حالی اورشبلی اردوادب کے دو روشن دماغ – – – تلنگانہ یونیورسٹی میں اردوسمینار

Share

telengana

حالی اور شبلی اردو ادب کے دو روشن دماغ

شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام دوروزہ قومی اردو سمینار
ڈاکٹرسید تقی عابدی اورپروفیسر مظفرعلی شہہ میری کا خطاب

نظام آباد : حالی اور شبلی ہندوستان ہی کے نہیں بلکہ عالمی سطح کے دو روشن دماغ ہیں۔سرسید کے ان رفقائے کاروں نے انیسویں صدی میں خواب غفلت میں ڈوبی قوم کو اپنی تحریروں سے جگایا اور اپنے شعری و ادبی کارناموں سے نہ صرف اپنے دور کو بلکہ آنے والے زمانے میں بھی لوگوں کو سماجی اور تہذیبی مسائل کے حل کی راہ دکھائی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حالی اور شبلی کی فکر کو عام کیا جائے اور عہد حاضر کی تہذیبی وسماجی زندگی میں ان کے افکار اور کارناموں سے روشنی حاصل کی جائے۔

ان خیالات کا اظہار نامور محقق ‘ماہر اقبالیات و انیس ڈاکٹر سید تقی عابدی (کنیڈا ) وزیٹنگ پروفیسر شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی نے شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ قومی اردو سمینار بعنوان’’ حالی اور شبلی ہندوستان کے دو روشن دماغ‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر آر لمبادری رجسٹرار تلنگانہ یونیورسٹی نے کی ۔ جب کہ مہمان خصوصی پروفیسر مظفر شہہ میری صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد اور مہمان اعزازی پروفیسر پی کنکیا ڈین فیکلٹی آف آرٹس تلنگانہ یونیورسٹی نے شرکت کی۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کلیدی خطبہ کے دوران مزید کہا کہ حالی نے مناجات بیوہ کے ذریعے حقوق نسوان اور لڑکیوں کی تعلیم کی تائید اور ستی کی رسم کے خلاف آواز اٹھائی۔ مناجات بیوہ کے بعد انگریز حکومت نے کمسن لڑکیوں کی شادی پر پابندی لگائی۔حالی کے کلام میں ہندو مسلم اتحاد اورقومی یکجہتی کا پیغام ملتا ہے۔ حالی کی حب وطن جیسی نظمیں اردو میں قومی و وطنی شاعری کی اہم مثالیں ہیں۔پروفیسر مظفر علی شہہ میری صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرسید کے رفقائے کاروں حالی اور شبلی نے نامساعد حالات میں علم حاصل کیا اور اپنی شاعری‘تنقید‘سوانح نگاری اور تاریخ نگاری سے بے مثال کتابیں پیش کیں۔ آج ہمیں اردو کے ان دو روشن دماغوں سے یہ سبق حاصل کرنا ہے کہ ہم ان کی طرح اپنی مادری زبان و علاقائی اور ایک بیرونی زبان سیکھیں اور ان زبانوں پر مہارت حاصل کریں۔اسی طرح مطالعے کی کثرت اور حصول علم کا ذوق بھی ترقی کی جانب ہمیں گامزن کرسکتا ہے۔ ہمیں حالی اور شبلی کی طرح سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ترقی کو اپنانا چاہئے اور ان سے مثبت نتائج حاصل کرنا چاہئے۔ افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر آر لمبادری رجسٹرار اور پروفیسر پی کنکیا نے شعبہ اردو کو مبارک باد پیش کی کہ شعبہ اردو کے اساتذہ اس طرح کے سمینار منعقد کرتے ہوئے اردو کے فروغ کی کوشش اور یونیورسٹی کا نام روشن کر رہے ہیں۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر شعبہ اردو کی جانب سے مہمانوں کی شال پوشی اور انہیں تہنیت پیش کی گئی۔قبل ازیں ڈاکٹر اطہر سلطانہ صدر شعبہ اردو نے مہمانوں کا استقبال کیا اور خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے اردو سمینار کے انعقاد کے اغراض و مقاصد پیش کئے اور شعبہ اردو کی جانب سے منعقد کئے جانے والے مختلف پروگراموں کی تفصیل پیش کی۔ ڈاکٹر موسیٰ قریشی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے افتتاحی اجلاس کے اختتام پر شرکائے سمینار سے اظہار تشکر کیا۔افتتاحی اجلاس کے بعد مقالوں کی پیشکشی کا پہلا تکنیکی سیشن منعقد ہوا۔ اس سیشن کی صدرات پروفیسر مظفر علی شہہ میری صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کی۔ جب کہ مہمان خصوصی ڈاکٹر سید تقی عابدی وزیٹنگ پروفیسر تلنگانہ یونیورسٹی تھے۔ اس سیشن میں مقالہ جات پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج کڑپہ نے ’’ شبلی بہ حیثیت شاعر‘‘۔ ڈاکٹر نکہت جہاں اسوسی ایٹ پروفیسر مولانا آزاد اردو یونیورسٹی نے ’’ بیداریء نسواں کے علمبردار حالیؔ ‘‘۔ ڈاکٹر محمد نثار احمد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو ایس وی یونیورسٹی نے’’ حالی اور بچوں کا ادب‘‘۔