کبوتر Pigeon : ایک گھریلو پرندہ
ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی – ورنگل
موبائل : 09866971375
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حضرت جابرؓ سے روایت کردہ حدیث میں کبوتر کے انڈے کا ذکر ملتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے کندھے مبارک کے قریب کبوتر کے انڈے کے برابر ایک مہر تھی جس کو مہر نبوت کہا جاتا ہے۔ (مسلم شریف)۔ ابوداؤد اور موطا میں بھی اس پرندے کا ذکر ملتا ہے۔ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کردہ ایک حدیث میں کبوتر کا ذکر ہے جس میں ایک کبوتر اللہ کے رسول ﷺ کے سراقدس کے اوپر منڈلا رہا تھا اور اپنی زبان میں شکایت کر رہا تھا کہ کسی نے اس کے گھونسلے سے انڈے اٹھالئے ہیں ، حضور ﷺ نے صحابہ میں اعلان کیا ۔ایک صحابی نے انڈے اٹھانا قبول کیا تو انہیں حکم دیا کہ کہ وہ گھونسلے میں انڈے واپس رکھ دیں ۔
اس حدیث سے ہمیں جانوروں کو تکلیف نہ دینے سے متعلق کئی ایک باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ حرمین شریفین میں کبوتر کثرت سے پائے جاتے ہیں ان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اسی نسل کے کبوتر ہیں جو ہجرت کے موقعہ پر غار ثور کے پاس مکڑی کے جالے کے پاس انڈے دے کر یہ تاثر دیا تھا کہ غار میں کوئی نہیں ہے۔لیکن حدیث کی کتابوں میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔احادیث میں وارد کبوتر کا نام دوسرے تناظر میں ہے۔ انجیل میں اس پرندے کا ذکر ملتا ہے طوفان نوح کے تھمنے کے بعد جس پرندے کو زمین کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا وہ کبوتر ہی تھا اس کے بعد حضرت نوحؑ نے کوّے کو بھیجا۔علاوہ اس کے Matthew 3:16 اور Luke 2:24 میں بھی کبوتر کا ذکر ملتا ہے ۔عیسائیت میں کبوتر کو امن کا نشان تصور کیا جاتا ہے ۔ہندو دھرم کی ایک دیوی Rati کی سواری کبوتر ہے۔سکھ مذہب کے ماننے والوں کا کبوتر کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ اگر کسی سکھ نے کسی گلہری کو کچھ بھی کھلا لیا تو وہ اس کی برکت سے دوسرے جنم میں کبھی بھوکا نہیں رہے گا۔ دنیا میں بہت سارے مقامات پر کبوتر چوک بنے ہوئے ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں کبوتر پائے جاتے ہیں،دہلی میں بھی ہمیں ایسے چوک دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ہندوستان میں یہ مساجد یا گنبدان میں کثرت سے دیکھے جاسکتے ہیں۔کبوتر قدیم زمانے میں بہترین نامہ بر ہوا کرتا تھا بلکہ واحد نامہ بر ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کبوتروں سے نامہ بری بغداد میں کروائی گئی، یہ 1150 ء کی بات ہے۔آج کے جدید دور میں بھی کچھ اہم شعبوں میں اسی پرندے سے نامہ بری کا کام لیا جاتا ہے۔اس کی نامہ بری افسانوی حیثیت رکھتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کبوتروں نے پیغام رسانی کے ذریعہ ہزاروں افراد کی جان بچائی،جنگ عظیم کی تاریخ میں دو کبوتروں کی بہادری کا ذکر بڑے اہتمام سے کیا جاتا ہے جن کے نام Cher Ami اور G.I. Joe ہے ان کبوتروں کو گولی مارنے کے باوجود بھی زخمی حالت میں اس پیغام کو اپنی منزل تک پہنچایا تھا۔دنیا کے مختلف مقامات پر امراء کبوتروں کواُڑانے کے لئے پالتے تھے اس شوق کو کبوتر بازی کہا جاتا ہے،یہ ایک دلچسپ کھیل ہوا کرتا تھا۔اردومیں کبوتر کا لفظ استعمال کیا جاکر کئی محاورے بنائے گئے ہیں، جیسے لوٹن کبوتر، کبوتر مارنا،کبوتر خانہ وغیرہ ۔اردو شاعری میں کبوتر کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے ، اردو شعرا نے نہ صرف نامہ بری کے مضامین کو اشعار میں باندھا ہے بلکہ کبوتر بازی کو بھی اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے ، مثلاً ناسخ ؔ کا ایک شعر ہے ۔
