مارکسی تنقید کی مبادیات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رافد اُویس بھٹ

Share
 مارکسی
کارل مارکس
 مارکسی ۔ اویس بھٹ
رافد اُویس بھٹ

مارکسی تنقید کی مبادیات

رافد اُویس بھٹ
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو
یونی ورسٹی آف حیدرآباد، دکن
ای میل:
فون: 07730866990

مارکسیت کی نبیاد کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے جدلیاتی مادی پرستی کے فلسفے پر ہے ۔مارکس اور اینگلز نے اس فلسفے سے نہ صرف اقتصادی اور طبقاتی نظام کو متزلزل کیا بلکہ شعر وادب پر بھی اپنے اثرات مرتسم کیے۔چنانچہ مارکس نے عینیت پرستوں کے خلاف صف آراہوکر انسان کے مادی وجود کو جھنجھوڑکراُس کی باز تشکیل کے لیے کئی متوازی عناصرکو جوڑ کر جدلیاتی مادیت(Dialectical Materialism)کے فلسفے کو پیش کیا۔چناں چہ انقلاب روس کے پیچھے بھی طبقاتی اور معاشی استحصال سے جڑے عوامل و محرکات تھے ۔کیونکہ سماج طبقوں میں بٹنے لگا تھااور تفریقات نے جنم لیا تھا جس کی وجہ سے ایک توانا اور صحت مند سماج کا سورج ڈوب رہا تھا۔اس طبقاتی کشمکش کے خلاف مارکس اور اینگلزنے ایسے سماج کو اپنے فلسفہ کے ذریعے پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی جو اشتراکی سماج کہلاتا ہے۔سید محمودنواب کریم نے اشتراکی سماج کی تعریف یوں کی ہے:

’’مارکس اور اینگلز کے اس نظام فکر میں مرکزی حیثیت طبقاتی کشمکش کی ہے جو استحصالی اور محنت کش طاقتوں کے درمیان جاری ہے اوران کے خیال کے مطابق جب زمام کارمحنت کش طاقت کے ہاتھ آجائے گا تو طبقاتی تفریق آپ سے آپ مٹ جائے گی اورایک صحتمند اورتوانا سماج جو ظلم واستبداد ،لوٹ کھسوٹ،استحصال اوراستعمار سے پاک ہوگا ،جنم لے گا اور یہی اشتراکی سماج ہوگا۔‘‘۱؂
مارکس کے مطابق اقتصادی نظام کے درہم برہم ہونے کہ اصل وجہ سماج کا دو بنیادی طبقوں میں بٹنا ہے ۔جس میں ایک طبقہ مزدور اور محنت کش ہے جسے پرولتاری(Proletary) کہتے ہیں اور دوسرا طبقہ سرمایہ داروں کا ہے جسے بورژوا طبقہ (Bourgeoise)کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔مارکس کے خیال کے مطابق بورژوا طبقہ نے ہمیشہ پرولتاری طبقہ پر اپنا تسلط قائم کیا ہے اور ان کی محنت کا پھل خود کھاتا رہا ہے اور ان کو بہت کم معاوضہ دے کر محنت کش عوام کو معاشی بد حالی کا شکار بنادیا تھا۔مارکس نے اسی طبقاتی تفریق کے خلاف صف آرا ہوکر محنت کش عوام کی حمایت کی اور اس کو انھوں نے ’’مادی جدلیت ‘‘کانام دیا ہے۔مارکس کے اس فلسفہ سے اردو شعر وادب بھی متاثرہوا جسے مارکسی ادب کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
