جوش ملیح آبادی شخصیت ‘ فن اور رنگِ تصوف – – – مہر افروز

Share

جوش ملیح آبادی

mehar afroz

جوش ملیح آبادی شخصیت ‘ فن اور رنگِ تصوف

مہر افروز
دھارواڑ ۔ کرناٹک
موبائل:9008953881
ای میل :

جوش ملیں آبادی کا اصل نام شبیر احمد خان تھا جسے بعد میں بدل کر شبیر حسن خان کردیا گیا. آپکی پیدایش صبح صادق چار بجے پانچ دسمبر 1898کو ہوئی.. آپ کے والد بشیر احمد خان بذات خود ایک شاعر تھے اور اپ کے دادا نواب احمد خان اور پردادا فقیر محمد خان مشہور شاعر تھے ۔ جوش کی دادی بیگم نواب محمد احمد خان کا تعلق مرزا غالب کے خاندان سے تھا گویا جوش کو شاعری ورثے میں ملی جس پر انہیں بجا طور پر ناز تھا…جوش کا تعلق فاٹا کے پشتون آفریدی قبیلے کے ایک ادبی گھرانے سے تھا…. جوش نے آزادی کے جذبے سے سرشار اور اردو کی محبت میں کئی ترانے اور مضامین لکھے…. اور عوام الناس میں واقعتاً جوش بھر دیا جس کے لیے ان کو شاعر انقلاب بھی کہا جاتا ہے…

