نذیردہقانیؔ : جدید دکنی کا نمائندہ شاعر۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرجی۔ عظمت اللہ

Share
 Azmatullah - دہقانیؔ
ڈاکٹر جی۔عظمت اللہ

نذیر دہقانیؔ : جدید دکنی کا نمائندہ شاعر

ڈاکٹرجی۔ عظمت اللہ
لیکچرر اردو‘ گورنمنٹ جونیرکالج
کوڑنگل ۔ ضلع محبوب نگر ۔ تلنگانہ
موبائل : 07396258521

دہقانی کا اصل نام نذیر احمد ہے ۔ وہ ۱۹۰۸ ؁ء میں ریاست تلنگانہ کے ضلع ورنگل کے مقام جنگاؤں میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ثانوی تعلیم بھونگیر ( ضلع نلگنڈہ ) کے مڈل اسکول میں مکمل ہوئی ۔ لا ہور جا نے کے بعد منشی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ مختلف محکموں میں ملا زمت کی اور محکمہ اطلا عت کے شعبہ میں نشر واشاعت کے ذمہ دار رہے اور مخالف کمیونسٹ پروپیگنڈے کے تحت کام کر تے رہے ۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ۱۹۴۹ء میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔ بھاؤل پور میں زمینا ت ملیں ۔ کا شتکاری ان کا ذریعہ معاش تھا اور آبائی پیشہ بھی۔

دہقانیؔ کو حیدر آباد اوراس کے نواح کی دیہا تی زبان میں لکھنے کا خاص ملکہ تھا ۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کے دس بارہ برس وہ دیہات میں مقیم رہے اور وہیں انہوں نے دیہاتیوں کی زبان سیکھی اور اسی میں شاعری کر نے لگے ۔ ایک جگہ وہ خود لکھتے ہیں:
’’ میری جوالا نگاہ انسانوں کی وہ اکثریت جو شہروں کی چکا چوند اور زو ق بر ق تہذیب سے بہت دور فطر ت کے گہوارے میں پر ور ش پا تی ہے ۔ سادگی اور سچا ئی جس کا طرہ امتیاز ہے ۔ خلوص اور کیسا خلوص، سادہ لوحی کی حد تک معاملا ت کا مفہوم ، صبح سے شام تک محنت ،مسائل سے ہر قدم پر نبر دآزما سکون کی زندگی ’’ خاموشی وگمنامی جس کا مقدر ہو ‘‘ (ماہنامہ شگوفہ جون / ۱۹۷۳ء صفحہ نمبر۴۱)
نذیر دہقانیؔ کی زبان اور لب و لہجہ دکنی تھا ۔ ولیؔ اور سراجؔ قدیم دکنی زبان کے آخری شعراء تھے ۔ ان دونوں کے بعد زمانہ دراز تک دکنی زبان اور شعر و شاعری پر جمود کی سی کیفیت طاری ہو گئی ۔ زبان کا ار تقاء رک گیا ۔ تیزی سے بدلتے ہو ئے حالا ت اور زمانہ کی تر قی نے اس زبان کو پیچھے ڈھکیل دیا ۔ ایسا لگتا تھا کہ شاید اس کا ار تقاء یا احیاء نا ممکن ہے ۔ لیکن نذیر دہقانیؔ نے اس سکوت اور خامو شی کو توڑا جو کئی سالوں سے اس زبان پر طاری تھا ۔ چنا نچہ سراجؔ اور ولی ؔ کی شاعری کے بعد سب سے پہلا دکنی شعری مجموعہ جو ہمیں جدید دور میں ملتا ہے وہ نذیر دہقانیؔ کا ’’ نوائے دہقانی ‘‘ ہے ۔ چنا نچہ انیس سلطا نہ نے لکھا ہے ۔
’’ دکنی زبان پر جو سکو ت طاری تھا نذیردہقانی نے اس سکوت کو توڑا ۔ ان کے کلام کے مجموعے ‘‘ نوائے دہقانیؔ ‘‘ سے پہلے کوئی مجمو عہ ہم کو نہیں ملے گا ‘‘۔
دہقانیؔ نے ایک طویل عرصہ دیہا ت میں گزارا تھا اس لئے ان کے کلام میں سادگی اور منظر نگاری کی خصو صیات پا ئی جا تی ہیں۔ ان کا مذاق سخن زبان و لہجہ دیہات کی سر سبزی و شادابی کے مناظر پیش کر تا ہے ۔ منظر نگاری اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب شاعر کا مشاہدہ گہرا ہو ۔ ان کی شاعری میں بر سات کا یہ منظر ملا حظہ ہو ۔ ع؂

