چکبستؔ ۔ ایک مُحبِّ وطن شاعر
ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء اردو شاتا واہانا یونیورسٹی
کریم نگر۔ تلنگانہ
پنڈت برج نرائن چکبستؔ 19جنوری1882ء کو پیداہوئے اور ان کی وفات 12فروری1926ء کو ہوئی ۔چکبست اُردو کے مشہور محب وطن اور وطن پرست شاعر تھے۔اُردو شاعری کی تاریخ میں چکبستؔ کایہ شعر ان کی شناخت بن گیا۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے اِن ہی اجزا کا پریشان ہونا
چکبستؔ کا تعلق کشمیر کے پنڈت گھرانے سے تھا۔ ان کے والدپنڈ ت اُدت نرائن یقینؔ فیض آباد کے ڈپٹی کلکٹر تھے اور ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ والد کے انتقال کے بعد چکبستؔ لکھنؤ منتقل ہوگئے اور وہاں کشمیری محلہ میں رہنے لگے۔اُن کی تعلیم وہیں ہوئی۔ چکبستؔ نے بی اے ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ چکبستؔ نے جس دور میں ہوش سنبھالا وہ دور ہندوستان میں قومی تحریک کے عروج کا دور تھا۔ چنانچہ وہ اپنے دور کے قومی رہنماؤں تلک ‘گوکھلے‘گاندھی جی‘اینی بسنٹ ‘دادا بھائی نوروجی اور پنڈت بشن نرائن در ابرؔ سے متاثر رہے۔ پیشے سے وکیل اور لکھنوء کے شعری ماحول میں پرورش پانے والے نوجوان چکبستؔ نے اپنے عہد کے حالات سے متاثر ہوکر بارہ سال کی عمر میں جب شعر کہنا شروع کیا تو انہوں نے محسوس کیا کہ یہ وقت گل و بلبل کے فسانے سنانے یا عشق و عاشقی کے راگ الاپنے کا نہیں بلکہ اہل وطن کو وطن سے محبت کا سبق پڑھانے اور ان میں جذبہ آزادی بیدار کرنے کا ہے چنانچہ انہوں نے روایت کے خلاف وطن پرستی پر مبنی نظموں سے اپنی شاعری کاآغاز کیا۔اور بہت جلد وہ ایک محب وطن شاعر کے طور پر مشہور ہو گئے۔
چکبستؔ نے حب وطن کے موضوع پر مبنی اپنی جذباتی شاعری کے ذریعے اہل ہند کے دلوں میں وطن کی سچی محبت پیدا کی۔ چنانچہ چکبستؔ اور دیگر قوم پرست شعراء کے پیش کردہ جذبات نے لوگوں کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ہندوستان کی قومی تحریک کو فروغ ملا۔ اور آخر کار ہندوستان کو صدیوں کی غلامی سے آزادی ملی۔ لفظ وطن کے ساتھ ایک قسم کے تحفظ اور اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ وطن وہ خطہ زمین ہوتا ہے جہاں کے ماحول میں اہل وطن چین و سکون اورآزادی سے رہ سکتے ہیں ۔ ملک کے وسائل پر ان کا قبضہ ہوتا ہے اور وہ ملک میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ہندوستان میں جو بھی بیرونی حکمران آئے انہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا اس کی بے مثال ترقی میں حصہ لیا رعایا کے دلوں کو جیتا اورشاندار حکمرانی کی ۔ اور یہاں اپنی محبت کی یادگاریں چھوڑنے کے بعد یہیں پیوندِ خاک ہوئے۔جبکہ انگریز حکمرانوں نے چالاکی سے ہندوستان پر قبضہ کیا۔ یہاں کے قدرتی وسائل اور مال و دولت کو لوٹ کر اپنے ملک منتقل کیا ۔اور ہندوستان کو کبھی اپنا ملک نہیں بنایا۔ بلکہ اپنی حکومت کو بچانے کی خاطر اس ملک میں صدیوں سے مل جل کر رہنے والی دو قوموں ہندوؤں اور مسلمانوں میں آپسی رقابت پیدا کی۔ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو والی اپنی سازشی پالیسی سے انہوں نے حکومت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ہندوستان کے شعراء ‘ ادیبوں اور یہاں کے دانشور طبقہ نے انگریزوں کی سازش کو محسوس کرلیا ۔ اور لوگوں میں وطن پرستی کا جذبہ بیدار کرتے ہوئے انہیں جدو جہد آزادی کے لئے تیار کیا۔اورنگ زیب کے بعد ہندوستان میں کئی چھوٹی بڑی حکومتیں بن گئی تھیں اور علاقہ واری سطح پر قومیت اور وطن پرستی کے جذبات کا اظہار ہوتا تھا ۔ چنانچہ دکن کا شاعر وجہی ؔ اپنے وطن دکن کی تعریف یوں کرتا ہے۔
دکن سا نہیں ٹھار اس سنسار میں
پنج فاضِلاں کا ہے اس ٹھار میں
1857ء کے بعد ہندوستان سے چھوٹی حکومتوں کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ اور ہندوستا ن ایک مرتبہ پھر ایک وسیع و عریض ملک میں تبدیل ہوچکا تھا۔ چنانچہ انیسویں صدی کے اواخر سے ہی ہندوستا ن میں وطن پرستی کے اجتماعی جذبات کا اظہار ہونے لگا تھا۔ چکبستؔ اس کام میں آگے آگے تھے۔ اور صرف 44سال کی عمر پانے والے چکبستؔ نے اپنی قومی اور وطنی شاعری کے ذریعے لوگوں میں وطن پرستی کے جذبے کو مضبوط کردیا۔
چکبستؔ نے بارہ سال کی عمر میں اپنی پہلی نظم’’ حب قومی‘‘ کہی۔ نظم میں سادے انداز میں وطن سے محبت کے جذبات کو پیش کیا۔ چکبستؔ کہتے ہیں۔
حب قومی کا زباں پر ان دنوں فسانہ ہے
بادہء اُلفت سے پُر دل کا مِرے فسانہ ہے
جس جگہ دیکھو محبت کا وہاں فسانہ ہے
عشق میں اپنے وطن کے ہر بشر دیوانہ ہے
وطن سے محبت کے موضوع پر چکبستؔ کی دیگر نظمیں جلوہء صبح‘خاکِ ہند‘ہمارا وطن دل سے پیارا وطن‘وطن کو ہم وطن ہم کو مبارک‘فریادِ قوم‘مسز بسنٹ کی خدمت میں قوم کا پیغامِ وفا‘قوم کے سورماؤں کو الوداع‘نالہء درد‘رامائن کا ایک سین‘کرشن کنہیا اور گائے وغیرہ ہیں۔ چکبستؔ نے اپنی پہلی نظم کے بعد اپنی وطن سے محبت سے بھری شاعری کے لئے مسدس کی ہیئت کو اختیار کیا۔ لکھنؤ میں انیسؔ اور دبیرؔ نے مسدس کی ہیئت میں مرثیے لکھ کر اسے کمال تک پہونچا دیا تھا۔ چکبستؔ نے محسوس کرلیا تھا کہ وطن سے محبت والی شاعری میں جذبات کا تفصیلی اظہار ہوتا ہے اور اس کے لئے مسدس سے بہتر کوئی ہیئت نہیں چنانچہ انہوں نے اسے اپنی دیگر نظموں میں بخوبی استعمال کیا۔
مسدس کی ہیئت میں لکھی گئی چکبستؔ کی پہلی نظم ’’ جلوہء صبح‘‘ ہے۔ اس نظم میں وطن کے صبح و شام اور اس کے ندی نالوں پہاڑ‘جنگل اور بیابانوں کے حسن کو تشبیہات اور استعارات کے ساتھ پیش کیا گیا۔ شاعر وطن کی خوبصورت نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے خوابِ غفلت میں ڈوبے اہل وطن کو بیدار کرتا ہے کے تمہارے وطن کا یہ حسن غلامی کے سبب ماند پڑ رہا ہے۔اس لئے وطن کی محبت کو دل میں لئے ہمیں اس کی آزادی کی فکر کرنا ہے۔کشمیر کی صبح کا ذکر کرتے ہوئے چکبستؔ کہتے ہیں۔
وہ صبح کو کہسار کے پھولوں کا مہکنا
وہ جھاڑیوں کی آڑ میں چڑیوں کا چہکنا
گردوں پہ شفق کوہ پہ لالے کا لہکنا
مستوں کی طرح ابر کے تکڑوں کا بہکنا
ہر پھول کی جنبش سے عیاں ناز پری کا
چلنا وہ دبے پاؤں نسیم سحری کا
حب وطن کے موضوع پر کہی گئی چکبستؔ کی شاہکار نظم ’’ خاکِ ہند ‘‘ ہے۔یہ نظم 1905ء میں لکھی گئی۔نظم کے پہلے شعر میں ہندوستان کی عظمت کا ذکر کیا گیا۔ شاعر کہتا ہے۔
