مجازکی شاعری کا مابعد جدید مطالعہ
پروفیسر بیگ احساس
مدیر ماہنامہ سب رس ‘ حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09849256723
ای میل :
– – – – –
ہماری تنقید میں میں معنی کا سرچشمہ مصنف کی ذات‘ اس کی شخصیت ‘ اس کی زندگی کے اتار چڑھاؤ‘ اس کا فلسفہ ‘ سماجی رویے‘ عشق میں ناکامی یا کامیابی ‘ مئے نوشی‘ یا ر باشی ‘ برجستگی ‘ حاضر جوابی ‘ اس کا مذہب اور مذہب کے تئیں اس کا رویہ‘ کسی تحریک سے اس کی وابستگی ‘ ناوابستگی یا مذہب بیزاری یا اس کے ماحول کو قراردیا جاتا رہا ہے اس لئے قاری ‘ اس کے اشعار یا دیگر فن پاروں سے وہی معنی اخذ کرتا ہے جس سے اس کی زندگی اور ذات کے کسی پہلو سے توثیق ہوتی ہے گویا مصنف اور معنی دو الگ الگ وجود نہیں ہیں بلکہ ایک ہی وجود ہے۔
مجازؔ پر جو بھی تنقید لکھی گئی اس میں یہی رویہ ملحوظ رکھا گیا ۔ ان کی نظموں کے محرکات ان کی ذاتی زندگی میں تلاش کئے گئے۔ کون سی نظم کس عشق کا اظہار کرتی ہے ۔ کن نظموں میں ان کی محبوباؤں کے نام غیر شعوری طور پر آگئے ۔ان کی مئے نوشی کی تفصیلات ان کے جنوں و بربادی کے قصے رقم کئے گئے بدقسمتی سے ان کے فن کا مطالعہ روایتی تنقید کے محدود دائرے سے آگے نہ بڑھ سکا۔
بارتھ اس روایتی تصور کو سختی سے مسترد کرتا ہے کہ مصنف متن کا مبدا ہے یا معنی کا ماخذ ہے یا فن پارے کی تصریح و تعبیر کا واحد اختیار مصنف کو ہے ۔ بارتھ اس بات کا قائل تھا کہ مصنف کے مابعد الطبعیاتی لبادے کو الگ کردیا جائے اور اسے اس جگہ کھڑا کردیا جائے جہاں زبان اور اظہار کے لامحدود امکانات پیدا ہوں تاکہ قاری جس طرف سے بھی چاہے متن میں داخل ہوسکے۔
تھیوری کی اہم ترجیح ثقافتی مطالعہ ہے ۔ تھیوری ثقافت یا تہذیب کے مطالعہ کو اہم سمجھتی ہے ۔ ہر زبان کے ادب کی جان اس کی شعریات ہے جو قوموں کے ذہن و مزاج او ران کی تاریخ و تہذیب سے قائم ہوتی ہے جس کے سانچے میں ادب ڈھلتا ہے ۔ ادب کی تحسین و تفہیم کے لیے ہماری اپنی شعریات و تہذیب کا پیمانہ شرط ہے ۔ ہندوستان کی صدیوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ ملک مشترکہ تہذیبی اقدار جیسے رواداری ‘ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ‘ وسیع المشربی ‘ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت پر قائم ہے ۔
مجازؔ کی شاعری کا ثقافتی مطالعہ کیا جائے تو اس میں ہندوستانی تہذیب کی پاسداری نظر آتی ہے ۔ انہیں اپنی تہذیب کی حفاظت کا خیال ہے ۔ اپنے تہذیبی آداب اور روایات کا پوری طرح شعور ہے ۔ اپنی نظم ’’آہنگ نو‘‘ میں اس طرف توجہ دلاتے ہیں :
تم ہو غیرت کے امیں تم ہو شرافت کے امیں
اور یہ خطرے میں ہیں‘ احساس تمہیں ہے کہ نہیں
