پروفیسرمرزا اکبرعلی بیگ بہ حیثیت خاکہ نگار
ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی
شعبہء اردو‘ساتاوہانا یونیورسٹی ‘کریم نگر۔تلنگانہ
موبائل : 09440717525
جنوبی ہند حیدرآباد دکن کی عظیم مادر علمیہ جامعہ عثمانیہ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کئی نامور سپوت پیدا کئے ہیں ۔جنہوں نے اپنے کارناموں سے اپنا اور قوم و ملک کا نام روشن کیا ہے۔ حیدرآباد کے علمی ادبی حلقوں میں شہرت پانے والے جامعہ عثمانیہ کے ایک ایسے ہی نامور سپوت پروفیسر مرزا کبرعلی بیگ (۲۰۰۵ء ۔ ۱۹۴۲ء) ہیں۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ اردو کے معتبر محقق، مدون، نقاد، خاکہ نگار، ادیب اور شاعر گزرے ہیں۔ ادارۂ ادبیاتِ اردو کی مجلس انتظامی کے رکن اور شعبہ امتحانات کے معتمد رہے۔ یوم قلی قطب شاہ تقاریب کے انعقاد و انصرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ اور تاحیات اپنی علمی ادبی تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں سے حیدرآباد کی سماجی زندگی کا اہم حصہ رہے۔ وہ مشہور محقق، نقاد، ادیب کے علاوہ ایک اچھے خاکہ نگار بھی تھے۔ ان کے خاکوں کے دو مجموعے ’’خوش نفساں‘‘ اور ’’نفوس گرامی‘‘ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر شائع ہوچکے ہیں۔ا ن میں حیدرآباد کی علمی و ادبی، سماجی، تہذیبی و ثقافتی زندگی سے وابستہ اہم شخصیات کے تعارفی خاکے شامل ہیں۔پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کی خاکہ نگاری کا جائزہ لینے سے قبل آئیے دیکھیں کہ خاکہ نگاری کی تعریف کیا ہے اور ایک اچھے خاکے کی جزئیات کیا ہیں۔
خاکے کی تعریف:اردو کی نثری اصناف میں ناول، افسانہ، ڈرامہ اور انشائیہ کی طرح خاکہ بھی ادب کی ایک جداگانہ اور منفرد صنف ہے۔ اردو ادب میں خاکہ نگاری و مضمون نگاری کے ابتدائی نقوش داستانوں، تذکروں اور دیگر تصانیف میں مل جاتے ہیں۔ لیکن خاکہ نگاری مستقل صنف ادب کی حیثیت سے اردو میں انگریزی ادب کے اثر سے رائج ہوئی۔ خاکہ کے لیے انگریزی اصطلاح (Sketch) رائج ہے۔ یہ اصطلاح فن مصوری میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ اگر ایک مصور کسی شخص کی ہوبہو مکمل تصویر بنا دے تو اسے Portrait کہتے ہیں۔ اس کے برخلاف چند آڑے ترچھے خطوط کی مدد سے کسی شخصیت کے خط و خال کی جھلک دکھانے کی کوشش کرے تو اسے اسکیچ کہتے ہیں۔ مصور کے بنائے ہوئے اسکیچ میں کسی شخصیت کے ظاہری خط و خال جھلکتے ہیں۔ لیکن ایک خاکہ نگار جب لفظوں کے ذریعہ کسی شخصیت کی صورت گری کرتا ہے تب اس خاکہ کے ذریعے شخصیت کی ظاہری و باطنی تصویر قاری کے ذہن میں اجاگر ہو جاتی ہے اس طرح کسی مصورکے بنائے اسکیچ کے مقابلے میں ایک خاکہ نگار کے پیش کردہ اسکیچ یا خاکہ کی تصویر زیادہ واضح ہوتی ہے۔
صابرہ سعید نے اپنی کتاب ’’اردو ادب میں خاکہ نگاری‘‘ میں خاکہ نگاری کی تعریف کے سلسلے میں مختلف نقادوں اور ماہرین ادب کی آرا پیش کی ہے:
’’نثار احمد فاروقی کے بہ موجب ’’خاکہ کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے۔‘‘ آمنہ صدیقی کہتی ہیں کہ ’’سوانح نگاری کی بہت سی صورتیں ہیں، ان ہی میں سے ایک شخصی خاکہ ہے۔‘‘ ’’یہ دراصل مضمون نگاری کی ایک قسم ہے۔ جس میں کسی شخصیت کے ان نقوش کو اجاگر کیاجاتا ہے۔ جن کے امتزاج سے کسی کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔‘‘ محمد حسین لکھتے ہیں کہ ’’نوک قلم کی تصویر کشی خاکہ نگاری ہے۔‘‘ شمیم احمد کرہانی لکھتے ہیں کہ ’’خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح بہ راہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود نوشت کو دیکھا بھالا سمجھا بوجھا ہو۔‘‘ ۱
