یہ شادیاں خانہ آبادیاں ! ( طنز و مزاح )
سید عارف مصطفیٰ ۔ کراچی
فون : 8261098 -0313
ای میل :
شادی کیوں ہوتی ہے کیسے ہوتی ہے یہ کسی کو بھی بتانا مطلق ضروری نہیں کیونکہ یہ جسے بھی بتایا جائے وہ اس سے بھی زیادہ بتادیتا ہے کہ جتنا ہمیں معلوم ہوتا ہے البتہ یہ کچھ جانے بغیر بھی ہوجاتی ہے۔۔۔ عجیب بات یہ ہے کہ شادی کے رموز سے بیخبری والی جہالت کی مثالیں انتہائی ناخواندہ ممالک میں بھی ابتک ڈھونڈے سے نہیں ملیں بلکہ کم پڑھے لکھے معاشروں میں زیادہ ترعلامہ اسی شعبے سے پائے جاتے ہیں – ایک بات البتہ اس معاملے میں طے ہے کہ کو ئی بھی شادی خواہ زرو مال کے بغیر جیسے تیسے ممکن ہو بھی جائے مگر خود فریبی کے بغیر کسی طور ممکن نہیں کیونکہ خود فریبی انسانی نفسیات کا حصہ نا ہوتی تو زندگی گزارنا بہت مشکل ہوجاتی ،،
خود فریبی کو اسی سے سمجھ لیجیئے کہ کوئی فلم یا کوئی ڈرامہ دیکھتے ہوئے ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ جو صاحب ابھی یہاں بستر مرگ پہ پڑے دکھائی دے رہے ہیں اور 2 صفحے کا اسکرپٹ سنا کر آن کی آن میں جنکی گردن ایک طرف کو لڑھک جائیگی اور اس پہ انکا تنو مند صاحبزادہ پورے وزن سے انکے سینے پہ گرے گا اور رہی سہی سانس بھی نکال دے گا (۔۔۔ لیکن پھر بھی چلائےگا ڈاکٹر انہیں بچالو۔۔۔انہیں بچالو۔۔۔) تو یہی صاحب شوٹنگ ختم ہوتے ہی بستر مرگ سے چھلانگ لگا کر اتریں گے اور فلمی نرس کی کمر میں ہاتھ ڈال کراپنی گاڑی میں بیٹھیں گے اور یہ جا وہ جا ہو جائینگے۔۔۔ لیکن ۔۔۔ ہم خود فریبی کے مارے لوگ انہی مناظر کے اسیر ہوکر حسب شرافت یا بمقدار رذالت کبھی آنسو تو کبھی ٹسوے بہاتے ہیں اور کبھی وفور جذبات میں تلنگانہ پرجوش تالیاں بجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہر شادی کا ہوجانا بھی اسی خود فریبی کی نفسیات کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے ورنہ شادی کرنے سے توبہ کرانے کے لیئے آس پاس ہی ٹٹولیں تو بہتیری مثالیں مل جاتی ہیں۔۔۔ شادی گزیدہ کوئی دکھی سے خالو ،، کوئی میکے میں پلٹائی گئی بلبلاتی پھپھو، کوئی سوکن سے جھنجھلاتی سی خالہ اور کوئی سالوں کے ہاتھوں زخم خوردہ سے ماموں آخر کس خاندان میں نہیں پائے جاتے۔۔
ٹیگور نے کہا تھا کہ ہر بچے کی پیدائش اس حقیقت کی غماز ہے کہ ابھی خدا انسان سے مایوس نہیں ہوا۔۔۔ لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدانخواستہ شادیاں خدا کو مایوس ہونے سے بچانے کیلیئے رچائی جاتی ہیں کیونکہ بچے اسکا نقد نتیجہ ہوتے ہیں،،، اور بچوں کا کیا ہے جنہیں ہونا ہو وہ ہو کے رہتے ہیں شادی وادی کا بھی انتظار نہیں کرتے اور اسی لیئے اہل مغرب ان شادی کے تکلفات میں کم ہی پڑتے ہیں بس سارا دھیان بے بی سیٹنگ پہ رکھتے ہیں خواہ بڑی والی ہو یا چھوٹی والی ۔۔۔۔ وہ تو شادی کا جھنجھٹ اگر پالتے بھی ہیں تو محض اس لیئے کیونکہ اسکے بغیرطلاق کی منزل تک نہیں پہنچا سکتا ،،، مگر یہاں اہل مشرق کا معاملہ یہ ہے کہ انکی زندگیوں کے اہم ترین کام اب تک دو ہی نوعیت کے شمار ہوئے ہیں جن میں اؤل شادی ہے دوئم بچے کی پیدائش ہے باقی چونکہ حسب توفیق سوئم چہارم پنجم ششم وغیرہ بھی یہی ہے لہٰذا طول کلام سے بچنے کیلیئے اس طرح کی شماریات کے باب دوم میں ہی سارے بقیہ ابواب سمودیئے جاتے ہیں ۔۔۔ حتٰی کے جو بیکار مباش زندگی میں کوئی اور کام جوگے نہیں ہوتے اس شعبے میں انکا اسپ تازی خوب خوب دوڑتا ہے اور شادی کے چند ہی برسوں میں کئی ننھے منھوں سے آنگن بھر دیتے ہیں – لیکن اسکے لیئے وہ شادی کا لائسنس لینا نہیں بھولتے اور اگر کبھی اندھیرے اجالے یاد نہ رہا ہو تو بعد میں اکثرکھڑے کھڑے یا بیٹھے بیٹھے اچانک ناک اور کانوں کو ہاتھ لگانا بھی نہیں بھولتے-
