افسانہ : برف ‘ ٹھنڈے خون کی
حنیف سیّد – آگرہ
ای میل :
’’حرام جادی ….!کل تک دُم ہلاتی تھی چھپکلی کی مانند، اُوپر ۔ اور آج رنگ بدل رہی ہے گرگٹ کی طرح نیچے۔کمرے کی چھت ، اورکمرے کے اندراِتنا پھرک‘‘۔سہاگ رات میں راجو کے کہنے پررجنی نے گھونگٹ نہ اٹھا یا ،تو راجو نے لہاڑیا ں سنائیں،جس پر رجنی جواب دینے کے بجاے سمٹ گئی۔
’’میری بات کا جواب دے سالی….!‘‘راجو نے جواب نہ پا کر سہاگ کا دوپٹّا اس کے جسم سے نوچ پھینکا۔
’’کیا جواب دوں….؟‘‘وہ ،اورسمٹی۔
’’یہی کہ جب تو چھت پر آتی تھی تودوپٹّا ہوتاتھا کبھی سر پر….؟پھر آج یہ ڈراما کیوں….؟‘‘
’’وہاں تو چھُپ کر آتی تھی سب سے۔‘‘شراب کے نشے میں دُھت راجو کی آنکھوں کے لپکتے شعلوں سے سہم کراُس نے جواب دیا۔
’’حرام جادی….! جب میری نہیں تھی، تو کھُلے کھجانے میری تھی۔اور جب میری ہو گئی،تو نکھرے دکھاتی ہے۔مکّار کہیں کی ۔ اُتار کپڑے….!‘‘راجو نے تماچا جمایا۔رجنی کو بھی کمرے کی چھت اور کمرے کے اندر کافرق کچھ عجیب لگا۔وہ سوچنے لگی : ’’آج سے پہلے جب مَیں راجو کی نہیں تھی، تو وہ کتنا چاہتا تھا مجھ کو۔اور آج جب سماج کو ٹھُکرا کراُس کے کمرے میں بیاہ کر آگئی، تواِتنا پھرک۔‘‘ پھر بھی تماچاکچھ خاص برا نہ لگااُس کو۔ لہٰذا بِناکسی احتجاج کے پہلے وہ کچھ مسکرائی،اور اُس کے بعداُس کے کپڑے یکے بعد دیگرے،صوفے پر جا گرے،اور گہنے ،ڈبل بیڈ کی دراز میں۔
’’ہاں….! اَب کتنی اچھی لگ رہی ہے تو….!کتنی پیاری ،کتنی سلونی،کتنی سندر،چندا جیسی۔معلوم ہے…؟ کتنی ہمت سے دُلھن بنایا ہے تجھ کو،جان پرکھیل کر۔اگر تو نہ ملتی تو ساری دنیا کو آگ لگا دیتا ۔‘‘اس نے رجنی کو باہوں میں بھر کر بہ آواز بلندکہا۔رجنی نے بھی پوری طرح سپرد کردیا خود کو۔دونوں کے دلوں میں اُٹھے طوفان کی لہریں ملنے کے لیے بے تاب ہو اُٹھیں۔
’’اور یہ چوڑیاں بھی تو اُتار…!‘‘راجو نے پھر ٹوکا۔
’’سہاگ کی ہیں یہ۔یہ نہیں اتاری جاتیں۔‘‘ رجنی نے بحث کے انجام سے لرز کر،اُسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ارے اُتار دے سالی….!اُتار دے….!‘‘
’’نہیں، مَیں نہیں اُتاروں گی اپنے سہاگ کو۔‘‘ رجنی اُس کے جسم کو بڑے پیار سے سہلاتے ہوئے چمٹ گئی۔
’’ یہ ٹوٹ جائیں گی۔‘‘اُس نے رجنی کو بھینچا۔
’’یہ تو ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔‘‘رجنی تڑپی۔
’’کھون نکل آئے گا ہاتھوں میں۔‘‘وہ بھی بے تاب ہوا۔
’’نکل آنے دو۔‘‘وہ بھی محبت کے نشے میں لہرائی،اور بے تاب ہو کر ہونٹوں سے ہونٹ ملا دِیے۔اس سے پہلے کہ کسی لذّت سے آشنا ہوتی،پانچویں بار چوڑیوں کی کھنک سے راجو کا طوفان برف ہو گیا۔ بالکل برف، پتھّر کا۔ جہاں کا تہاں۔ساری کائنات جم گئی ہو جیسے۔‘‘
