ہندوستان کی پہلی مسجد چیرامان پیرومل ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی

Share

مسجد چیرامان

ہندوستان کی پہلی مسجد جو رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں تعمیر ہوئی

مسجد چیرامان پیرومل
کو ڈنگلور، کیرالا

ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی، ورنگل
موبائل : 09866971375

ایک دن میں نے گھر میں بچوں سے تذکرہ کیا کہ ہندوستان میں ایک ایسی مسجد ہے جو اُس دور میں بنائی گئی جب رسول اللہ ﷺ نے پردہ نہیں فرمایا تھا۔ بچے یہ سن کر تعجب میں پڑھ گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہندوستان میں اسلام اُس دور میں داخل ہوگیا تھا جب عرب میں رسول اللہ ﷺ تبلیغ دین میں مصروف تھے۔میں نے کہا ۔۔ہاں ۔۔بعض روایتوں کے مطابق 8؍جون 632ء میں رسول اللہﷺ نے پردہ فرمایا اور اس چیرامان مسجد کی سنگ بنیاد 629ء میں رکھی گئی۔اس مسجد کو صحابی رسول حضرت مالک بن دینارؓ نے بنوایا بچوں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا ۔۔ کہ یہ مسجد کہاں ہے۔میں نے انہیں بتایا کہ یہ مسجد کیرالا میں ہے۔ اس کے بعد تمام بچوں نے مجھ سے اصرار کیا کہ ہم سب اس مسجد کو دیکھنے کے لئے جائیں گے۔میں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا اور کہا کہ تابعی صحابی حضر ت حبیب حسین بن مالک ؓ کی مزار مبارک بھی اسی مسجد میں ہے۔یہ سن کر بچوں کی دلچسپی اس قدر بڑھی کہ انہوں نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی کیرالا کا پروگرام بنالیا۔