یہ درندے یہ شرافت کے پرانے دشمن
تم کہ ہو حاملِ آداب و روایاتِ کہن
جادہ پیما کے لیے خضر ہو تم‘ یہ رہزن
تم ہو خرمن کے نگہبان‘ یہ برقِ خرمن
یہ تو ہیں فتنۂ بیدار دبادو ان کو
یہ مٹادیں گے تمدن کو ‘ مٹادو ان کو
مجازؔ ہندوستانی تہذیب کی قدیم روایات ‘ غیرت اور شرافت کے تحفظ کا احساس دلاتے ہیں۔ انہیں اپنے تمدن کے مٹنے کا خطرہ ہے۔ اپنی تہذیب کی حفاظت کے سلسلے میں وہ سخت رویہ اختیار کرتے ہیں وہ ایسے ہر فتنے کو مٹادینا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی بنیادی قدریں جن کی اہمیت ہر عہد میں برقرار رہے گی۔
یاد ہے تم کو کن اسلاف کی تم یادیں ہو
تم تو خالدؔ کے پسر بھیم کی اولادیں ہو
جس تہذیب کی تاریخ اسلاف کے کارناموں سے بھری ہو اسی کی نئی نسل کو یاددلایا جاتا ہے کہ وہ کن کا تسلسل ہیں ۔ خالدؔ اور بھیمؔ کا ایک ساتھ ذکر ہماری مشترکہ تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے ۔ ہماری مشترکہ تہذیب کئی قوموں کے تہذیبی اختلاط سے وجود میں آئی چنانچہ مجاز ؔ کہتے ہیں
قسم شوخئ عشقِ سنجوگتا کی
قسم جون کے عزمِ صبر آزما کی
قسم طاہرہ کی قسم خالدہ کی
کوئی اور شئے یہ عصمت نہیں ہے
وہ ہماری تہذیب کی کچھ اور قدروں جیسے عشق ‘ عزم ‘ اجتہاد اور آزادی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ او ر عصمت کے فرسودہ تصور کو رد کرکے ایک نیا تصور قائم کرتے ہیں۔ کیوں کہ ادب نہ صرف ثقافتی طور پر پیدا ہوتا ہے بلکہ ثقافتی اطوار کو پیدا بھی کرتا ہے ۔ مجازؔ کی شاعری میں مشترکہ تہذیب کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آتی ہے ساتھ ہی اس کے تحفظ کی فکر مندی کا بھی وہ اظہا رکرتے ہیں۔ ’’ اندھیری رات کا مسافر ‘‘ میں لکھتے ہیں۔
چراغِ دیر فانوسِ حرم قندیل رہبانی
یہ سب ہیں مدتوں سے بے نیازِ نورِ عرفانی
نہ ناقوس برہمن ہے نہ آہنگ ہدی خوانی
وہ تینوں مذاہب کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو نور عرفانی سے بے نیاز ہوگئے ہیں اس لیے ان میں تاثیر باقی نہیں رہی۔ چراغِ دیر‘ فانوس حرم اور قندیل رہبانی کی ان کے یہاں یکساں اہمیت ہے ۔ ہندوستانی تہذیب میں مذہب کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے لیکن مذہب صرف رسوم کی ادائیگی تک محدود ہوجائے تو پھر اس کی روح باقی نہیں رہتی ۔ مجازؔ کا یہ شعر دیکھیے
دور انسان کے سر سے یہ مصیبت کردو
آگ دوزخ کی بجھادو اسے جنت کردو
یہ شعر پڑھ کر رابعہ بصری کا وہ واقعہ یاد آجاتا ہے جس میں وہ ایک ہاتھ میں چراغ اور دوسرے ہاتھ میں پانی سے بھرا لوٹا لے کر چلی تھیں ۔ حالاں کہ فنونِ لطیفہ کا مذہب سے راست تعلق نہیں ہوتا جیسا کہ اسلامی تہذیب کا مطالعہ کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بعض باتیں اسلامی شریعت تک محدود نہیں ہیں تصوف اور فن ان حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں۔