مرغ دل تب سے آپ کا ہے صید
جب کبوتر اُڑاتے تھے پَر کا
کبوتر ایک گھریلو پرندہ ہے جس کی گردن چھوٹی ہے،چونچ متناسب اور جسم بھرا بھرا ہوتا ہے۔یہ گھونسلوں میں رہتا ہے جو چھوٹی چھوٹی لکڑیوں اور تنکوں سے بنایا جاتا ہے۔ اس کا ذکر قدیم تاریخ میں بھی ملتا ہے ،پتھر کے دور کا آدمی اس کوغذائی ضروریات کی تکمیل کے لئے پالتا تھا۔میسوپوٹیمیا کے لوگ اس پرندے کو 5000قبل مسیح سے جانتے ہیں ۔یہاں کی دیوی دیوتاؤں کے مجسموں مثلاً جنت کی ملکہ Ninhursag کی حجری پلیٹ پر کبوتر کی شبیہ بھی موجود ہے ،مصر کے لوگ کبوتر کو 3000قبل مسیح سے پہچانتے ہیں۔ مصر میں اس دور میں کبوتر کے ذائقہ دار پکوان مشہور تھے۔مصر کے بعض اہرام میں ممیوں کے ساتھ دفن کئے جانے والے طعام میں کبوتر کی ہڈیاں ملی ہیں جو اس پرندے کو اس دور میں استعمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔فرعون مصر کے اپنی کسی منت کے سلسلے میں 60,000کبوتروں کو قربان کرنے کا ذکر تاریخ میں موجود ہے۔مذہبی رسومات کی ادئیگی کے لئے بھی کبوتروں کو قربان کرنے عام رواج تھا۔اسی لئے مصر میں ہمیں کبوتر کے کئی Dovecotes (کبوتر خانے)ملتے ہیں جو اس زمانے میں مٹی کی دیوار میں خزفی گھڑے لگا کر بنائے جاتے اور اس میں کبوتروں کی افزائش کی جاتی تھی۔کبوتر کا سائنسی نام Columba livia ہے۔یہ عام طور پر 32تا 37سنٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔اس کے پنکھ کی لمبائی تقریباً70سنٹی میٹر ہوتی ہے،یہ جاندار کئی رنگوں میں دکھائی دیتے ہیں، عام طور پر ان کی گردن میں مختلف رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ان کی بینائی تیز ہوتی ہے
یہ بالائے بنفشی شعاعوں کو دیکھ سکتے ہیں جو انسان کو دکھائی نہیں دیتے
کبوتر سال بھر انڈے دیتا ہے ،یہ Monogamous جاندار ہے ، زندگی ایک ہی کبوتر کے ساتھ گزارتا ہے ۔ مادہ کبوتر دو انڈے دیتی ہے جس کو دونوں مل کر16تا 19دنوں تک سیتے ہیں،ان میں عمل تولید ہر موسم میں انجام پاتی ہے اس کا انحصار غذا کی دستیابی پر ہوتا ہے۔ان میں ایک منفرد خصوصیت پائی جاتی ہے جو دوسرے پرندوں میں دکھائی نہیں دیتی،یہ اپنے بچوں کو Crop سے حاصل ہونے والا دودھ پلاتے ہیں Crop ایک تھیلی نما ساخت ہے بلعوم اور معدے کے تقریبا جوڑ پر پائی جاتی ہے ، یہ Crop نر اور مادہ دونوں کے اندر پایا جاتا ہے، اس تھیلی کے اندرونی خلیوں کی پرتوں میں احترق واقع ہوتا ہے جس کے باعث توانائی بخش دودھ خارج ہوتا ہے۔یہ دودھ اپنے اندر اس قدر توانائی رکھتا ہے کہ کبوتر کے بچے یعنی squab کا وزن ایک دن میں دوگنا ہوجاتا ہے۔اسی لئے صرف دو مہینے کے عرصے
میں نو مود کبوتر اپنی ماں کاگھونسلہ چھوڑنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
کبوتر بڑا ذہین پرندہ ہے جو اشخاص کو ان کی تصاویر میں بھی پہچان لیتا ہے ،سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کبوتر آئینے میں اپنی تصویر دیکھ کر خود کو پہچان سکتا ہے یعنی یہ چہرے کی پہچان کی حد تک خود شناس پرندہ ہے، یہ خصوصیت چونکہ دوسے پرندوں میں نہیں پائی جاتی اسی لئے اس کی اپنی جدا گانہ حیثیت ہے جو کسی بھی دوسرے پرندے سے انہیں اس خصوص میں ممتاز کرتی ہے۔۔کبوتر میں حروف کو شناخت کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے،ایک تجربے کے ذریعہ سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا کہ کبوتر پورے انگریزی حرف تہجی کو شناخت کرتا ہے جو ان کی ذہنی صلاحیت کی آئینہ دار ہے۔کبوتر اپنی چونچ سے پانی چوس کر پینا جانتاہے جبکہ دوسرے پرندوں میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔
کبوتروں ہزاروں میل دور سے اپنے گھر کا پتہ ڈھونڈ لیتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے اس کے متعلق کئی نظریات پیش کئے گئے ہیں ،جن میں ایک نظریہ مقناطیسی حسیّت کا نظریہ ہے جس کی وجہہ یہ جاندار سورج کو رہنما بنا کر مشرق و مغرب کی سمتوں کا تعین کرتاہے۔ ان کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ’’زمین کی مقناطیسی قوت ‘‘(Magnetic effect of the earth) کو پہچان سکتے ہیں اسی لئے وہ اپنے گھر کا راستہ بآسانی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ کبوتر70تا75 کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے پرواز کر سکتے ہیں۔دوران پرواز اس کی اونچائی یعنی ارتفاع 6000 فٹ سے زائد ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھار کبوتر گھر کا راستہ ڈھونڈتے ہوئے ایک دن میں 1000 کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ بھی طے کرلیتے ہیں۔ایک دفعہ ایک کبوتر نے 55 دنوں تک مسلسل پرواز کے ذریعہ زائد از 12000 کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ علاوہ اس کے یہ پرندہ زیر زمین زلزلے کی لہروں کی ہلکی آواز کو بھی محسوس کرسکتا ہے، یہ خصوصیت بھی کبوتر کو راستہ ڈھونڈ نکالنے میں آسانی پیدا کرتی ہے۔جرمنی میں ہوئی جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ہزاروں میل (ایک تجربے کے مطابق 2800 کلو میٹر) دور سے کبوتر کے گھر ڈھونڈنے کی صلاحیت ان کی چونچ میں پنہاں ہوتی ہے یعنی خدائے تعالیٰ نے ان کی چونچ ہی اس انداز سے وضع کی ہے کہ یہ ایک الکٹرانک آلہ (Electronic device) بن جاتی ہے اور زمین کی مقناطیسی خصوصیت محسوس کرنے والا قدرتی ذرات پر مشتمل آلہ اس میں چھپ جاتا ہے،سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر کبوتر کی اس خصوصیت کو سامنے رکھ کر دنیا نے کوئی آلہ بنا لیا تو یہ دنیا کی ایک بڑی ترقی متصور کی جائے گی۔ علاوہ اس کے ہزاروں میل دور سے راستہ کھوج نکالنے کے ان کی قوت بصارت سے زیادہ قوت شامہ کام کرتی ہے، جب گھونسلے کے قریب آجائیں تو ان کی آنکھیں گھر کو پہچان لیتی ہے لیکن گھر تک پہنچانے کا اصل کام ’’ناک‘‘ انجام دیتی ہے ، تجربے سے ثابت ہے کہ اگر کبوتر کی ناک بند ہو تو وہ اپنے گھونسلے کے قریب پہنچ کر بھی آشیانہ تلاش نہیں کرسکتے۔سائنسدانوں کے مطابق زمین کا ہرذرہ اپنے اندر جدا گانہ مقناطیسی قوت رکھتا ہے اور اس کو پہچاننے کا آلہ قدرت نے اس کی چونچ اور ناک میں رکھا ہے جس کی وجہہ سے ہر کبوترمقناطیسی قوت کے اختلاف کو پہچانتا ہوا اپنے گھر تک پہنچ جاتا ہے کیونکہ اس کے گھر کی زمین کی مقناطیسی قوت کو کو ذہن نشین کرچکا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی مخصوص خصوصیت ہے جو دوسرے پرندوں بلکہ دوسروں جانداروں میں دکھائی نہیں دیتی اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ایسی خصوصیت نہ پرندے کی اپنی پیدا کردہ ہے اور نہ ہی کسی ارتقائی کہانی کی دین ہے ، یہ قدرت ہی ہے جو کبوتر کو ایسے صفات سے نوازتی ہے تاکہ اس کو دیکھ دیکھ کر خدا پر یقین کی کیفیت میں اضافہ ہوسکے۔و فی خلقکم وما یبعث من دابۃ آیات لقوم یوقینون(الجاثیہ۔ ۴) ترجمہ : اور خود تمہاری پیدائش میں اور ان حیوانات میں جن کو وہ(زمین پر) پھیلا رہا ہے یقین رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