کیرالا جنوبی ہند کا خوبصورت مقام ہے جہاں کی خوبصورتی مثالی ہے بعض سیاحوں نے اس کو جنوبی ہند کی جنت قرار دیا ہے ۔ کیرالا کے سواحل بالخصوص مالابار پر اہل عرب کے کئی سفینے اُترتے تھے اور وہ ہندوستان سے اس ساحل کی مدد سے تجارتی تعلقات رکھتے تھے ۔ اس مقام کو ’’پالی‘‘ اور’’ سنسکرت‘‘ زبان میں چیران کہا جاتا ہے جس کو بعد میں کیرالا کہا جانے لگا۔ اہل عرب کی زبانوں پر یہ نام مشکل سے آتا تھا اس لئے انہوں نے اس کو’’ خیر اللہ‘‘ کہنا شروع کیالیکن اس نام کو وسعت نہیں دی کیرالااپنی آیورویدک دواؤں کیلئے مشہور ہے۔
یہ ہندوستانی تاریخ کا ایک نا قابل یقین لیکن حقیقی باب ہے۔زمانہ قدیم میں کیرالا کے علاقہ Kodungallur(کوڈنگلور)کا بادشاہ چیرمان پیرومل بھاسکرا روی ورما ؔ ہوا کرتا تھا،جس نے ایک خواب دیکھا۔ اس خواب نے اس کی شخصیت کو بدل دیا، وہ ہمیشہ اسی خواب کے بارے سوچتا اور متفکر رہا کرتا۔اس بادشاہ نے اس خواب کو اپنے درباریوں کو بھی سنایا تاکہ وہ اس کی تعبیر بتائیں ، کئی ماہرین نجوم و فلکیات سے ربط پیدا کیا گیا اور اس تعلق سے معلومات حاصل کی گئیں لیکن کسی نے بادشاہ کو تشفی بخش جواب نہیں دیا ، وہ خواب دراصل بڑا ہی عجیب تھا ، اس نے خواب میں آسمان پر چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا تھا۔( بعض روایتوں کے مطابق اس بادشاہ نے بچشم خود معجزہ شق القمر کا مشاہدہ کیا تھا)۔
اس واقعہ کو گذرے کچھ عرصہ ہوا تھا کہ کوڈنگلور میں عرب تجار بغرض تجارت پہنچے ۔ کوڈنگلور(جس کو ‘Muziris’ بھی کہا جاتا ہے ) نہ صرف کیرالا کا مشہور علاقہ تھابلکہ قبل مسیح سے یعنی تقریباً تین ہزار برس سے ہندوستان کی معتبر تجارتی منڈی بھی تھا،سمندری راستے سے کی جانے والی اس علاقے کی تجارت دور دراز تک مشہور تھی، یہاں ہیرے جواہرات، کپڑے ،مصالحہ جات ، ساگوان کی لکڑی اور دوسرے کئی اقسام کی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔یہودیوں کی مقدس کتب میں کیرالا کے مصالحہ جات کا تذکرہ موجود ہے، اسی لئے عربی، یونانی اور ٹامل زبانوں میں ان مصالحہ جات کے ناموں میں مشترک صوتی لہجہ ملتا ہے تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ملکہ سباؔ نے حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں جو مصالحہ جات پیش کئے تھے وہ بھی کیرالا ہندوستان سے منگوائے گئے تھے ۔ میسو پوٹیمیا کے کئی منادر اورنصر بخت ؔ کے محلات میں کیرالا کی ساگوان کی لکڑی لگائی گئی تھی ۔اسی لئے کیرالا کئی ممالک جیسے یونان ، فارس، چین، عرب، روم وغیرہ سے تجارتی تعلقات رکھتا تھا اور ان ممالک کے تجار اپنا تجارتی مال یہاں لایا کرتے تھے۔اسی لئے اس مقام کے متعلق مشہور مورخ Pliny نے بھی اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ کوڈنگلور ہندوستان کا اہم تجارتی مرکز اور ملک کی بہترین بندرگاہ ہے۔اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے آگسٹس سیزرؔ نے اس مقام پر اپنے عقیدے کے مطابق ایک عبادت گاہ بھی تعمیر کروائی تھی ،اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ طلوع اسلام سے قبل بھی عرب تجاراس علاقے کا سفرکیا کرتے تھے۔ اسی لئے جب عرب تجار کا ایک قافلہ اس علاقے میں پہنچا تو حق کی تلاش میں سرگرداں بادشاہ نے اس خیال سے کہ شاید تجارت کی غرض سے یہاں پہنچنے والے عرب تجار اس خواب کی تعبیر بتاسکیں ،ان عرب تجار کے سامنے اپنا خواب بیان کیا ۔ خواب سننے کے بعد عرب تجار نے کچھ سوالات کئے اور بادشاہ سے پوچھا کہ یہ کب کا واقعہ ہے جب بادشاہ نے ٹھیک ٹھیک وقت بتادیا تو ان عرب تجار نے بتایا کہ بالکل اسی وقت عرب میں کچھ اہلیان عرب کی خواہش پر نبی آخر الزماں ﷺ نے چاند کو دو ٹکڑے فرمایا تھا ۔ بادشاہ یہ باتیں غور سے سن رہا تھا۔ عرب تجار بتا رہے تھے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا، اللہ کا بنایا ہوا آسمان اور زمین نہایت وسیع ہے،ممکن ہے اس دن عرب کے آسمان پر نبی آخر الزماں ﷺ کی انگلی کے اشارے سے شق ہونے والے چاند کو دنیا کے دوسرے علاقوں کے افراد نے بھی دیکھا ہو۔ یہ خالق کا اختیار ہے اگر خالق چاہے تو زمین کو سمیٹے تو ذرہ بنادے یا چاہے تو ذرے کو پھیلا کر آسمان بنادے۔ چونکہ یہ ایک انہونی واقعہ تھا اسی لئے اکثر نے اس کو خواب پر محمول کیا، ویسے بعض افرادنے اس کو حق جانا اور اسلام قبول کرلیا کہ یہ توفیق خداوندی ہے لیکن جن کفار کی خواہش پر یہ معجزہ بتلایا گیا وہ خود اس کا انکار کرنے لگے، اس کو جادو قرار دیا اور قبول اسلام کے تعلق سے حیلے بہانے تلاشنے لگے لیکن دور دراز علاقے کے رہنے والے افراد کہ جن کو خدا نے توفیق عطا فرمائی اور جنہیں اس واقعے کا دیدار خواب میں کروایا ان کو ہدایت دے دی اور اسلام سے مشرف کردیا۔بادشاہ ان کے جواب سے مطمئن ہوگیا اور اس کے دل میں یہ خواہش انگڑایاں لینے لگی کہ مجھے مکہ المکرمہ جانا چاہئے اور رسول برحق ﷺ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کرنا چاہیے ۔ اس واقعہ کا ذکر مشہور اسلامی دانشور و محقق ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنی ایک تصنیف میں کیا ہے۔