مارکس کے مطابق اچھا آرٹ وہ ہے جو صداقت اور سچائی کا ساتھ دے کر انسانی زندگی کی تلخ حقائق کی عکاسی اور ترجمانی کرے۔حالانکہ انہوں نے انفرادیت کی بجائے اجتماعیت پر زوردے کر ادب کو اجتماعی زندگی کا ترجمان قرار دیا ہے اور تخلیق کار کی تخلیقات سے یہ توقع کی کہ وہ خارجی حالات وکوائف کی عکاسی کرے اور خصوصاً پرولتاری طبقہ کے معاشی ومعاشرتی استحصال کو اپنی تخلیقات کاموضوع بنائے۔عبادت بریلوی اس ضمن میں رقمطراز ہیں:
’’ادب وشعر کے متعلق الہامی،رومانی،ماورائی اور مابعد الطبعیاتی نقطہ نظر کو چھوڑ کر انہوں (مارکس)نے مادی نقطہ نظر کو اپنایا اور اس کو تاریخی سماجی اور عمرانی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔انھوں نے اس (ادب)کو صرف تفریح طبع کا باعث نہیں سمجھا بلکہ سماجی عمل قراردیا جس کا بڑا مقصد سماجی اصلاح ہے۔‘‘ ۲؂
مارکس کے خیال میں ادب صرف حصول مسرت کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے بلکہ بورژوا طبقہ کے خلاف ایک رد عمل کے طور پر اُبھرنا چاہیے۔ضیاء الرحمن خان نے Crises in Criticism کے ترجمہ میں معیاری مارکسی تخلیقات کے حوالے سے کئی اہم نکات کو بیان کیا ہے جس میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ تخلیق کارکی تخلیق میں اتنا زور ہونا چاہیے جو پڑھنے والوں میں حرکت لائے اور حظ حاصل کرنے کی بجائے ان میں جوش اور جذبہ پیدا کرے۔دوسرا نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ تخلیق کار میں پرولتاری بننے کی سعی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی تخلیقات میں بھی پرولتاری طبقہ کو ہی موضوع بنا سکے۔تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تخلیقات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طبقاتی کشمکش کے اثرات دکھائی دینے چاہیے۔
مارکسی نقطہ نظر کے حوالے سے ادب انسانیت پرست اور ترقی پسند رجحانات کا حامل ہونا چاہیے اور ادیب اُس جذبے سے سرشار ہونا چاہیے جواُسے مادی مرکزیت کے خلاف جدوجہد کر نے پر اُکسائے۔مارکسی نظریے میں بڑے ادیب کی خصوصیات میں غیر جانبداری اور بے باکی کو اہمیت دی جاتی ہے۔مارکس کے خیال میں ادیب کی تخلیقات میں بے لاگ خارجیت ہونے کے علاوہ وہ حرکت بھی ہونی چاہیے جو ہمارے ’’ذوق حُسن‘‘ اور’’ ذوق عمل‘‘ دونوں کو متحرک کرے ۔حالانکہ اس ضمن میں انھوں نے ادب کو عوام کی امانت قرار دے کر ایک ادیب سے اپنے فرائض سے ایمانداری کے ساتھ عہدہ برآ ہو نے کی تلقین کی ہے اور ادیب کا حق بنتا ہے کہ وہ عوام کے جذبات،خیالات اور اُن کی تمناؤں کو اپنی تخلیقات میں پیش کرے اور اپنی تخلیقات سے اُن میں بیداری لائے کیونکہ ادب کی جڑیں عوام اور عوامی زندگی میں پیوست ہوتی ہیں۔مارکسی نقطہ نظر نے جہاں ’’اشتراکیت‘‘اور’’مادی جدلیت‘‘کا پرچار کیا اور ایسی تخلیقات کو اہمیت دی جو انہی نظریات کو فروغ دیتی ہیں۔وہیں اردو تنقید نے بھی مارکسی نظریات کو میزان بنا کر فن پاروں کوپرکھنے کا عمل شروع کیا۔
