شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
مرزا غالبؔ ….. شعر سے تصویر تک
علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :
– – – – – – –
نوٹ : مرزا غالب کی یاد میں علامہ اعجاز فرخ نے ایک انوکھے انداز میں خراج پیش کیا ہے۔ماہرین غالب نے کلام غالب کی شرح میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں رکھا۔ لیکن عبدالرحمن بجنوری اور عبدالرحمٰن چغتائی نے اس سلسلے میں جوکام انجام دیئے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں ۔علامہ نے مرقع چغتائی پر اپنا اظہار خیال کیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ علامہ اعجاز فرخ ،رنگ ،موسیقی،اور الفاظ کے رمز آشنا ہیں۔الفاظ کے تو وہ پارکھ ہیں ہی لیکن مصوری اور موسیقی کی اصطلاحات جب وہ اپنے مضامین میں صرف کرتے ہیں تب اُن کا مضمون ایک راگ یا پھر ایک تصویر بن جاتا ہے۔زیر نظر مضمون اُن کا ایک ایسا ہی مُرقع ہے۔ ( یحییٰ خان )
– – – – – – –
تفکر و تخیل وہ عناصر ہیں، جو ایک انسان کو دوسرے سے جدا بھی رکھتے ہیں اور منفرد بھی۔یہ انفرادیت دراصل محسوس اور معقول کے درمیان کا ارتباط باہم ہے،جس کے نتیجے میں شعور کی ترسیم تشکیل پاتی ہے۔خیال کے دائرے میں فکر کا سفر ایک غیر مرئی خط کشید کرتا ہے، جو احساس کی نازک سطح پر بہت لطیف ارتعاش سے اپنے ہونے کا احساس تو دلاتا ہے،ساتھ ہی اپنی شناخت کے لئے بدن چاہتا ہے۔یہ دراصل طلب ہے،جو خواہشِ اظہار بھی ہے اور پہچان کی طلبگار بھی ہے۔اسی اظہار کی خواہش کا دوسرا نام وسیلۂ ابلاغ ہے۔ماہرین لسانیات شاید اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آہنگ کی مختلف کیفیات دراصل زبان ہے، جو ترسیلِ خیال کا ایک ذریعہ ہے۔صوت وصدا لفظ بھی ہے اور زبان بھی۔آواز کابدن خوش جمال و خوش پوش ہوجائے تو زبان میں شعر و ادب اور موسیقی میں راگ،راگنی، سر،تال،اَلاپ کی صورتگری ہے۔اظہارِ خیال کی مختلف صورتوں میں زبان،موسیقی،مصوری اور نقش کامیاب وسائل ہیں،لیکن مسائل ابلاغ کی روشنی میں لفظ، دیگر فنون کے مقابل میں اتنا اہم وسیلہ نہیں قرار دپاتا۔شاید اس لئے بھی کہ کہیں خیال کی نزاکت لفظ کے زر بفتی پیرہن کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ تب وہ دھنک کا دوشالہ شانوں پر ڈالے تصویر میں جلوہ نما ہوتا ہے۔روز مرہ کی بہ نسبت ادیب اور ادب میں نثر کی بہ نسبت نظم پسندیدہ ہے۔چنانچہ نظم کی جاذبیت مسلمہ ہے، اس لئے افکار نے شعر کا قالب اختیار کیا۔شعر کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ضرور ہے۔اس میں بحور،اصناف اور دیگر اضافے مہذب اور متمدن ادب کی علامات ہیں۔اسی متمدن ادب میں علامت واستعارے کی عمارتوں نے شہر ادب کی نہ صرف شوکت میں اضافہ کیا ،بلکہ مختلف افکار کی پزیرائی کے لئے اپنے وجود میں وسعت بھی دی،تاکہ یہ بات صادق آسکے کہ:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