اس طرح اس افسانوی بادشاہ نے اپنے مکہّ جانے کو راز میں رکھا اور بادشاہت کو اپنے بھتیجوں اور بیٹوں میں تقسیم کرکے خودکچھ ہم خیال لوگوں اور وزراء کے ساتھ بذریعہ سمندری جہاز عرب تجار کے ساتھ مکہ کے سفر پر روانہ ہوگیا۔مکہ المکرمہ پہنچ کر اس بادشاہ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی موجود گی میں رسول اللہ ﷺ کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا، اس بادشاہ کا اسلامی نام تاج الدینؓ (بعض روایتوں کے مطابق عبداللہ سمودری )ؓرکھا گیا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت کے مطابق اس بادشاہ نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں ہندوستان سے لے جایا گیا ادرک کا اَچار پیش کیا ،جس کو رسول اللہ ﷺ نے موجود صحابہ میں تقسیم فرمایا ۔ اس بادشاہ نے کچھ برس عرب میں رہ کر دین کی تعلیم حاصل کی ،بعض روایتوں میں لکھا ہے کہ اس بادشاہ نے جدہ کے حکمراں کی بہن سے شادی بھی کی اور کچھ برس بعد ہندوستان واپس ہونے کا ارادہ کیا لیکن بادشاہ کی عمر نے وفا نہیں کی اور وہ کیرالا پہنچنے سے قبل ہی صلالہ ، سلطنت عمان میں انتقال کرگئے ۔ بعض روایتوں میں لکھا ہے کہ اس مقام پر ایک عظیم الشان گنبد تعمیر کیا گیاجو آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے، انتقال سے قبل اس بادشاہ نے کوڈنگلور کے حکمراں کو جو خطوط لکھے تھے،وہ حضرت مالک بن دینارؓ کے حوالے کئے تاکہ کوڈنگلورکے حکمراں کو پہنچائے جائیں ، کیونکہ واپسی میں اس بادشاہ کے ساتھ حضرت مالک بن دینارؓ بھی ہو لئے تھے تاکہ ہند میں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں کام کیا جاسکے ۔ حضرت مالکؓ کے ساتھ بھجوائے ان خطوط میں چیرامان پیرومل ؔ نے اپنے ساتھیوں کو تلقین کی تھی کہ ان خطوط کے لانے والے بزرگوں سے بہتر برتاؤ کریں اور دین اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں ان بزرگوں کی کوشش کے درمیان رکاوٹ نہ بنیں ، ان حکمرانوں نے اس خط کا لحاظ رکھا اور ان عربوں کی عزت افزائی کی ۔بعض مورخوں نے بادشاہ چیرامان پیرومل ؔ CheramanPerumal کے قبول اسلام کا انکار کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کے مکہ پہنچنے سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا، اور کوڈنگلورمیں اسلام کی اشاعت کے ذمہ دار اس علاقے کے دوسرے حکمرا ن ہیں جس کا نام Banu Perumal تھا،چیرومان ؔ بادشاہ کے موجودہ وارث راجہ ولی ینتاؔ پورم کا احساس ہے کہ میرے پڑ دادا یعنی چیرا مانؔ پیرومل ہندوستان کے پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے مکہ جاکر اسلام قبول کیا، بہر حال تاریخ کچھ بھی لکھا ہو یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مالک بن دینارؓ کچھ عرصہ اس علاقے میں قیام پذیر رہے اور دین اسلام کی تبلیغ کی اور کیرالا میں کئی مساجد بنوائیں ، کوڈنگلورمیں بھی انہوں نے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جس کو ہندوستان کی پہلی مسجد اور تمام دنیا کی دوسری جمعہ مسجد کا اعزاز حاصل ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مسجد 629 عیسوی میں بنائی گئی،حضرت مالک بن دیناؓ اس مسجد کے پہلے امام و خطیب مقرر ہوئے اس کے بعد انہوں نے اپنے فرزند یا رشتہ دار حضرت حبیب بن مالک ؒ کو اس مسجد کے انتظام کی ذمہ داری سونپی اور خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیرالا کے دوسرے علاقوں میں بغرض تبلیغ نکل گئے ۔ اس مقام پر فی الحال جو مقبرہ بنا ہوا ہے وہ ان ہی بزرگ یعنی حضرت حبیب بن مالک ؒ کا ہے جس کی ہر خاص و عام زیارت کرتا ہے۔ حضرت مالک بن دینارؓ ایک عرصہ تک ہندوستان میں دین کی تبلیغ میں مصروف رہ کر عرب لوٹ گئے ،لیکن بعض مورخین نے اس کی نفی کی اور حضرت مالک بن دینارؓ کی قبر مبارک کا Kasargod میں ہونا بتلایا ہے ۔اللہ جانے کہ حقیقت کیا ہے لیکن یہ ضرور حقیقت ہے کہ Kasargod کیرالا (موجودہ کرناٹک)میں حضرت مالک بن دینارؓ کے نام کی ایک مسجدآج بھی موجود ہے جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد حضرت مالک بن دینارؓ نے رکھی تھی یہ مسجد آج بھی بہترین حالت میں ہے اور مالک بن دینارؓ جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔کوڈنگلور کے دیہات Methalaمیں حضرت مالک بن دینارؓ کی بنائی ہوئی چیرو مان پیرومل جمعہ مسجد شاید بدھ مت کے ماننے والے افراد کے غیر آباد اور ویران مکان کی زمین پر بنائی گئی تھی ، بعض روایتوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نے تعمیر مسجد کے لئے ویران بدھ مت کی عبادت گاہ حوالے کی تھی۔جس کے کچھ آثار آج بھی مسجد کے اندرونی حصے میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مسجد ہندوستانی تہذیب اورہندو تعمیری روایات کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے۔اسی لئے اس مسجد کو پیتل کے چراغ سے مزین کیا گیا ،Rose wood سے بنے منبر پر ہندو طرز کے نقوش ابھارے گئے جو آج بھی موجود ہیں ، اس مسجد میں ایک چراغ جل رہا جس کے متعلق مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تقریباً ایک ہزار سال سے جل رہا ہے، عقیدت مندان ہندو و مسلم اس چراغ میں بڑی عقیدت و احترام سے تیل ڈالتے ہیں اور اس کو بجھنے نہیں دیتے۔آج کل یہ ر وایت ختم کردی گئی ہے اب وہاں کوئی چراغ نہیں جلتا۔