مارکسی تنقید ایک ادیب سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سماجی زندگی کے بدلتے حالات اورمادی تفریقات (Material differences) کو اپنا موضوع بنائے ۔ مارکسی تنقید کے سامنے وہی فن پارہ قابل قبول ہے جو طبقاتی کشمکش اور بورژوائی طبقہ کے استحصال کے خلاف ردعمل کے طور پر اُبھرے۔ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے :
’’مارکسی تنقید میں ادب ۔ ۔ ۔ زندگی اور معاشرہ کے مادی ارتقاء میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ارتقاء کے مختلف مدارج کا عکس بھی پیش کرتاہے۔مزیدبرآں ادب کو امیر وغریب،حکمران ومحکوم،سرمایہ دارومزدور،کسان وزمیندارکی صورت میں پائی جانے والی طبقاتی کشمکش میں غریب اور پسے ہوئے پرولتاری طبقہ کا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘ ۳؂
مارکسی تنقید کے سامنے یہ سوال ہر وقت اُبھرتا ہے کہ آیا فن پارہ طبقاتی کشمکش میں بورژوا طبقہ کی مخالفت کرتا ہے یا پرولتاری طبقہ کی حمایت ؟مارکسی تنقید کے سامنے اس فن پارے کی کوئی اہمیت نہیں ہے جس میں سماجی حالات وواقعات کے بدلتے ہوئے مزاج اور طبقاتی تقسیم اور مادیت میں مرکزیت کے خلاف اجتہاد نہ ہو۔مارکسی تنقید کے نزدیک وہ فن پارہ عوام دوست نہیں ہوسکتا جو پرولتاری طبقہ کا ساتھ نہ دے۔ یہ تنقید فن پارے سے سماجی اصلاح کا مطالبہ کرتی ہے اور ادب کو افادی اور مقصدی پہلوؤں کی متلاشی کا کام سونپتی ہے۔مارکسی نقاد فن پارے کا تجزیہ کرتے وقت اُس میں پیش کیے گئے خیالات واحساسات کے خارجی محرکات یا عناصر کا پتہ لگاتا ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فن پارے میں پیش کئے گئے خیالات واحساسات کو تاریخی اور سماجی تناظر میں دیکھنے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔اس سے اردو تنقید کو ایک طرف روایت پسندی اور تاثراتی طرز نقد سے چھٹکارا ملا اور نظریاتی اور عملی طور پر وسعت مل گئی اور دوسری طرف پہلی بار فن پارے میں عوام اورعوامی زندگی کے نشیب وفراز کی تلاش ہونے لگی۔تنقید کے اس بدلتے رواج کی وضاحت کرتے ہوئے عارفہ ادریس خان لکھتی ہیں:
’’مارکسی ناقدوں نے ادبی مسائل اور تنقیدی بصیرت سے مارکسی نظریات کو فروغ دیا تھا اس لیے اردو تنقید میں جودقیانوسیت،روایت پسندی،لسانی مباحث،شاعری پر نظری تنقید اور نثر پر تاثراتی یا تشریحی تنقید اور شخصیت پرستی پر تنقید میں لن ترانیاں یا معاندانہ اندازِنقد موجود تھا،اس پر کاری ضرب لگائی اور اردوتنقید سے دقیانوسی رویوں کو خارج کرکے معروضی اور سائنسی نقطہ نظر فراہم کیا جس سے اردو تنقید میں وسعت اور کشادگی پیدا ہوئی۔‘‘ ۴؂