مرزا غالب کسی ایسے ویسے شہر کا شہر نشین نہیں، بلکہ ادب کے ایک عالیشان وسیع شہرادب کا معمار ہے، جو صنائع کے محلات،استعاروں کی عمارات،علامتوں کے مینار،زبان کی کشادہ راہیں،خیال کے چمن زاروں اور سمن زاروں میں افکار کی روشنی سے مزین بھی ہے۔اس شہر نگاراں کی تعمیر میں دیگر ضرب الامثال کی تزئین سے آرائش نہیں،بلکہ اس کی اپنی وضع کردہ ضرب الامثال کی تصاویر سے شہریانِ ادب اپنے در و دیوار کے رنگ و روغن کو نئی سج دھج کے ساتھ یوں سجالیتے ہیں کہ کاشانۂ ادب کے لئے در و دیوار، دیوار و درہوجائیں۔
یہ بات محال ہے کہ وجود ہواوررنگ و آواز نہ ہو۔عرف عام میں پانی جسے بے رنگ، بے بو و بے مزہ کہا جاتا ہے ایک سائنسی اصطلاح ہے۔جو زبان فاقہ اور پیاس کا ذائقہ جانتی ہے، پانی کے ذائقے اور ہوا کے رنگ سے بھی آشنا ہے۔احساس کی نازک سطح پر کلی کے چٹکنے کی بھی آواز ہے مگر اس کے لئے بہت نازک سماعت کی ضرورت ہے۔جن سماعتوں کے لئے کلی کے چٹکنے میں موسیقیت ہو، ان کی نظر میں افکار کے رنگوں کی بھی اٹکھیلیاں ہیں۔دھوپ کی طرح چڑھتے اترتے رنگ،اوس میں بھیگ کر ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے رنگ،ہوا کی تیز گامی سے بکھرتے ہوئے رنگ ، اپنا الگ الگ اثر و نفوذ رکھتے ہیں۔ایک مصور کے لئے یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ:
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
’’رنگوں‘‘ کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
لفظ رنگ کی فوقیت کے لئے ایک قدیم چینی کہاوت ہے کہ’’دس ہزار الفاظ سے زیادہ ایک تصویر اثر رکھتی ہے۔‘‘شاعر ہو یا مصوریا فنون لطیفہ و جمیلہ کا کوئی فنکار اس کی تہہ میں جو عنصر کار فرما ہے وہ جبلت ہے۔پرورش وپرداخت اس کو سلیقہ مند بنادیتے ہیں۔لیکن کسی فنکار کو اپنی جبلت سے مفر نہیں ہے اور جبلت کو جب طلب مہمیز کرتی ہے تب کوچہ نور دی سے صحرانوردی تک کا سفر اور پھر اس کا مقدر ہزار ہزار آبلہ پائی تو ہوناہی ہے۔قیس دُنیا کے لئے دیوانۂ محمل سہی، محمل تو بہانہ ہے، اس کی تلاش تو اس عکس کی ہے، جو اس کے وجود میں نہاں بھی ہے عیاں بھی ہے۔دکھائی دے کر چھپ جانا اور اوٹ لگاکر تڑپانا نہ ہو تو تلاش کس کی؟ سفر کیسا؟ اور ذوق سفر کیا ؟ ہوش و خر د سے بیگانگی اس کیف و مستی وجذب میں،جہاں دیوانگی خارج و ذات دونوں سے بیگانہ کردے،، وہاں نہ پتھروں کی یلغار کا خوف ہے نہ زخموں کے رسنے کا خیال۔وہاں تو دیوانی اور فرزانگی کی حدود کا تعین مشکل ہوجاتا ہے۔نگاہ عام کے لئے قیس دیوانہ ہے، صحرا میں رہے یا نہ رہے، لیکن لطف خاص کی نگاہ دیوانگی کے اندر سوا اندر اس فرزانگی کو دیکھ لیتی ہے، جہاں تمام توجہات ایک پر ہیں ہر ایک پر نہیں۔یہ نگاہ جنوں کے پردوں میں خرد کوپہچان لیتی ہے۔
