افسانہ : ڈیلیٹ بٹن
محمد نواز
مکان نمبر P /236 محلہ فتح پور
کمالیہ ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ ۔ پاکستان
ای میل :
ثمن کے موبائل کا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ ہو گیا تھا ۔وہ موبائل ہاتھ میں پکڑے بیٹھی اپنے خاوند ، دانیال کو کوس رہی تھی ۔پچھلے دنوں دونوں میاں بیوی کے درمیان موبائل کی وجہ سے ناچاکی ہوئی اور دانیال نے اس کے رد عمل میں ثمن کے موبائل کا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا تھا ۔موبائل میں موجود سارا ڈیٹا ضائع ہو گیا ۔بقول ثمن کے اس نے بڑی محنت سے سارا ڈیٹا جمع کیا تھا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک پرندہ گھونسلہ بناتے ہوئے تنکہ تنکہ اکٹھا کر تا ہے اور جب گھونسلہ بن جانے پر ہوا کا ایک ہی جھونکا اس گھونسلے کو اپنے ساتھ خسو خاشاک کی بہا لے جاتا ہے ۔کچھ ایسا ہی ثمن کے ساتھ ہوا تھا ۔میاں بیوی کے درمیان ناچاکی ہوا کے جھونکے کی طرح آئی اور موبائل میں موجود ڈیٹا اپنے ساتھ لے گئی ۔ثمن کے آنسو تھے کے تھمنے کانام ہی نہ لے رہے تھے ۔وہ برابر اپنے شوہر کو بر ابھلا کہہ رہی تھی۔
ثمن اور دنیال کے درمیان اس جھگڑے کی وجہ ثمن کا ہر وقت موبائل کے ساتھ چپکے رہنا تھا ۔دانیال جب بھی گھر آتا ثمن موبائل ہاتھ میں پکڑے مگن ہوتی ۔کبھی موسیقی تو کبھی گیم میں مصروف نظر آتی ۔رات گئے تک لمبی کالز اور ایس ایم ایس اس کا معمول بن گیا۔دنیال نے ثمن کو بہت سمجھایا پر وہ ہمیشہ اس کی باتوں کو خاطر میں نہ لاتی اور ہمیشہ اپنے دفاع میں ’’ آپ بھی تو موبائل استعمال کرتے ہیں ،میں کر لیتی ہوں تو کونسی قیامت آ جاتی ہے‘‘ یوں ان دونوں کے درمیاں ایک جملے بازی کا تانتا بندھ جاتا ادھر سے ثمن جملہ کستی تو ادھر سے دانیال ۔یوں اس جملہ بازی میں دونوں تمام حدیں عبور کر جاتے ۔
موبائل میں ایسا کونسا ڈیٹا تھا جس کے ڈیلیٹ ہونے پر ثمن اتنا سیخ پا ہو رہی تھی کہ اسے حقوق زوجین بھی بھول گئے تھے ۔وہ دانیال کو کن کن القابات سے نوازے جا رہی تھی ۔اس کی آواز حد سے زیادہ بلند ہوئی تو ہمسائی خبر گیری کو آگئی۔ثمن ہمسائی سے لپٹ گئی اور روتے ہوئی کہنے گی’’ دانیال نے میرے موبائل کا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا ۔میں نے بڑی محنت سے وہ ڈیٹا جمع کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ’’’ تو اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ڈیٹا پھر جمع ہو جائے گا ۔۔۔۔۔‘‘ ہمسائی ثمن کو سمجھانے لگی مگر ثمن تھی کہ بس ایک ہی بات پر بضد تھی کہ اس نے یہ سارا ڈیٹا بڑی محنت سے جمع کیا تھا،سب ضائع ہو گیا ۔جاتے ہوئے ہمسائی کہہ گئی کہ فکر نہ کرو ثمن تمھارے موبائل کا ڈیٹا ریکور ہو جائے گا ۔’’ ڈیٹاتو ریکور ہو جائے گا مگر میرا اعتماد جو دانیال نے ڈیلیٹ کا بٹن دبا کر ڈیلیٹ کردیا ہے۔وہ کیسے ریکور ہو گا ۔
ثمن نے موبائل ڈیٹا ڈیلیٹ ہونے کا واقعہ یوں پھیلایا جس طرح جنگل میں آگ پھیلتی ہے ۔ وہ جوں جوں بولتی جاتی توں توں دانیال کو برا بھلا بھی کہتی جاتی ۔اپنی ایک عزیزہ کو فون پر ثمن بتا رہی تھی کہ ’’ موبائل میں موجود تمام سیلفیز ،سونگ اور ویڈیو ڈیلیٹ کر دی ہیں ،اس کے علاوہ تمام کونٹنٹ بھی ڈیلیٹ کر دیئے ہیں ‘‘ دانیال نے اس رات ثمن پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی تو ثمن نے دانیال کی کوئی با ت نہ سنی ۔
