’’کھری کھری ‘‘ مزاحیہ شعری مجموعہ
شاعر:چچا پالموریؔ ،محبوب نگر
مبصر: ڈاکٹرعزیزسہیل
لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج ،محبوب نگر
محبو ب نگر کی سرزمین ادبی اعتبار سے کافی زرخیز ہے یہاں کے کئی نامور شعراء نے ملک گیر سطح پر اپنی پہچان بنائی ہیں ،محبوب نگر میں کئی معتبر اساتذہ سخن نے ادبی و شعری ماحول کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دیئے ہیں۔آج بھی محبوب نگر ادبی،شعری اعتبار سے علاقہ تلنگانہ میں ایک منفرد مقام کاحامل ہے۔ آج بھی یہاں پرکہنہ مشق و نامور شعراء موجود ہیں جن کی سرپرستی میں شعری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہورہا ہے ان شعراء میں حضرت نور آفاقی، حضرت ظہیر ناصری، حلیم بابر، صادق علی فریدی ،ڈاکٹرسلیم عابدی،ؔ ڈاکٹر قطب شرشارؔ و جامیؔ وجودی دیگر قابل ذکر ہیں۔محبوب نگرمیں سنجیدہ شعراء کی طویل فہرست ہے جن میں مزاحیہ شعراء کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے،پھر بھی اس سر زمین سے جن مزاحیہ شعراء نے ملک گیر شہرت حاصل کی ہیں ان میں اعجاز حسین کھٹا، شمشیرؔ کوڑنگلی،گھامڑؔ محبوب نگری،بے ہوشؔ محبوب نگری کے نام شامل ہیں ان نامور شعراء کے بعد طنز و مزاح کے میدان میں اپنی پہچان بنانے والی شخصیت چچا پالموری کے نام سے مقبولیت رکھتی ہے ۔
’’کھری کھری ‘‘چچا پالمور کا دوسرمزاحیہ شعری مجموعہ ہے۔جو اردو اکیڈیمی ریاست تلنگانہ کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوا ہے۔اس شعری مجموعہ کی اشاعت اردو تلگو لٹریری فورم حیدر آباد،شگوفہ پبلی کیشنز حیدرآباد اور الانصار پبلی کیشنز حیدرآباد نے مشترکہ طور پر کی ہیں،چچا پالموری نے اپنی اس شعری کاؤش کو محترمہ چچی صاحبہ کے نام معنون کیا ہے۔اس کتاب کا پیش لفظ استاد سخن حضرت ظہیر ناصری نے حرف’’ ظہیر ‘‘کے نام سے رقم کیا ہے جس میں انہوں نے مزاحیہ شاعری کے پس منظر میں محبوب نگر کے مزاحیہ شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے چچا کی شاعری کا جائزہ پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ’’چچا پالموری کا دوسرشعری مجموعہ’’کھری کھری‘‘کے نام سے منظر عام پر آرہا ہے،قبل ازیں ’’دکھتی رگ پر’’ کے عنوان سے ایک مجموعہ کلام شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے،زیر نظر مجموعہ کلام کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چچا پالموری مشاہدات گردو پیش کے علاوہ داخلی کرب کو بھی بڑی خوبی سے طنز و مزاح کے اشعار کا جامعہ پہنانے میں مہارت رکھتے ہیں محدود موضوعات پر مشتمل شاعری یہ ہر گز نہیں ہوسکتی۔مزاحیہ شاعری کی خوبی یہی کہ روزانہ مشاہدات جو بے شمار ہیں ان میں طنز و مزاح کا پہلو تلاش کرتے ہوئے شعر کے قالب میں ڈھالے‘‘
زیر نظر شعری مجموعہ میں’’ کھری کھری ‘‘کے خالق نے اپنی بات پیش نہیں کی ہے بلکہ حضرت ظہیر ناصری کے پیش لفظ کے بعد قطعات و تضمینات کا باقاعدہ آغاز ہو تا ہے،اس مجموعہ میں شامل قطعات سے ایک قطعہ جو’’ سبز باغ‘‘ کے عنوان سے اس مجموعہ میں شامل ہے۔ملاحظ فرمائیں۔
میں نے نکا حِ ثانی کی خواہش جو ان سے کی
احباب کارِخیر کو میداں میں آگئے
دکھلا کے سبز باغ مجھے اک حسین کا
کم بخت اک مہینے کا پینشن ہی کھا گئے