ہند ھیرا گھپ پڑیا تھا چو طرف سناٹا چھایا تھا
جبردستی ہر اک اپنے کو گھرسی میں چھپایا تھا
ابر سرپو ہتوئے کے بیٹھ کے دھوڑاتا پھرتا تھا
برستا تھا اُن آخر میں سلامت یاں سے جاتا تھا
اور بہت سے جھاڑاں کانپتے تھے گد گدی پڑ کو
پسینہ دھوڑتا تھا سب پہاڑاں تھے کھڑے گڑکو
جمین آسمان تھی گویا ستارے جھلملاتے تھے

پرو فیسر فاطمہ بیگم نے نذیر دہقانیؔ کی اولیت اور دکنی زبان میں منظر نگاری کی دہقانیؔ کی خصو صیت پر اسطرح اظہار خیال کیا ہے ۔ دراصل انہوں نے یہ مضمو ن سلیمان خطیب صاحب پرلکھا ہے لیکن ان کی شاعری کے پس منظر میں دہقانی کی اولیت پر کلام کیا ہے ۔
’’اردو کی تمام تبدیلیوں کو اپنا تے ہوئے معیاری زبان کو استعمال کر تے ہوئے اس کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے قدامت کو ایک بار پھر و قار عطا کر نے کا خیال سب سے پہلے نذیر دہقا نیؔ نے woods worth کی طرح اپنی شاعری کے لئے دیہا تی زبان کا انتخاب کیا ۔ نذیر دہقا نی کو دکنی پر پورا عبور حاصل تھا ۔ انہوں نے بھر پور اعتماد کے ساتھ تشبیہ، استعارہ، کنایہ کے تو سط سے اپنی شاعری کو سنوارا۔ ستھر ے اور انوکھے مو ضو عات کے انتخاب سے ندرت پیدا کی ۔ متر وک اور غیر فصیح الفاظ بھی فنکارانہ
چابکدستی سے استعمال کئے اور اپنی شاعری کو عوام میں مقبول و معروف بنا یا ‘‘۔ ( رسالہ قومی زبان مضمون ۔’’ جدید دکنی شاعری اور سلیمان خطیب‘‘ از پرو فیسر فاطمہ صفحہ نمبر ۔ ۶)
منظر نگاری کا ایک اور نمونہ ان کی نظم ’’ مو ٹ کا گیت ‘‘ ہے ۔ اس گیت کے چند اشعار اسطرح ہیں
جب لوگاں رہتیں نینداں میں ہاتھ میں لمبا لٹ لے کو
میں مو ٹ چلا نے جا تا ہوں تو کھا ندے پو کمبل سٹ لے کو
میں مو ٹ لاتے رہتا ہوں جب ہو کر مست خیالاں میں
شو نم کے موتھیاں پرو تے ہوئے تو میرے سر کے بالاں میں
نذیر دہقا نی ؔ کی شاعری کا یہ پہلا دور تھا جس میں گاؤں اور دیہات کی خو بصورتی پا ئی جا تی ہے ۔ ’’ شاعر اور برسات‘‘ ‘ ’’ لمباڑن ‘‘ اور ’’ دیہاتن ‘‘ و غیرہ نظمو ں میں بھی اسی زندگی کی نیرنگیاں ملتی ہیں۔ نذیر دہقانیؔ کی شاعری کا دوسرا دور اس وقت شروع ہو تا ہے جب وہ شہر (حیدرآباد) چلے آئے ۔ انسان جہاں رہتا بستا ہے اس پر ماحول کا اثر ضرور ہو تا ہے ۔ اور اس کی شخصیت پر بھی ماحول گہرے نقو ش چھوڑ تا ہے ۔ اسی طرح شاعر ی بھی ماحول کا عکس ہو تی ہے۔ چنا نچہ اس دور میں شہر حیدر آباد کی جگمگا تی، جھلملا تی فضاء کو انہوں نے قریب سے دیکھا اور اسی رنگ کو اپنی شاعری میں سمو یا ۔ انہوں نے کئی نظموں میں شہری زندگی کے تصنغ اور تکلف کو اپنا مو ضو ع بنا یا ۔
ان کے یہاں ایسی غزلیات بھی ملتی ہیں جن میں جذبات بھی ہیں اور شو خی و ظرافت بھی مو جو د ہے ۔ ان جذبات میں پو شیدہ ان کے خیالات اور مغرب بیزاری بھی و اضح طور پر نظر آتی ہے۔ اشعارملا حظہ ہوں :
