یومِ عالمی خواتین کے موقع پر
اردو شاعری اور نسائی حسیت
مصنفہ : ڈاکٹرنکہت جہاں
شعبہ فاصلاتی تعلیم ‘مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
حیدرآباد ۔ دکن ۔
تبصرہ : سید فضل اللہ مکرم
چند صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے اور ایام جاہلیت کے ان واقعات یا گناہوں کو یاد کررہے تھے جو ان سے سرزد ہوئے تھے ۔ جب حضرت سید بن عاصمؓ کی باری آئی تو انہوں نے فرمایا !بھائیو میری ایک بیٹی تھی جونہایت ہی پیاری تھی ۔ بڑی پیاری پیاری باتیں کیا کرتی تھی ۔ وہ مجھے بے حد چاہتی تھی اور میں بھی اس سے بے انتہاء محبت کرتا تھا اس کی موہنی صورت میں بڑی جاذبیت تھی ۔ لیکن کرتا کیا میں بھی تو حالات سے مجبور تھا ایک دن میں نے اسے نہلایا دہلایا اور اچھے کپڑے پہناکر ساتھ لے چلا ۔ راستے میں وہ بار بار پوچھ رہی تھی کہ ابو ‘ ہم کہاں جارہے ہیں ؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ آخر کار ایک سنسان مقام پر میں نے گڑھا کھودناشروع کیا ۔ گڑھا گھودنے میں میری معصوم بیٹی نے میری مدد کی ۔ پھر اس نے سوال کیا ابو ‘ ہم یہ گڑھا کیوں کھود رہے ہیں میں نے کوئی جواب نہیں دیا جب گڑھا گہرا ہوگیا تو میں نے اپنی معصوم بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے گڑھے میں دھکیلا اور اس پر مٹی ڈالنے لگا۔ وہ چیختی چلاتی رہی ابو ‘آپ ایسا کیوں کررہے ہیں مجھے یہاں سے باہر نکالئے ابو مجھے بچاےئے لیکن میں نے اسے زندہ دفن کردیا اور عرب کا معزز شہری کہلوایا ۔ آج بھی مجھے میری بیٹی کی چیخیں سنائی دیتیہیں اتنا کہہ کر حضرت قیس بن عاصمؓ زار و قطار رونے لگے ۔
یہ واقعہ محبت و انسیت اور شقاوت و شفقت کا عجیب و غریب سنگم ہے ایک باپ اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرتا ہے لیکن جب احساس گناہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں میں ندامت کا سمندر ٹھاٹیں مارتا نظر آتا ہے ۔ تاریخ عالم میں ’’نسائی حسیت ‘‘ کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہوسکتی ہے ؟
اردو ادب میں عورت کے رنگ و روپ چال و چلن حسن و جمال ناز و انداز محبت و نفرت سب کچھ پورے رکھ رکھاو کے ساتھ ملتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ شاعروں کے دماغ پر ہمیشہ عورت سوار رہتی ہے ؟ کیوں نہ ہو عورت تو کائنات کا رنگ ہے زندگی کا آئینہ ہے جینے کی امنگ ہے لیکن ہر زمانے میں عورت پر ہونے والے جو ر وستم اور ظلم و جبر کی داستانیں ادب کے صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں ۔ڈاکٹر نکہت جہاں نے حیدرآباد سنٹر یونیورسٹی میں ایم فل کے مقالے کیلئے اردو شاعری اور نسائی حسیت کو موضوع تحقیق بنایا ۔ اب یہ تحقیقی مقالہ زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظرعام پر آچکا ہے ۔ زیر تبصرہ تصنیف اردو شاعرہ اور نسائی حسیت کو ڈاکٹر نکہت جہاں نے جملہ چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلا باب عورت کا تاریخ پس منظر کے لئے مخصوص کیا گیا ہے ۔ دوسرا اور تیسرا باب انیسویں صدی کے اواخر کے شعر اور ترقی پسند شعراء کے لئے مختص ہے پانچواں باب بیسویں صدی کے شعرا جبکہ چھٹے باب میں بیسویں صدی کی شاعرات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ عورت جو مرد کی بائیں پسلی سے پیدا کی گئی ہے ہمیشہ سے مرد کے تابع رہی ہے گو کہ مرد کے بنائے معاشرے کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھائی گئیں ۔ مختلف تحریکیں چلیں آزادی نسواں کے نعرے بلند ہوئے ۔ قوانین بنائے گئے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اس کے باوجود ہزاروں سال پہلے عورت کا جو مقام تھا آج بھی وہی ہے ۔ صرف لباس اور زلفوں کی آرائش بدلنے سے عورت کو اس کا مقام حاصل نہیں ہوجاتا ۔ آج بھی مختلف ترقی یافتہ ممالک میں عورتوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے کوئی پیار سے مارتا ہے تو کوئی نفرت سے قتل کرتا ہے ابتداء میں تو لڑکیاں پیدا ہونے کے بعد زندہ در گور کردی جاتی تھیں لیکن آج اکیسویں صدری میں لڑکیاں پیدا ہونے سے قبل مار دی جاتی ہیں ۔ ظلم و شقاوت کا اس سے اونچا معیار اور کیا ہوسکتا ہے ‘ڈاکٹر نکہت جہاں نے نہایت شرح بسط سے اس باب کو تحریر کیا ہے ۔ انہوں نے مختلف ممالک میں عورتوں کا رتبہ حقوق اور قوانین کا مطالعہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نسائی حسیت کی تحریک اسلام سے شروع ہوتی ہے ۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ نسائی حسیت دراصل نسائیت کو کہتے ہیں ۔
انیسویں صدی کے اواخر کے شعرا کے تحت مصنفہ نے حالی اکبر اور چکپت کی شاعری کے حوالے سے نسائی حسیت کو گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ اقبال اور جوش جیسے شعرا کو بھی انہوں نے اسی باب میں شامل کیا ہے ۔ جبکہ ترقی پسند شعرا کا تذکرہ کرتے ہوئے مجاز، سردار جعفری، ساحر، وامق، اختر شیرانی، جان نثار اختر، کیفی اعظمی جیسے اہم شعرا کی تخلیقات کی روشنی میں نسائی حسیت کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ مصنفہ کا انتخا ب شعر بھی خوب ہے ۔
زیر نظر تصنیف کا چوتھا باب اہم خواتین پر لکھی جانے والی نظموں پر محیط ہے جس میں ڈاکٹر صاحبہ نے ان نظموں کا انتخاب کیا ہے جو مشہور خواتین پر لکھی گئی ہیں اور اس حوالے سے نسائی حسیت پر گفتگو بھی کی ہے ۔ جبکہ پانچویں باب میں صدی کے شعرا کے ضمن میں علامہ جمیل مظری ‘فیض ناصر کاظمی ‘فراز، افتخار عارف جیسے شعرا کے ہاں تصور نسائیت کا جائزہ لیا گیا ہے گو کہ اس فہرست میں کئی شاعروں کے نام شامل ہونے سے رہ گئے ہیں ۔ کتاب کا آخری باب بیسویں صدی کی شاعرات پر مبنی ہے جس میں ادا ‘زہر ناز ‘پروین شاکر ‘کشور ناہید ‘ساجدہ زیدی اور دیگر شاعرات کا تذکرہ کیاگیا ہے اور ان کے مختلف نظموں اور غزلوں کے حوالے سے نسائی حسیت کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ’’اختتامیہ ‘‘ مختصر ہی سہینہایت جاندار ہے ڈاکٹر نکہت جہاں نے پوری کتاب کا حاصل پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نسائی حسیت کا وہ تصور جو مغرب کی دین ہے دراصل عورت کے تشخیص سے زیادہ عورت کی شخصیت کو محور بناتا ہے اور اسی کے تصورات کو مرکوز کرتا ہے ۔ راقمہ کے خیال میں عورت کو کسی ایسے آزادی کی ضرورت نہیں بلکہ کسی کو بھی ایسی آزادی کی ضرورت نہیں جہاں واجبی ذمہ داری نہ ہوں اور اجتماعی اخلاق ی حد بندیاں نہ ہوں ۔ اس لئے نسائی حسیت کا صحیح شعور جگہ جگہ اردو شاعری میں ملتا ہے مگر مکمل شعور کہیں بھی نہیں ہے ۔ ابھی مستقبل کو اس شاعر یا شاعرہ کا انتظار ہے جس کے یہاں نسائی حسیت اور نسائیت کی صحیح ترجمانی ہے جو عورتوں کے حال پر بے وقوف عورتوں کی طرح ٹسوے نہ بہائے بلکہ عورت کی حیثیت اس کے موقف اس کی منزل کا احترام بھی کرسکے اس کی شناخت اور پہچان بھی کراسکے ۔
صفحات : ۱۶۰
قیمت : ۲۰۰ روپیے
ملنے کا پتہ : شعبہ فاصلاتی تعلیم ‘مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
گچی باؤ لی ‘حیدرآباد ۔ دکن ۔ ۵۰۰۰۳۲
ای میل :