چوڑیوں کی کھنک آج پانچویں بار سُنی تھیں راجو نے۔پہلی بار تب،جب کہ وہ چھوٹا تھا،یعنی کہ چار پانچ کے سن کا۔دوپہر میں سوتے سوتے اچانک اُس کی آنکھ کھلی ،تو کمرے سے چوڑیاں کھنکنے کی آواز آرہی تھی۔پہلے تو وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا،پھر کچھ سوچ کر اُس کادل بہت تیزی سے دھڑکنے لگا،پھر وہ چُپ چاپ لیٹ گیا۔آنکھیں بند کرلیں۔چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز یں آتی رہیں۔اُس کی گھبراہٹ مسلسل بڑھتی رہی اور اس قدر بڑھی کہ وہ ’’ماں‘‘ کہہ کر چیخ پڑا۔ ماں ہڑبڑا کر کمرے سے باہر آگئی۔کچھ دیر بعداُس کے پاپا نکلے ، شرمندہ سے۔اس کے بعداُس نے اپنی ماں کی چوڑیوں کی، اس طرح کی کھنک کبھی نہ سنی۔ لیکن اُن چوڑیوں کی کھنک نے اُس کے جسم، اوردل و دماغ کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر وقت سے پہلے جوان کردیا ۔اور جب اُس کی بے باک نظرجوانی کے نشے میں لڑکھڑائی تو محلّے کی لڑکیوں کے دل دھڑکنے لگے۔
دوسری بار دیپا بھابی کی کلائیوں بھری چوڑیوں کی کھنک اُس کے من کو بھائی، تو وہ جب تب اُن کے یہاں جانے لگا۔ دیپا بھابی اُس امیرزادے کی کم زوری جان کر ، اپنی شوہر پرستی کا ڈھونگ کر کے اُس کے ہاتھ تو نہ آئیں۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ان چوڑیوں کی کھنک کے سہارے کچھ نہ کچھ مجبوریاں ،پریشانیاں جتا کر اُس سے رقم اینٹھنے لگیں۔ راجو بھی کچھ کم نہ تھا۔اُس کی نظر کی گرمی سے محلے کی حسین پارو پگھلی، تو رقم کی دھار پر اُس نے بھابی کے ذریعے اپنا راستہ بنا لیا۔دیپا بھابی نے پارو سے ربط ضبط کرکے پیار کی ڈوری میں جکڑ کر اُس کوراجو کے لیے اپنے یہاں بلا لیا۔
پھرتو ایک دوپہر پارو کی چوڑیوں کی کھنک سے اُس کے جسم میں تیسری بار ایسا طوفان اُٹھا کہ پارو کی چوڑیوں نے ٹوٹ کر،پارو کی کلائیاں ایسی لہو لہان کردیں کہ سارا محلہ چونک پڑا ۔ حالاں کہ پارو نے لاکھ بہانہ کیا کہ زمین پر گرنے سے چوڑیاں ٹوٹ کر کلائیوں میں چبھی ہیں،لیکن پارو اور راجو کے عشق کی خوش بوکے سبب اس کی بات پر کسی نے یقین نہ کیا۔اورعشق کی خوش بوسارے جہاں میں پھیل گئی۔
پھر تو ایک دن ایسا بھی آگیا جب دیپا بھابی نوٹوں کی دھارسے راجو کے اشاروں پر ناچنے لگیں،اور راجواِتنا بگڑا گیاکہ دیپا بھابی کی کوششوں سے چمن کی ساری تتلیاں راجو پر خود بہ خود منڈلانے لگیں۔
پارو کی کلائیوں کے زخموں نے سبھی لڑکیوں کے ذہنوں کو واکردیا۔نتیجتاً پدمنی ، شیلا،رانی اور شکنتلاوغیرہ سبھی نے اس کھونٹے پر گرنے سے پہلے ہی اپنی اپنی چوڑیاں بھابی کے یہاں اُتار دیں تھیں۔
سارے محلے کی لڑکیوں میں رجنی،راجو کے پڑوس کی تھی، ایک تو بھابی کا مکان رجنی کے مکان سے دور تھا۔دوسرے بھابی کا مکان محلے میں پوری طرح بدنام بھی ہو چکا تھا۔بھابی کے یہاں جانے والی ہر لڑکی شک کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔اس کے علاوہ راجو کو بھی رجنی کابھابی کے یہاں جانا پسند نہ تھا،کیوں کہ دن میں بھابی کے یہاں ہر وقت دوچار لڑکیاں راجو کودست یاب تھیں، لیکن راجو کواپنے یہاں کی رات رنگین کرنے کے لیے،صرف رجنی ہی تھی، جو کچھ دنوں تک راجو کے عشق میں اور پھر بدنامی پھیلنے پر راجو کی دادا گیری کے سبب کھلے عام اُس کی چھت پر آنے لگی۔
