تحقیقاتی صحافت : تاریخ کے آئینہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز

Share

تحقیقاتی ۔ فاضل حسین

تحقیقاتی صحافت : تاریخ کے آئینہ میں

ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
مدیر ہفتہ روزہ گواہ ۔ حیدرآباد – دکن
موبائل : 09395381226
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انوسٹی گیٹیو جرنلزم یا تحقیقاتی صحافت کی ہر دور میں بڑی اہمیت رہی ہے۔ انگریزی صحافت نے اسے فروغ دیا اور بعض سنسنی خیز انکشافات کی وجہ سے انگریزی صحافت کا وقار بلند ہوا۔ صحافیوں کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا۔کئی صحافیوں نے اپنی جان ہتھیلی پہ لے کر خود کو خطرے میں ڈال کر کئی راز فاش کئے۔ اور بہت سی سماجی برائیوں، انتظامیہ، پولیس کی ناانصافیوں کی روک تھام میں اہم رول ادا کیا۔

حال ہی میں وکی لیکس کے انکشافات نے دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے۔وکی لیکس ایک آن لائن ویب سائٹ ہے جس پر دنیا بھر کے خفیہ دستاویزات اَپلوڈ کئے ہوئے ہیں۔ Julian Assangeنے تقریباً سبھی ممالک کے دستاویزات کو منظر عام پر لاکر کئی چہروں کو بے نقاب کیا۔ کئی سرکردہ بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیات کے گھناؤنے مکروہ چہرے بے نقاب ہوئے۔ کئی ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ تاہم انوسٹی گیٹیو یا تحقیقاتی صحافت کی ایک بہترین مثال ہے۔ نہ صرف میڈیا بلکہ مختلف ممالک بھی اپنے اپنے ذرائع سے جاسوسی کرتے رہتے ہیں۔اس وقت امریکہ پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے ساری دنیا میں اپنی جاسوسی کا جال پھیلادیا اور سربراہانِ مملکت کے علاوہ عام شہریوں کے بھی اعداد و شمار ان کی تفصیلات اپنے پاس اکٹھا کررکھی ہیں۔ امریکہ کے دوست ممالک بھی اس رویہ سے ناراض اور نالاں ہیں۔ کیوں کہ امریکہ نے جرمنی، فرانس جیسے دوست ممالک کے سربراہوں کی ٹیلیفونک ٹیاپنگ شروع کی ہے۔ فیس بک سے لے کر موبائل فون کی بات چیت اور پیغام رسانی اس کے پاس ریکارڈ کی گئی ہے۔ فون ٹیاپنگ کوئی نئی بات نہیں۔ اہم شخصیات کے فون خفیہ طور پر ٹیپ کئے جاتے رہے ہیں۔ 2011ء میں Radia Tapes نے تہلکہ مچایا تھا جب راڈیا نے جو ایک اڈورٹائزنگ گروپ کی منیجنگ ڈائرکٹر ہیں‘ سینکڑوں مشہور شخصیات کی ٹیلیفون ٹیاپنگ کی تھی جس کے منظر عام پر آ نے کے بعد ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے سرکردہ افراد کے خفیہ راز منظر عام پر آگئے تھے۔
انوسٹی گیٹیو جرنلزم یا جرنلسٹ کے بارے میں برطانوی میڈیانظریہ ساز HUGO DE BURGH نے کہا ہے کہ ایک تحقیقاتی جرنلسٹ وہ ہوتا ہے جس کا پیشہ حقائق کا پتہ چلانا اور ان خامیوں کی شناخت کرنا ہے جو دوسروں کی آنکھ سے اوجھل ہے۔اسے تحقیقاتی صحافت کہتے ہیں اگرچہ کہ یہی کام پولیس، وکلا، آڈیٹرس اور ریگولیٹری ادارے کرتے ہیں۔ صحافت کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات درج ہیں جب صحافیوں نے جوکھم مول کر صحافت کی خدمت انجام دی۔ 1872ء میں نیویارک ٹریبیون کے صحافی جولیس چیمبرس نے اپنے آپ کو بلومنگ ڈیل پاگل خانہ میں شریک کروالیااور اپنی تحقیقات کی بدولت ایسے 12مریضوں کو اس پاگل خانہ سے نجات دلائی جو پاگل نہیں تھے۔ جس کی بدولت انتظامیہ کے ڈھانچہ کو دوبارہ تشکیل دیا گیا اور مجہول قوانین کی اصلاح کی گئی۔