مختلف نقادوں اور ماہرین ادب کی آرا کو پیش نظر رکھتے ہوئے خاکہ نگاری کی یہ عمومی تعریف کی جاسکتی ہے کہ ’’خاکہ نگاری لفظوں کے ذریعہ کسی شخصیت کی ایسی تصویر کشی ہے جس سے اس کا ظاہر اور باطن قاری کے سامنے پیش ہو جائے اور مذکورہ شخصیت کا خاطرخواہ تعارف ہو جائے۔ خاکہ نگاری ایک ایسی صنف ہے جس میں کسی ایک شخص کے حقیقی خدوخال قاری کے سامنے آجائیں ۔ خاکہ نگاری میں ایک جیتی جاگتی حقیقی شخصیت کی دلکش اور دلچسپ پیرائے میں تصویر کشی کا نام ہے ۔ خاکہ نگار واقعات ومشاہدات کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات وقیاسات کو بھی شامل کرتا ہے ۔ ایک کامیاب خاکہ نگار کی نگاہ دقیق اس مقام کو پالیتی ہے جس مقام تک عام خاکہ نویسوں کی نگاہ نہیں پہنچتی ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا خاکہ ایک شخصیت کی دریافت ہوتا ہے ۔ خاکہ نگاری کسی شخصیت کی بھر پور نمائندگی او راس کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھنے کی کامیاب کوشش ہے ۔خاکہ نگاری سے ملتی جلتی اصناف سوانح عمری، انشائیہ اور مضمون نگاری وغیرہ ہیں۔
خاکہ نگاری کی روایت: خاکہ نگاری کی روایت انگریزی سے اُردو میں آئی ہے ۔ انگریزی میں ملٹن مرے لٹن اسٹریچی اور انتھونی شیلی کوپر خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت شہرت رکھتے ہیں ۔اُردو میں خاکہ نگاری کی تاریخ بہت قدیم نہیں ہے ۔صحیح معنوں میں اس کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا ۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ جس طرح ناول اور افسانے نے مختصرافسا نے کا روپ اختیار کرلیا اسی طرح طویل سوانح نگاری نے خاکہ نگاری کا لبادہ پہن لیا ۔ اُردو میں خاکہ نگاری کا سرمایہ اپنی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے قابل لحاظ ہے ۔صنف خاکہ نگاری ادب کی جدید صنفوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ اُردو میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش محمد حسین آزاد کی شاہکار تصنیف ’’آب حیات‘‘ میں ملتے ہیں ۔ اس فن کو آگے بڑھانے والوں میں مرزا فرحت اللہ بیگ رشید احمد صدیقی ‘ مولوی عبدالحق ‘ خواجہ حسن نظامی ‘ آغا حیدر حسن شاہد احمد دہلوی ‘ اشرف سبوحی‘ سردار دیوان سنگھ مفتون ‘ جوش ملیح آبادی‘ خواجہ محمد شفیع ‘مرزا محمد بیگ ‘ مالک رام ‘ منٹو ‘ عصمت چغتائی ‘ شوکت تھانوی ‘ محمد طفیل ‘ سید اعجاز حسین کنھیا لال کپور ‘ شورش کا شمیری‘ فرحت کا کوری ‘ فکر تونسوی ‘بیگم انیس قدوائی ‘ قرہ العین حیدر ‘ انتظار حسین ‘ مجتبیٰ حسین ‘ سید ضمیر حسن ‘ چراغ حسن حسرت‘ خواجہ غلا م السیدین ‘ سید صباح الدین ‘ بیگم صالحہ عابد حسین ‘ مجید لاہوری ‘ علی جواد زیدی ‘ بیدی کرشن چندر ‘ ظ۔ انصاری ‘ بلونت سنگھ وغیرہ اہم ہیں ۔ حیدرآباد میں اس فن کو مرزا کبر علی بیگ‘سلیمان اطہر جاوید‘عوض سعید ‘مجتبیٰ حسین قابلِ ذکر ہیں۔۔
حیدرآباد کے ایک مایہ ناز سپوت جناب عابد علی خاں (مرحوم) ایڈیٹر سیاست نے جامعہ عثمانیہ کے پروفیسر اور حیدرآباد کے اردو اور ادبی حلقوں کی ایک فعال شخصیت پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ سے خواہش کی تھی کہ کہ وہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی حیدرآبادی شخصیات کے بارے میں تعارفی مضامین لکھیں۔ چناں چہ اپنے بزرگ کی خواہش پر پروفیسر مرزا اکبرعلی بیگ نے حیدرآباد کی منتخبہ نامور شخصیات پر سوانحی خاکے لکھنے شروع کیے۔ ان کے یہ خاکے ابتدا میں روزنامہ ’’سیاست‘‘ کی زینت بنتے رہے اور بعد میں ’’خوش نفساں‘‘ (حیدرآباد کی چند ادبی اور سماجی شخصیتوں کا تعارف) اور ’’نفوس گرامی‘‘ کے عنوان سے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر شائع ہوئے۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کے تحریر کردہ خاکوں کا پہلا مجموعہ ’’خوش نفساں‘‘ پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۸۳ء میں شائع ہوا۔ اس کتاب کو ’’ادارہ شعر و حکمت‘‘ ریڈ ہلز حیدرآباد نے دائرہ الیکٹرک پریس چھتہ بازار حیدرآباد سے شائع کروایا اور کتاب کی قیمت پندرہ (۱۵) روپے رکھی گئی۔
