افسانہ : سرخاب
علی نثار ۔ ٹورنٹو
کچھ زخم ہمیشہ نئے رہتے ہیں، ہم وقت اور راہ سے اُچک لیے جاتے ہیں، مر جاتے ہیں۔ وقت، دکھ، راہیں، خدا و ناخدا، مذہب و لامذہب اور انسان ہم سے مذاقِ کرب و بلا جاری رکھتے ہیں۔ اِس طرح وقت گزرتا جاتا ہے۔ کئی بار ایک واقعہ ہی زندگی اور وقت کو لے ڈوبتا ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہی نہیں کہ چار سال گزر چکے ہیں، تو کل ہی کی بات ہے کہ ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ ملنسار، خوش مزاج اور خوبصورت بلا کی تھی وہ۔۔۔ اُس کا نام جولیا تھا۔ شہر کے اُس پار جہاں سورج ڈوبتا ہے وہ وہاں رہتی تھی، بالکل میرے گھر کے قریب۔۔۔ وہ کوئی نوکری کیا کرتی تھی۔
اس کا باس شدید اور اُس کے لیے تو شدید ترین تھا، جو اُسے ہر وقت برا بھلا کہتا رہتا، اور وہ بھلی مانس ایک نئی اور بہتر جاب کی تلاش میں لگی رہتی۔ پچھلے چار سال سے وہ اُس کے ہاں چار سال پرانی تنخواہ اور بغیر پروموشن کے جاب کر رہی تھی۔
مغربی دوشیزہ شہر کے مغرب میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ اور میں شہر سے ہم سمت تھے۔ ایک دن اس نے مجھ سے رائیڈ مانگی۔ میں شہر کے وسط سے جہاں میں کاروبار اور وہ جاب کیا کرتی تھی، سے اُسے اپنی گاڑی پر بٹھا کر دونوں کے گھر کی طرف بڑھ گیا، پھر سفر کا یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔
کچھ ہفتوں میں ہم میں دوستی ہوئی اور بہت ساری باتوں کا تبادلۂ خیال ہونے لگا۔ کب دو سال گزر گئے، خبر تک نہ ہوئی۔ ایک رات دس بجے جولیا کا فون آیا۔ وہ رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اس کے بوائے فرینڈ نے اس کو اپنا بوریا بستر گول کرنے کا کہہ دیا ہے، کیونکہ اس کے کچھ عزیز رشتے دار عید پر اس کے گھر آنے والے ہیں اور وہ اِس رشتۂ الفت کو راز رکھنا چاہتا ہے۔ بالآخر وہ ایک ہوٹل میں رہنے لگی۔ حالانکہ وہ جہاں بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی تھی وہ جگہ پوری طرح سے نسوانی آرائش و زیبائش سے سجی ہوئی ہے اور یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ آنے والے ضرور بالضرور آگاہ ہو جائیں گے کہ وہاں ایک لڑکی رہ گئی ہے۔
’’کیا اس لڑکے کے ماں باپ کو پتا ہے کی تم دونوں ایک ساتھ ایک ہی بیڈ روم کے اپارٹمنٹ میں زندگی گزار رہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں!!!‘‘ وہ بولی۔
’’جب میں پہلی بار date پر اس لڑکے کے ساتھ گئی، تو میں نے کچھ سوالات کیے، اور جب میں نے لڑکے کا مذہب جاننا چاہا تو اس نے جواب دیا کہ میرا کوئی مذہب نہیں ہے۔‘‘ اُس نے بتایا۔
منظور احمد پیشے کے اعتبار سے الیکٹرانک انجنیئر تھا۔ اچھی خاصی آمدنی تھی اور وہ بنگلہ دیش میں اپنے والدین کی مالی مدد بھی کیا کرتا تھا۔ ولایتی حسینہ منظور احمد کو دل و جان سے چاہتی تھی، اور شادی کرنا چاہتی تھی۔ اُسے منظور احمد پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ تھا اور اس نے اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کر دیا تھا۔
