کسی کی آنکھ میں جادو تیری زبان میں ہے
پروفیسرآغاحیدر حسن مرزا
علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آغا حیدر حسن مرزا‘ گونگے صحراؤں کے بیچ یہ کون حضرت آتش کا ہمزباں نکلا‘ گورا چٹا رنگ‘قامت‘ فاعلاتن‘فاعلاتن‘فاعلن‘ یعنی دراز اور درمیانی قد کاحد اوسط ‘چہرہ نورانی‘ پیشانی مطلع صبح کی طرح روشن روشن‘آنکھیں غلافی جیسے پوپھٹنے سے پہلے کچی نیند سے جاگی ہوں۔ریش ایسی اجلی کہ جیسا تن ویسا من‘ گویا ظاہر و باطن میں کوئی تضاد نہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ دہلی کئی بار اجڑی اور کئی بار بسی‘لیکن آخری بار جب اجڑی‘ تو کوہ نور کی چمک دمک رکھ کر خالی پتھر نادر شاہ کی کشکول میں ڈال‘ کچھ دنوں تک تو غمزدہ ساعتوں کی ردا اوڑھ کر اپنے لٹنے کا غم کیا ‘ پھراپنی تہذیب کے کنگن سمرن بازوبند فصاحت کی جھومربندیا‘بلاغت کی نتھ لونگ‘ طلاقت کی ٹھسی ست لڑا گلوبند‘ شعروادب کی جھانجھر پازیب‘ زبان کے زمرد‘ بولی ٹھولی کے یاقوت‘ محاوروں کے الماس‘کہہ مکرنیوں کے موتی اور داستاں گوئی کی پشوازیں سمیٹ کر پورے چاند کا انتظار کرتی رہی۔پونم کی رات جب ستاروں کے کہار چاند کرنوں کی ڈولی لئے لال قلعہ کے آنگن میں رکھ کر پرے ہٹ گئے ‘ تو دہلی ڈولی میں سوار ہوئی‘ جب چلی تھی تو دہلی تھی اور جب حیدرآباد کی زمین پر آہستہ سے اتار کررکھ دیا۔تو ڈولی سے آغاحیدر حسن مرزا برآمد ہوئے‘ بدن ان کا تھا اور دل دہلی کا دھڑکتا تھا‘گویا ساری دہلی ان کے وجود میں سماگئی تھی۔
سنہ ۵۷ء کا ذکر ہے‘ میں لڑکپن اور جوانی کے جھٹپٹے کے بیچ عمر کی اس حصہ میں تھا‘ جب آدھی رات کے بعد پریاں اپنی پلکوں سے تلووں کو گدگداتی ہیں‘ لیکن مفلس کی جوانی اور بیوہ کا شباب فقط دھوپ چھاؤں کاکھیل ہے۔صبح جاگو تو ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں پلکوں کے نیچے چبھتی ہیں‘گویا رات کی ناگن ڈس کے پلٹتی رہی اور پلٹ کے ڈستی رہی۔میں نے اسی سال آغا حیدر حسن مرزا کو ایک مشاعرہ میں پہلی مرتبہ دیکھا رنگین چمکدار شیروانی‘ اسی کپڑے کی سلی اونچی دیوار کی ٹوپی‘ چوڑی دار پاجامہ زیب تن کئے میر محفل بنے بیٹھے تھے۔دیکھ کر لگتا تھا کہ جوانی کو بڑھاپے کی گرہ لگ چکی ہے‘لیکن آنکھوں کی شوخی اور غزل کے نازک شعر پر چہرے کی تمتماہٹ بتلارہی تھی کہ اس سفید ریش کے پیچھے ابھی جوانی سلگ رہی ہے۔شاہد صدیقی غزل سنارہے تھے..