جوش نہ صرف بے مثال شاعر تھے بلکہ انہیں نثر پر بھی کمال حاصل تھا…. حیدر آباد سے واپسی کے بعد انہوں نے اپنا رسالہ کلیم نکالا جو مالی مشکلات کی وجہ زیادہ چل نہیں سکا اور کسی اور رسالے میں ضم کردیا گیا…. بعد میں جواہر لال نہرو نے انہیں آجکل کا مدیر بنایا اور پاکستان جانے سے قبل تک وہ اسکی ادارت کرتےرہے….. دراصل جوش کی طبیعت میں استقلال اور متانت کی کمی رہی جوش نام کے مصداق پرجوش خان ہی بنے رہے…
حیدر آباد کے شاہی نظام کے دربار میں آپکا دارالترجمہ میں تقریباً دس سال کا قیام رہا…. جہاں پر آپکا کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے میڈیسن کی تمام کتابوں کا انگریزی سے اردو ترجمہ کیا اور بہت اہم خدمات انجام دیں چونکہ مزاج میں متانت کم تھی اس لیے نظام کے خلاف ایک نظم لکھنے کی پاداش میں ان کو در بدری نصیب ہویء اور نظام نے وظیفہ مقرر کرکے انکی جلاوطنی کا حکم دیا.. وہاں سے آپ دہلی چلے آےء اور دہلی میں رسالہ کلیم نکالا پھر چار سال بعد آجکل کے مدیر مقرر ہوےء 1955تک وہ ہندوستان میں مقیم رہے پھر اسکے بعد اردو کی بقا یا پھر بہتر مواقع روزگار کی تلاش میں آپ نے پاکستان ہجرت کی… ایک لحاظ سے یوں بھی کہا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد خان کے بلاوے پر آپ پاکستان پہنچے تھے… جہاں انکی کافی عرصے تک ترقی اردو بورڈ سے وابستگی رہی. اچھی خاصی تنخواہ بھی مقرر کی گئی تھی… مگر مزاج میں استغنیٰ کی کمی تھی ہل من المزید کی توقع نے انہیں وہاں سے بھی دلبرداشتہ کیا حالانکہ باباے اردو کے ہمراہ انہوں نے لغت بنانے کی خدمات انجام دیں اور اردو کی فلاح و بہبود کے لیےء کافی خدمات انجام دیں…. انکا یہ گلہ ہمیشہ باقی رہا کہ انکی پذیرایء انکی لیاقت موافق نہیں ہوتی…. اور انکو وہ درجہ نہیں دیا گیا جسکے وہ حقدار تھے… ترقی اردو بورڈ میں بھی ذاتی اختلافات کے سبب آپکو وہاں سے بھی سبکدوش ہونا پڑا…. اسکے علاوہ جوش نے ان دنوں کے فیشن کے مطابق 1943سے 1948تک فلموں میں بھی طبع آزمایء کی اور فلم انڈسٹری کے لیے گانے اور مکالمے لکھے….
جوش کے کل شعری مجموعوں کے نام یہ ہیں:
روح ادب ،شاعر کی راتیں ،نقش ونگار،شعلہ وشبنم ،فکر و نشاط ،جنون و حکمت ،حرف و حکایت ،آیات و نغمات ،عرش و فرش ،رامش و رنگ ،سنبل و سلاسل ،سیف و سبو،سرود و سروش ،سموم و صبا،طلوع فکر ،الہام و افکار،موحد و مفکر ،نجوم و جواہر…. آوازہء حق ،پیغمبر اسلام ،حسین و انقلاب ،قطرہء قلزم ،نوادر جوش ،جوش کے مرثیےء،عروسِ ادب حصہ اول و دوم محراب و مضراب ،دیوان ِ جوش عرفانیات جوش……
انکی نثری کتابوں کے نام ہیں مقالات زریں ،اوراقِ سحر ،اشارات ،اردو,زبان کے بے مثال نقیب جوش ملیح آبادی، جذبات فطرت، مقالاتِ جوش ،مکالماتِ جوش ،رانا عبد الباقی ،اور یادوں کی بارات…..
جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی بارات ایک ایسی کتاب ہے جس میں انہوں نے کئی دیو قامت ہستیوں کی نجی زندگی کے کئی باب کھول دیے جو عوام الناس کی نگاہوں سےپوشیدہ تھے, مثلاً گاندھی پرانہوں نے شراب بندی پر لعن طعن کی تو رابندر ناتھ ٹیگور کی اداکاری اور دوغلی زندگی اور شہرتوں کی خواہش کو ننگا کیا…. نہ صرف خود کے بارے میں لکھا بلکہ کئی اور لوگوں کی نجی زندگیوں کے پردے کھولے اور ان لوگوں کی اپنی لکھی ہوئی آپ بیتیوں پر کئی سوال کھڑے کردیے… اسلیے برصغیر کے کئی حلقوں میں نہ صرف سوالات اٹھاے گیے بلکہ ان پر ہاے واویلا بھی بڑی شد و مد سے ہوئی…. جس سے ان کی اپنی شخصیت متنازعہ بن گئی اور ہیرو ورشپ کی جو روایت بنائی گئی تھی اسے کافی نقصان پہنچا…. اور کھلے ذہنیت کے لوگوں اور حلقوں میں انکی کافی پزیرائی بھی ہوئی. سن 1972میں یادوں کی بارات کراچی سے شایع ہوئی ،اور جوش کا انتقال 22فروری 1982کو ہوا… دس سال شہرتوں کے ساتھ ساتھ بدنامیاں اور متنازعات انکے نام کے ساتھ جڑے رہے، اور مالی حالات کافی خراب رہے، جسکی وجہ سے انکو کہنا پڑا