ہندوستانی تہذیب کی مشترکہ اقدار کا سب سے خوبصورت اظہار اس کی جمالیاتی قدروں بالخصوص شعر و ادب میں ہوا ہے ۔ مجازؔ کی نظم ’’نمائش‘‘ اس کا خوبصورت نمونہ ہے ۔ میلے ‘ ٹھیلے ‘ عرس اور جاتراؤں کو ہندوستانی تہذیب میں مرکزیت حاصل ہے۔ نمائش اسی کا ترقی یافتہ روپ ہے ۔ شاعر کی توجہ صرف حسن پر ہے ۔ یہ حسن ہندوستانی ہے ۔ یہ دوشیزائیں رنگین ساریاں پہنے ہوئی ہیں جن پر سنہرا کام ہے چاند سی پیشانی ‘ سیہ زلفیں ‘ سیہ مژگاں ‘ چشم سرمگیں ‘ کسی کا ایرانی حسن‘ کوئی یونانی حسن کا نمونہ ‘ کسی میں کلیسا کا عکس ہے ۔ یہ حسن ہندوستان کے رنگا رنگ کلچر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس سرزمین پر آکر بس جانے والی قوموں کے نقوش اسی حسن کا حصہ ہیں۔ یہاں ایک سے قدوخال اور ایک سا رنگ روپ نہیں ہوتا کسی کی ہنسی کیف آور ہے ۔ کسی کے پیرہن سے خوشبو آرہی ہے کوئی اپنی رعنائی کی وجہ سے متوجہ کررہی ہے یہی کثرت میں وحدت اور ہماری تہذیب کے الگ الگ رنگا رنگ روپ کے یہ مظاہر ہندوستانی ہیں۔ مجازؔ جب حسن کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس میں مشترکہ تہذیب جھلکتی ہے ۔
زلفِ شب رنگ لیے صندل و عود و عنبر
خم ابروے حسین دیر کی محراب لیے
ایک صیادِ خوش اندام سوادِ مشرق
زلفِ بنگال لیے ‘ طلعت پنجاب لیے
زلفِ شب رنگ کے ساتھ صندل و عود و عنبر کی خوشبو کا تصور ‘ آبرو کو دَیر کی محراب سے تشبیہ دینا ۔ حسن کے اظہار میں زلف بنگال اور طلعت پنجاب کے امتزاج کی اہمیت ہے اسے وہ سوادِ مشرق کہتے ہیں۔ نظم ’’کس سے محبت ہے‘‘ میں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ وہ جس دنیا میں رہتے ہیں اسی دنیا کی عورت سے محبت کرتے ہیں۔ ان کا محبوب مشرقی حسن اور مشرقی تہذیب کا پروردہ ہے ۔ وہ حسین تو ہے ہی لیکن غمخوار بھی ہے ۔ اندیشوں اور وسوسوں میں تسکین و دلاسہ دیتا ہے وہ الطاف و عنایت کا پیکر ہے۔
مرے چہرے پہ جب بھی فکر کے آثار پائے ہیں
مجھے تسکین دی ہے میرے اندیشے مٹائے ہیں
وہ ایک سیدھی سادھی خاتون ہے ۔ جس کے لبوں پر نہ لاکھا ہے نہ رخساروں پر غازہ ہے جس کی جبین پر جھومر ہے اور نہ ٹیکا ۔ اس کی سادگی اس کا حسن ہے ۔ جوانی اس کا سہاگ اور تبسم اس کا گہنا ہے
لعب لعلیں پہ لاکھا ہے نہ رخساروں پہ غازہ ہے
جبینِ نور افشاں پر نہ جھومر ہے نہ ٹیکا ہے
جوانی ہے سہاگ اس کا تبسم اس کا گہنا ہے
مجازؔ نے جن زیورات کا ذکر کیا ہے یعنی لاکھا‘ غازہ‘ جھومر ‘ ٹیکا وہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی دین ہیں۔