.نشاں ملتے ہیں راہوں کو نظرملتی ہے جلووں کو
مگر شمعوں کو اپنی روشنی سے کچھ نہیں ملتا
وہاں شرح رموز بے خودی بھی کرنی پڑتی ہے
جہاں شاعر کو اسرار خودی سے کچھ نہیں ملتا
وہ غزل سناچکے تو درمیان میں ایک شعر چھوٹ گیا‘ بے ساختہ میری زبان سے وہ شعر نکل گیا‘ تو وہ چونک کر رُکے اور میری کمسنی کے ساتھ میری یادداشت کا انعام یوں دیا کہ مجھ سے خواہش کی کہ میں ڈائس پر آکر وہ شعر سنادوں۔میری قمیص بوسیدہ تھی اور شانہ کے پاس پھٹی ہوئی تھی‘ میری جھجک اور ان کا اصرار‘ لوگوں کی نگاہیں لگتی تھیں کہ تیر کی طرح چبھ رہی تھیں‘ آخر کار ایک ہاتھ سے پھٹی قمیص کو چھپانے کی کوشش کرتا ہوا ڈائس پر جاکر میں نے وہ شعر سنادیا…
پرستش ان کی ہوتی ہے جو بت میں نے تراشے ہیں
مگر مجھ کو مذاق بت گری سے کچھ نہیں ملتا
شاہد صاحب کو پوری غزل پر جتنی داد ملی‘ اس سے زیادہ داد یہ شعر پڑھ کر میں نے حاصل کی‘ شعر سناکر میں رخصت ہونے لگا‘ توآغا صاحب نے آواز دی’’میاں صاحبزادے! اِدھر آیئے‘‘ بلا کر پہلو میں بٹھلایا‘ ڈائس پر مخدوم،اریب،وحید اختر،خورشید احمد جامی،خیرات ندیم،اوج یعقوبی،ابن احمد تاب،غیاث صدیقی غرض شعر و ادب کی کہکشاں سجی تھی اور میں خود کو ٹاٹ کی طرح چبھ رہا تھا۔پھر اعلان ہوا پروفیسر آغا حیدر حسن گل افشانی فرمائیں گے ‘ وہ آکھڑے ہوئے تو سامعین میں سے کسی نے کہا’’ آغا صاحب محلاتی زبان میں ارشاد ہو ’’تو فرمایا’’اے نوج ان نگوڑوں کو دیکھو چاہتے ہیں کہ دہلی کی بیگماتی زبان بے مقنع ان مردوں کے بیچ چلی آئے ‘ اس لا جونتی کوچھولوں تو حیا سے دہری نہ ہوجائے۔پھر مخاطبت شروع کی‘ تو لگتا تھا گوداوری کے طاس میں جمنا ہلکورے لے رہی ہے‘ مگر کچھ اس انداز سے کہ دکن کی سانولی سلونی البیلی زبان دہلی کی دودھ سے دھلی اور چاندنی سے نکھری اُردو کے گلے میں بانہیں ڈالے بے اختیار برسوں سے بچھڑی بہن کو چوم رہی ہے۔تان سین کی الاپ تو کدھر‘ سرسوتی کے سرخاموش تھے‘ فضاء ساکت اور ہوا چپ تھی کہ آغا حیدر حسن کے آگے کوئی آواز گستاخ نہ کہلائے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ لفظ بے جان نہیں ہوتے‘ لفظوں کی بھی زندگی ہے‘ ان کی رگوں میں بھی لہو کی روانی ہے‘ لفظوں کے بھی خاندان اور قبیلے ہیں‘ان کے بھی نام و نسب ہیں‘ یہ لفظ بازاری بھی اور درباری بھی‘ مصاحب بھی اور خوشامدی بھی‘ سفاک بھی اور نرم خو بھی‘ عابد بھی اور صنم آشنا بھی‘ شاعروں‘ادیبوں اور مصنفین سبھی سے لفظوں کاخلاملاہے‘ لیکن آغا حیدر حسن مرزا سے لفظوں کے گھر کی کنواریاں اور بہو بیٹیاں پردہ نہیں کرتی تھیں۔