دُنیا کے عظیم مصورلینا رڈو،بہزاد،مانی،رفائیل اور قاسم کی سوانحات کے نہاں خانوں کی سیر یہ انکشاف کرتی ہے کہ ان کی ذات اور ان کی توجہات کسی کی تلاش میں رہی ہیں۔عظیم مصور لینا ڈو جب پیدا ہوا تو اس کی ماں۱۷ برس کی تھی۔کنوارپن کی عوض ماں بنانے والے کا پتہ تو تھا، لیکن وہ یہ بات لینارڈو کو نہیں بتاسکتی تھی۔سفال پوش بے چراغ کمرے کی روشنی،لذتوں کی بجائے فاقوں کے ذائقے نے لینارڈو کی جبلت کی پرورش کی۔لینا رڈو جب سات برس کا ہوا تو اس کے باپ نے اسے اپنالیا، لیکن اس کی ماں اسی بے چراغ گھر میں جواب تاریک بھی ہوچکاتھا، اسی میں چھوڑ دی گئی۔ایک وسیع میدان پار جب لیٹارڈو اپنے دریچے کے کواڑ کھول کر وسیع میدان کے پارنکھری ہوئی چاندنی میں غور سے دیکھتا تو اسے ایک روشن ہیولہ سا نظر آتا اور وہ دریچے پرجھکی شاخوں کو پکڑ کر باہر جھول جاتا۔ننگے پیراُس روشنی کی سمت دوڑ تا ہوا جاتا تو اسی کھنڈر کھنڈر دیوار تک پہنچ جاتا، جس کے پیچھے اس کی ماں تھی، وہ آہستہ سے کواڑ کھٹکھٹاتا اور اسکی ماں دیوانہ وار اس سے آکر لپٹ جاتی۔اسے چومتی اور چومتی رہ جاتی۔پھر وہ بوجھل قدموں سے اپنے باپ کے عالیشان گھر کی دیوار تک پہنچتا اور انجیر کے پیڑ کے سہارے اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹ کر چھت کی طرف دیکھتا توایک مسکراتی ہوئی خوبصورت سی تصویر ابھر آتی اور پھر غائب ہوجاتی۔وہ تصویر اسکی ماں کی نہیں تھی، اس نے یہ صورت کہیں دیکھی بھی نہیں تھی۔اس کے باپ نے اس کے شوق کو دیکھ کراسے ایک مصور کی تربیت میں دے دیا۔لینارڈو نے مصوری تو سیکھ لی، لیکن ہر چہرہ اس کے لئے بے چہرہ تھا۔تب وہ اس چہرے کی تلاش میں نکل پڑا۔گاؤں گاؤں،قریہ قریہ،بستی بستی،سڑکیں،راستے،کھیت، کھلیان،ندیاں، جھیل،تالاب۔
اطالیہ کی زمین اس کے پیروں تلے رہی۔کبھی اس کی سرگوشی سی سنائی دیتی۔مڑکر دیکھتا تو کچھ نہ ہوتا۔کبھی ندی کی روانی میں اس کا ترنم سا سنائی دیتا۔پھر دیکھتا تو ندی ساکت نظر آتی۔مونالیزا ایسے کیسے ملی،کہاں ملی،اس نے کیسے تصویر بنائی،اس کی مسکراہٹ کے لئے قدرت نے کونسے ساز چھیڑے، نرم ہوا نے کونسا گیت گایا، یہ سب اسرار ہیں، لیکن مونالیزا کی مسکراہٹ بھی پراسرار ہے۔اس تبسم کی شرح کرنے والوں نے اس کی ہزار ہزار شرحیں بیان کی ہیں،لیکن ہنوز اس پر راز کے پردے نہ صرف دبیز ہیں، بلکہ ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ یہ پردے اور دبیز ہوتے جارہے ہیں۔شاید اسی کو ابہام کہتے ہیں،شاید یہی راز ہے، شاید اس تبسم میں سربستہ کوئی اور کہانی ہے۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تصویر مونالیزا کی ہے یا خود لینارڈو کی؟لینارڈو کے ظاہر کی یا اس کے اندر کے نہاں خانوں میں پوشیدہ اس چہرے کی؟ کیا مونالیزا ہی لینارڈو کی تلاش ہے؟یا مونالیزا کے تبسم کی آفاقیت کے پیچھے اس کے پسند کرنے والوں کی تلاش کا حاصل ہے؟شاید اس میں کوئی ایک سچ ہو یا پھر ابھی جستجو کو اور سفر کرنا باقی ہو۔