مجازؔ کی نظم ’’ نوجوان خاتون ‘‘ بہت زیرِ بحث رہی ۔ اکثر نقادوں نے لکھا کہ مجاز نے پہلی بار انقلاب اور آزادی کی اس جنگ میں عورت کو برابر کا شریک کیا ہے جبکہ اس دور کے دوسرے شاعروں نے عورت سے جنگ پر جانے اور قومی اور ملکی تقاضے کا احساس دلاکر اجازت لینے یا مغنی یا مطربہ کو چھوڑ کر جنگ پر چلے جانے کا ذکر اپنی نظموں میں کیا ہے لیکن عورت جو اس وقت ایک دبی کچلی ہوئی مخلوق تھی اسے اپنے وجود ‘ اپنی شخصیت اور سماجی ذمہ داری کا احساس دلانے والی اور مرد کے ہم دوش کرنے والی پہلی نظم قراردیا ہے ۔ لیکن مجازؔ نے ہماری تہذیب کی ایک روایت کا اعادہ کیا ہے ۔ عورتوں کا مردوں کے ساتھ جنگ پر جانے کی روایت قدیم ہے ۔ وہ زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کا کام کیا کرتی تھیں۔ مجازؔ نے بھی تہذیب کے مخصوص دائرے میں رہ کر عورت سے ایسے کاموں کا مطالبہ کیا ہے جو اس کے لیے مناسب ہیں
سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے
تو سامانِ جراحت اب اٹھالیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
مجازؔ عورت کے ہاتھ ہتھیار نہیں تھمارہے ہیں وہ سامان جراحت ساتھ لے کر چلنے کو کہہ رہے ہیں۔ لشکر جرار کے ساتھ سامان جراحت رکھنے کی روایت بہت پرانی ہے ۔ تاریخ کے محور پر رضیہ سلطان ‘ چاند بی بی ‘ اور رانی جھانسی کی رانی بھی موجود ہیں اور یہ اسلامی روایت بھی ہے ۔ مجازؔ نے ثقافت کی ایک شق کو دوبارہ کھولا ہے ۔
ہماری تہذیب کی ایک طاقت ور روایت عشق بھی ہے ۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے عشق کو چار ساختوں میں منقسم کیا ہے ۔ تصوف یعنی حقیقی رنگ ‘ روایتی: مجازی رنگ ‘ تہذیبی و تخلیقی: اعلیٰ ترین رنگ ‘ بہترین عشقیہ شاعری تہذیبی و تخلیقی اعلیٰ ترین رنگ میں کی گئی‘ پروفیسر نارنگ لکھتے ہیں ’’ خالص حقیقی ‘ خالص مجازی رنگ سے الگ اردو کی اعلیٰ ترین عشقیہ شاعری کی جو ساخت ہے وہ تہذیبی و تخلیقی رنگ میں ہے ۔‘‘ مجازؔ کی شاعری میں عشق کی خاص تہذیب ہے ۔ اس تہذیب میں بلند آہنگی کی گنجائش نہیں ہے ۔ انہوں نے محبوب کی قربت کو دلکش پیرائے میں ادا کیا لیکن حدود میں رہ کر ۔ تمنائیہ لہجے اور محبوب کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کے اظہار میں بھی ایک خاص قسم کا ضبط و تحمل پایا جاتا ہے ۔ مجازؔ نے جو تہذیب وضع کی اس میں وہ محبوب کے جور و ستم کا شکوہ نہیں کرتے اس کی بے وفائی کا گلہ نہیں کرتے ۔ اپنی ناکامی کی شکایت کرنے کے بجائے وہ ان یادوں کو دہراتے ہیں ان کے عشقیہ جذبے میں ایک خاص تقدس ہے
مرے بازو پہ جب زلفِ شبگوں کھول دیتی تھی
