہ یہ بہت مشکل ہے کیونکہ اگر کوئی ایسی قربانی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پھر وہ اولیائے کاملین کی صف میں پہنچ جائے گا اور وہاں تک پہنچنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ پینگوئین میں بچے کے پالنے کے عمل پر بھی غور کیجئے کہ انڈے سے پینگوئین باہر آنے کے بعد ماحول کی سردی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتا اسی لئے ایک قدرتی انتظام دونوں والدین کی جانب سے انجام پاتا ہے کہ وہ اپنے پیروں کے درمیان اپنے بچے کو لے لیتے ہیں اور سخت سردی سے بچانے کا اہتمام کرتے ہیں، بچے کے پر نکلنے تک اس کے کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں۔ایک لمحے کے لئے بھی وہ اپنے بچے کو اپنے آنچل سے علاحدہ نہیں کرتے کہ ان والدین کے پیروں کی زمین اس بچے کے لئے حفٖاظت کا آسمان بن جاتا ہے گویاان کے پیروں کے درمیان کی جگہ ماں کی گود بن جاتی ہے اور یہ خدائی انتظام ہے کہ دنیا کی ہر ماں کی گود زمانے کی ہر سختی سے نمٹنا جانتی ہے ۔یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون ہے جو ایسا انتظام کرتا جا رہا ہے۔اس موقعہ پر مجھے صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ذہن میں آرہا ہے کہ اللہ نے اپنے رحم کا ایک حصہ دنیا کو دے دیا ہے ، اسی سے ماں اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرتی ہے اورپرندے اور جنگلی جانور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اگر سائنسدان ان خصوصیات کو جبلت کہتے ہیں تو ہم اس کو خدا کی قدرت قرار دیتے ہیں کہ یہی قدرت نہ صرف پینگوئین میں بلکہ دنیا کے ہر جاندار میں خدا کی تخلیق کا مکمل نمونہ بن کر خون کی روانی کے ساتھ بہتی رہتی ہے۔

Dr.Aziz Ahmed Ursi
aziz

Share

One thought on “پینگوئین Penguin ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی”

Comments are closed.

Share
Share