چیراں مل

چونکہ  مسجد چیرامان کی تعمیر کے وقت عرب احباب بھی موجود تھے اس لئے اس میں کسی قدر اسلامی تعمیری جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں ۔ اس مسجد کی پہلی ترمیم 11ویں صدی عیسوی میں ہوئی اس کے دوسری تعمیر و ترمیم چودھویں صدی عیسوی میں ہوئی اس کے بعدیہ مسجد عرصہ دراز تک اسی حالت میں رہی، 1974 میں اس کی بڑے پیمانے پرمرمت ہوئی لیکن اس مرمت کے دوران بھی مسجد کے قدیم حصے اور منبر کو اسی حالت میں برقرار رکھا گیا ۔ ان دنوں اس علاقے میں مسلم آبادی بڑھتی جا ری ہے۔ اسی لئے 1994میں اس مسجدکی توسیع و ترمیم انجام پائی ، باوجود اسکے مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث یہ مسجد آج تنگ دامانی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے، اسی لئے 2001 میں علاقے کے مسلمانوں نے مسجد کو وسعت دینے سے متعلق ایک جامع منصوبہ بنایا ہے اور اس تعمیر میں اس بات کا التزام رکھا گیاکہ مسجد کی عمارت کا نقشہ قدیم طرز پر باقی رہے اورتاریخی اہمیت کے حامل حصے کو جوں کا توں محفوظ رکھا جائے۔ اس مسجد کی تاریخی حیثیت سے متاثر ہوکر اس علاقے کے کئی غیر مسلم اس مسجد کے معتقد ہیں اور ماہ رمضان میں اس مسجد میں افطار کروانا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔اس علاقے میں عقیدت کا ایک عجیب منظر دکھائی دیتا ہے کہ آج بھی مسلم یا غیر مسلم اپنے نو نہالوں کواس مسجد لاکر ان کی تعلیم کا اسی مسجد کے فرش سے آغاز کرواتے ہیں اور ان کی صحت کیلئے دعا کروانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔شاید یہی وجہہ ہے کہ آج وہاں کی ہندو قوم خود اس مسجد کی محافظ بنی ہوئی ہے اسی لئے اس مقام پر ہندو اور مسلم کے مابین اتحاد مثالی جس کو آج سارے ہندوستان میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ***

Share
Share
Share