"آخر یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس قوم میں کسی صاحب قلم کی کویء گنجایش نہیں ہے اور ہر ادیب و شاعر کو چاہیےء کہ وہ خود کشی فرمالے "!!!،(یادوں کی بارات صفحہ نمبر 283 )
آپکو ہندوستان میں 1954 میں پدم بھوشن سے نوازا گیا… اور بعد از وفات سن 2013 پاکستان کے اعلیٰ ریاستی اعزاز ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا…
جوش کی تنوع مزاجی کا ذمہ دار وہ زمانہ اور ماحول رہا جس میں انہوں نے پرورش پائی…. نوابی گھرانہ جہاں دولت کی ریل پیل اور ہر قسم کا عیش مہیا تھا… وہاں پر فوجی تربیت اور ظالم ہونا لازمی جز سمجھا جاتا تو جوش کا بچپن انہی باتوں کا عکاس نظر آتا ہے لیکن نوکروں اور بدحالوں کی مدد کے لیےء چوری کرنا بالائی اور ماں کا سونے کا ہار چرا کرملازم کے حوالے کرنا انکی انسانیت نوازی کو بھی درشاتا ہے…
جوش کی جوانی واقعی رنگین تھی لکھنو کا ماحول، کوٹھے بازی اور شراب کی لت نے جوش کی شباب والی شاعری کو جہاں رنگینیاں عطا کیں، وہیں اردو ادب کو وہ لفظوں کا ذخیرہ دیا ،کہ جوش نے َخود دعویٰ کیا کہ میں ایک ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھوں…. اور ایک ہی جذبہ کو انہوں سو طریقہء اظہار عطا کیا….
والد کی وفات بے سروسامانی کا دور، اپنے حصے کے باغ کو بھی بھائی کے حوالے کرنا اور دکن کی ہجرت نے ان کو سنجیدگی عطا کی اور وہ کم ازکم نو سال کے لیے معاشی لحاظ سے فارغ البال رہے. جس کے سبب فرنگیوں سے نفرت اور جذبہء آزادی سے سرشار جوش نے کھل کر بولا اور وہ نظمیں لکھیں کہ بے ساختہ اردو والوں نے ان کو شاعر انقلاب کا نام دیا…
ان کی دوسری ہجرت دلی کی طرف ہوئی جب نظام آف حیدر آباد کے عتاب کا شکار ہوکر وظیفہ کے ساتھ انکو جلاوطنی کا حکم دیا گیا…. وہ دلی پہنچے اور وہاں سے انہوں نے کلیم نکالا اور اردو کو صحافتی زبان کا نیا طرز تکلم اور تخاطب ملا اور انکی صحافتی صلاحیتوں کو جلا ملی…. اسکے بعد آجکل کی ادارت نے ان میں تدوینی جوہر ابھارنے کا کام کیا اسطرح جوش کو مختلف مقامات پر الگ الگ مواقع ملے، جس سے نہ صرف انکا قلم زرین بنا، بلکہ وہ خود ہمہ جہت قلمکار، شاعر ،صحافی،اور نثر نگار بن کر نکھر آےء….پاکستان کی ہجرت نے انکو سمیٹا بھی تو انکے انتشار اور ذہنی خلجان کا سبب بھی بنی، انکی ایک غزل کے کچھ اشعار دیکھیں جو انکی مایوسیوں، ناامیدیوں اور متلون مزاجی کے عکاس ہے …
غزل
فکر ہی ٹہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاک ِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو
زیست ہےجب مستقل آوارہ گردی ہی کانام
عقل والو! پھر طوافِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو
مستیوں سے جب نہیں مستوریوں میں بھی نجات
دل کھلے بندوں غریقِ بحر عصیاں کیوں نہ ہو
اِک نہ اک ہنگامہ پر موقوف ہے جب زندگی
میکدے میں رندِ رقصاں و غزل خواں کیوں نہ ہو
جب خوش و نا خوش کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ہاتھ
ہمنشیں! پھر بیعتِ جام ِ زر افشاں کیوں نہ ہو
جب بشر کی دسترس سے دور ہے جبل المتیں
دست وحشت میں پھر اک کافر کا داماں کیوں نہ ہو
اک نہ اک رفعت کے آگے سجدہ لازم ہے تو پھر
آدمی محوِ سجود ِ سروخوباں کیوں نہ ہو
اک نہ اک ظلمت سے وابستہ رہنا ہے تو جوش
زندگی پرسایہء زلفِ پریشان کیوں نہ ہو….. (جوش ملیح آبادی )
آدمی جب کہن سال ہوجاےء اور نسیان کا حملہ ہوتو گاہے بہ گاہے اس پر خودی کے وہ در وا ہوتے ہیں کہ آدمی کہیں نہ کہیں اس َخالق سے قریب ہونے لگتا ہے جو کہیں نہ کہیں ایک یقین اور عقیدے کی صورت اسکے ذہن اور لاشعور میں موجود ہوتا ہے…. یہ ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے… اس سے پہلے زرا جوش کے مذہب و عقیدے پر ایک نگاہ ڈال لیں…..