1885ء میں ولیم تھامس اسٹیڈ کے مضامین اور رپورٹنگ کی بدولت وکٹوریا لندن میں بچوں کے جنسی استحصال کا پردہ فاش ہوا۔ 1906ء میں اپٹان سن کلیر نے میٹ پیاکنگ انڈسٹری میں حفظان صحت کے اصولوں کی پامالی کو بے نقاب کیا تھا۔ انوسٹی گیٹیو جرنلزم کو عروج 50برس پہلے سے ہوا۔ 1970ء میں Seymour Hersh نے ویتنام کی جنگ اور 2004ء میں ابوغریب جیل میں پولیس اور فوج کے ہاتھوں قیدیوں کے ساتھ اذیت رسانی کے واقعات کو منظر عام پر لایا جس سے ساری دنیا میں تہلکہ مچا سیمرہرش کو 1970ء میں Pulitzer ایوارڈ پیش کیا گیا۔ 1973ء میں واشنگٹن پوسٹ کے کرائم رپورٹر Bob Wood Ward اور Carl Bernstein نے واٹر گیٹ اسکینڈل کو بے نقاب کیا۔ وہائٹ ہاؤز میں ہونے والی سرگرمیوں کو بے نقاب کیا جس کے نتیجہ میں امریکی صدر رچرڈنکسن کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ انہیں بھی 1973 میں Pulitzerایوارڈ پیش کیا گیا۔ترکی صحافی عوغر ممکو نے اعلیٰ سطحی حکام کے جرائم کا پردہ فاش کیا جس میں کردش ورکرس پارٹی کی انٹلیجنس سے ساز باز ، حزب اللہ کو ایرانی مددوغیرہ‘ انہیں 1993ء میں قتل کردیا گیا۔آئر لینڈ کے Veronica Guerim نے جو ایک خاتون جرنلسٹ تھیں‘ اپنے قتل سے پہلے آئرلینڈ کے حکام بالا کے جرائم کو بے نقاب کیا تھا۔ حالیہ عرصہ کے دوران ابوغریب جیل گونتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ اذیت رسانی کے واقعات انسانیت سوز سلوک کو بھی صحافیوں نے منظر عام پر لایا۔
ہندوستان میں تحقیقاتی صحافت ہر دور میں رہی مگر انگریزی اخبارات نے اس میں سبقت حاصل کی۔ اس کی وجہ انگریزی اخبارات کا انتظامیہ اپنے کرائم رپورٹرس کو مکمل سیکوریٹی فراہم کرتا ہے۔ اگر حکام بالا کی بدعنوانیوں، سیاستدانوں کی رشوت خوری کے خلاف کرائم رپورٹرس تحقیقات کے بعد کوئی خبر چھاپتے ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ درپیش ہو تو انگریزی اخبارات کی انتظامیہ ڈھال بن کر اپنے رپورٹرس کی حفاظت کرتا ہے۔ ہندوستان میں کئی صحافیوں نے کئی اہم گھپلوں کو بے نقاب کیا۔ارون شورے، پرتیش مندی، سواپن داس گپتا، تہلکہ کے ترون تیج پال نے انوسٹی گیٹیو جرنلزم میں کافی نام کمایا۔ تہلکہ نے کئی اسکامس کو بے نقاب کیا۔ جن میں ہندوستانی دفاع کے شعبے میں ہونے والی دھاندلیاں،سیاستدانوں کی رشوت خوری، بی جے پی صدر بنڈارو لکشمن کی رشوت خوری قابل ذکر ہیں۔ کرکٹ میاچ فکسنگ، فلم اسٹارس اور اہم قائدین کے سیکس اسکینڈلس کو بھی ہندوستانی ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے صحافیوں نے بے نقاب کیا۔ انگریزی اخبارات کے صحافیوں نے انڈرورلڈ کو بھی بے نقاب کیا۔ مڈ ڈے ممبئی کے کرائم رپورٹ جیوتی ماؤ دیو کو 11؍جون 2011ء کو انڈرورلڈ سے تعلق رکھنے والوں نے گولی ماردی۔ بعض علاقائی اخبارات کے صحافیوں نے بھی ہمت کی اردو میں بہت کم اس قسم کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں کیوں کہ اردو اخبارات کا انتظامیہ ارباب اقتدار سے ان معاملات میں مقابلہ آرائی سے گریز کرتا ہے۔ اگر کوئی صحافی جان جوکھم میں ڈال کر کوئی اسکام بے نقاب کرتا ہے اور اخبار کے خلاف مقدمہ دائر ہوجاتا ہے تو بیشتر اردو اخبارات نہ صرف اظہار معذرت کرلیتے ہیں بلکہ اپنے صحافی کو اسکی دلیری کے انعام کے طور پر اس کا شعبہ بدل دیتے ہیں یا پھر انہیں نکال بھی دیا جاتا ہے۔
