افسانہ : شہید جمہوریت
افسانہ نگار: محمد نواز
مکان نمبر P /236 محلہ فتح پور
کمالیہ ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ ۔ پاکستان
ای میل :
’’حکومت مکمل طور پر اپنی پالیسوں میں ناکام ہو چکی ہے ۔مہنگائی کے جن کو کنٹرول کرنا اس کے بس کی بات نہیں ،ہر ادارہ کرپشن کی نظر ہو چکا ہے ۔ لوگوں کی معاشی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے ‘‘ یہ الفاظ میرے ایک دوست سعدی کے تھے وہ میرے پاس بیٹھا ملکی حالات پر نوحہ کنا ں تھا ۔ ’’ تم چاہو اس سے بھی زیادہ چیخو چلاؤ ،اس ملک میں کچھ بھی نہیں بدلنے والا ‘‘ میں نے اس کی بات رد کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ بدلے گا ، ضرور بدلے گا ۔ تم دیکھ لینا ایک دن اس ملک میں تبدیلی ضرور آئے گی ‘‘
سعدی نے امید بھرے لہجے میں میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور اٹھ کر ریمورٹ اٹھا کر ٹی وی کا چینل تبدیل کر دیا اور پھر تیزی سے ریمورٹ پر اس کی انگلی چلنے لگی ایک کے بعد ایک چینل تیزی سے تبدیل کرنے لگا ۔میں نے بھی سعدی کے اس فعل میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا اور خاموشی میں ہی عافیت سمجھی اور دبکے سے بیٹھا رہا ۔ آخر وہی ہو ا جس کا میں انتظار کر رہا تھا ایک نیوز چینل پر سعدی نے بریک لگائی اور ٹی وی کا والیم بڑھا دیا ۔ ٹی وی پر ایک سیاسی لیڈر حکومت کی پالیسوں پر تنقید کر رہاتھا اور حکومت کے ہر عہدہ دار پر ہرزہ سرائی ۔ سعدی اس سیاسی لیڈر کی گفتگوکو بڑے غور سے سن رہا تھاکبھی کبھار وہ میری طرف بھی دیکھ لیتا تھا ۔ میں نے سعدی کو اس کے حال پر چھوڑا اور الماری کی شلف پر ترتیب سے رکھی کتابوں میں سے ایک کتاب اٹھا کر پڑھنے لگا ۔ کوئی پون گھنٹے کے بعد میرے کانوں نے آواز کی تبدیلی کا اندیہ دیا ، میں نے کتاب پر نظر یں جمائے کان اس آواز کی طرف دھرے تو وہ آواز سیاسی لیڈر کی بجائے سعدی کی تھی جو مجھ سے کہ رہا تھا ’’ معاف کرنا یار! میں تم کو ٹائم نہیں دے سکا ‘‘ سعدی نے یہ رسمیہ سا جملہ میری دل جوئی کیلئے کہا اور ٹی وی کی آواز کم کر دی ۔ جواب میں میں نے بھی واجبی سی مسکراہت ہونٹوں پہ بکھیری اور کتاب بند کر دی ۔ ’’ یار تم یقین کرو نہ کرو اس حکومت کے ہوتے ہوئے ہمارے ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ، اس حکومت کی غلط پالیسوں کی وجہ سے ملک بحران میں گھرا ہوا ہے دہشت گری ، لاقانونیت اور فرقہ واریت نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں ۔ مہنگائی کا یہ حال ہے غریب کیلئے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہو گیا ہے ، بھوک کی وجہ سے لوگ خود کشی اور خود کشی جیسے مکرہ فعل کرنے سے بھی نہیں ڈرتے ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک ماں نے اپنے بچوں کو زہر دے کے خود بھی زہر کھا لیا ۔ ایک باپ اپنے بچوں کو بیچنے کیلئے فٹ پاتھ پے لے آیا ، ایسے دل خراش واقعات سے اخبارات بھرے پڑے ہیں، کیا حکومت اس کا نام ہے ؟ جس میں آبرو محفوظ ہے نہ مال ، نہ گیس ہے نہ بجلی ، نہ پینے کو صاف پانی ہے نہ کھانے کو روٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ سعدی بولتا جا رہا تھا اور میں گنگ تھا ۔