چچا کی شاعری عا م بول چال کی شاعری ہے جو قارئین اورسامعین کوبا آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے انہوں نے مشکل الفاظ سے اپنی شاعری کودوررکھا ہے ان کی شاعری نئی نسل کی نمائندگی کرتی ہے ساتھ ہی مزاح مزاح میں انہیں درس کا ساماں بھی میسرکرتی ہے،بالخصوص نوجوان طبقہ چچا کی شاعری سے بھر پور لطف اندوز ہوتا ہے۔چچا جب شعر سناتے ہیں تو سامعین بے ساختہ قہقہ لگاتے ہیں، یہ ان کے کلام کی خاصیت ہے۔
ان کے اس شعری مجموعہ سے ایک تضمین ملا حظہ فرمائیں۔
پڑوسی لگاتے ہیں گھونسوں پہ گھونسے
کہ مجھ میں ہے کتنا وہ دم دیکھتے ہیں
وہ کھڑکی سے رہ رہ کے جلوے دکھا کر
’’تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں‘‘
زیر نظر مجموعہ میں’’کدھر جائیں‘‘ کے موضوع پر شامل ان کی تضمین ملاحظ فرمائیں۔
اپنی گھر والی سے ناراض ہوں مانا میں نے
ہو کے بیزار یہ کہتے ہو کہ مرجائیں گے
ساتھ چھوٹے گا نہ جنت میں بھی بیوی کا چچاؔ
’’مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے’’
’’کھری کھری ‘‘کے شاعر نے اس مزاحیہ مجموعہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلے حصہ کے طور پر انہوں نے قطعات و تضمینات کو شامل کیا ہے جن کی تعداد41 ہے، اس کے بعد غزلیں شامل کی گئی ہیں جن کی تعداد24 ہیں کتاب کے آخری حصہ میں12 نظمیں شامل کی گئی ہیں کل ملا کر یہ شعری مجموعہ 112صفحات پر مشتمل ہے۔کلام کا انتخاب بہت عمدہ ہے کہیں کہیں چچورا پن بھی ملتا ہے اور کہیں اصلاح کے پہلو بھی مل جاتے ہیں ،اب آئے ان کی غزلیات کے اشعار پر نظر ڈالیں جس میں ملک کی صورتحا ل کو موضوع بنایا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
کھانے کی جنگ میں سبھی مہمان رہ گئے
چچا ؔ تماشہ دیکھ کے حیران رہ گئے
گڑ بڑ گھوٹالے روز کا معمول آج کل
ہونٹ اپنے سی کے دیش کے پردھان رہ گئے
فاقہ کشی کی موت بہت عام ہوگئی
گوداموں میں ہزاروں ٹرک دھان رہ گئے
ان اشعار میں چچا نے مزاح مزاح میں حقیقت بیانی کو بہترین پیرائے میں پیش کیا ہے۔وہ مزاح مزاح میں کام کی بات کہہ جاتے ہے جس سے سامعین کو حقیقت سے واقفیت ہوتی ہے ساتھ ہی وہ ان کی شاعری سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔
چچا کے یہاں دکنی شاعری بھی نظر آتی ہیں ان کو دکنیات پر بھی عبور حاصل ہے ان کی مزاحیہ شاعری میں دکنی زبا ن کا استعمال بھی ہمیں ملتا ہے ان کی یہ غزل خالصتاََ دکنی ہے، ملا حظہ فرمائیں۔
منجے الٹی پٹی پڑھئی نا وہ آخر
ہتھیلی میں جنت دیکھئی نا وہ آخر
میں حالانکہ دنیا کا ہشیار کولا
مگر دھول منجے چٹئی نا وہ آخر
چچا وار ایسا تھا بیلن کا اس کے
مرے سر پو گمٹا اٹھئی نا وہ آخر
چچا کی نظم کے چند اشعار پیش ہیں،ملاحظہ فرمائیں۔
خود کو مرا غلام کرو ڈاکٹر ہوں میں
جھک کر مجھے سلام کرو ڈاکٹر ہوں میں
طاقت کا نسخہ رکھتا ہوں بوڑھوں کے واسطے
مجھ پر یقیں دوام کرو ڈاکٹر ہو ں میں
بہر حال چچا پالموری کا یہ دوسرا شعری مجموعہ ’’کھری کھری‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکا ہے،امید کہ اس شعری مجموعہ کو اردو حلقوں میں خوب پذیرائی کی جائیگی، میں کھری کھری کی اشاعت پر دل کی عمیق گہرائیوں سے چچا پالموری کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، امید کہ پچھلے شعری مجموعہ کی طرح یہ مجموعہ بھی مقبول عام ہو،اس مجموعہ کی قیمت 150 روپئے رکھی گئی ہے جو ماہ نامہ شگوفہ کے دفتر واقع حیدر آباد سے یا مصنف کے پتے مکان نمبر5-7-16برہانی کاٹیج ،مومن پورہ کہنہ پالمور ، محبوب نگر 509001سے یا فون نمبر9966703320سے ربط پیدا کرتے ہوئے حاصل کیا جاسکتا ہے۔