انوسٹی گیٹیو جرنلزم ان دنوں عام ہوچکی ہے۔ پین، کوٹ کے بٹن، لیڈیز پرس لاک، کسی کمرے کی دیوار پر لگے سوئچ بورڈ میں چھپے اسپائی کیمروں کی بدولت اسٹنگ آپریشنس عام ہوگئے ہیں۔ ان اسٹنگ آپریشن ہی کی بدولت گجرات فسادات کے خاطیوں کو جیل تک پہنچایا گیا۔ سلکشن کاؤچ کے نام پر جنسی استحصال کا بھانڈا پھوڑا گیا۔ تانترکوں، ڈھونگی باباؤں کے خلاف کاروائی ممکن ہوسکی۔ ستیہ سائی بابا سے لے کر آسارام بابو تک کے سیکس اسکینڈلس کو اسٹنگ آپریشن کے ذریعہ ہی بے نقاب کیا گیا۔ اردو اخبارات سے وابستہ صحافیوں میں تحقیقاتی صلاحیتیں موجود ہیں۔ حیدرآبادی جواں سال صحافی ابوایمل نے منصف اور سیاست کے لئے کئی سنسی خیز انکشافات کئے ہیں۔ اوقافی جائیدادوں پر ناجائز قبضے، سنگھ پریوار کے خفیہ منصوبے اور ایسے کئی رپورٹس منصف اور سیاست میں شائع کی گئیں۔ ابوایمل جنہیں مدینہ ایجوکیشن سنٹر کے بانی سکریٹری کے ایم عارف الدین نے اپنے اخباری کالم ذرا غور کیجئے میں اردو کے وکی لیکس کا خطاب دیا ہے۔ ان کی کامیابی کی وجہ جہاں ان کی دلیری ہے وہیں ان کی مستحکم معاشی حالت بھی ہے۔چونکہ یہ معاشی فکر سے آزاد ہیں اور گذر بسر کا انحصار ا خبار کی تنخواہ پر نہیں ہے اس لئے وہ پوری بے خوفی کے ساتھ تحقیقاتی جرنلزم سے وابستہ ہیں۔ اردو صحافت میں تحقیقاتی صحافت سے زیادہ کرائم رپورٹنگ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ کرائم رپورٹنگ ایک جوکھم بھرا فن ہے۔ عموماً اردو اخبارات جوکھم اٹھانے کے لئے تیار نہیں رہتے‘ کیوں کہ ان پر مقدمات دائر کرنے میں دیر نہیں کی جاتی۔یوں تو اردو صحافت کے کئی کرائم رپورٹرس نے شہرت حاصل کی تاہم حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے چند کرائم رپورٹرس میں خرم نفیس (رہنمائے دکن)، جبار صدیقی (سیاست نیوز)، بلال (سیاست)، فرخ شہریار (رہنمائے دکن)، شفیق الرحمن (منصف)، سبحان ( مختلف ٹی وی چیانلس)محمد رضوان کے نام قابل ذکر ہیں۔
تحقیقاتی جرنلزم کے بارے میں اردو صحافیوں کا عمومی طور پر یہی خیال ہے کہ یہ حادثات ہلاکتوں اور فسادات تک محدود ہیں۔اردو صحافیوں کے پاس آج اگرچہ کے وسائل کی کمی نہیں ہے تقریباً ہر ایک صحافی کے پاس لیٹسٹ موبائل فونس، اسپائی کیمرے ہیں۔ ان کے پاس تحقیقاتی مواد کی بھی کمی نہیں ہے‘ صرف کمی ہے تو اخبارات کے مالکین کی سرپرستی کی۔ اور جاب سکیوریٹی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو اخبارات کے صحافی انوسٹی گیٹیو جرنلزم کی بجائے کرائم رپورٹنگ تک محدود ہیں۔ اور یہ کرائم رپورٹنگ پولیس کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات تک محدود ہے۔کرائم رپورٹنگ کو ذرا سی دلچسپی اور محنت سے انوسٹی گیٹیو جرنلزم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ آئے دن پُراسرار قتل، اغوا کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ انہی کی صحافی خود بھی تحقیقات کرسکتے ہیں بشرطیکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ اگر اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے تقدس کو مفاد پرستوں نے پامال بھی کیا۔ صحافت کی مختلف اقسام ہیں۔ یہ جہاں چوتھی مملکت ہے وہیں سماج کی نگران بھی‘ مصلح بھی‘ مخبر بھی ہے۔ ہر دور میں یہ رائے عامہ کو ہموار کرنے یا بگاڑنے میں اہم رول ادا کرتی رہی۔ تحقیقاتی سرگرمیوں کے ذریعہ جسے انوسیٹیگیٹیو جرنلزم کہا جاتا ہے۔ ایسے ایسے راز جنہیں ان دنوں گھپلے یا اسکام کہاجاتا ہے منظر عام پر لائے جاتے ہیں جس سے سفید پوش چہرے بے نقاب ہوتے ہیں۔ انوسٹیگیٹیو جرنلزم سماجی برائیوں پر قابو پانے میں معاون ہوسکتی ہے۔ اسی کی بدولت واٹرگیٹ اسکینڈل منظر عام پر آیا جس کی بناء پر امریکی صدر رچرڈنکسن کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ کلنٹن اور مونیکالیونسکے کے تعلقات ہوں کہ لیڈی ڈائنا اور ان کے پولو کوچ James Hewittکے درمیان روابط یا مصری بزنس مین فہد سے روابط جس کی بناء پر ڈائنا اور پرنس چارلس میں علیحدگی ہوئی۔ یا پھر آزاد ہندوستان کی تاریخ کے اَن گنت اسکینڈلس جس میں لاکھوں کروڑ روپئے کی ہیرا پھیری یا تغلب کیا گیا۔ کوئلہ اسکام، چارہ اسکام، تھری جی اسکام، تابوت اسکام ایسے اَن گنت اسکامس انوسٹگیٹیو جرنلزم کی دین ہیں جب کہ وکی لیکس انکشافات اس سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے۔ابتداء ہی سے جبکہ پرنٹ جرنلزم اپنے ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں تھا تب ہی سے انوسٹگیٹو جرنلزم کی روایت رہی ہے۔ امریکی صدر جارج کنیڈی اور اپنے دور کی مشہور ہالی ووڈ ایکٹریس مارلن مینورو کے درمیان گہرے تعلقات کی بھی اُس دور میں فلم بندی کی گئی تھی۔ یہ فلم جو مشکل سے ایک منٹ وقفہ کی ہوگی حال ہی میں کئی ملین ڈالرس میں فروخت کی گئی۔
مارلن مینورو کے امریکی صدر جان کنیڈی کے بھائی روبرٹ کنیڈی اور فلمی اداکار پیٹر لافورڈ کے علاوہ کئی سرکردہ شخصیات سے گہرے روابط تھے۔ ایف بی آئی کی فائلس کے مطابق مارلن مینورو کو مافیا نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا تھا۔ 1992ء میں ہالی ووڈ کے بدنام ترین پرائیویٹ ڈیٹکٹیو فریڈ اوٹاشFRED OTASH کی موت کے بعد ان کی بیٹی کولین نے یہ انکشاف کیا کہ مارلن مینورو اور کینڈی برادرس کے درمیان 5اگست 1962ء کو جنسی تعلقات پیدا ہوئے اور خود مارلن مینورو کی یہ شکایت تھی کہ اسے گوشت کے لوتھڑے کی طرح کینیڈی برادرس نے ایک دوسرے کو فراہم کیا۔ اوٹاش نے مینورو اور کینیڈی برادرس کے درمیان کی بات چیت کو بھی ٹیپ کیا تھا اور اس کی فلمبندی بھی کی تھی۔ کرائم ناول نگار جیمس ایل رائے جنہوں نے اوٹاش کے ساتھ ملاقات کے بعد مینورو اور کینیڈی کے واقعہ پر ناول بھی لکھی۔ یہ اعتراف کیا کہ اس نے اس ٹیپ کی گواہی دی۔ اس قسم کے ٹیپ اور فلم اب جرنلزم کی معمولات میں شامل ہوچکے ہیں جنہیں اسٹنگ آپریشن کا بھی نام دیا جاتا ہے۔
تحقیقاتی صحافت ان دنوں عام ہوچکی ہے۔ جاسوس کیمرے، جو کوٹ کے بٹن، عینک، قلم میں یا کسی کمرے کے سوئچ بورڈ میں چھپے ہوئے ہیں۔ سفید پوشوں کے سیاہ کرتوتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
صحافت اگر کسی مسئلہ پر تائید، مخالفت یا وکالت کرے تو اسے ایڈوکیسی جرنلزم کہا جاتا ہے۔ پرنٹ ہو کہ الکٹرانک میڈیا یا پھر سوشیل میڈیا‘ ایڈوکیسی جرنلزم عام ہوچکی ہے۔ لمحوں میں رائے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے۔ ان کی رائے سے واقفیت حاصل کی جارہی ہے۔ اسے اوپنین پول کا بھی نام دیا جاتا ہے۔

Share
Share
Share