زمانہ نکہتِ خلد بریں میں ڈوب جاتا تھا
مرے شانے پہ جب سر رکھ کے ٹھنڈی سانس لیتی تھی
میری دنیا میں سوز و ساز کا طوفان آتا ہے
اُمنڈآتے تھے جب اشکِ محبت اس کی پلکوں تک
ٹپکتی تھی درودیوار سے شوخی تبسم کی
جب اس کے ہونٹ آجاتے تھے از خود میرے ہونٹوں تک
جھپک جاتی تھیں آنکھیں آسماں پر ماہ انجم کی
وہ جب ہنگام رخصت دیکھتی تھی مجھ کو مڑ مڑ کر
تو خود فطرت کے دل میں محشر جذبات ہوتا تھا
وہ محو خواب جب ہوتی تھی اپنے نرم بستر پر
تو اس کے سر پہ مریم کا مقدس ہاتھ ہوتا تھا
ایک عجیب و غریب نظم ہے جس میں وہ ان کے محبوب کی اداؤں کا رد عمل اپنی داخلی دنیا کے علاوہ خارجی اشیا ء اور مظاہر فطرت میں بھی محسوس کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں ادائیں اور دوسرے مصرعے میں اس کا رد عمل ہے ۔ اس محبت کومریم کے مقدس ہاتھ کی شفقت بھی حاصل ہے۔
جب وہ محبت میں ناکام ہوجاتے ہیں تو محبوب سے گلہ نہیں کرتے بلکہ انہیں آئین فرسودہ سے شکوہ ہوتا ہے ۔
مجھے شکوہ نہیں دنیا کی ان زہرہ جبینوں سے
ہوئی جن سے میرے شوقِ رسوا کی پذیرائی
مجھے شکوہ نہیں تہذیب کے ان پاسبانوں سے
نہ لینے دی جنہوں نے فطرت شاعر کو انگڑائی
زمانے کے نظام زنگ آلودہ سے شکوہ ہے
قوانین کہن ‘ آئین فرسودہ سے شکوہ ہے
انہوں نے محبت میں ناکامی کے بعد بھی آہ وفغاں کو اپنا مشرب نہیں بنایا۔ باقر مہدی لکھتے ہیں
’’ ان کے یہاں عشق ایک جذبہ ہے ایک کیفیت ‘ ایک راز ‘ ایک حقیقت اور ایک معنی میں زندگی بھی ہے مگر جنون نہیں نہ محبوب کو پانے کا ولولہ ہے جو تمام طوفانوں سے ٹکر لیتا ہے‘‘ باقر مہدی نے یہ بھی لکھا کہ ’’ ان کی عشقیہ نظموں میں وہ گہرا درد نہیں جو میرؔ کی شاعری کی خاصیت ہے اور نہ وہ فکری جذبہ ہے جو غالب کے یہاں ملتا ہے ۔(مجاز کی شاعری ۔ باقیات باقر مہدی۔ مرتب یعقوب راہی ‘ تکمیل پبلی کیشن ‘ ممبئی ص 118-119)
باقر مہدی یہ بھول جاتے ہیں کہ مجاز کی شاعری ایک خاص عشقیہ تہذیب تخلیق کرتی ہے ۔ نظم ’’مجبوریاں‘‘ میں ہمیں اس تہذیب کے عناصر ملتے ہیں۔
ہوس کاری ہے جرم خودکشی میری شریعت میں
یہ حد آخری ہے میں یہاں تک جا نہیں سکتا
زباں پر بے خودی میں نام اس کا آہی جاتا ہے
اگر پوچھے کوئی یہ کون ہے؟ بتلا نہیں سکتا
مجاز کی شاعری ’’شکست کی آواز‘‘ ہے ‘ دل ٹوٹنے کی صدا ہے ۔ اپنی بربادی و تباہی کا الزام وہ کسی پر نہیں رکھتے ۔ نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پہلی قرت میں یہ لگتا ہے کہ یہ ان کی محبت کی ناکامی کا نوحہ ہے ۔ شاعر ان خوابوں کو یاد کررہا ہے جو ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے ‘ عشق کی ناکامیوں نے اسے اس راہ پر لاڈالا جن پر چلتے چلتے زندگی اپنا سارا حسن ساری معصومیت سارا بانکپن کھوبیٹھی ‘ اب کچھ باقی نہیں بچا۔ شاعر خود اپنے مذاق طرب آگیں کے شکار ہونے کا اعتراف کررہا ہے۔ لیکن قاری جب اس متن کو deconstruct کیا جائے تو جو معنی اخذ ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ شاعر نے اپنی ساری تباہیوں کا ذمہ داراپنی محبوب کو ٹھہرایا ہے ۔