راجو کی چھت پرآتے ہی وہ سب سے پہلے چوڑیاں اتار کر خود ہی رکھ دیتی،اُس کے بعد گھنٹوں باتیں ہوتیں۔وہ اکثر راجو کو بھابی کے یہاں جانے سے منع کرتی،لیکن خون لگا شیر کب ماننے والاتھا۔راجو کا کہنا تھا کہ وہ سب سے زیادہ اسے ہی پیار کرتا ہے۔اسی لیے وہ سب سے زیادہ اسے ہی ٹائم دیتا ہے۔ساری ساری رات۔
راجو کے اس رویّے سے محلے میں کئی بار جم کر ہنگامہ بھی ہوا، لیکن راجو لڑنے مرنے پر تیار ہوگیا۔اس کی کمر میں ہر وقت کارتوس لگے دو کٹّے لگے رہتے ،اور جان سبھی کو پیاری تھی۔
چوتھی بار چوڑیوں کی کھنک راجو نے تب سنی تھی ،جب وہ ایک رات چھت پررجنی کی آہٹ پا کر زینے پر چڑھنے لگا،اچانک غسل خانے میں اُسے آہٹ سنائی دی،اُس کا ماتھا ٹھنکا،ذہن میں طوفان اُٹھا،جب اُس نے زینے سے غسل خانے میں جھانکا تو اُس کی بہن پوجا اور رجنی کا بھائی دیپوموجود تھے،اور چوڑیاں بڑی تیزی سے کھنک رہیں تھیں۔اُس نے کمر سے دونوں کٹّے نکالے،اور گولیاں دونوں کے اتار دیں۔محلے میں ایک دم ہنگامہ ہو گیا۔دونوں کی لاشیں غسل خانے میں پڑیں تھیں، جن کو دیکھ کر محلے کے کچھ لوگوں نے راجو کی پیٹھ ٹھوکی اور کچھ نے: ’’کرنی کاپھل‘‘ بتایا۔
بہر حال راجو نے اقبالِ جرم کرلیا۔اورکئی ماہ جیل میں رہنے کے بعدضمانت ہوگئی۔مگررجنی پر اس کا کچھ بھی اثر نہ پڑا،وہ پہلے کی طرح ہر روز راجو سے ملنے چھت پرپھر آنے لگی۔اس واقعے کے باوجود رجنی نے سماج کو ٹھکرا کر کھلے عام راجو کو اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے راجو سے بیاہ کر لیا۔
’’سہاگ رات میں آج پانچویں بار چوڑیوں کی کھنک سے ،راجو کا ذہن غسل خانے کے واقعے میں پہنچ کر یخ ہو گیا۔پھر تورجنی محبت کے نشے سے لے کر،بے حیائی،بے شرمی کی آگ سے راجو کو پگھلانے کی کوشش کے ساتھ، رات بھرجھنجوڑنے کے باوجود مانندماہیِ بے آب ریت پر تڑپتی رہی ۔
رجنی کے تمام حربوں کے باوجودجب راجو ٹس سے مس نہ ہوا، تورجنی نے اپنے ہاتھ زمین پر پٹک کر سہاگ کی چوڑیاں توڑ کر کلائیاں لہو لہان کیں،کپڑے پہنے اور راجوکوگالیاں دیتی ہوئی گھر سے نکل گئی،مگر راجو برف سا پڑا رہا۔ جیسے بائک کے کلچ کاٹوٹاتار،جیسے نمبرپھٹانوٹ،جیسے کمرٹوٹاشیر،جیسے پانی پڑا پٹاخا،جیسے بھبوکے کی راکھ ۔ جیسے فیوزبلب۔ جیسے چٹخا گھڑا۔جیسے پھٹا غُبارا۔‘‘
دوسرے دن اخبار میں تھا کہ بائک ،فرج اور ٹی۔ وی نہ لانے پر دُلھن کو پہلی رات گھر سے نکالا۔
*****
HANIF SYED
12\ 34, SUI KATRA,
282003 – AGRA
موبائل :09319529720
http://hanifsyed.weebly.com
One thought on “افسانہ : برف ‘ ٹھنڈے خون کی ۔ ۔ ۔ ۔ حنیف سیّد ۔ آگرہ”
بھا ئی ا لسلام علیکم
ا فسا نہ ( برف ؛ ٹھنڈ ے خو ن کی ) شا ئع کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔
لیکن ا س کی ا شاعت کا ا نداز کچھ عجب سا ہے ۔ یعنی کہ پیراگراف کے شروع ہونے میں یکسا نیت نہیں ہے ۔ میرا مطلب یہ کہ ایک پیرا گراف کہیں سے شروع ہوا ہے تو د ور سرا کسی د وسری جگہ سو اور تیسرا کسی ا ور جگہ سے ۔ ا ن میں یکسا نیت رہتی تو اور اچھا رہتا ۔
اشاعت کے لیے بے حد مشکور ہوں
اللہ آپ سبکو سلامت رکھے آمین
حنیف سید 9319529720