بیٹھے بیٹھے ظالم سے آنکھ لڑگئی ناجی
ہور بھی مصیفت میں جان پڑگئی ناجی
لگ کو بیٹھو بولے تو اٹھ کو کھڑگئی ناجی
یوں میرے منانے کو ہور بگڑگئی ناجی
روج روج کی شاپنگ روج روج کے تحفے
عاشقی میں دہقانیؔ کی کھال ادھڑ گئی ناجی
ان کی شاعری کا تیسرا دور وہ ہے جب قائد ملت اور قائداعظم کی تحر یکات سے متاثر ہو کر انہوں نے سیاسی مو ضوعات کو اپنے کلام میں پیش کیا ۔ اس دور کی نظموں میں ’’ مزدور ‘‘ ‘ ’’ مو سیٰ ندی کی کہا نی ‘‘ ‘ کب تلک، غپ چپ، رو نی صورت، خالہ اماں، اور ’’رہتی تو کیا نہیں رہتی تو کیا ‘‘ وغیرہ مشہور ہیں ۔ ذیل میں ’’ رونی صورت ‘‘ کے چند اشعار پیش کئے جا تے ہیں۔
ادھر جوتے برس رئیں سرپو بڑے حد سے بے حد
ادھر تو سر کو کھجا کے مسکرایا رونی صورت
یہ دہقانی کے باتاں نےءں سمجھ کو لوگاں بولے
ارے ان ہمنا پڑکو سناریا رونی صورت
نظم ’’ غپ چپ ‘‘ میں اس زما نے کے سیاسی حالا ت کو بڑے ہی لطیف پیر ائے میں پیش کیا ہے ۔ حکمران قوم کی زبر دستی اور عوام کی مظلومیت شاعر کے دل کو ٹھیس پہنچا تی ہے ۔ اور وہ کہہ اٹھتا ہے ۔
کوئی جب کے چمکاریں تجھے سب کیا کی غپ چپ ہے
جبردستی سے وہ پکاریں تجھے سب کیا کی غپ چپ ہے
تمہارے باغ میں بڑباغلاں آ آ کو راتاں کو
پھلاں کوسارے کھا جارئیں تجھے سب کیاکی غپ چپ ہے
میں دن کو دن کیا تو وہ کہتے ہیں رات دہقانیؔ
غجب سچے کو جھٹلارئیں تجھے سب کیا کی غپ چپ ہے
نذیر احمد دہقانیؔ کی عصر حاضر کی دکنی میں اہمیت اسی و جہ سے ہے کہ انہوں نے ایک ایسے دور میں دکنی شاعری کو زندہ کیا جب کہ دور دور تک اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔ وہ اپنی دکنی شاعری کے بارے میں خود لکھتے ہیں:
’’ وہ شاہراہ ابھی تک سونی پڑی تھی جو ان جلوہ ہائے گونا گوں کا اصلی سر چشمہ تھی۔ میں اس راستہ اکیلا چل پڑا ۔ میرے عہد میں اس زبان میں شعر کہنا ایک جسارت تھی، بدمذاقی تھی، گنوار پن تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ دل بہلائی کا مشغلہ یا ہنسنے ہنسانے کی بات بن گئی۔ ( میں اور میری شاعری کے اثرات از ۔ نذیراحمد دہقانیؔ ‘ماہنامہ شگوفہ جو ن ۱۹۷۲ء صفحہ نمبر ۔ ۴۲ )
نذیر احمد دہقانیؔ کی شاعری کے متعلق قائد اعظم نواب بہادریارجنگ نے کہا تھا ۔ ’’ ان کا لطف کچھ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو دکنی کی دیہاتی زبان سے آشنا ہوں۔ ان کے کلام کا حقیقی لطف ان کی زبان سن کر ہی آسکتا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تحریر ی شکل میں بہت مقبول ہوگا ۔‘‘(ایضاً)