اور اسے گالیاں دیتے ہوئے کمرے میں چلی گئی ۔آگ بھڑک چکی تھی جو بجھنے کا نام نہ لے رہی تھی ۔موبائل فون نے ہماری زندگیوں کو اپنے حصار میں یوں جکڑ لیا ہے کہ اس کے بغیر زندگی ادھوری ادھوری لگتی ہے بلکہ نامکمل سی لگتی ہے ۔موبائل فون کی سہولت نے جہاں دور کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے وہاں اس نے ایک ساتھ رہنے والوں کو پاس رہتے ہوئے بھی دور کر دیا ہے ۔کچھ ایسا ہی ثمن اور دانیال کے ساتھ بھی ہوا تھا ۔موبائل لینے سے پہلے ثمن اپنے دوست احبات ،ماں باپ ،بہن بھائیوں سے تو دور تھی ، دانیال کے بہت قریب ۔ مگر رفتہ رفتہ وہ دانیال سے دور اور دوستوں کے قریب ہوتی چلی گئی ۔ان دونوں کے درمیاں کب ایک خلیج حائل ہو گئی اسے پتا بھی نہ چلا ۔ایک کال بند ہوتی تو دوسری شروع ہو جاتی۔ ایک ایس ایم ایس کا رپلائی دینا ابھی باقی ہوتا کہ دوسرے کی آمد کا اعلان رنگ بیل سے ہو جاتا۔ یون وہ موبائل میں مصروف ہوتی چلی گئی ۔دانیال جو اس کے یوں بے جا مصروف رہنے پر عدم توجہ کا شکار ہو گیا تھا ۔نہ وقت پر کھانا ملنا ،نہ کپڑے۔لہذا احتجاج کرنااس کا حق بنتا تھا ۔دانیال نے کئی بار ثمن کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کیلئے یہ سب بے سود ثابت ہوا لہذا نوبت ڈیلیٹ بٹن تک آگئی ۔
ثمن نے عمل کا رد عمل دیکھایا اور دوسرے کمرے میں جا کر لیٹ گئی ۔ اسے دانیال کے ساتھ گزرے لمحے یاد آنے لگے ۔اسے اپنی گزشتہ زندگی کے وہ حسین لمحات یاد آنے لگے جب دانیال کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی ۔دانیال نے اسے ہر وہ آشائش بہم پہنچائی جس کی ثمن نے فرمائش کی ،جب بھی ان کو فارغ وقت ملتا وہ اس فارغ وقت کو اپنے بہترین تصرف میں لاتے ہوئے کبھی سیر و تفریح پر نکل جاتے تو کبھی کسی ہوٹل میں اپنی شام گزار آتے ۔یہی ثمن تھی جو دانیال کے سینکڑوں وصف اپنی دوستوں کو گنوایا کرتے تھی۔آج وہ اوصاف دانیال کی برائیاں بنا کر بتائی جا رہی تھی ۔ موبائل کا ڈیٹا کیا ڈیلیٹ ہوا ،ثمن نے دانیال کے سارے احسانات اپنی ذہن سے ڈیلیٹ کر دیئے ۔ ثمن نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ دانیال کے ساتھ نہیں رہے گی اور صبح ہوتے ہی یہاں سے چلی جائے گی ۔ بولتے بڑبڑاتے اس نے سامان پیک کیا اور سو گئی ۔
کہتے ہیں خواب انسان کی ان سوچو ں کے عکاس ہوتے ہیں جو وہ دن بھر سوچتا ہے ۔کچھ ایسا ہی ثمن کے ساتھ بھی ہوا ۔خواب میں بھی ثمن نے دانیال کو نہ بخشا اور لگی دانیال سے زبان درازی کرنے ۔دانیال سے زبان درازی کے دوران وہ دیکھتی ہے کہ ایک خوب صورت سر سبز و شاداب وادی ہے۔وادی کے درمیان ایک خوبصورت چشمہ بہہ رہا ہے،چشمہ کے دونوں کناروں پر پھلوں سے لدے باغات ہیں اور وہ ان باغات میں سنہری لباس پہنے گھوم رہی ہے کہ اچانک ایک روشنی سی اس کے قریب آتی ہے جس سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں ۔ آہستہ آہستہ روشنی مجسم صورت میں اس کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے ۔پوچھنے پر وہ مجسم صورت کہتی ہے کہ وہ رب کی طرف سے بھیجا جانے والا فرشتہ ہے اور وہ اسے ،اس کا نامہ اعمال دیکھانے آیا ہے۔جھٹ سے فرشتہ ایک پلندہ ثمن کے آگے کر دیتا ہے ۔ثمن پسینے سے شرابور کانپتے ہاتھوں سے اپنا نامہ اعمال پکڑتی ہے ۔ایک نظر ثمن نورانی چہرے والے فرشتے کو دیکھتی ہے اور ایک نظر اپنے نامہ اعمال کو ۔فرشتہ کے اصرار پر ثمن نامہ اعمال کھولنا شروع کرتی ہے ۔اس کی حیرت دو چند ہو جاتی ہے جب وہ دیکھتی ہے کہ نامہ اعمال کا پہلا صفحہ کورا دیکھائی دیتا ہے ۔وہ پھٹی پھٹی نظروں سے فرشتہ کی طرف دیکھتی ہے ،فرشتہ خاموش کھڑا رہتا ہے ۔اب تو ثمن کی حیرت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب دوسرا صٖفحہ بھی خالی دیکھائی دیتا ہے ، وہ تیزی سے نامہ اعمال کی ورق گردانی کرنے لگتی ہے ۔نامہ اعمال کے کسی بھی صفحہ پر اسے ایک بھی نیکی لکھی ہوئی دیکھائی نہیں دیتی ۔