اے خاکِ ہند تیری عظمت میں کیا گُماں ہے
دریائے فیضِ قدر ت تیرے لئے رواں ہے
نظم کے ابتدائی بندوں میں چکبستؔ نے خاکِ ہند پر جاری قدرت کی نعمتوں یہاں کے ندی نالے پہاڑ جنگل بیابان خوبصورت مقامات اور یہاں سے اٹھنے والی عظیم شخصیات کا ذکر کیا۔ اور لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ ہمارا وطن زندگی کے ہر شعبے میں کس قدر بلند مقام رکھتا ہے۔لیکن شاعر کو افسوس ہے کہ اس قدر عظیم ملک کے رہنے والوں کے حوصلوں میں غلامی کے سبب پستی آگئی ہے۔چکبستؔ کہتے ہیں:
اگلی سی تازگی ہے پھولوں میں اور پھلوں میں
کرتے ہیں رقص اب تک طاؤس جنگلوں میں
اب تک وہی کڑک ہے بجلی کی بادلوں میں
پستی سی آگئی ہے پر دل کے حوصلوں میں
گُل شمعِ انجمن ہے گو انجمن وہی ہے
حب وطن نہیں ہے خاکِ وطن وہی ہے
خاکِ وطن سے پیار چکبستؔ کی شاعری کا اہم موضوع ہے۔ چکبستؔ برہمن تھے۔ہو سکتا ہے انہوں نے اپنی شاعری میں ہندو دھرم کے اس عقیدے کا پرچار کیا ہو جس کے تحت وطن کی مٹی کو دھرتی ماں کہا جاتا ہے۔ اور ماں سے محبت اور اس کی حفاظت اس کے بالکوں کی اہم ذمہ داری قرار پاتی ہے۔چکبستؔ نے اپنی نظم ’’خاکِ ہند‘‘ کے علاوہ دیگر نظموں میں بھی خاکِ ہند سے عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنی نظم ’’ گائے‘‘ میں بھی ہندو دھرم کے عقائد کا پرچار کیا ہے۔چکبستؔ کہتے ہیں:
صاحبِ دل تجھے تصویرِ وفا کہتے ہیں
چشمہء خدا مردِ خدا کہتے ہیں
درد مندوں کی مسیحا شعراء کہتے ہیں
ماں تجھے کہتے ہیں ہندو تو بجا کہتے ہیں
کون ہے جس نے تیرے دودھ سے منہ پھیرا ہے
آج اس قوم کی رگ رگ میں لہو تیرا ہے
اقبال نے اپنی نظموں میں بھی اس طرح کے خیالات پیش کئے ہیں۔دراصل چکبستؔ نے ایک درد مند دل کے ساتھ اپنی شاعری میں وطن سے محبت کے جذبے کو اُبھارا ہے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔اُن کی شاعری سے کہیں بھی فرقہ واریت ظاہر نہیں ہوتی۔ گوپی چند نارنگ چکبستؔ کی رواداری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وہ تسبیح اور زنار کے پھندے کے قائل نہیں تھے کیونکہ اس کی پیدا کی ہوئی تفریق تحریک آزادی کی راہ میں قدم قدم پر اڑچنیں پیدا کرتی تھی اور انگریزوں کے ہاتھ میں ہندوستان کو غلام رکھنے کے لئے ایک حربہ بن گھی تھی۔ چکبستؔ دونوں مذہبوں کے ظاہری اختلاف اور تہذیبوں کی رنگا رنگی کے قائل تھے ۔ لیکن ان تمام رنگوں میں بنیادی نور تلا ش کرنے کی دعوت دیتے تھے اور ایسا صرف کسی مشترکہ سیاسی تصور یا نصب العین کو اپنانے ہی سے ہو سکتا تھا‘‘۔
(گوپی چند نارنگ۔ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو۔ص۔۳۶۴)
چھوٹی بحر میں چکبستؔ کی دو نظمیں’’ ہمارا وطن دل سے پیار وطن‘‘ اور ’’ وطن کو ہم‘وطن ہم کو مبارک‘‘ ہیں۔ یہ نظمیں 1916ء میں لکھی گئیں۔یہ نظمیں بچوں کے لئے لکھی گئیں۔چکبستؔ کو یہ احساس تھا کہ بچے کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ اُن میں بھی وطن سے محبت کے جذبے پیدا کرنا ضروری ہے۔بچوں کے لحاظ سے ان نظموں میں ترنم ہے۔ سیدھے سادھے انداز میں وطن سے محبت کا اظہار کیا گیاہے ۔چکبستؔ کہتے ہیں:
یہ ہندوستا ن ہے ہمارا وطن
محبت کی آنکھوں کا تارا وطن
نظم میں ہندوستان کے موسم اور یہاں کے فطرت کے مناظر دلفریب انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔نظم کے آخر میں شاعر وطن کی محبت اور ماں کے پیار کو زندگی کی ضرورت قرار دیتے ہوئے چکبستؔ کہتے ہیں:
اسی سے ہے اس زندگی کی بہار
وطن کی محبت ہو یا ماں کا پیار
ہمارا وطن دل سے پیارا وطن
نظم’’ وطن کو ہم‘وطن ہم کو مبارک‘‘ میں چکبستؔ نے ایک مرتبہ پھر اپنے محبوب موضوع خاکِ ہند کی عظمت یوں بیان کی:
یہاں کی خاک ہم کو کیمیاء ہے
یہ سونے سے بھی قیمت میں سوا ہے
اسی خاک سے لیتے ہیں محصول
یہی دیتا ہے غلہ اور پھل پھول
وطن کا جن بزرگوں سے ہوا نام
اسی مٹی میں وہ کرتے ہیں آرام
چکبستؔ کی حب وطن کی شاعری کا ایک اہم پہلو اپنے عہد کے سیاسی حالات کا بیان ہے ۔ جس کے تحت انہوں نے ہوم رول تحریک کا ذکر جا بجا کیا ہے۔ اینی بسنٹ نے ہندوستان میں ہوم رول پر زور دیا تھا۔ اینی بسنٹ کے اس خیال کو چکبستؔ نے بہت پسند کیا تھا۔چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر ایک سے زیادہ نظمیں کہی ہیں ۔ ان نظموں میں عیش ہوگا ہوم رول ہوگا‘مسز بنسنٹ کی خدمت میں قوم کا پیغام وفا وغیرہ شامل ہیں۔ ہوم رول کی حمایت کرتے ہوئے چکبستؔ کہتے ہیں:
زمین ہند کے رتبے میں عرش اعلیٰ ہے
یہ ہوم رول کی امید کا اُجالا ہے
مسز بسنٹ نے اسے آ رزو کو پالا ہے
فقیر قوم کے ہیں اور یہ راگ مالا ہے
طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے
نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے
چکبستؔ کی نظموں’’ رامائن کا ایک سین‘ اور ’’ کرشن کنہیا سے بھی اُن کے وطن سے محبت کے جذبات ظاہر ہوتے ہیں۔ چکبستؔ کی وطن پرستی پر مبنی نظموں کی خاص بات یہ ہے کہ ان نظموں میں وطن کی مٹی کی مہک ہے۔ شاعر کو اپنے وطن کی سر زمین یہاں کے فطری مناظر اور نشانیوں سے بے حد پیار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دیگر ابنائے وطن بھی اس کی طرح وطن کی مٹی سے پیار کرنے لگیں۔چکبستؔ انقلاب کا پیغام نہیں دیتے وہ صرف وطن سے محبت کرنا سکھاتے ہیں۔ احتشام حسین چکبستؔ کی شاعری کو اپنے دور کی آواز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
چکبستؔ اسی دور کے شاعر تھے۔ وہ حب وطن سے مست و بے خود تھے۔ہندوستان کا بھلا چاہتے تھے۔وہ پرانی روش ترک کرنے پراُکساتے تھے۔وہ معاشرت میں تبدیلیاں چاہتے تھے۔ان کے پاس ایک اثر انگیز زبان تھی۔اور ایک درد مند دل۔اس لئے وہ اپنے پیاموں میں رنگا رنگ جلوے پردیتے تھے۔۔۔چکبستؔ سیاسی مفکرین کی طرح کوئی نیا نظام ترتیب نہیں دے رہے تھے۔بلکہ ہندوستانی رہنماؤں کے عام جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے۔وہ انہیں کی آنکھ سے اسے پر اثر بناتے تھے۔ شراب وہی تھی جو لیڈروں کے پیالے میں تھی وہ اسے جوش دے کر دو آتشہ بناتے تھے۔
(احتشام حسین۔یادگار چکبست ؔ ۔بحوالہ ص ۱۳۶۔۱۳۷)
چکبستؔ کے نزدیک وطن سے محبت تمام مذاہب اور عقائد سے بالا تر ہے۔ اپنی نظم ’’ ہم ہوں گے عیش ہوگا ہم رول ہوگا‘‘ میں وہ کہتے ہیں۔