یہ سعدی کا معمول تھا وہ ہررات اپنی اس تقریر کو ٹاک شو سننے کے بعد دہراتا تھا اور میں جاتے ہوئے اس کی باتیں اس کی بیٹھک میں ہی چھوڑ آتا تھا ۔ سعدی میرے سکول کے ساتھ ساتھ کالج فیلو بھی تھا ۔ کالج میں سیاسی سرگرمیوں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا ۔ اپنی دھواں دار تقریروں کی وجہ سے بہت جلد اس کا نام سیاسی حلقوں میں جانا پہچانا جانے لگا ۔ یہ شہر ت اس کو مقامی سیاسی جماعت میں کھینچ لائی اور وہ ایک سیاسی پارٹی کا عہدہ دار بن گیااور اس کا نام شہر کے گلی محلوں میں لیا جانے لگا ۔ تب سے اب تک وہ اس سیاسی پارٹی کا سرگرم رکن تھا ۔ پارٹی کے ہر اجلاس میں شرکت کرتا اور کھل کر حکومت کے ایجنڈوں اور پالیسوں پر تنقید کرتا ۔لیکن مجھے اس کی سیاست سے نہ لچسپی تھی نہ کوئی سروکار ،میرا مزاج اس سے قدرے مختلف تھا مجھے سیاست کی الف ب کا بھی پتہ نہ تھا ۔میں ادب ، برائے ادب کا قائل تھا ۔غالب ،میر ،مومن ، اقبال اور فیض کو پڑھ کر اردو ادب سمجھے کی جستجو کر رہا تھا ۔مگر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اردو ادب سے شناسائی میرے بس کی بات نہ تھی اردو ادب ایک وسیع سمندر ہے اور میں سمندر کنارے کھڑا اس کی موجوں سے لطف اٹھا نے والا ، سمندر سے اٹھنے والی موج کبھی میرا دامن بھی بھیگو جاتی ہے،جس کے باعث ایک آدھ افسانہ یا غزل میری ڈائری کا حصہ بن جای ہے ۔
رات کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے میرے گھر جانے کا وقت رات دس بجے طے تھا، اس کے بعد گھر سے باہر رہنے کی اجازت مجھے نہ تھی دس بجنے میں ابھی دس منٹ باقی تھے جب پاؤں میں سلیپرپہن کردوازے کی طرف قدم بڑھایا دروازے سے واپس پلٹا اور کھڑے کھڑے سعدی سے سوال کیا ’’ سعدی ان مسائل کا کیا کوئی حل ہے ‘‘؟ ’’ اس کا صرف ایک ہی حل ہے عوام سڑکوں پر نکل آئیں اور اس حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلائیں ، نئے انتخاب ہوں اور نوجوان قیادت اس ملک کی باگ دوڑ سنبھالے ‘‘ ’’ سعدی جیسا تم سوچ رہے ہو ایسا کبھی نہیں ہونے والا، عوام باہر سڑکوں پر آئے گی نہ انتخابات ہوں گے اور نہ ہی ان انتخابات کے نتیجے میں نوجوان قیادت ملک کی باگ دوڑ سنبھالے گی ۔ وہ جن پہ تم تکیہ لگائے بیٹھے ہو وہ نوجوان ان ہی سیاسی بابوں کی اولاد ہیں جو پہلے اس ملک کے جانشین رہے ہیں اب چونکہ وہ خود عمر پیری ہو پہنچ گئے ہیں اس لیئے انہوں نے اپنی اولادوں کو میدان سیاست میں اتار دیا ہے ان نوجونوں کی مہاریں ان ہی سیاسی بابوں کے ہاتھوں میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ دس بج گئے میں تو چلا امی میرا انتظار کر رہی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ جونہی میں نے قدم گھر جانے کیلئے موڑے سعدی کی آواز آئی ’’ ہم اسی ہفتے حکومت کے خلاف ایک بہت بڑا مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں ،تمہیں بھی اس میں شرکت کرنی ہے ‘‘ میں نے مظاہرے میں جانے سے معزرت کی اور گھر چلا آیا ۔
گلی ،محلوں اور بازاروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے اعلان ہونے لگے ،لوگوں کو مظاہرے میں شرکت کی دعوت دی جانے لگی ۔ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے مظاہروں کی تشہیر پر پیسہ پامی کی طرح بہایا جانے لگا ۔ ماں نے جب مظاہروں کا سنا تو مجھے سختی کے ساتھ منع کر دیا کہ میں ہر گز ان مظاہروں میں شرکت نہ کروں بلکہ اس دن گھر سے باہر قدم بھی نہ رکھوں ۔ ماں اگر مجھے جانے سے نہ بھی روکتی تو بھی میں وہاں جانے والانہ تھا۔