مارکسی نقادکے نقطۂ نظر سے فن پارہ عوامی زندگی کا ترجمان ہوتا ہے لہٰذا وہ فن پارے کی فنی عناصر کو پیٹھ دکھا پیٹھ دکھا کے فن پارے کے خارجی عوامل سے سرورکار رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مارکسی تنقید فن پارے کی ’’داخلیت ‘‘،’’ابہام ‘‘اور ’’ژولیدہ بیانی‘‘کو نا پسند کرتی ہے ،کیونکہ وہی فن پارہ مارکسی نقطۂ نظر کے نزدیک کھرا اُترتا ہے جو خارجی زندگی کے بدلتے حالات اور عوامی جذبات کا ترجمان ہو اور جو اپنا رشتہ عوام سے جوڑے رکھے۔ایک مارکسی نقاد فن پارے سے کیا مطالبہ کرتا ہے اور دوران تجزیہ اُس کے ذہن میں کس نوع کے سوالات اُبھرتے ہیں اس کی وضاحت ظہیر کاشمیری نے یوں کی:
’’مارکسی ناقد جب کسی ادیب کے ادب پارے سے بحث کرتا ہے وہ یہ ضرور دیکھتا ہے کہ متعلقہ ادیب کا ادب اپنے معاصر طبقات سے کیا رشتہ رکھتا ہے وہ ادب پارہ کس طبقے کی ثقافت اور ذہنی رویوں کی آئینہ داری کرتا ہے کیا وہ کثیر الجہت ادب پارہ تو نہیں ہے۔ معاشرے کے (Class Confusion ) یعنی جماعتی الجھن کو بیان کرتا ہو اور نظریا تی اور ثقافتی اعتبار سے خود متبائن ہو۔‘‘ ۵؂
مختصراً مارکسی تنقیدنے رجعت پسند تنقید کے برخلاف اردو تنقید کو ایک نیا ذہن وآہنگ عطا کیا اور ذوق ووجدان کے مقابلے میں عقلی اور شعوری طور پر فن پارے کو پرکھنے کی تحریک دی ہے۔اس نے پہلی بار حقیقت،خارجیت اور عوامی مسائل کی جانب توجہ دے کر فکروذہن کے دریچوں کو واکرنے کی کامیاب کوشش کی۔،مارکسی تنقید نے فن پارے کو خلا میں تخلیق ہو نے والی ایک قابل تفریح شئے قرار نہیں دیا بلکہ انھوں نے فن پارے کو انسانی زندگی اور سماج کی باہمی آویزش اور طبقاتی کشمکش کی ترجمانی کا ایک بہترین عکاس قرار دیا ہے اور اس طرح سماجی علوم کے دریچوں کو کھول کر ’’عصری بصیرت‘‘اور ’’علمی افکار‘‘سے ادب کا رشتہ جوڑ لیا۔اورخواب وخیال کے طلسم سے ادب وشاعری کو باہر نکالا ۔
اردو میں مارکسی نقطہ نظر سے متاثر علمبرداروں میں جن نقادوں نے مارکسی نقطہ نظر کی کسوٹی پر فن پاروں کا تجزیہ کیااُن میں اختر حسین رائے پوری،سجاد ظہیر،عبدالعلیم،مجنوں گورکھپوری،احتشام حسین،عزیز احمد،ممتاز حسین،اختر انصاری،سردار جعفری،ظہیراحمد کاشمیری،آل احمد سرور،اختر اورنیوی،علی جواد زیدی،احمد ندیم قاسمی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔مغرب میں مارکسی نظریے کے تحت لکھنے والوں میں پشکن،گوگوں،مرونوؤف،نزگیف،دوستوفکی،طالسطائی وغیرہ قابل ذکرہیں اور مارکسی نقادوں میں پیلخوف ارونگ بسٹ،کرسٹوفر کاڈویل،ارنسٹ فشر،آئی مکی خوف،بنجمن فرینکلین وغیرہ کا نام اہمیت کا حامل ہے۔
حوالہ جات
۱؂ سید محمد نواب کریم، اردوتنقید حالیؔ سے کلیم تک،ص ۱۴۶
۲؂ عبادت بریلوی، اردو تنقید کا ارتقا، ص ۷۳۔۳۷۲
۳؂ سلیم اختر، تنقیدی دبستان، ص ۱۷۷
۴؂ عارفہ ادریس خان، اردو تنقید کا اصلی چہرہ، ص ۱۲۱
۵؂ ظہیر احمد کاشمیری، مارکسی تنقید،مشمولہ: نظریاتی تنقید:مسائل و مباحث از ابوالکلام قاسمی، ص ۱۳۳

Share
Share
Share