جب رات چاند کسی بدلی میں چھپ کر مدھم روشنی بکھیرتا‘ تو آغا حیدر حسن کے ذہن کے کسی نیم وا دریچہ سے لفظوں کے گھر کی کنواریاں اور نوبیاہتا سہاگنیں گلے میں پھولوں کی بدھیاں‘ کلائیوں میں گجرے‘ کانو ں میں آویزے‘گل پیرہن و گل بداماں قطار اندر قطار ان کے اطراف رقص کنا ں رہتیں۔ان میں سے کوئی الھڑ جوان‘ کوئی نوجوان‘ کوئی بالکل ہی دھان پان‘ کسی کی ناک میں نتھ‘ کسی کی ناک میں نیم کا تنکا‘ کوئی سر وقد‘کوئی بوٹا ساقد‘ کوئی زلف بر دوش‘کوئی زلف زیر کمر‘ کوئی سانولی‘ کوئی سلونی‘ کوئی چمپئی‘ کوئی گل اندام ‘کوئی شاخ گل کی طرح لچکتی ہوئی اور آغا صاحب اپنے احساس کی انگلیوں سے جسے چھولیتے‘ وہ دیر تک یوں لرزتی رہتی‘ جیسے بھونراکلی کو چوم کر پرواز کرجائے‘ تو دیر تک ٹہنی تھرتھراتی ہے۔آغا صاحب نے خوب دل بھر کے حیدرآباد کی سیر کی اور سیر بھی اس وقت‘ جب حیدرآباد برباد نہ تھا۔ان ہی کی زبان سے ذرا اپنے شہر حیدرآباد کی داستان بھی سن لیجئے۔’’یہ جو داہنے ہاتھ کو جھیل نظر آرہی ہے‘ یہی حسین ساگر ہے‘ یہ قطب شاہوں کے زمانے کا تالاب ہے‘ اس کا بندھ کوئی آدھ کوس لمبا ہے‘ دیکھو سڑک کیسی صاف ستھری اور کیسی چمکدار ہے‘ جیسے زندگی کا چہرہ‘ اس کے پانی کو دیکھنا گویا سونا حل کردیا ہے۔شفق نے ایک دوسرا سمیرپہاڑ ساگر میں چھپادیا ہے کہ کوئی پانہ سکے‘ کیونکہ سونے کی آج کل بڑی مانگ ہے اور وہ افق میں کلوس لئے ارغوانی پہاڑی جس کے پیچھے سورج منہ چھپا رہا ہے کوہستانی جوبلی ہے۔اس کے قمقموں کی روشنی کو دیکھو کیسے جھلمل جھلمل کررہے ہیں‘ جیسے کسی البیلی کے کامدانی کا ڈوپٹہ‘ یا کسی الھڑ نے اوڑھنی میں پٹ بیجنے جمع کر لئے تھے‘آنچل گیا چھوٹ اور پٹ بیجنے گئے بکھر اورلگے جھم جھم کرنے‘‘ آج آغا صاحب نہیں‘ ورنہ وہ کس دل سے یہ منظر دیکھتے کہ جس حسین ساگر کے پانی میں سونا حل کردیاتھا‘ اس نے سارے شہرکے گناہوں کو سموکر اپنے اوپر سیاہ چادر اوڑھ لی ہے کہ آخر رات بھی تو گناہوں کی پردہ پوش ہے۔جی تو چاہتاتھا کہ آغا صاحب سے کہہ دوں کہ جب قمقموں کی جھلمل جھلمل روشنی آپ نے دیکھی تھی‘ تو اس الھڑ کی اوڑھنی کے پٹ بیجنوں کی مدھم روشنی میں ہر شئے صاف دکھائی دیتی تھی۔ آج تو شہر روشنیوں کا جنگل ہو گیا ہے لیکن چہرہ صاف دکھائی نہیں دیتا‘ لوگ کہتے ہیں کہ شہر بے چہرہ ہوگیاہے۔میں سوچتا ہوں کہ شاید میری بینائی چھن گئی ہے۔ورنہ آج بھی تاریکی ہو تو اس البیلی کے کامدانی کے دوپٹہ کی چھاؤں میں ہر چیز روشن نظر آتی ہے ۔ آغا حیدر حسن کے شوق جہاں بینی نے ان کو مخصوص دور تک محدود نہیں رکھا‘ وہ صدیوں کے فرزند تھے اور جب چاہتے ماضی کی گرد ہٹا کر آئینہ میں وقت کا چہرہ دیکھ لیتے۔