پروفیسرمرزا اکبرعلی بیگ نے اپنی کتاب ’’خوش نفساں‘‘ کو اپنی ماں اصغری بیگم صاحبہ کے نام معنون کیا اور اس حقیقت کا اظہار کیا کہ ماں کی دعاؤں اور ان کی شفقت کے سائے میں پل بڑھ کر ہی انھوں نے اپنی زندگی کی منزلیں کامیابی سے طے کی ہیں۔ ’’خوش نفساں‘‘ خاکوں کے مجموعے میں صفحات کی کل تعداد (۱۲۸) ہے۔ جس میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی حیدرآباد کی کل بارہ شخصیات پر خاکے پیش کیے گئے ہیں۔ ان شخصیتوں کے نام سید ہاشم علی اختر صاحب، سید علی اکبر صاحب، محمد عزیز مرزا مرحوم، نواب سعید جنگ بہادر، ڈاکٹر موہن لال نگم صاحب، حضرت باقر امانت خانی صاحب، حضرت سعید شہیدی صاحب، محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ، ڈاکٹر سید مہدی علی صاحب مرحوم، میر جعفر علی صاحب مرحوم، حضرت برق موسوی صاحب مرحوم اور ڈاکٹر نور احمد شیخ صاحب شامل ہیں۔ ان بارہ شخصیات میں صرف ایک خاتون محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ کے بارے میں ہی پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ حیدرآباد کی علمی، ادبی و تہذیبی زندگی میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں نسبتاً کم آگے تھیں۔ کتاب ’’خوش نفساں‘‘ کے آغاز ہی میں پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے خاکوں میں پیش کردہ شخصیات کی سیاہ و سفید تصاویر بھی جمع کر دی ہیں تاکہ قاریتصویر اور ان کے بارے میں پڑھے گئے خیالات میں مطابقت پیدا کرتے ہوئے اس شخصیت کی دیرپا یادیں اپنی ذہنوں میں محفوظ رکھ سکیں۔پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے اپنی خاکہ نگاری کے ذریعہ ’’خوش نفساں‘‘ میں حیدرآباد کے کئی انمول رتنوں کو اس کتاب میں محفوظ کر دیا ہے اور کتاب میں پیش کردہ شخصیتوں کے کارنامے یقیناًآئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔ اسلاف کے کارناموں سے نئی نسل کو آگاہ کرنا اور پرانی قدروں کی باگ ڈور نئی پیڑھی کے ہاتھ میں دینا ایک اہم اور ضروری کام ہے اور پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے نئی نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے نہ صرف واقف کروایا بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں کی مثالی شخصیتوں کے حالات پیش کر کے آنے والی نسلوں کے لیے ان میں اپنی پسندیدہ اور آئیڈیل شخصیت کو ڈھونڈنے کی سہولت فراہم کی ہے۔ چناں چہ اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دیتے ہوئے جناب عابد علی خاں لکھتے ہیں کہ:
’’میں ایسی تصانیف کو نئی اور پرانی نسل کے مابین ایک اتصالی کڑی بھی قرار دیتا ہوں اور اس کام کے لیے بیگ صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘ ۲
پروفیسر مغنی تبسم نے پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کے تحریر کردہ ان مضامین کی اخلاقی اور سماجی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور کہا کہ:
’’ان مضامین کی ایک اخلاقی افادیت بھی ہے۔ بیش تر سوانحی خاکے ایسی شخصیتوں کے ہیں جنھوں نے نامساعد حالات کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا لیکن کسی دنیوی مفاد کی خاطر اپنے اصولوں کو قربان نہیں کیا اور مسلسل جدوجہد کے ذریعہ اعلیٰ درجات پر فائز ہوئے۔ ان کی زندگی نئی نسل کے لیے قابل تقلید مثال بن سکتی ہے۔‘‘ ۳
خاکوں کا مجموعہ ’’ خوش نفساں‘‘ میں شامل خاکوں میں پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے شخصیات کا چہرہ و سراپا بیان کیا۔ ان کے مختصر حالات زندگی پیش کئے اور شخصیت سے متعلق اپنی ملاقاتوں ‘اہم واقعات اور شخصیت کے کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے متعلقہ شخصیت کی لفظی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ہاشم علی اختر کی شخصیت کے بارے میں پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ لکھتے ہیں:
’’ہاشم علی اختر صاحب سادگی پسند، خوش ذوق اور زندہ دل انسان ہیں۔ ان میں افسرانہ رعونت بالکل نہیں۔ محفلوں میں ان کی وجہ سے زندگی اور رونق آجاتی ہے ان کی گفتگو شائستہ، دلچسپ اور معلومات آفرین ہوتی ہے۔ اپنے لطیفوں اور مزاحیہ فقروں سے ایک زندہ دلی کی کیفیت اور فضا پیدا کر دیتے ہیں۔ اشعار کی برجستہ تحریف کرنے میں بھی انھیں کمال تھا۔‘‘ ۴
سراپا نگاری خاکہ نگاری کا ایک اہم وصف ہے۔ اور سراپا کے بیان سے شخصیت کی تصویر قاری کے ذہن میں بن جاتی ہے۔ اسی وصف کواستعمال کرتے ہوئے پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نظام دور حکومت کے ایک اہم عہدیدار عزیز مرزا کا سراپایوں بیا ن کرتے ہیں:
’’عزیز مرزا قدآور آدمی تھے۔ پیشانی بلند، مونچھیں داڑھی سے ملی ہوئی تھیں۔ داڑھی بھرے ہوئے چہرے پر بہت زیب دیتی تھی۔ آنکھیں کسی قدر ابھری ہوئی تھیں، کلائیاں چکلی اور مضبوط تھیں۔ شخصیت انتہائی بارعب تھی جس سے ملتے وہ ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ صرف ۴۷ سال کی عمر میں انتقال ہوا سر کے بال بھی سفید نہیں ہوئے تھے۔ لباس میں شیروانی اور پتلون حسب رواج پہنتے تھے۔ اس کے ساتھ ترکی ٹوپی ضرور رہتی تھی۔ یہ دفتری لباس تھا، دربار جاتے وقت سر پر دستار ہوتی تھی۔ عزیز مرزا بہت ہی زندہ دل تھے۔ زندگی کا نظام الاوقات مقرر تھا۔ وقت کی بڑی پابندی کرتے تھے زندگی میں سادگی تھی۔ اخلاق دلکش تھے۔ اردو سیدھی سادی اور صاف ستھری بولتے تھے۔ ویسا ہی ان کا دل بھی صاف اور بے ریا تھا، وہ ہر ایک سے کھلے دل سے ملتے تھے لیکن صاف گوئی میں نہ چوکتے تھے۔ وہ بہت ہی نیک اور پرہیزگار انسان تھے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ وہ نماز روزہ کے بڑے پابند تھے، کہیں ہوں اور کسی حالات میں ہوں نماز قضاء نہیں ہوتی تھی۔ مذہب کے بڑے پابند تھے۔ جس کی بنا پر ان کی تمام زندگی ایک آئینے کی طرح صاف و شفاف نظر آتی ہے خودداری اور انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔‘‘ ۵
اس کتاب میں شامل بارہ خاکوں کے ذریعہ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے حیدرآباد کے مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیتوں کا تعارف کرایا ہے۔ یہ خاکے چوں کہ اخباری ضروریات کے لیے لکھے گئے تھے۔ اس لیے ان مضامین کا اسلوب سادہ اور صحافتی انداز کا ہے۔ خاکوں میں معلومات کی فراہمی کو اہمیت دی گئی ہے اور تحریر میں ادبی چاشنی کم پائی جاتی ہے۔ تمام خاکوں کو پڑھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے ایک مخصوص چوکٹھے میں یہ خاکے لکھے ہیں۔ مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے خاکوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ شخصیت کے تعارف کے بعد اس کے آبا و اجداد اور اس کی تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کا ذکر ملتا ہے۔ تعلیمی حالات میں شخصیت کے دوران تعلیم دوستوں و رفیقوں کے ناموں سے واقفیت ہوتی ہے۔ شخصیت کو پڑھانے والے اساتذہ کے ناموں سے واقفیت ہوتی ہے۔ شخصیت کی ملازمت کے احوال اس کی شادی اور اس کی اولاد کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اسی طرح شخصیت کے کارنامے اور اسے ملنے والے اعزازات کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس طرح تمام خاکے لکھے گئے۔ بعض خاکوں میں شخصیت کے تذکرے کے ساتھ اس دور کی اہم باتیں مل جاتی ہیں اور شخصیت کے پیشہ سے وابستہ اہم معلومات مل جاتی ہیں۔
پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کے تحریر کردہ خاکوں کا دوسرا مجموعہ ’’نفوس گرامی‘‘ ہے۔ یہ مجموعہ ستمبر ۲۰۰۳ء میں ادارہ شعر و حکمت حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے اس مجموعہ کو اپنے استاد پروفیسر غلام عمر خاں مرحوم کے نام معنون کیا۔ اپنی دسویں تصنیف کی اشاعت اور ان خاکوں کی اہمیت واضح کرتے ہوئے وہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:
’’یہ اصل میں ادبی خاکوں کے انداز کی تحریریں ہیں جن کا مقصد حیدرآباد کی سماجی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیتوں کی حیات اور کارناموں سے قارئین کو متعارف کروانا ہے۔ اردو میں سوانحی خاکے بہت کم لکھے گئے ہیں۔ خاص طور پر ایسے سوانح جو کسی شخص کے حین حیات لکھے گئے ہوں اور جن کا مصنف اس کے شب و روز کے احوال کا رازداں ہو۔ اس سے قطع نظر کسی زبان میں بھی یہ ممکن نہیں کہ ہرا س شخص کے مکمل سوانح لکھے جائیں جس نے کچھ یادگار کارنامے انجام دیے ہوں۔ اس لیے عام طور پر ترقی یافتہ زبانوں میں قاموس الرجال یا سوانحی فرہنگیں مرتب کی جاتی ہیں۔ اردو میں اور شاعروں کے تدکرے اسی قبیل کی چیزیں ہیں۔ راقم الحروف نے جن مشاہیر کے تعارف نامے لکھے ہیں ان میں بیشتر میرے محترم و شفیق اساتذہ ہیں جن کی میں دل سے عزت کرتا ہوں۔ ان ہی قابل احترام شخصیتوں کے نقش قدم میرے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان اساتذہ کے ساتھ میں نے برسہا برس ان کی شفقتوں، نوازشوں، عنایتوں اور خلوص و اپنائیت کے ساتھ گزارے ہیں۔ یہ سوانحی خاکے میرے نقطہ نظر سے چیدہ سے زیادہ دیدہ ہیں۔ میں نے جو محسوس کیا اسی کو صفحہ قرطاس پر بے تکلف لے آیا ہوں۔ اس میں کوئی ذہنی تحفظ نہیں ہے۔ تحقیق و تفتیش، شخصی ملاقاتوں اور انٹرویو کے ذریعہ مصدقہ سوانحی معلومات میں نے اکٹھے کی ہیں یہ خاکے میرے ضمیر کی آواز ہیں۔ ان کا تعلق دماغ سے کم اور دل سے زیادہ ہے۔ میری گہری عقیدت مندی اس میں شامل ہے۔ جو سچائی پر مبنی ہیں ان کی ترتیب تاریخی اعتبار سے ملحوظ رکھی گئی ہے جو شخصیتیں ابھی حیات ہیں ان کے لیے یہ میرا خراج تحسین ہے اور جو ہم میں نہیں رہے ان کے لیے یہ میرا خراج عقیدت ہے۔‘‘ ۶
’’نفوس گرامی‘‘ خاکوں کے مجموعے میں شامل جن شخصیات کے خاکے شامل کیے گئے ہیں۔ ان کے نام اس طرح ہیں:
(۱) پروفیسر سنیتی کمار چٹرجی، (۲) غلام افضل بیابانی صاحب، (۳) غلام احمد صاحب، (۴) ڈاکٹر مصطفی علی زیدی صاحب، (۵) نواب سراج الدین احمد صاحب، (۶) پروفیسر سید محمد صاحب، (۷) ڈاکٹر حفیظ قتیل صاحب، (۸) پروفیسر مسعود حسین خان صاحب، (۹) پروفیسر غلام عمر خاں صاحب، (۱۰) پروفیسر جعفر نظام صاحب، (۱۱) ڈاکٹر زینت ساجدہ صاحبہ، (۱۲) پروفیسر مغنی تبسم صاحب، (۱۳) عامر موسوی صاحب، (۱۴) پروفیسر سلیمان اطہر جاوید صاحب، (۱۵) میر قاسم علی صاحب۔
’’نفوس گرامی‘‘ خاکوں کے مجموعے میں بھی پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے بیانیہ انداز میں شخصیت کے احوال بیان کئے ہیں۔ اور واقعات کی مدد سے شخصیت کے کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ پروفیسر مغنی تبسم صاحب کی خدمات کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مغنی صاحب نے اردو کالج میں تدریس کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کو لکھنے پڑھنے کی طرف راغب کیا، ان ہی کی کوششوں کی بنا پرا ردو کالج کا میگزین پہلی بار شائع ہوا۔ بعد میں انھوں نے ’’اکبر الہ آبادی‘‘ نمبر بھی شائع کیا۔ جو ہندو پاک میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔۔۔ مغنی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ اور باعث فخر سرمایہ، تلامذہ سے ان کا رشتہ ہے۔ اساتذہ تو بہت سے ہیں، لیکن یہ اعزاز و افتخار شاید ہی کسی استاد کو حاصل ہو جو مغنی صاحب کو حاصل ہوا ہے۔ ان کے تلامذہ ان سے بے پناہ انسیت ہی نہیں رکھتے بلکہ بے لوث محبت و عقیدت بھی رکھتے ہیں۔ مغنی صاحب کو بھی اپنے شاگرد اولاد کی طرح عزیز ہیں ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔‘‘ ۷
پروفیسر مغنی تبسم خاکوں کا مجموعہ ’’ نفوس گرامی‘‘ کی افادیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اردو میں سوانح عمریاں بہت کم ہیں۔ خاص طور پر ایسے سوانح جو کسی شخص کے حین حیات لکھے گئے ہوں اور جن کا مصنف اس کے شب و روز کے احوال کا رازدار ہو ۔۔۔ عام طور پر ترقی یافتہ زبانوں میں قاموس الرجال یا سوانحی فرہنگیں مرتب کی جاتی ہیں ۔ اردو میں ادیبوں اور شاعروں کے تذکرے اسی قبیل کی چیزیں ہیں۔ ادیبوں، شاعروں کے علاوہ ان اشخاص کے بارے میں بہت کم کچھ لکھا جاتا ہے جو زندگی کے دوسرے شعبوں میں اہم کارنامے انجام دیتے ہیں۔ مختصر سوانحی مضامین کے ذریعہ اس کمی کو کسی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے ۔۔۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے جن مشاہیر کے تعارف نامے لکھے ہیں ان کا ریاست کی تہذیبی زندگی پر گہرا اثر رہا ہے۔ ان مضامین کی خصوصیت یہ ہے کہ تحقیق و تفتیش، شخصی ملاقاتوں اور انٹرویو کے ذریعہ مصدقہ سوانحی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں ۔۔۔ یقین ہے کہ یہ کتاب دلچسپی کے ساتھ پڑھی جائے گی اور علمی و ادبی حلقوں میں اس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوگی۔‘‘ ۸
مجموعی طور پر ان کے اس کتاب کے خاکے بھی حیدرآباد سے وابستہ اہم شخصیات کے اہم تعارفی مضامین ہیں۔ ان خاکوں میں گذشت حیدرآباد کی تاریخ بھی ملتی ہے۔
پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کی خاکہ نگاری کا عمومی و فنی جائزہ
پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کے خاکوں کے مجموعے ’’خوش نفساں‘‘ اور ’’نفوس گرامی‘‘ میں شامل خاکوں کے انفرادی جائزے کے بعد اب دیکھا جائے گا کہ ہیئت اور فن کے اعتبار سے عمومی طور پر ان کے خاکے فن خاکہ نگاری کے معیار پر کس حد تک پورے اترتے ہیں۔ عموماً ہر تخلیق کا مقصد ترسیل ہوتا ہے اور تخلیق کار چاہتا ہے کہ اس کی تخلیق کو کوئی پڑھے اور دیکھے اور سمجھے۔ چناں چہ ادبی تخلیقات کا بنیادی مقصد قاری تک اس کی ترسیل ہوتا ہے۔ خاکہ نگاری بھی قارئین تک ایک شخصیت کے احوال پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کی خاکہ نگاری لیا جائے تو انھوں نے بھی یہ خاکے قارئین کی تسکین اور ان کی اصلاح و رہنمائی کے لیے لکھے ہیں۔ ہاشم علی اختر، عزیز مرزا، پروفیسر جعفر نظام، پروفیسر مغنی تبسم، سید علی اکبر، ڈاکٹر موہن لال نگم، ڈاکٹر زینت ساجدہ و سکینہ بیگم ایسی نابغہ روزگار شخصیات ہیں کہ ان کے حالات پڑھ کر عام قاری اپنے لیے سبق حاصل کرتا ہے۔ چناں چہ قارئین کے لیے پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کے یہ خاکے مشعل راہ سے کم نہیں۔
خاکہ نگاری اور قاری کے بین رشتے کے بعد دوسرا اہم پہلو خاکہ کے لیے شخصیت کا انتخاب ہے۔ عموماً اردو کے خاکہ نگاروں نے صرف مخصوص یا ایک ہی طرح کے افراد کو موضوع نہیں بنایا۔ ان کے خاکوں میں ادیب، شاعر، نقاد، رہنما، علما، مدبر، وزیر، سیاست داں، صحافی، مقرر، محقق، فلسفی، مترجم، مزاح نگار، دوست وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر خاکہ نگاروں نے عظیم ہستیوں پر خاکے اس لیے لکھے تاکہ ان کی سیرت کی بے نقابی انسانی مشاہدات و تجربات میں اضافے کا سبب بن سکے۔ عام اشخاص پر خاکے کم لکھے گئے کیوں کہ خاکہ نگار کو کسی ایسی شخصیت کی تلاش ہوتی ہے جو زندگی کے کسی شعبہ میں اونچا مقام رکھتی ہو، لیکن مولوی عبدالحق نے ’’نام دیومالی‘‘ اور ’’نور خاں‘‘ جیسے عام انسانوں پر خاکے لکھ کر یہ ثابت کیا کہ خاکہ نگاری کے لیے شخصیت کا انتخاب دنیوی شان و شوکت کی بناء نہیں بلکہ انسانیت کے سبب قرار پایا ہے۔
موضوع کے انتخاب کے سلسلے میں دیکھا جائے توپروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے بھی پہلے زمرہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا انتخاب کیا ہے ’’خوش نفساں‘‘ اور ’’نفوس گرامی‘‘ میں شامل شخصیتیں اعلیٰ تعلیم یافتہ، نامور شعرا اور ماہرین تعلیم ہیں۔ ان خاکوں میں کوئی بھی شخصیت غیر معروف نہیں یہ بات ناممکن ہے کہ خواص کے علاوہ عوام میں حیدرآباد میں ایسی کوئی شخصیت نہ گزری ہو جس کے ایک حقیر کارنامے کو ہی سہی لیکن اس کے ذریعہ اس شخصیت پر خاکہ لکھا جاسکتا ہے۔ جس طرح کی مثالیں مولوی عبدالحق کے ہاں ملتی ہیں لیکن اس کے لیے مشاہدے اور دلی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے زیادہ تر خاکے عابد علی خاں مدیر سیاست کی خواہش پر اخباری ضرورت کے لیے لکھے تھے اور ان کا مقصد ہی یہ تھا کہ حیدرآباد کی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی سربرآوردہ شخصیات پر تعارفی مضامین لکھے جائیں چناں چہ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے وقتی ضرورت کے اعتبار سے اپنے خاکوں کا موضوع حیدرآباد کی عظیم شخصیات رکھا۔
پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے جو خاکے لکھے ان میں بیش تر خاکے بہ حیات شخصیتوں کے بارے میں لکھے گئے چناں چہ ان خاکوں کا مواد زیادہ تر شخصیت سے بہ راہ راست ملاقات کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جن شخصیتوں کے بارے میں لکھا ان کے بارے میں بہت کچھ مواد پہلے سے ہی تحریری شکل میں موجود تھا۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے بکھرے ہوئے مواد کو بہ خوبی ترتیب دیا ہے۔ شعرا کے خاکوں میں ان کے کلام کے انتخاب کے ذریعہ انھوں نے شخصیت کا تعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ ’’نفوس گرامی‘‘ میں شامل خاکوں کی بیش تر شخصیتیں پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ سے بہ حیثیت استاد، دوست یا رشتہ دار سے وابستہ رہی ہیں۔ چناں چہ انھوں نے ان شخصیتوں سے اپنے تعلقات کے احوال کو خاکوں کے مواد کے طور پر استعمال کیا ہے۔
