کتاب : میزانِ نو ۔ ۔ مصنف: ڈاکٹرعزیزسہیل ۔ ۔ مبصر: نعیم جاوید

Share

 میزانِ نو

کتاب : میزانِ نو
مصنف: ڈاکٹر محمد عبد العزیزسہیل
لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر

مبصر: نعیم جاوید
ڈائریکٹر ادارہ شخصیت سازی ’’ھدف‘‘
دمام ۔ سعودی عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’میزانِ نو‘‘ ڈاکٹر محمد عبدالعزیزسہیل کی چوتھی کتاب ہے ،جس میں ان کے ادبی تبصرے اور تنقیدی جائزے شامل ہیں۔ یہ انکے ادبی سفر کاچوتھا پڑاو ہے۔ پہلی منزل ’’ ادبی نگینے‘‘ تھی،دوسری’’ڈاکٹر شیلاراج کی تاریخی و ادبی خدمات‘‘،تیسری منزل’’سماجی علوم کی اہمیت:مسائل و امکانات‘‘اوریہ’’ میزانِ نو ‘‘جو ان کی چوتھی تصنیف ہے۔’’میزان نو‘‘ میں ایک حسنِ توازن اور قدرے ٹہراو بھی ہے۔ ان کی فکر نے اب سپردگی کے بجائے قیام کی منزلیں طئے کی ہیں۔ ان کے روشن اور زرخیز ذہن نے تیس مضامین کا ایک متوازن انتخاب ایجوکیشنل پبلشینگ ہاوز ، دہلی سے شائع کیا ۔ اب یہ کتاب ہدی بک ڈپو پرانی حویلی اور زمزم بک ڈپو حکیم پیٹ۔ٹولی چوکی۔ حیدرآباد سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

خوشی اس بات کی ہے کہ ہنگامی ادبی موضوعات کے بجائے انھوں نے ایک ادب آگاہ و ذمہ دارانہ شخصیت کی حیثیت میں اپنے اساتذہ، معاصر اہل قلم اور شریکِ فکر و فن دوستوں کی کتابوں پر اپنی آرا ء سے اپنے مضامین کو روشن رکھا جسمیں ان کے حسنِ انتخاب نے (3) کتابیں جو تاریخی تحقیقی مضامین پر مشتمل ہیں (2) شعری مجموعے (10) ادبی تنقیدکی کتابیں (4) افسانوں کے مجموعے(1) مزاحیہ انشایوں کا انتخا ب (1)جانوروں پر کتاب (جہانِ مرغ و ماہی) اور ایک اسلامی کتاب پر بھی اپنی بصیرت بھر خوب تبصرہ کیا۔ سارے قلم کاروں کے ناموں کی تفصیل بہت طویل ہوجائے گی۔پھر بھی جن اہم شخصیات کی تصانیف پر تبصروں کو انہوں نے ’’میزان نو‘‘ کہ اس مجموعہ میں شامل کیاہے ان میں ڈاکٹر سید داود اشرف،پروفیسر مجید بیدار،ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم،ڈاکٹر عابد معز،ڈاکٹر محسن جلگانوی،یٰسن احمد،ڈاکٹر اسلم فاروقی،محمد مصطفی علی سروری اور ڈاکٹر عزیز احمد عرسی وغیرقابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹرعزیزسہیل کی نثر گلابی نہیں لیکن زندگی کے گہرے رنگ اور نگاہ درد مندانہ ہوتی ہے۔ ان کے انتخاب کا تنوع بے سمتی کے بجائے ادب زار کی رنگارنگی کو ایک موزیک سی صورت گری میں پیش کرنے میں کامیاب ہے۔ ایک تبصرے سے دوسرے تبصرے تک اپنی تمام تر سادگی کے باجود اثر پذیری کو کم ہونے نہیں دیا۔ ان کے تبصروں سے تنقیدی کتابوں کی گرہیں کھلتی ہیں۔ قاری کو ایک شوقِ مطالعہ دے جاتیں ہیں اور اصل کتاب کی طرف قاری کا دل کشاں کشاں راغب ہوجاتا ہے۔
میں ان کے اس انتخاب کومتوقعہ ایک بلند پائے ادیب کے استقبالیہ نغمہ سے تعبیر کرتا ہوں کیوں کہ اپنے ادبی جائزوں میں انھوں نے ایک بڑا حصہ تحقیقی اور تنقیدی کتابوں کا انتخاب کیا جس سے ان کے میلان کا پتہ چلتا ہے کہ ایک منفرد محقق اس جولانگاہ ادب سے ابھر نے والا ہے۔
اس کتاب میں ان کے اساتذہ ، فن آشنا دوستوں نے بھی ان کی شخصیت کا ، ہنر اور امکانات کا ذکر کیا ہے جس سے میرپاس یقین کی تصدیق ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ’’میزانِ نو‘‘ کی دوسری اشاعت میں وہ حسنِ کتابت پر مزید توجہہ دیں گے۔ خصوصاً فہر ستِ مضامین میں نمبر بھی شامل کریں گے۔ اور ایک اچھی تنقید کی کتاب میں سادی سی شعری مدح کو شامل نہیں کریں گے۔ خود ستائی راہ پائے گی۔ یا پھر نثر کے معیار کے مطابق توصیفی اشعار کا میعار بھی ملحوظِ خاطر رکھیں گے۔ بشمول اپنے ہر صاحبِ کتاب کا ای میل ایڈریس مضمون کے ساتھ دیں اب ورقی سے زیادہ برقی رابطوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ دنیا سمٹ گئی ہے۔ کتاب کے اولین صفحہ سے آخری مضمون تک کسی کا بھی ای میل ایڈریس نہیں ہے۔
’’ہزار ایک ہوں دو ذہن مختلف ہونگے ‘‘ کے مصداق میری اس رائے پر غور کیا جائے گا۔ میں انھیں پھر ایک با ر اس کی اشاعت پر مبارک باد دیتا ہے۔

نعیم جاوید

suhail

Share
Share
Share