حیدرآباد کو بھی انہوں نے لمحہ لمحہ پل پل دیکھا‘ امیری غریبی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے‘ سو حیدرآباد میں بھی رہا محل سراؤں اور دیوڑھیوں میں‘ اگر سنگ مرمر کا فرش‘ پچی کاری کی دیواریں اور نقرئی چھت‘ تو ادھر کچی کھپریلوں کے مکان اور لال مٹی کا لپا پوتا دالان‘ وہاں چاندی مڑھے تختوں پر پرایرانی قالین کا فرش‘ تویہاں چہلواری کی سفید چادر‘ وہاں بانات کے پردے اور حاجب خدمت پر مامور‘ تو یہاں دروازہ پر ٹاٹ کا پردہ‘ وہاں زر بفت اور کمخواب کی پوشاکیں‘ تو یہاں سوت پر کشیدہ کاری کی بہار‘ لیکن چلمن دونوں جگہ مشترک تھی‘ اور کبھی کسی چلمن کے بیچ کوئی ٹوٹی ہوئی تیلی نظرآجاتی‘ تو جانے کیوں بے ساختہ یہ دوہا یاد آتا:
کاگا چن چن کھوئیو‘ کھائیو سارا ماس
دونیناں مت کھائیو‘ انھیں پیا ملن کی آس
آغا حیدر حسن نے اپنی دل کی آنکھوں سے اسی حیدر آباد کو دیکھا‘ لکڑ کوٹ کے تعلق سے رقمطراز ہوئے کہ’’لکڑ کوٹ کو صبح اور شام کو مختلف زاویوں سے دیکھو‘ تو ایک سونچ کی دنیا میں چلے جاؤ۔میر عالم کا زمانہ میسور کی فتوحات کے بعد باغ کے جلسے‘ ایران کی مہہ جبینیں، دکن کی سانولی سلونیاں اکٹھی اوڑھے رنگ برنگی پشوازیں پہنے‘ لمبی لمبی چوٹیاں لٹکائے‘ کاجل سے بھویں جٹی بنائے۔کانوں میں ہیرے کے جھمکے‘کرن پھول اور چاند بالیاں‘ماتھے پرٹیکے موتیوں سے مانگ بھرے‘ گلوں میں بدھیاں اور موتی مالائیں پڑیں‘ زریں پٹکوں سے چھلاسی کمریں‘ کسی پاؤں میں جڑاؤ پازیبیں لہر لہر کرتیں‘ کمر میں تین تین بل ڈالتیں چھم چھم کرتی پھرتی ہوں گی۔اب مہ لقا بائی چندا کی پرلوچ پاٹ دار آواز کے بدلے الٹی لٹکی بڑباگڑوں کی چیخ پکار سن لو۔رہے نام اللہ کا۔
کہتے ہیں کہ حیدرآباد کی بریانی اور گنڈی پیٹ کاپا نی جس کے منہ لگ جائے‘ اسے من و سلویٰ اور آب کوثر نہ بھائے۔آغا صاحب بھی اس سے بچ نہ سکے۔فرماتے ہیں‘بریانی تو ایسی مزیدار بو باس سے درست کہ کھاتے کھاتے پیٹ بھر جائے اور جی نہ بھرے ‘ اور بریانی ہے بھی اس شہر پر ختم اور شہروں کے رکابدار جیسی تیاری سے تیار کریں تو یہ بات نہ آئے یہاں کا ہر شخص الٹے پاؤں سے ایسے مزے کی پکائے کہ جو کھائے دوسروں کی سیدھا ہاتھوں کی پکائی میں یہ لذت نہ پائے۔کھانا یہاں ذرا مہنگا ہے‘ کیونکہ یہ شہر مدینۃالامراء ہے‘ کوئی کنگال نگر نہیں‘ اندھی نگری چوپٹ راج نہیں‘ جو ٹکے سیر بھاجی اور ٹکے سیر کھاجا ہو‘ یہاں تو چیز کا مول ہے ۔سستا چاہوپیسے پیسے کلچہ لے لو‘ایک آنے میں چھ کلچے آئیں گے‘ آدھ آنے کا چاکنہ لو اور پیٹ بھر دیڑھ آنے میں کھاؤ۔ابھی بھوکے ہو تو ایک آنے میں خشکے کی قاب آگئی‘ قورمہ بھی پیالہ بھر مل جائے گا۔