حالاں کہ شاعر نے اس کا کہیں ذکر نہیں کیا لیکن یہ معنیٰ متن میں پوشیدہ ہیں۔
کیا سنوگی مری محروم جوانی کی پکار
میری فریادِ جگر دوز ‘ مرا نالۂ زار
شدت سے کرب میں ڈوبی ہوئی میری گفتار
میں کہ خود اپنے مذاقِ طرب آگیں کا شکار
وہ گداز دل مرحوم کہاں سے لاؤں
اب میں وہ جذبۂ معصوم کہاں سے لاؤں
اس میں اس شدت کرب کو محسو س کیا جاسکتا ہے جو عشق کی تیز آگ اور حسن کی چمک دمک کے بعد راکھ ہوجانے کے عمل سے برآمد ہوتا ہے۔ اس نظم میں طنز کی زیریں لہریں ہیں۔
دریدا کہتا ہے کہ ہر عہد اپنے افراد کی موضوعی تشکیل کرتا ہے یعنی اذہان کو حاوی ایڈیالوجی کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو اس میں احتجاج کی تاریخیت بھی مستور ہوجاتی ہے اور یہ احتجاج نہ صرف موضوعات کا شناخت نامہ اور جواز ہوتا ہے بلکہ اس میں مضمر افتراقیت difference کا یہ لازمہ ہوتا ہے۔ جس کی بدولت طاقت کے کسی کھیل میں تغیر پر ہمیشہ کے لیے دروازہ بند نہیں ہوسکتا۔
’’خواب سحر ‘‘ اور ’’ فکر‘‘ دو اہم نظمیں ہیں۔ ’’خواب سحر‘‘ میں مجازؔ نے انسانی ذہن کی تاریخ کی جھلکیاں پیش کی ہیں۔ انسان کیسی کیسی منزلوں سے گزرا اور انسانیت نے کیا کیا مدارج طے کیے۔ کیسے کیسے پیغمبر ‘ مصلح قوم اور فلاسفر آئے ان معتبر افراد کی جدوجہد کے باوجود آدمی کو مساوی حقوق حاصل نہیں ہوئے وہ ابھی تک اوہام کا شکار ہے ۔ وہ ایک ایسی زندگی کا خواب دیکھتا ہے جہاں اخوت و مساوات ‘ محبت اور خلوص کی دنیا ہو یہ اسی وقت ممکن ہے جب اندھیرا چھٹے۔
ذہن انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں
زندگی کی سخت طوفانی اندھیری رات میں
کچھ نہیں تو کم سے کم خواب سحر دیکھا تو ہے
جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک ادھر دیکھا تو ہے
نظم ’’فکر‘‘ میں بھی وہ کہتے ہیں:
آگ کو کس نے گلستاں نہ بنانا چاہا
جل بجھے کتنے خلیل آگ گلستاں نہ بنی
ٹوٹ جانا درِ زنداں کا تو دشوار نہ تھا
خود زلیخا ہی رفیق مہ کنعان نہ بنی
بہ ایں انعامِ وفا اُف تقاضائے حیات
زندگی وقفِ غم خاک نشیناں کردے
خون دل کی کوئی قیمت جو نہیں ہے تو نہ ہو
خون دل نذرِ چمن بندئ دوراں کردے