جوش کے آبا واجداد سنی العقیدہ تھے..مگر جوش کی دادی شعیہ العقیدہ تھیں جنکی وجہ سے محرم میں الم اٹھتے ،اور عزہ داری اور ماتم ہوتا، پھر لکھنو کی فضا اور ماحول نے جوش سے اعلان کروایا کہ انہوں نے مذہب التشیع اختیار کر لیا….
پاکستان کی آمد اور کسی مخصوص گروہ کے ساتھ وابستگی نے ان کو راسخ العقیدہ بنا دیا اور وہ کہنے لگے "نہ میں سنی ہوں نہ شیعہ…مجھے یہ بھی معلوم نہیں میں اب مسلمان بھی ہوں یا نہیں "!!!”
جس شخص نے صبح کی نمود اور روشنی دیکھ کر یہ کہا تھا
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ آتے تو صبح کافی تھی
اب جب بڑھاپا آیا لاغری آئی لاچاری اور بے بسی بھی آئی تو وہی شاعر پکار اٹھا
بے تعلق ہوں دین و دنیا سے
حبِِّ ثروت نہ فکر جنت ہے
نہ مجھے شوق صبح آسایش
نہ مجھے ذوقِِ شام عشرت ہے
نہ تو حور و قصور پر مائل
نہ تو ساقی و مےء سے رغبت ہے
نہ تقاضاےء منصب و جاگیر
نہ تمناےء شان و شوکت ہے
کچھ مجھے تیرے در سے مل جاےء
کس منافق کو اسکی حسرت ہے
کیا کرونگا میں نعمتیں لیکر
میری ہر سانس ایک نعمت ہے
تجھ پہ روشن ہے اے مرے مولا
کہ مرے دل میں سوز وحدت ہے
تیرے انعام کی نہیں خواہش
بلکہ مجھکو تری ضرورت ہے…..
آخری ایام میں ذوق کو مولا و مالک یاد آیا جو کہ ہر آدم کی فطرت ہے اور جوش کے اندر کا وہ صوفی بول اٹھا جس کے پاس مذہب نہیں روایت نہیں عشق الوہیت ہے جو خالص تصوف ہے…..
دوسری غزل دیکھیں بعنوان
ساری دنیا ہے ایک پردہء راز…..
موت کو اہل دل سمجھتے ہیں
زندگانیء عشق کا آغاز
مر کے پایا شہید کا رتبہ
میری اس زندگی کی عمر دراز
کویء آیا ،تری جھلک دیکھی
کویء بولا ،سنی تری آواز
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہم کیا ہیں
"اک بیاباں میں گم شدہ آواز ”
تیرے انوار سے لبالب ہے
دل کا سب سے عمیق گو شہء راز
آرہی ہے صداےء ہاتف غیب
اف رے تیرے حجاب کے انداز….( جوش ملیح آبادی)
ایک مخصوص شعر جو توجہ چاہتا ہے
ملا جو موقعہ تو روک دوں گا جلال روز حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑیگا جلال تیرا…
خود ان کے الفاظ میں
” اس طرح عمر گزرتی ہے ،اور جوانی ڈھلتی گیء ،اور آخر کار پیری نے آلیا. پیری آتے ہی سر کے بال جھڑ گیےء اور کھوپڑی میں آگہی کا اکھوا پھوٹ آیا ،ناتوانی نے توانایء پیدا کردی ،اور بلآ خر ،میں نے علم کے قلعے کو فتح کرلیا ،آپ سمجھے کیوں کر ؟ یعنی مجھے اس بات کا پورا پورا علم حاصل ہوگیا کہ میں نرا کاجل اور بے پناہ جاہل ہوں.
بندہ نواز ،ارتقا کی اس ابتدایء طفلانہ و تاریک منزل میں ،ایک نیم وحشی انسان کو اپنے جہل کا پتا چل جانا ہی سب سے بڑی سعادت ہے.
سن ہوگئے کان تو سماعت پائی
آنکھیں پتھرائی تو بصارت پائی
جب علم کے سب کنگھال ڈالے قلُزم
تب ،دولتِ عرفانِ جہالت پائی
یادوں کی بارات صفحہ 20 پر جوش ملیح آبادی کہتے ہیں میرا خمیر انسان دوستی سے بنا ہے
” ہاں اانسان…. کرہء ارض کی جان.. انسان دشمنی عظیم عدوان. حب ّ انسانی عین ایمان… انسان کا چہرہ گیتا اور قرآن… لااسلطان الاّ الانسان
ایک اور شعر
رہ روِ راہ محبت کا خدا حافظ
اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں
انسان محبت کا دم بھرنے والا یہ انسان اس بات کا دم بھرتا ہوا ختم ہوا کہ ایک دن وہ آییگا جب سایئنس اتنی ترقی کرلے گا کہ دنیا میں کوئی دکھ باقی نہیں رہیگا کوئی ملک اور قانون وہ قوم نہیں ہوگی ساری انسانیت ایک قوم ہوگی اور کسی میں کوئی رنگ نسل مذہب ملت ملکیت اور قومیت کی بنیاد پر کمتر مانا جاییگا…. بس ساری دنیا ایک ہوگی اور انسان ایک ہوں گے….
کچھ اور شعر دیکھیں
نبض تن چلتی ہے لیکن نبض دل چلتی نہیں
اس بھیانک موت سے اے نوع انساں ہوشیار!!!