فنون لطیفہ ہرملک اور خطہ زمین کی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔مصوری میں افریقہ کے نیم وحشی قبیلوں کے نقش و نگار کا تجزیہ کیا جائے یا اہرام مصر کیتصویر کشی کا۔روم کے گرجا گھر ہوں یا ترکی کی قالین بافی۔عرب کے خیموں پر گھوڑوں کی تصویریں ہوں یا عجم کی منہ بولتی تصویریں۔یہ بات کرتی ہوئی تاریخ ہے۔لیکن اس کے لئے ان کی زبان دانی چاہئے۔تاریخ کی آوازیں تو عجائب گھروں میں رکھی ہیں۔ہم تو گونگوں کی بھیرویں،اندھوں کی تصویروں کے رنگ، لنگڑوں کے رقص پر خنداں بیں کہ فن شایدد ادوبیداد کے درمیان ناپید ہے۔ہندوستان فنون لطیفہ کے لئے ہمیشہ زر خیز رہا۔کشمیر ہو کہ راجستھان،مغلوں کا دور حکومت رہا ہو یا جنوب میں قطب شاہی یا پھر ایلورہ اجنتا کے غاروں کی تاریخ۔یہ ہماری اپنی تاریخ رہی ہے۔اسی ماحول میں عبدالرحمن چغتائی کا فن اور اس فن پر دیگر مصوروں کے اثرات اہل نظر اور صاحبان فن کے لئے نیاباب کھولتے ہیں۔
چغتائی نے اپنے فن کے اظہار کے لئے غالبؔ کا انتخاب کیوں کیا؟ یہ بھی ایک تفصیل طلب باب ہے۔بعض ناقدین غالبؔ نے کلام غالب کو بیدل کی فارسی شاعری کا چربہ قرار دیا ہے۔یہ ان کے بلند مطالعہ کی دلیل ہو سکتی ہے، لیکن غالبؔ اور ایمرسن میں نہ صرف بعد المشرقین ہے، بلکہ ان کے افکار میں بھی مشرق و مغرب کا زبردست تضاد پایا جاتاہے۔اس کے باوجود غالبؔ نے کہا’’موت سے پہلے آدمی غم ہے نجات پائے کیوں‘‘ تو ایمرسن کے پاس یہ کیفیتSAY NO MAN HAPPY UNTILL HE DIESکی صورت میں
مل جاتی ہے یا پھر’’ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے‘‘ کی صورتگری
LIFE IS A DREAM WITHIN A DREAMپائی جاتی ہے۔میرے
اپنے محدود مطالعہ اور علمی بے بضاعتی کے سبب میں صرف یہ سمجھ پایا کہ ذہانتوں اور شعور کی ترسیم صدیوں کے فاصلے اور زمینوں کے قرب و بعد سے تعلق نہیں رکھتی،بلکہ کسی بھی صدی میں شعور اپنی قوس کو مائل بہ عروج کرے تو یہ قوس اس پچھلی قوس سے مل جاتی ہے اور اسی سے شعوری ترسیم تشکیل پاتی ہے۔یہ نہ سرقہ ہے، نہ توارد ،نہ نقل ہے، نہ مثنی،بلکہ ذہانتوں کا اتصال ہے۔اسی طرح سے عبد الرحمن چغتائی کی ذہانت اور شعور کی ترسیم غالب سے ہم خیال ہوکر اسے اپنے فن میں سمونے کی خوگرہے۔خیال کی وادیوں کا شاعر جب رنگوں کی وادیوں کے مصور سے بغلگیر ہوتا ہے تو’’مرقع چغتائی‘‘ کا فن شہود پر آتا ہے۔غالب کے مختصر سے دیوان کے باوجود اس کی ہمہ گیری اور چغتائی کی چند تصویروں کے باوجود اشتیاق خود آواز دیتا ہے کہ:
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا
انگریزی سے اُردو میںColourکا ترجمہ بھی رنگ ہے اورPaintبھی رنگ کہلاتا ہے، لیکنPaintingفی الحقیقت مرقع ہے،جہاں رنگ سے رنگ خلط ہوکرایک نئے رنگ کی تشکیل دیں اور پھر دام خط و قلم میں‘دیکھیں کیا‘‘گزرے قطرے پہ گہر ہونے تک‘‘کی کیفیت پوری موجود ہو۔
صدرنشین اُردواکیڈیمی آندھراپردیش مولانا رحیم الدین انصاری نے’’مرقع چغتائی‘‘کی اشاعت کا اہتمام کیا اور اس نایاب کتاب کو اُردو دوستو ں تک پہنچانے کا انصرام کیا ہے۔ان کے اعلیٰ ذوق نے اسے شایان شان طباعت سے آراستہ کیا ہے۔کسی کتاب کے لئے ’’مطابق اصل‘‘ کہنا مشکل ہے۔یہ صرف متن کی حد تک کہا جاسکتا ہے، لیکن’’مرقع چغتائی‘‘ کی اشاعت کو انہوں نے عصر جدید کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اسکو اعلی معیار تک پہنچایا‘ جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
مرقع چغتائی کو عبدالرحمن چغتائی نے آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں سے معنون کیا ہے۔یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی۔نظام نے عبدالرحمن چغتائی کوبرطانیہ اور ایران میں مصوری کے مشاہدے اور ان اثرات کو محفوظ کرنے کے لئے کوبہت مالی امداد دی۔ نظام دکن کی نگاہ اور ان کا لطف خاص چغتائی کے اندر کے فنکار کو پہچان چکاتھا۔وہ جوہر شناس تھے۔انہو ں نے اسے’’جوہر قابل‘‘ بنانے میں کوئی بخل نہیں کیا۔لیکن کیا لیناڈو‘ رفائیل،بہزاد،غالبؔ چغتائی اورنظام دکن میر عثمان علی خاں میں کوئی قدر مشترک ہے؟ اور کیا مونالیزا کی مسکراہٹ کی طرح کوئی اسرا ررکھتی ہے؟ یا ان سب کو اب بھی کسی کی تلاش ہے؟ یا تجلیوں کی چھوٹ ہے جس نے بے قرار رکھا ہے۔یا پھر ایک ہی شمع ہے جو ہررنگ میں سحرتک جلی جارہی ہے۔’’غم ہستی کی شمع‘‘بقول غالبؔ :
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
۲ thoughts on “مرزا غالبؔ ….. شعر سے تصویر تک – – – علامہ اعجازفرخ”
علامہ اعجاز فرخ صاحب نے مرقع چغتائی کے حوالے سے ایک بہترین مضمون قلم بند کیا ہے۔ اس میں ادب و فن سے متعلق دیگر اہم باتیں بھی ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ خاص طور سے لیو نارڈو د ونچی کی شہرہ آفاق پینٹنگ مونالیزا کے متعلق علامہ نے جو تفصیلات بیان کی ہیں وہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہیں۔ ادب اور فن سے متعلق گفتگو کے دوران علامہ نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ بھی قابل داد ہے۔ دور حاضر میں ایسی نثڑلکھنے والے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو گئے ہیں۔ بہت مبارک
ڈاکٹر فیروز عالم
مانو حیدرآباد
واہ واہ کیا خوب مضمون ہے ۔ شعر سے تصویر تک ‘ غالب کا ایک نیا پہلو سامنے لایا ہے۔ آپ نے غالب کے معیار کو مدنظر رکھ کر لفظوں کا استعمال کیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسے مضامین بار بار نہیں لکھے جاتے بلکہ خود مصنف بھی دوبارہ اس مضمون کو نہیں لکھ سکتا ۔
محمد باسط
تھانے ۔ ممبئی