شہربھر میں ہنگاموں کی وجہ سے تمام کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا تقریباً چھوٹی بڑی ہر مارکیٹ بند تھی اس کے ساتھ ساتھ سکول و کالج میں بھی چھٹی کر دی گئی تھی حکومت مخالف مظاہروں میں کیا ہوا مجھے اس کی چنداں خبر نہ تھی کیوں کہ میں اس کا عینی شاہد نہ تھا ٹی وی پہ چلنے والی خبروں سے جو اطلاعت مل رہی تھی بس اسی سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ مظاہروں میں کافی شدت تھی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان مظاہروں میں شرکت کی تھی ۔مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ وہ پارلیمنٹ تک مارچ کرتے ہوئے جائیں گے اور ایوانوں میں بیٹھے سیاسی ڈاکوں کو نکال باہر کریں گے ۔ میرا دل سمٹ کر میری مٹھی میں آ گیا جب میں نے یہ خبر سنی کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کی ایک بھاری نفری بلوا ئی گئی تھی پولیس نے حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھے تو ربڑ کی گولیاں اور پانی کی تیز دھار کا استعمال کرنا شروع کر دیا مگر پولیس کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت نہ ہوئی ،مظاہرین بپھر گئے اور انہوں نے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تہہ و بالا کرنا شروع کر دیا ،مظاہرہ اب صرف حکومت مخالف مظاہرہ نہ رہا تھا بلکہ ایک ہنگامہ بن گیا مظاہرین نے پولیس پر جوابی حملہ کردیا اور لگے پولیس پر پتھر برسانے ،میرا دل دھک دھک کرنے لگا ، میرا دھیان سعدی کی طرف چلا گیا وہ جس جذباتی انداز سے میرے سامنے حکومت کی پالیسوں پر تنقید کر رہا تھا اور اس وقت حکومت وقت کے بارے میں اس کے جو جذبات تھے ان کو بھڑکانے میں یہ مظاہرہ جلتی پر تیل کا کام کر نے والا تھا ۔مجھے پورا پورا یقین تھا اس مظاہرے میں سعدی کا کلیدی کردار ہو گا ۔ میرے دل میں طرح طرح کے ہول اٹھنے لگے بالکل اس طرح جس طرح سمندر میں موجود لہروں میں ایک دم سے ہلچل ہونے لگے ۔
میرا دل طوفان میں گھری کشتی کی طرح ہچکولے کھانے لگا ۔ جب میں نے یہ خبر سنی کے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی ہے ، متعدد مظاہرین زخمی ہیں اور ان زخمیوں میں سے اکثر کی حالت نازک ہے اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے ‘‘
خبر کا سننا تھا میرے ہواس گم ہو گئے مجھے کچھ نہ سوجھا اور میں ہسپتال کی طرف دوڑ پڑا جب میں ہانپتا ہوا ہسپتال پہنچا لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہسپتال میں موجود تھی۔ لوگوں کے جمے گھفیر میں سے پتا نہیں کیسے سعدی کے والد نے مجھے پہچان لیا ، مجھ سے لپٹ کر زارو قطار رونے لگا ۔ روتے روتے سعدی کے والد نے مجھے بتایا کہ میں سعدی کے بارے میں معلوم کروں کہ سعدی کی حالت کیسی ہے ؟ ہسپتال میں میرا دور کا ایک رشتہ دار ڈاکٹر تھا اس کی تلاش میں سر گرداں ہسپتال کے چکر کاٹنے لگا جس کسی سے بھی ڈاکٹر کا پتا پوچھتا وہ نفی میں سر ہلا دیتا ۔ ہسپتال میں ایمر جنسی نافظ تھی سارے ڈاکٹر آنے والے زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھے۔ ہواس باختہ کاؤنٹرپر آیا اور وہاں کھڑی ایک نرس سے سعدی کے متعلق دریافت کرنے لگا نرس نے بڑے اطمینان سے مجھے کہا ’’ دیکھیے صاحب زخمیوں کے جیبوں میں ان کا شناختی کارڈ تو نہیں ہوتا جس سے ہمیں معلوم ہو سکے کہ زخمی یا مرنے والے کا نام کیا ہے؟ ۔ ابھی آپ اطمینان رکھیں جب مرہم پٹی ہو جائے گی تو آپ جا کے اپنے مریض کی شناخت کر لیجئے گا ‘‘رات کے دس بجے کے قریب ایک نرس نے ہمیں مریضوں کی شناخت کرنے کی اجازت دے دی ہم وارڈ میں ایک ایک مریض کے پاس جاتے اور یہ جانے کی کوشش کرتے کہ آیا وہ سعدی تو نہیں ،ایک ایک زخمی کو جب ہم دیکھ چکے تو میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ہو نہ ہو سعدی ان ہنگامے میں ہلاک ہونے والے میں شامل ہوگا ۔ ہماری اگلی منزل مردہ خانہ تھی وہاں رکھی لاشوں کو سفید کفن سے ڈھانپ دیا گیا تھا پہلی لاش کے اوپر سے جب میں نے کپڑا ہٹایا میری زور سے چیخ نکل گئی سعدی کے والد بے ہوش ہو کر گر پڑے وہاں موجود عملہ سعدی کے والد کو ہوش میں لانے کی تگ و دو کرنے لگا ۔میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔اچانک میرے کندھوں پر کسی نے ہاتھ رکھا میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ ڈاکٹر جس کو میں نے سارے ہسپتال میں ڈھونڈا تھا اب میری نظروں کے سامنے تھا انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی ڈیوٹی مردہ خانہ میں ہے اور انہوں نے مجھے وہاں کھڑے پہچان لیا تھا ۔ میں نے ان کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپی بساط س بڑھ کر میری مدد کی ۔
ؑ عصر کے بعد ہم سعدی کو اس کی آخری منزل تک چھوڑنے جا رہے تھے میں اس کے جنازے کے ساتھ چلتا ہوا سوچ رہا تھا سعدی اس نظام کو بدلنے نکلا تھا ۔حکومت وقت کے ایوانوں کی درو دیوار کو ہلانے چلا تھا جمہوریت کے ذریعے ملک میں انقلاب لانے چلا تھا ،مگر وہ ایسا تو نہ کر سکا اور خود انقلاب کا شکار ہو گیا ۔ سعدی کے جنازے پر آئے ہوئے ملک میں جمہوریت کے ذریعے انقلاب لانے والے سیاسی لیڈروں نے ایک سیاسی بیان دیا کہ وہ سعد ی اور اس کے ساتھ جموریت کی پاس داری کیلئے قربانی دینے والوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے ۔
سعدی اپنی منزل تک پہنچ چکا تھا ہم نے جمہوریت بچانے کیلئے سعدی کو منوں مٹی کے نیچے دفن کر دیا میں خاموش کھڑا تھا مگر میرا دماغ سعدی سے ہم کلام تھا ’’ سعدی جس طرح کی جمہوریت تم چاہتے تھے اس کا تصور ہمارے ہاں نا پید تھا ، انقلاب جلسوں،جلوسوں، ہنگاموں اور مظاہروں سے نہیں بلکہ سوچوں کے بدلنے سے آتے ہیں بد قسمتی سے ہماری سوچ آج بھی محکوم
ہے اور محکوم سوچوں سے تبدیلی نہیں آتی اگر تبدیلی آتی بھی ہے تو صرف چہروں کی ۔ سعدی میں تم سے کہا کرتا تھا ہندو مت میں نظریہ تسلیس پر اگر ہم یقین رکھتے تو یوں کہا جا سکتا تھا ، یہ حکمران طبقہ دیوتا کے سر سے پیدا ہوئے ہیں ان کا کام حکمرانی کرنا اورہم عوام دیوتا کے پاؤں سے پیدا ہوئے ہیں اور ہمارا کام ان کی تابعداری کرنا ہے ۔ سو ہمیں ان کی تابعدای ہر حال میں کرنی ہے۔ سعدی تم کو میں نے یہ بتایا تھا کہ جب ایک نچلے درجے کا آدمی اونچے درجے کے آدمی کو چھوتا تو ، نجس اور پلید کہہ کر اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے یابیچ چوراہے پھانسی پہ لٹکا دیا جاتا ۔ ۔۔۔۔۔۔‘‘ میرے رخسار آنسوؤں سے تر تھے اور میں سعدی کے ساتھ ہم کلام تھا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے سعدی مجھے جمہوریت پر لیکچر دیا کرتا تھا اور میں خاموش رہتا تھا آج میں اس کو جمہورت کے خدو خال سمجھا رہا تھا اور وہ خاموش تھا ۔ تب میں نہیں سمجھ رہا تھا اس کی بات اور آج وہ نہیں سمجھ رہا تھا میری بات ۔
ابھی سعدی کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا جب سعدی کے خون کا بدلہ لینے والے اور سعدی کو شہید جمہوریت کہنے والے حکومت وقت کے ساتھ کچھ لے اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت حکومت کا حصہ بن چکے تھے ہنگانے میں پکڑے جانے والوں کو رہائی مل گی اور انقلاب لانے والوں کو وزارت۔ میں جب بھی سعدی کی قبر پہ جاتا ہوں اس کے سرہانے لگے کتبے پر لکھے ’’ شہید جمہوریت ‘‘ کے الفاظ منہ چڑھاتے ہیں میں فاتحہ پڑھتا ہوں سعدی کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کرتا ہوں ۔سعدی کو جمہوریت کے موضوع پر لیکچر دیتا ہوں اور گھر آ جاتا ہوں۔