خاکہ نگاری میں بیانیہ اسلوب کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کے خاکوں کے اسلوب کو دیکھا جائے تو ان خاکوں میں بھی بیانیہ اسلوب دکھائی دے گا۔ ’’نفوس گرامی‘‘ میں شامل خاکے چوں کہ اخباری ضرورت کی خاطر لکھوائے گئے تھے لہذا ان خاکوں میں صحافتی رنگ غالب ہے۔ شخصیت کے حالات بیان کرنے میں بیانیہ انداز استعمال کیا گیا ہے اور ایک مخصوص چوکٹھے مںی احوال بیان کیے گئے ہیں۔ اسلوب سادہ اور سلیس ہے۔ ادبی چاشنی یا محاوراتی انداز بیان کم ہے۔ بعض مواقع پر شخصیت کی زندگی میں پائی جانے والی حسن مزاح یا شعریت کے سبب ان خاکوں کے اسلوب میں بھی مزاح اورا دبی رنگ پیدا ہوا ہے۔ ہاشم علی اختر کے خاکے میں ان کی شخصیت کے ظرافتی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ لکھتے ہیں:
’’ایک بار اردو مجلس کا جلسہ ہاشم علی اختر صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں راقم الحروف نے ایک مقالہ اکبر کی شاعری پر پڑھا تھا۔ مقالہمیں اکبر کے اس شعر کا بھی ذکر تھا:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہاشم علی اختر صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں اس شعر کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ مزاحیہ انداز میں سنایا۔ ہاسٹل میں رہنے والے لڑکے اس شعر کو یوں پڑھ سکتے ہیں:
ہم بھوک سے مرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ دال بھی دیتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
یہ شعر سنا کر ہاشم علی اختر صاحب نے محفل کو زعفران زار بنا دیا۔ جب ان کے کسی دوست کی صاحب زادی کی شادی ’’ٹرنک کال‘‘ پرطے پائی تب ہاشم صاحب کے ایک بے تکلف دوست نے ان سے دریافت کیا جناب مونوگیمی، پولوگیمی کی اصطلاحات تو ہم نے سنی ہیں۔ اس شادی کو کیا نام دینا چاہیے۔ اس پر ہاشم علی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ٹیلی گیمی۔‘‘ ۹
اس طرح کے دلچسپ اور پرُ مزاح واقعات کے ذریعہ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے اپنے خاکوں کو دلچسپ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے خاکوں میں جابجا اشعار و مصرعوں کو استعمال کرتے ہوئے ان خاکوں میں ادبی چاشنی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ نے اپنے خاکوں کے دوسرے مجموعے ’’نفوس گرامی‘‘ میں شامل خاکوں کے اختتام پر شخصیتوں کے کردار سے متعلق اردو ادب کے منتخب اشعار پیش کیے ہیں۔ ذیل میں شعر اور شخصیت کا نام دیا جارہا ہے۔
بہت دنوں سے نہیں اپنے درمیاں وہ شخص
اداس کر کے ہمیں چل دیا کہاں وہ شخص (غلام افضل بیابانی)
کل میرے لفظوں میں میری جان رہے گی
دنیا جب دیکھے گی تو حیران رہے گی (پروفیسر مغنی تبسم)
خاکہ نگاری میں کردار نگاری کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ خاکے میں بیان کردہ شخصیتکے خد و خال، حرکات و سکنات، لباس، نفسیاتی اور ذہنی کیفیات و تغیرات کے مجموعہ سے شخصیت کا کردار بنتا ہے۔ پروفیسر مرزا اکبرعلی بیگ نے اپنے خاکوں میں کرداروں کو اجاگر کرنے کے لیے شخصیت کی وضع قطع اور عادات و اطوار کو بہ خوبی بیان کیا ہے اور اس کے ذریعہ قاری تک شخصیت کی ہوبہو لفظی تصویر بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
عزیز مرزا کے خاکے میں ان کے سراپا اور لباس و وضع قطع کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ لکھتے ہیں:
’’عزیز مرزا قدآور آدمی تھے۔ پیشانی بلند، مونچھیں داڑھی سے ملی ہوئی تھیں داڑھی بھرے ہوئے چہرے پر بہت زیب دیتی تھی۔ آنکھیں کسی قدر ابھری ہوئی تھیں کلائیاں چکلی اور مضبوط تھیں۔ شخصیت انتہائی بارعب تھی، جس سے ملتے وہ ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔‘‘ ۱۰
’خوش نفساں‘‘ اور ’’نفوس گرامی‘‘ میں جن جن شخصیتوں کو پیش کیا ان کے ساتھ پیش آئے بعض دلچسپ واقعات ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ عزیز مرزا کے خاکے میں پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ موسیٰ ندی میں آئے سیلاب کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا۔ چناں چہ امدادی کاموں میں عزیز مرزا کی خدمات کا واقعہ بیان کیا ہے۔