ڈاکٹر بی بی رضا خاتون اسسٹنٹ پروفیسر اردو مولانا آزاد اردو یونیورسٹی نے’’ شبلی کی مکتوب نگاری کا تجزیاتی مطالعہ‘‘۔ڈاکٹر شجاعت علی راشداسوسی ایٹ پروفیسر مولانا آزاد اردو یونیورسٹی نے’’ شبلی بیسویں صدی کے اہم ستون‘‘ ڈاکٹر موسی اقبال اسسٹنٹ پروفیسر اردو شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی نے’’ حالی اور جدید شاعری‘‘ ڈاکٹر عتیق اقبال پرنسپل اردو آرٹس ایوننگ کالج حیدرآباد نے ’’ حالی بہ حیثیت نظم نگار‘‘ ۔ ڈاکٹر عسکری صفدر پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج آرمور نے ’’ حالی کا تنقیدی شعور‘‘۔ محمد نذیر احمد صدر شعبہ اردو شعبہ اردو یونیورسٹی کالج فار ویمن کوٹھی نے ’’ شبلی کا سیاسی شعور‘‘اور ڈاکٹر سید علیم اللہ حسینی اسسٹنٹ پروفیسر بیجاپور نے ’’ مسدس حالی کی عصری معنویت ‘‘پر معلوماتی اور پر مغز مقالے پیش کئے۔ اس اجلاس میں پیش کئے مقالہ جات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سید تقی عابدی نے کہا کہ مقالہ نگاروں نے حالی اور شبلی کی حیات اور خدمات کے بہت سے گوشوں کو عام کیا اور ان روشن دماغ ادیبوں اور شعرا کی عصری معنویت کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔پروفیسر مظفر شہ میری نے کہا کہ مقالہ نگاروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے لئے جو بھی موضوع طے کریں اس کا وسیع تر مطالعہ کریں اور اپنی فکر کے ذریعے اس موضوع سے کوئی نیا نکتہ نکالنے کی کوشش کریں انہوں نے تمام مقالہ نگاروں اور منتظمین سمینار کو اہم موضوع پر سمینار کے انعقاد اور مقالوں کی پیشکشی کے لئے مبارک بادی پیش کی۔ سمینار کے پہلے دن کے اختتام پر اردو فیسٹیول کے مختلف ادبی مقابلوں میں انعام یافتہ طلبا و طالبات میں مہمانوں کے ہاتھوں انعامات کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔قومی سمینار کے دوسرے دن اجلاس کی صدارت ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کی جب کہ مہمان خصوصی کے طور پر جناب محمد نصیر الدین صاحب سابق رکن عاملہ تلنگانہ یونیورسٹی و سابق صدر شعبہ تاریخ گری راج کالج نے شرکت کی۔ دوسرے دن کے مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نے ’’ حالی کی زندگی اور کلام میں انسانی اقدار‘‘۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد نے’’ رباعیات حالی کی اخلاقی جہتیں‘‘۔ محمد اسماعیل خان لیکچرر اردو نظا م کالج نے’’ شبلی کے معاصرین‘‘۔ ڈاکٹر گل رعنا اسسٹنٹ پروفیسر اردو تلنگانہ یونیورسٹی نے’’ حالی بہ حیثیت سوانح نگار‘‘۔ ڈاکٹر محمد عبدالقوی چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز تلنگانہ یونیورسٹی نے ’’ شبلی اور شعر العجم ایک مطالعہ‘‘ اور محمد عبدالرحمٰن صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج بودھن نے ’’ عصر حاضر میں حالی کی معنویت‘‘ کے عنوانات پر مقالے پیش کئے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جناب محمد نصیر الدین صاحب نے کہا کہ تلنگانہ کی تمام یونیورسٹیوں میں تلنگانہ یونیورسٹی کا شعبہ اردو فعال شعبہ ہے اور اس شعبے کی جانب سے اردو فیسٹیول اور اردو کے قومی سمیناروں کا انعقاد خوش آئیند بات ہے اور یہاں سے فروغ اردو کی جو شمع روشن ہورہی ہے امید ہے کہ اس کی روشنی ساری دنیا میں عام ہوگی۔ انہوں نے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر اطہر سلطانہ اور شعبہ اردو کے تمام اساتذہ کو مبارک باد پیش کی ۔ ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کہا کہ حالی اور شبلی ہندوستان کے دو روشن دماغ موضوع پر اس سمینار کے انعقاد سے اردو کے دو اہم شعرا اور ادیبوں کی فکر کو عام کرنے میں مدد ملی ہے۔ڈاکٹر محمد ناظم علی نے دوروزہ سمینار پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور سمینار کے کامیاب انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد پیش کی۔ ڈاکٹر محمد عبدالقوی نے نظامت کے فرائض انجام دئے ۔ جب کہ ڈاکٹر گل رعنا نے شکریہ ادا کیا۔ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر اطہر سلطانہ نے اس موقع پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کو سمینار کے انعقاد میں تعاون پر شکریہ ادا کیا اور سمینار کے منتظمین شعبہ اردو کے طلبا و طالبات ‘ریسرچ اسکالرس ‘صحافیوں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے تعاون پر اظہار تشکر کیا۔

Share
Share
Share