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اہل مشرق پہلی شادی صرف بچے پیدا کرنے کیلیئے کرتے ہیں اور بعضوں کے خیال میں یہ تقریب ایسی با کفایت عیش پروری کے جذبے کے تحت کی جاتی ہے کہ جس میں ہربار ادائیگی کے جنجال سے جان چھڑانا مقصود ہوتا ہے -تاہم چند ایسے بھی ہیں کہ جو ان دونوں طبقات سے مختلف رائے رکھتے ہیں جیسا کہ ہمارے دوست چغتائی صاحب جنکا کہنا یہ ہے کہ ہر شادی اس حقیقت کی عکاس ہے کہ ابھی بھی چند لوگوں کو اپنی مسلسل ناقدری کے باوجود یہ آسرا ہے کہ کم ازکم شادی ہی سے وہ ‘باعزت شہری’ سمجھے جانے لگیں گے۔۔ گویا شادی خود کو قابل اعتبار ظاہر کرانے کا ایک نہایت مہنگا حربہ ہے – انصآف سے دیکھا جائے تو چغتائی کی یہ بات شروع سے تو غلط ہرگز نہیں تاہم شادی کے بعد اکثر کیسیز میں انکے اس خیال کی نفی ہونے میں زیادہ دن نہیں لگتے، اورپھر اسکے لیئے نوشے میاں کو گھر سے باہر بھی نہیں جانا پڑتا۔۔۔ مناسب مقداروں میں وقتاً فوقتاً بے عزتی کا سب اہتمام گھر ہی میں موجود رہتا ہے – کئیوں کی بدگمانی یہ ہے کہ چغتائی اپنی آپ بیتی یونہی قسطوں میں جاری کرتے رہتے ہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ کوئی فرد خواہ کتنا ہی بے قدری کا شکار کیوں نہ رہا ہو ، کم ازکم اپنی شادی کے دن تو وہ ہاتھوں ہاتھ لیا ہی جاتا ہے بعد میں اگر وہ لاتوں لات لیا جائے یہ اسکا نصیب اور سراسر فتور زن ہے – کچھ ہمدرد ہر گھرانے میں پھر بھی ایسے پائے جاتے ہین کہ جو بارات کی روانگی سے قبل آخر وقت تک ڈٹے رہتے ہیں کہ شادی کے سنگین نتائج و عواقب سے آگاہ کرکے خود گرفتار بلا ہونے کے نوشائی خبط کو زائل کرسکیں اور کسی نہ کسی طرح بچا لے جائیں ،،، لیکن اس سے ہوتا ہواتا اور کچھ بھی نہیں صرف باراتیں پہنچنے میں بہت لیٹ ہو جاتی ہیں،،۔۔
پرکھوں کا کہنا ہے کہ شادی اک ایسا پھل ہے کہ جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نا کھائے وہ بھی پچھتائے لہٰذا اتفاق اسی بے احتیاطی پہ پایا جاتا ہے کہ اگر پچھتانا ہی ہے تو یہ پھل کھا کے ہی کیوں پچھتایا جائے کیونکہ نہ کھاکر پچھتانے سے ایسا بھیانک احساس محرومی جنم لیتا ہے کہ اسے نہ کھا سکنے والا ساری عمر کے لیئے ‘کیدو’ سا ہورہتا ہے اور ہر رانجھے و ہیر کو کنوارا رکھنےکو اپنی باقی حیاتی کا نصب العین بنالیتا ہے اور اسے پانے کے لیئے ہر وقت سرگرم عمل ہوا رہتا ہے ۔۔۔ لیکن اکثر شادی شداؤں کے مطابق احساس محرومی کا حقیقی مفہوم تو سمجھ میں آتا ہی شادی کے بعد ہے اور زیادہ تر کے نصیب میں شادی کے بعد جو شے سب سے زیادہ مستقل مزاجی سے میسر آپاتی ہے وہ یہی احساس محرومی ہی تو ہے، جسکی متواتر سپلائی کے جملہ حقوق یا کاپی رائٹس اہلیاؤں کے پاس محفوظ ہوتے ہیں ۔۔۔ لیکن ان سب حقائق کے باوجود کہ اکثر شادیاں آبیل مجھے مار کی عملی تفسیر بنی رہتی ہیں پھر بھی سبھی لوگ مبتلائے شادی ہونا چاہتے ہیں اسی سبب ہمارے دوست خواجہ مسعود فرماتے ہیں کہ یہاں کے لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، بس تاریخ کو دہرانے میں دلچسپی رکھتے ہیں – یہ عام سے مشاہدے کی بات ہے اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ "شادی کی حسرت میں مر جانے والوں کی یا تو آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں یا منہ ۔۔۔ لیکن اکثر شادی شدہ متوفیوں کی آنکھیں اور منہ دونوں ہی بند دیکھے جاتے ہیں ، شاید اسلیئے کہ انکی طویل ازدواجی مشق نے انہیں اسی کے لائق رکھ چھوڑا ہوتا ہے
—————————