فنی اعتبار سے پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کی خاکہ نگاری کا جائزہ لینے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی خاکہ نگاری بہت حد تک فنی معیار پر اترتی ہے۔ ہر اچھی تخلیق میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی پائی جاتی ہیں اسی طرح پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کے خاکوں میں جہاں بے شمار خوبیاں ہیں وہیں چند خامیاں بھی ہیں لیکن بے شمار خوبیوں میں چند ایک خامیاں نہ کے برابر کے دکھائی دیتی ہیں۔ ’’خوش نفساں‘‘ اور ’’نفوس گرامی‘‘ خاکوں کے مجموعے میں پائی جانے والی ایک بنیادی خامی، اسلوب کا روکھا پن اور سادگی ہے۔ ان خاکوں کے اسلوب میں بیانیہ انداز پایا گیا ہے۔ خاکہ نگار نے شخصیتوں کے احوال سیدھے سادے انداز میں مخصوص فارمولے کے تحت لکھے ہیں۔ تمام خاکوں میں مواد کی پیش کشی میں یکسانیت پائی گئی ہے۔ خصوصاً احوال زندگی کے بیان میں ایسا لگتا ہے کہ خاکہ نگار نے مخصوص طرز پر شخصیات کے حالات قلم بند کیے ہیں تقریباً تمام خاکوں میں شخصیت کا تعارف اس کے آباد و اجداد کے احوال، پیدائش، ابتدائی تعلیم، اسکولوں اور جامعات میں تعلیم، دوران تعلیم شخصیت کے ساتھیوں کا تذکرہ، اساتذہ کا تذکرہ، زمانہ طالب علمی کے واقعات، ملازمت، شادی، افراد خانہ کی تفصیلات اور آخر میں شخصیت کے کارنامے اور ان کی خدمات کو خراج شامل ہے۔ ان خاکوں میں تنوع نہیں پایا جاتا۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کے اسلوب میں اگر جمالیاتی رنگ ہوتا اور انداز بیان کی چاشنی ہوتی تو ان خاکوں میں دلچسپی مزید بڑھ جاتی۔ خاکوں کے نام رکھنے میں انھوں نے اس طرح کا انداز اپنایا ہے پروفیسر مغنی تبسم کے خاکے عنوان، تبسم اردو مغنی تبسم رکھا اور دیگر خاکہ نگاروں کو کبھی ماموں یا کبھی بھائی سے مخاطب کیا۔ اس طرح دلچسپ عنوانات دیکھ کر انھوں نے قاری کو ان خاکوں کیمطالعے کے لیے موڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ منجملہ ان سب باتوں کے پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ کی خاکہ نگاری حیدرآباد کی نابغہ روزگار شخصیات کے بھرپور تعارف کے ساتھ اردو ادب کی تاریخ میں ضرور اہم مقام رکھتی ہے۔ ان خاکوں کے ذریعہ گزشتہ حیدرآباد کی تاریخ نہ صرف ان خاکوں میں محفوظ ہوگئی بلکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی حیدرآباد کی نامور ہستیاں نئی نسل کے لیے اپنے کارناموں کے ساتھ ان خاکوں میں محفوظ ہوگئیں۔ اس طرح یہ خاکے نامور حیدرآباد کی شخصیات کے تعارف کے ضمن میں اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔
حواشی
۱۔ مشمولہ ’’اردو میں خاکہ نگاری‘‘، صابرہ سعید، (۶۴۔۶۲)
۲۔ مشمولہ ’’خوش نفساں‘‘ از ڈاکٹر مرزا اکبر علی بیگ، اکتوبر ۱۹۸۳ء، حیدرآباد، ص: ۷
۳۔ ایضاً، ص: ۱۳
۴۔ ڈاکٹر مرزا اکبر علی بیگ ’’خوش نفساں‘‘، ص۲۴
۵۔ ایضاً، ص: ۵۰۔۱۵
۶۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ ’’نفوس گرامی‘‘ تعارف۔ مرزا اکبر علی بیگ، ص: ۸، حیدرآباد ۲۰۰۳ء
۷۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ ’’نفوس گرامی‘‘ خاکہ مغنی تبسم، ص ۱۴۵
۸۔ پروفیسر مغنی تبسم مشمولہ ’’خوش نفساں‘‘، ص: ۱۱، ۱۲، ۱۳
۹۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ ’’خوش نفساں‘‘، ص: ۲۴۔۲۵
۱۰۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ ’’خوش نفساں‘‘، ص: ۵۰
One thought on “پروفیسرمرزا اکبرعلی بیگ بہ حیثیت خاکہ نگار۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی”
ڈاکٹر ابر ار الباقی کا مضمون اکبر علی بیگ پر خاکہ نگاری پر اچھا ہے اکبر صاھب میرے بڑے بھائی کے ساتھ اورینٹل اردو کالج سے 1963 میں گرائجویشن کیا تھا میں جب بھی ان سے ملتا وہ بھائی کے بارے میاں ضرور پوچھتے اور سلام کہتے تھے ۔ وہ ہمارے کالج کے سکریٹری کرسپانڈنٹ بھی تھے۔ اور بھی بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں۔ ابرارالباقی کو مبارک
ڈاکٹرعطااللہ
chicago