شاعر جانتا ہے کہ یہ معجزے اس لیے عمل میں نہ آسکے کہ اس میں وہ دیوانگی و خلوص و جنون شامل نہ تھا لیکن وہ خواب سحر دیکھنا نہیں چھوڑتا ‘ اپنا خون دل نذر چمن بندئ دوراں کرتا ہے اور اذہان کو حاوی ایڈیالوجی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مجاز عشقیہ شاعری کے پردے میں سیاسی جور و جفا کا ذکر کرجاتے ہیں ۔ جذبۂ حریت کی ولولہ انگیزی ہو یا سامراج کے ظلم کے خلاف احتجاج ‘ تمام احساسات کو تغزل کے آداب ملحوظ رکھ کر شاعرانہ سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔ یہ اینٹی کولونیل سیاسی جہت ہے ۔
میں قسم کھاتا ہوں اپنے نطق کے اعجاز کی
تم کو بزم ماہ و انجم میں بٹھاسکتا ہوں میں
آو مل کر انقلاب تازہ پیدا کریں
دہر پر اس طرح چھاجائیں کہ سب دیکھا کریں
ریل جو کولونیل معاشرے کی دین تھی اسے وہ اینٹی کولونیل سیاسی رخ دیتے ہیں ریل زندگی کا استعارہ بن جاتی ہے جو نوجوانوں کے احساسات کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہوئی ارتقائی سفر طے کرتی ہے اس میں جوانی کی ولولہ خیزی اور سیاسی جدوجہد کے اشارے ہیں۔
مجازؔ کی ایک مشہور نظم ’’ نذر علی گڑھ‘‘ ہے ۔مصنف جو کچھ بھی لکھتا ہے وہ ایک خاص عہد میں لکھتا ہے لیکن اس فن پارے کے پڑھنے والے کا زمانہ مختلف ہوسکتا ہے ۔ مصنف جب متن کا آخری جملہ یا مصرع لکھتا ہے تو وہیں سے وہ متن اس کے حدود سے باہر ہوجاتا ہے جس کی قرات ان گنت افراد کرتے ہیں۔ اب اگر ’’ نذر علی گڑھ‘‘ کا عنوان ہٹادیا جائے تو یہ نظم کسی بھی تہذیبی شہر سے منسوب کی جاسکتی ہے
دوسری نظم ’’آوارہ‘‘ ہے مجازؔ نے تاریخ کے جس محور پر یہ نظم رقم کی تھی وہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہندوستان کے معاشرتی ‘ سیاسی و سماجی حالات تھے ‘ سوسیر کہتا ہے متن جس تاریخ کے محور پر لکھا جاتا ہے اور جب لکھا جاچکا ہوتا ہے تو مصنف اسی تاریخی محور پر رک جاتا ہے ‘ متن آگے بڑھ جاتا ہے۔
’’آوارہ‘‘ ہر دور کے نوجوانوں کی عکاسی کرتی ہے جو حساس اور شکستہ دل ہیں۔ جو اپنے عہد کی ناانصافیوں سے نالاں ہیں اور احتجاج کرنا چاہتے ہیں ایک نوجوان جو حالات کے جبر کا شکار ہے اور سب کچھ اجڑجانے کے بعد ٹھوکریں کھاتا پھررہا ہے ۔ سرمایہ داری کے جبر کا شکار ہے اور سب کچھ اجڑجانے کے بعد ٹھوکریں کھاتا پھررہا ہے ۔ سرمایہ داری کے ان دیکھے ظلم‘ مذہب کا کٹر پن ‘ تاجرانہ ذہنیت نے اس کا چین و قرار چھین لیا ہے ۔ ایک جھلاہٹ ہے ایک وحشت ہے ‘ دل غم سے چور ہے ‘ یہ نظم زخمی دلوں کی صدائے احتجاج ہے۔ ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہے ۔ ایک سوال ہے ۔ جو صدیوں سے قائم ہے