جب ثمن اپنا نامہ اعمال دیکھ چکی تو فرشہ نے ثمن سے کہا چلو میرے ساتھ ’’ کہاں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘؟ ’’ خدا نے تیرا مقام بدل دیا ہے ‘‘ ’’ لیکن کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ فرشتہ کہتا ہے ’’ تم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے نامہ اعمال کا ڈیلیٹ بٹن دبا دیا ہے اب تمھارے نامہ اعمال میں کوئی بھی ایسی نیکی نہیں جس کی بنا پر تجھے اس مقام پر رکھا جائے ‘‘ ’’ وہ کیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنا نامہ اعمال اپنے ہاتھوں سے کیسے ڈیلیٹ کر دیا جب کہ میں نے تو اپنا نامہ اعمال آج تک دیکھا ہی نہیں ‘‘ فرشتہ پھر ثمن سے گویا ہوتا ہے ’’ جب بھی کوئی عورت اپنے خاوند سے زبان درازی کرتی ہے اور اس کی ناشکری کرتی ہے ،خدا اس بات کو پسند نہیں فرماتا ۔تمھارے اس ایک عمل نے تمھار ے نامہ اعمال کو ڈیلیٹ کر دیا ہے ‘‘ ’’ صرف ایک عمل نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اور بھی تو کئی ایک نیک کام کر رکھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کبھی کبھار نماز بھی پڑھ لیتی ہوں ،روزے بھی رکھ لیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے متعد بار اپنے گھر آنے والے سائلوں خالی ہاتھ نہیں لوٹایا،کیا مجھے ان نیک اعمال کا کوئی اجر نہیں ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ’’ عورت کی سب سے بڑی نیکی اس کے خاوند کی تابعداری ہے ۔جب وہ اپنے خاوند کی حکم عدولی کرتی ہے تو اپنے ہاتھوں اپنے نامہ اعمال کا ڈیلیٹ بٹن دبا دیتی ہے ‘‘ ’’ کیا میرا ڈیلیٹ شدہ نامہ اعمال کا ڈیٹا ڑیکور ہو سکتا ہے ‘‘ ثمن نے فرشتہ سے پوچھا
’’ ہاں ! ایسا ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔اگر عورت اپنے خاوند سے معافی مانگ لے تو اللہ بھی اس کا ڈیلیٹ کیا ہوا ڈیٹا واپس کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ چلوخدا نے تجھے دوسری جگہ لے جانے کا حکم دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ثمن بوجھل قدموں کے ساتھ فرشتے کے پیچھے ہو لیتی ہے ،چلتے چلتے اسے راستے میں ٹھوکر لگتی ہے جس نے اس کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔وہ اپنے آپ کو کمرے میں لیٹے ہوئے پاتی ہے ۔خواب اور دانیال کے ساتھ لڑائی کا اثر تازہ تازہ اس کے ذہن پر ہے ۔وہ دوڑ کر دوسرے کمرے میں جاتی ہے ۔کمرے میں دانیال کی بجائے ایک کاغذ اس کا منتظر تھا ۔کاغذ پر لکھا تھا ۔’’ ثمن ،میں نے موبائل کا ڈیٹا اس لیئے ڈیلیٹ کیا تھا تاکہ تم میرے قریب آجاؤ ،لیکن تم نے ڈیلیٹ بٹن دبا کر مجھے اپنے دل و دماغ سے ہی ڈیلیٹ کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ہمیشہ کیلئے جا رہا ہوں ۔تمھارے موبائل کا ڈیٹا تو ریکور ہو جائے گا ،مگر شوہر کبھی ریکور نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
۲ thoughts on “افسانہ : ڈیلیٹ بٹن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد نواز”
فسانے کا اسلوب اچھا اور نصیحت پر مبنی ہے لیکن افسوس تصویر کا ایک ہی رُخ دِکھایا ہے قابل افسانہ نگار نے وجہ شاید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ وہ ’’ بھی ‘‘ ایک مرد ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فون اور نیٹ کی کیا صرف خواتین ہی عادی ہو رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرد نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب سرویز میں بتایا گیا ہے کہ خواتین سے زیادہ مرد نیٹ کے عادی ہورہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرورت سے زیادہ کسی بھی چیز کا اقتعمال نقصان دہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات ہر دو پر واجب آتی ہے 🙁 🙁
بات صرف اگر استعمال تک محدود ھو تو دونوں فریقین میں سے کوئ اک غلط ھو سکتا ھے لیکن ھم سب کو بحیثیت انسان اس تلخ حقیقت کا اعتراف کر لینا چاھئے اور یہ ھی مناسب ھے