ان کے شعری مجموعہ میں ’’ اور نگ آباد کے کھنڈر ‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی نظم شامل کی گئی ہے جو د کنی میں نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب ضروردکنی ہے ۔ نظم ’’ تکرار ‘‘ میں متو سط طبقہ کے حالا ت اور ان کی معاشر تی زندگی کو مو ضوع سخن بنا یا گیا ہے ۔ انہوں نے بے شمار نظمیں کہی ہیں۔ ان کے اشعار کی تعداد کے بارے میں انیس سلطانہ نے اسطرح لکھا ہے ۔
’’نذیر احمد دہقانیؔ نے پچاس ہزار اشعار کہے ہیں اگر یہ اشعار شائع ہوں تو دکنی ادب میں ایک بیش بہا اضا فہ ہو گا لیکن انکا کچھ کلام ہندوستان میں ہے اور کچھ پا کستا ن میں ہے ‘‘۔(ایضاً ص ۷۲)
نذیر احمد دہقانیؔ کے یہاں تخیل کی بلند ی ، تشبیہات ، استعارات ، محاورات، ضرب الا مثال، انسان دوستی ، خلوص و محبت سب کچھ مل جا تا ہے ۔ ان کے بارے میں نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں۔
’’نذیر احمد دہقانیؔ کی نظمیں اپنی صداست ،صاف گوئی کے لحاظ سے مو ثر ہو تی ہیں۔ ان میں وہی ہو تا ہے جو زندگی میں گذر تا ، پیش آتا اور نظر آتا ہے ۔ تخیل کی بلندی، معانی کی وقعت ، محاورات اور ضربالامثال کی بند ش ان کی شاعری کی خصو صیات ہیں‘‘۔ ( دکن میں اردو از نصیر الدین ہا شمی ۔ صفحہ نمبر ۔ ۷۳۴)
جب نذیر احمد دہقانیؔ ڈھا ئی سال حیدر آباد میں قیام کے بعد پا کستا ن واپس ہو رہے تھے تو انہوں نے ایک پر اثر نظم کہی تھی۔ اس نظم میں دکنی الفاظ کا استعمال کم ہے لیکن بعض اشعار میں جدید دکنی الفاظ مستعمل ہیں۔ اس نظم کے وہ اشعار جس میں دکنی زبان ہے پیش کئے جا رہے ہیں ۔
خدا ہی جانتا ہے میرے دل کی کیسی حالت ہے
لباں پو مسکراہٹ انکھیاں پرنم چلے جارہاہوں
تمہاری بے رخی سے دل میں گھاواں پڑگئے ہیں
دئے ہیں پاس رکھ کو پیار کا مرہم چلے جارہا ہوں
جنازہ شاعری کا سننے والے بہت نکالے ہیں
میں ان کے حال پو کرتے ہوئے ماتم چلے جارہاہوں
منجے تم معاف کردیو مل نہیں سکتا ہوں دہقانی
میں ہوں مجبور گاڑی کا وقت ہے کم چلے جارہاہوں
نذیراحمد دہقانیؔ کی شاعری سے اندازہ ہو تا ہے کہ تقر یباً دو صدیوں کے خلا ء کے بعد بھی دکنی زبان کی حلا و ت اور چا شنی میں کمی نہیں آئی ہے ۔ یہ زبان ہر دکنی کے دل و دما غ میں تر و تا زہ ہے ۔ نظیر احمد دہقانیؔ کے دور میں لوگوں نے اس زبان کو دل بہلا نے والی زبان سمجھا لیکن یہ تو شروعات تھی اس زبان کے ار تقاء کی جس کو اہل دکن اور اہلِ ہند بھلا چکے تھے ۔ جیسے جیسے و قت گزر تا گیا۔ نظیر احمد دہقانی ؔ کی تقلید میں کئی ایک شعراء نے دکنی کا علم کھول دیا۔ علی صائب میاں، اعجا ز حسین کھٹاّ اور سرور ڈنڈا نے ان کے دور میں ہی دکنی شاعر ی شروع کر دی تھی ۔ اور پھر ان لو گوں کی تقلید میں کئی ایک شعراء ابھر ے جنہوں نے جدید دکنی کی قدر و منزلت کی اور اس کو کھویا ہوا مقام عطا کیا ۔ جن میں سلیمان خطیب ؔ حما یت اللہ اورپا گل ؔ عادل آبادی سر فہر ست ہیں۔

Share
Share
Share