ہمارے عہد کے منظر نامے پر بھی یہ نظم پوری اترتی ہے ۔ عالمی سطح پر روس کے زوال کے بعد پونجی واد اور بازار واد کی لعنتیں ‘ گلوبلائزیشن کی برکت سے کسی بھی تہذیب کا خالص نہ رہنا ‘ کروڑوں روپے کے اسکام ‘ چھوٹے چھوٹے کاروبار میں کارپوریٹ اداروں کی مداخلت ‘ کھلا بازار ‘ میڈیا اور آرٹ پر سرمایہ داروں کا تسلط وہ جو دکھانا چاہتے ہیں اسی کی پیش کش ‘ امریکہ اور مغربی ممالک کی جارحیت ‘ عراق ‘ افغانستان کی تباہی پاکستان میں خانہ جنگی جیسی صورتحال ‘ عرب ممالک کے عوامی انقلابات میں مغربی ممالک کی مداخلت اور حکمرانوں کا بے دردانہ خاتمہ ‘ دہشت گردی ‘ قتل و غارت آج نوجوان پہلے سے زیادہ وحشت زدہ ہے بے چین ہے اس کے ذہن میں بے شمار سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ ایک بے بسی ہے ۔ یہ نظم اپنے عہد کے محور سے نکل کر مستقبل میں جانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
مجازؔ کی یہ نظمیں معنی کی قوس و قزح پیدا کرتی ہیں یعنی قاری جس طرف سے بھی چاہے متن میں داخل ہوسکتا ہے بشرط یہ کہ وہ ان فن پاروں کا مطالعہ آزاد قرت کے تصور کے ساتھ کرے اور مصنف اور اس کے عہد کو درمیان سے ہٹادے۔
One thought on “مجازکی شاعری کا مابعد جدید مطالعہ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسربیگ احساس”
سنانیں کھینچ لی ہیں سر پھرے باغی جوانوں نے
تو سامانِ جراحت اب اٹھالیتی تو اچھا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا –
مجازؔ کی نظم ’’ نوجوان خاتون ‘‘ بہت زیرِ بحث رہی ۔ اکثر نقادوں نے لکھا کہ مجاز نے پہلی بار انقلاب اور آزادی کی اس جنگ میں عورت کو برابر کا شریک کیا ہے جبکہ اس دور کے دوسرے شاعروں نے عورت سے جنگ پر جانے اور قومی اور ملکی تقاضے کا احساس دلاکر اجازت لینے یا مغنی یا مطربہ کو چھوڑ کر جنگ پر چلے جانے کا ذکر اپنی نظموں میں کیا ہے لیکن عورت جو اس وقت ایک دبی کچلی ہوئی مخلوق تھی اسے اپنے وجود ‘ اپنی شخصیت اور سماجی ذمہ داری کا احساس دلانے والی اور مرد کے ہم دوش کرنے والی پہلی نظم قراردیا ہے ۔ لیکن مجازؔ نے ہماری تہذیب کی ایک روایت کا اعادہ کیا ہے ۔ عورتوں کا مردوں کے ساتھ جنگ پر جانے کی روایت قدیم ہے ۔ وہ زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کا کام کیا کرتی تھیں۔ مجازؔ نے بھی تہذیب کے مخصوص دائرے میں رہ کر عورت سے ایسے کاموں کا مطالبہ کیا ہے جو اس کے لیے مناسب ہیں – مجازؔ عورت کے ہاتھ ہتھیار نہیں تھمارہے ہیں وہ سامان جراحت ساتھ لے کر چلنے کو کہہ رہے ہیں۔ لشکر جرار کے ساتھ سامان جراحت رکھنے کی روایت بہت پرانی ہے ۔ تاریخ کے محور پر رضیہ سلطان ‘ چاند بی بی ‘ اور رانی جھانسی کی رانی بھی موجود ہیں اور یہ اسلامی روایت بھی ہے ۔ مجازؔ نے ثقافت کی ایک شق کو دوبارہ کھولا ہے ۔
بہت خوب