دنیا کے مذہبوں سے یہ رنگ ہے نرالا
مسجد یہی ہے اپنی اور ہے یہی شوالا
اقبال نے اپنی نظم ’’ نیا شوالا‘‘ میں بھی کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ چکبستؔ کی شاعری کا زمانہ اور اقبال کا وہ زمانہ جب کہ وہ ابتداء میں قومی اور وطنی شاعری کر رہے تھے تقریباََ یکساں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وطن سے محبت پر مبنی اپنی شاعری کے ضمن میں انہوں نے اقبال کے اثرات قبول کئے ہوں۔ چکبستؔ کاتعلق لکھنؤ سے رہا ۔اور وہ حب وطن کے شاعر کے طور پر مشہور ہوئے۔ یہ بات لکھنؤ کے شعراء کے معاملے میں کچھ الگ اور منفر لگتی ہے۔وطن سے محبت کے جذبات کے اظہار کے علاوہ چکبستؔ کبھی کبھی اپنی نظموں میں غلامی کے درد کا بھی اظہار کرتے ہیں۔اپنی نظم’’ آوازہء قوم ‘‘ میں غلامی کے جذبات اس طرح ظاہر ہوئے ہیں:
زبان ہے بند قلم پہنائی ہے زنجیر
بیانِ درد کی باقی نہیں کوئی تدبیر
ہے دل میں درد مگر طاقت کلام نہیں
لگے ہے زخم مگر تڑپنے کا انتظام نہیں
چکبستؔ نے اپنی غزلوں میں بھی سیاسی نظریات اور وطن پرستی کے جذبات کھل کر پیش کئے ہیں۔ اس مو ضوع پر چند اشعار ملا حظہ ہوں۔
جنونِ حبِ وطن کا مزا شباب میں ہے
لہو میں پھر یہ جوانی رہے نہ رہے
باغباں دل سے وطن کو یہ دعا دیتا ہے
میں رہوں یا نہ رہوں یہ چمن آباد رہے
گوپی چند نارنگ چکبستؔ کی حب وطن کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قومی اور وطنی جذبہ ان کی شاعری کا سب سے بڑا محرک ہے۔ان کا یہ کہنا’’حب قومی ہوگیا نقش سلیمانی مجھے‘‘ محض سخن گُستَرانہ بات نہیں۔ان کی شاعری گل و بلبل کا فسانہ نہیں۔اکبر و پرتاپ کو جنم دینے والے ہندوستان کی قومی جد و جہد کا مر کز ہے۔۔ان کی شاعری کا بڑا حصہ سیاسی اور وطنی قدروں کی ترویج کرتا ہے۔وطن دوستی ان کے نزدیک ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔وہ ہمیں وطن کا واضح اور روشن تصور دیتے ہیں۔اس کی وسعت اور عظمت سے ذہن ایک گونہ آسودگی محسوس کرتا ہے۔اندر ہی اندر دل میں محبت کے نئے سوت پھوٹنے لگتے ہیں۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا صدیوں کی غفلت اور غلامی کے بعد ہم نے اپنے وطن کو پھر سے دریافت کر لیا ہے۔چکبستؔ کی شاعری ہمارے قومی تصور کا حسین مرقع ہے۔اس میں اپنے عہد کے ذہنی ارتقاء اور سیاسی رفتار کی سچی جھلک دیکھی جا سکتی ہے‘‘۔
(گوپی چند نارنگ۔ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو۔ص۔۳۶۱۔۳۶۲)
مجموعی طور پر چکبستؔ کی شاعری حب وطن سے معمور ہے۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے وطن سے محبت کے جذبے پیدا کرتے ہیں۔ ان کی نظموں میں وطن کے فطری مناظر اور جغرافیائی علامات سے پیار جھلکتا ہے۔چکبستؔ کی وطن سے محبت کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے دیوان کا نام’’ صبح وطن‘‘ رکھا۔ انہوں نے ایک رسالہ ’’ صبح اُمید‘‘ کے نام سے بھی جاری کیا تھا۔ اس طرح چکبستؔ ایک محب وطن شاعر کے طور پر اردو ادب کی تاریخ میں نظر آتے ہیں۔ اور ان کی شاعری ہر زمانے میں لوگوں کو وطن عزیز ہندوستان سے پیار کرتے رہنے کا سبق سکھاتی رہے گی۔
Dr.Md.Abrarul Baqui