آغا حیدر حسن کی شیریں سخنی میں فقط مولسری کی گھنی چھاؤں ہی نہیں‘کدم کے پھولوں کی تازگی اور مہک بھی ہے۔ایک جگہ فرمانے لگے دہلی کے مرزا کوڑا یہاں شیخ گھڑو ہیں‘ تہہ بند باندھتے ہیں اور شوخ رنگ کا کرتا پہنتے ہیں جس پر رنگین سدری‘ سامنے کے بوتام (گُھنڈیاں) کھلے‘ سر پر ترکی ٹوپی سو اگزپٹے کا چار خانی رومال بندھا‘ کلے میں بیڑا دبائے فلک نمابتی کا دھواں اُڑاتے چھیلابنے اپنی سج دھج مڑ کر جھک کر آپ ہی آپ دیکھتے اور اپنی جوتی پر اتراتے چلے جاتے ہیں۔کوئی دیکھے نہ دیکھے یہ اپنا نظارہ آپ کرلیتے ہیں‘لیکن شرفاء کی وضع قطع کیلئے فرمایا کہ یہاں کا پاجامہ دوہراہوتاہے اور پاجامے کو یہاں گڑگی کہتے ہیں‘ شیروانی پہنے ثقہ ہوئے تو گلے کے ہک لگے نہیں تو گلے کے ہک کھلے اور بعض کے دو تین بوتام بھی کھلے کہ کرتا یا قمیص دکھائی دے رہے ہیں۔یہاں کے لوگوں میں ایک قدرتی وقار ہوتاہے‘ ہڑبلے سڑ بلے پن کی چال نہیں ہوتی۔
آغا حیدر حسن بچوں سے بہت محبت کرتے تھے‘ بچے بھی شاید ماں باپ سے اتنے ہلے ملے نہ ہوں’ جتنے ان سے ہلے ملے رہتے۔ساری دُنیا کے بچے ان کے اپنے بچے تھے‘ انہوں نے بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھیں ۔دور ماضی کے دھند لکے میں میری آنکھیں دیکھتی ہیں کہ گرما کی دوپہر میں خس کی ٹٹیاں چھوٹی ہوں گی او ر چھت میں دوہری چھینٹ کا پھر کی لگاپنکھا اونگھتی ہوئی جھلارہی ہوگی‘ بچے شور مچارہے ہوں گے اور آغا صاحب اپنی مخصوص بیگماتی زبان میں انھیں پیار بھری ڈانٹ سنارہے ہوں گے کہ’’ارے ناس پیٹو‘ دوپہر ہے گھڑی دوگھڑی توسکھ چین سے آنکھیں موندلو‘‘ اور ملگجے اجالوں کو دیکھ کر بچوں نے کہہ دیا ہوگا کہ وہ پریوں کی کہانی سنادیجئے ‘نہیں وہ سبزپری والی‘ توآغا صاحب نے کہا ہوگا۔’’نہیں بیٹا دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں‘‘ لیکن جانے کس بچے کے چہرہ پر افسردگی کی جھلک دیکھ کر آغا صاحب سے رہا نہ گیا‘انہوں نے کہانی سنادی‘ایک تھا بادشاہ‘ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ اِدھر آغا صاحب نے کہانی چھیڑی‘اُدھر وقت کامسافر جو راستہ بھولا آج تک راستہ نہ ملا۔
One thought on “پروفیسرآغا حیدرحسن مرزا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”
محترم آپ نے زبردست مضمون لکھا ہے. ایک بار نہیں دو بار نہیں بلکہ تین بار یہ مضمون پڑھا، لفظ و بیان کے مزے لیتا رہا، رعایت لفظی پر سر دھنتا رہا اور سوچتا رہا کہ آپ لفظ کو برتتے ہیں کہ لفظ آپ کو…. اس سے بہتر لفظوں کی کشیدہ کاری اور کیا ہوسکتی ہے. میرے پاس آپ کی تحریر محفوظ ہے روزانہ اس کو پڑھتا رہوں گا.
عبدالباری.. جموں