زلف حرماں کے پیچ کھولو یارو
انسان کے آنسووں کو تولو یارو
آَلام گدائی پہ یہ شیون کب تک
اسباب گدائی کو ٹٹولو یارو

جب غرقہء علم و فکر کھولا میں نے
اپنے کو نئے بانٹ سے تولا میں نے
میں ہوں کہ نہیں جانچنے کی خاطر
اپنے کو کئی بار ٹٹولا میں نے
جوش کا ایک بڑا کارنامہ انکا مرثیہ حسین اور انقلاب ہے جس میں جوش نے مرثیہ کو نے زاویے اور نئی سوچ عطا کی. حسین کو جوش نے ماتم کی علامت و استعارہ نہیں بنایا بلکہ انکے خیال میں شہادت امام عالی مقام نے اسلام اور انسانیت کو جو بلندی عطا کی ہے وہ سر بلندی ہی شہادت کا محاصل ہے.
حسین اور انقلاب 68 بندوں پر مشتمل ہے جس کے آغاز میں وہ دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچتے ہیں….
کربلا کی شب کا معرکہ بھی جوش اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں ان کی تراکیب اور استعارات میں انکی اپنی انفرادیت ہے
بکھرے ہوےء ہوا میں ہیں گیسو رسول کے
تاروں کی روشنی میں وہ آنسو بتول کے
وہ رات جب امام کی گونجی تھی ایک صدا
اے دوستان صادق و یاران با صفا
باقی نہیں رہا ہے کویء اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پر بلایئں ہیں اب تحت و فوق سے
جانا جو چاہتا ہے چلا جاےء شوق سے
شبیر نے حیات کا عنواں بنا دیا
اس رات کو بھی ماہ درخشاں بنا دیا
اک کار ساز ذہن ہے اک کار ساز ذات
سجدوں سے کھینچتا ہے جو مسجود کی طرف
تنہا جو ایک اشارہ ہے معبود کی طرف
جسکی جبیں پہ کج ہے خود اپنے لہو کا تاج
جو مرگ و زندگی کا ہے اک طرفہ امتزاج
سر دیدیا مگر نہ دیا ظلم کو خراج
جس کے لہو نے رکھ لی تمام انبیاء کی لاج…
حسین اور انقلاب ایک ایسا مرثیہ ہے جس میں نہ صرف عزم حسین اور روح انقلاب کار فرما ہے بلکہ جوش نے عزم حسینی کا ذکر کرکے روح عصر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے
اگے بڑھ کر کہتے ہیں
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین…
جوش کی خاکہ نگاری انکی خود نوشت یادوں کی بارات میں بہت کھل کر سامنے آگیء ہے… اپنے دوستوں کی خاکہ نگاری جو انہوں نے کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں اور ہمیں لگتا ہے وہ کردار ہمارے سامنے زندہ کھڑے ہیں…
جوش کی خطوط نویسی کا انداز بالکل جداگانہ ہے وہ انسان دوستی اور انکے اپنی فکر اور سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہیں
جوش کی انشایہء نگاری بھی یادوں کی بارات میں کھل کر اپنا لوہا منواتی ہے… جناب نسیم الدین فریس کے الفاظ میں ”
"جوش ایک ایسا چھتنار برگد ہیں ہیں جنکے نیچے ہر صنف ادب کو پناہ ملی چاہے وہ نثر نگار ہوں یا شاعر انشایہء نگار ہوں کہ مضمون نویس… جوش نے ہر ایک لیےء نیےء پیمانے چھوڑ ے ہیں ”
جوش ہر لحاظ سے محسن اردو ہیں جنہوں نے ہر حال میں اردو کی پرورش کی اور اسکے دامن کو وہ وسعت دی جس میں جو بھی چاہے لکھا بنا گایا اور پھیلایا جاسکتا ہے….

Share

۲ thoughts on “جوش ملیح آبادی شخصیت ‘ فن اور رنگِ تصوف – – – مہر افروز”

Comments are closed.

Share
Share