بیاہ کے انتظار میں چھ سال بیت گئے، تب تک جولیا نے تعلیم حاصل کر لی اور فوٹو گرافی بھی سیکھ لی، جس سے وہ پیسے کمانے لگی، حالانکہ اُس کی تعلیم نرسنگ سے متعلق تھی، جس سے اُسے خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔
منظور احمد کی والدہ منظور احمد کے اس رشتے کے خلاف تھی کیونکہ اُس نے مغربی خواتین کے بارے میں سُن رکھا تھا، لیکن منظور احمد جولیا سے کہتا کہ وہ اپنی ماں کو منانے کی پوری کوشش کر رہا ہے، اور وہ نہیں مان رہیں۔ اس نے جولیا کو اسلام قبول کرنے اور ایک مسلم لڑکی کی طرح حجاب پہننے کی شرط رکھی۔ لڑکی سوچ بچار کے بعد رضامند ہو گئی۔ ننگے تڑنگے، بے باک اور بے غرض معاشرے میں اگر کوئی عورت کالا ٹوکرا پہن کر سڑکوں پر نکل آئے گی تو لوگ انگلیاں اُٹھائیں گے، زبانیں ہلائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
زندگی زندگی تو نہ رہی ایک قیامت اور ایک عذاب کی شکل اختیار کر گئی۔ گوری لڑکی جب حجاب میں نظر آئی تو اس کے اپنے لوگ بھی اس سے نفرت کرتے اور برا بھلا کہتے رہتے۔ یا پھر اس کو مسلمان ہونے کی سزا مل رہی تھی۔ ایک دفعہ وہ بس میں سفر کر رہی تھی۔ وہ حجاب زیبِ تن تھی کسی نے اس کی طرف نفرت انگیز نگاہ ڈالی اور اس کو White Trashکہہ دیا۔ برصغیر میں کسی کو ماں بہن کی گالی دینا اور کینیڈا میں کسی گوری کو White Trash کہنا یک برابر ہے، مگر وہ خاموش رہی اور اُس نے سنی ان سنی کر دی۔
وہ بڑے صبر آزما دور سے گزر رہی تھی اور اندر ہی اندر غموں سے پگھل رہی تھی۔ اس کا باس اُسے قبولِ اسلام پر سخت ناراض ہونے لگا ااور نومسلم گوری کی تنخواہ تادیباً کم کر دی۔
ایک بار جولیا نے مجھے کہا:
God is testing me.
پھر ایک دن اس نے بتایا کہ وہ منظور احمد کے ساتھ تین دن کے لیے فلوریڈا جا رہی ہے، شاید وہ شادی کے لیے جا رہے تھے، مگر وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وقت کو منظور تھا کہ اُس کی ڈور ڈھیلی چھوڑ دی جائے۔۔۔ اس نے جولیا پر تشدد اور شک کرنا شروع کیا۔ فلوریڈا کے شراب خانوں کا نیا گاہک بنا اور جب گھر واپس پلٹتا تو ایک نیا چہرہ اُس کی بغل میں ہوتا، جو اُسے گھر تک چھوڑتا اور واپس چلا جاتا۔
جولیا اپنی فکر کھو چکی تھی، بن آنسو روتی، اور اپنی ہی سوچ کے گرداب میں کسی راہ ، کسی خدا، کسی جواز اور مذہب سے وصال کے لیے بھٹکتی رہتی۔ اُس کے اندر روح نہیں محبت کی لاش پڑی تھی جس کے تعفن سے گوری نڈھال تھی، اور وقت ڈگڈگی کی طرح ساعات اور واقعات گنگناتا رہا۔ منظور احمد ڈگڈی کی تال پر کسی بدمست کثیر کیڑے مکوڑے کھانے والے سرخاب کی طرح اپنے سنہرے پر گنتا رہا یہاں تک کہ رنگ، شور، اور جولیا۔۔۔ سب ہوا ہو گئے۔
گفتگو کا اختتام ہوا
One thought on “افسانہ : سرخاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علی نثار ۔ ٹورنٹو”
ہائیں یہ یکایک کیا ہوا ۔۔۔۔ اس افسانے کی کشتی اچانک ہی کس ٹاپو سے دھائیں سے ٹکرائی کہ پاش پاش ہوگئی ۔۔۔
اچھے بھلے افسانے کا افسانہ ہوگیا ۔۔۔ اس عجیب سی ٹکر سے میرے تخیل میں بہت بڑا سا گومڑا پڑ گیا ہے ،،،