تلنگانہ میں اردوصحافت اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ۔ ۔ ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی

Share

aslam 2

تلنگانہ میں اردو صحافت اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال

ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی
صدرشعبہ اردو‘ گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد
موبائل : 09247191548
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے غلبے والی صدی ہے اور صحافت کے بشمول اردو صحافت کو اس سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت بڑی تیز رفتاری سے اطلاعات دنیا بھر میں پھیلائی جارہی ہیں اور لوگ اپنے طور پر ان اطلاعات سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھاجب ایس ایس سی یا انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا حیدرآباد میں اعلان ہو تو نتائج کو اخبارات کے لئے جاری کیا جاتا تھا۔ اخبارات دوسرے دن خصوصی ضمیمہ برائے نتائج شائع کرتے اور اضلاع کے قاری دوسرے دن صبح صبح بس اسٹانڈ جاکر اخبار حاصل کرتے اور بڑے اشتیاق اور ڈر اور خوف سے نتیجہ دیکھتے۔ پھر کچھ زمانہ گذرا جب نتائج کی سی ڈی اخبار والوں کو جاری کی گئی تو بعض اخبارات سب سے پہلے نتائج شائع کرنے کے لئے کافی دوڑ دھوپ کرنے لگے اور اندرون ایک دو گھنٹہ نتائج پر مبنی اخبارات شائع ہوکر بازار میں فروخت ہوتے دیکھے گئے۔

اب یہ سب باتیں ماضی کا حصہ ہوگئی ہیں اور جیسے ہی کوئی اطلاع عام ہو وہ فوری انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اہم ذرا ئع انٹرنیٹ کے ذریعے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سے ہم تک تیز رفتاری سے پہونچ رہی ہے۔ کسی علاقے میں کوئی اہم واقعہ ہو‘حادثہ ہو یا کوئی کھیل کا مقابلہ اس کا راست مشاہدہ ٹیلی ویژن کے ذریعے کیا جارہا ہے اور اس سے متعلق باتیں نیوز چینل اور اب فیس بک اور واٹس اپ کے ذریعے تیزی سے دنیا بھر میں عام ہورہی ہیں۔ اس تیز رفتار ترسیلی دور میں اخبارات اور خاص طور سے اردو اخبارات کے لئے کئی چیلنج سامنے آگئے ہیں اور اب تو پرنٹ اخبارات و رسائل کی معنویت پر سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہونے لگا ہے کہ انگریزی اور دیگر زبانوں کے بڑے اخبارات کی طرح اردو اخبارت بھی اپنے اسمارٹ فون اپلی کیشن بنالیں اور پل پل کی خبروں کو ان کے ذریعے ناظرین تک پہونچانے لگیں۔ ورنہ فون اور فیس بک پر مختلف خبروں تصاویر اور دیگر اہم معلومات کے آجانے کے بعد اب دوسرے دن صبح گھر آنے والے اخبار میں کچھ تازہ نظر نہیں آتا۔مقامی خبروں‘اضلاع کی خبروں انتقال کی خبروں اور سونے چاندی کے بھاؤ نماز کے اوقات دیکھنے کے لئے ہی اخبار کام آنے لگا ہے۔ کچھ اخبارات اپنے معلوماتی سپلمنٹ کی اشاعت کے ذریعے اپنی سرکولیشن کو برقرار رکھنے کی کوشش میں لگے ہیں ورنہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جڑے اردو قاری کو اب کاغذ پر شائع ہونے والے اردو اخبارات میں کچھ خاص مواد نہیں ملتا۔ اردو صحافت کی تلنگانہ میں صورتحال کیا ہے اور اردو صحافت کیسے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اس تیز رفتار ترسیلی دور میں اپنا مقام بنا سکتی ہے ان مسائل کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حیدرآباد سے نکلنے والے اردو کے بڑے اخبارات میں اعتماد وہ سرفہرست اخبار ہے جو اپنے ای ایڈیشن کے ساتھ یونیکوڈ میں بھی نکل رہا ہے۔ یونیکوڈ کمپیوٹر کی زبانوں کا عالمی نظام ہے جس میں اب اردو بھی شامل ہوگئی ہے اور یونیکوڈ اردو نستعلیق کی مدد سے اردو اخبارت انٹرنیٹ پر اپنی ویب سائٹ پر خبریں پوسٹ کرسکتے ہیں۔ یونیکوڈ میں خبریں پیش کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ بعد میں سرچ کرنے پر قاری اپنی مطلوبہ خبر گوگل سرچ سے حاصل کرسکتا ہے ورنہ اردو اخبارات کی پرانی فائل زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک دستیاب رہتی ہے اس کے بعد اگر ہم اخبار میں شائع کسی اہم مضمون یا خبر کو تلاش کرنا چاہیں تو ہمیں اخبار کے دفتر جا کر اخبار کی پرانی فائل طلب کرنا پڑتی ہے۔ اعتماد کے یونیکوڈ ایڈیشن میں تمام زمروں کے تحت منتخب خبریں یونیکوڈ میں پیش کی جارہی ہیں اور گوگل سرچ میں دستیاب ہیں۔ اعتماد کے بعد سیاست اخبار نے بھی سیاست ڈاٹ کام پر اردو اور انگریزی میں اپنی منتخب خبروں کی پیش کشی کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن وہ ابھی مقبول نہیں ہوسکا۔ منصف کا بھی انگریزی میں ای ایڈیشن ہے اور بشمول منصف ۔ سیاست اعتماد۔ راشٹریہ سہارا اخبارات کے ای ایڈیشن انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں ۔ یعنی جو اخبار کا غذ پر ہمیں دستیاب ہوتا ہے وہی اخبار کمپیوٹر یا فون کے اسکرین پر اخبار کے ویب سائٹ سے پڑھا جاسکتا ہے۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کا دور ہے اور اردو اخبارات کو بھی اپنی بقا اور ترقی کے لئے ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ ایک زمانے تک اردو اخبارات سیاہ و سفید ہی شائع ہوتے تھے 90کی دہائی سے اردو اخبارات رنگین شائع ہونے لگے۔ اور کہا جاتا ہے کہ رنگین اشاعت کے بعد ایک اخبار کی تیاری لاگت بیس تا چالیس روپئے تک پہونچ جاتی ہے جس کی پابجائی اشتہارات کی آمدنی سے کی جاتی ہے۔ اشتہارات کے معاملے میں اردو اخبارات کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ رمضان کے مہینے میں اخبار میں خبریں کم اور اشتہارات زیادہ ہوجاتے ہیں اور یہ صورتحال آگے بھی جاری رہتی ہے۔ رنگین اشاعت سے قبل اردو اخبارات کے سامنے ایک مسئلہ کمپیوٹر کتابت کا تھا جو ہاتھ کی کتابت کے بعد کمپوزنگ کی شکل میں سامنے آیا اور اردو ان پیج کی بدولت اردو اخبارات کی کتابت میں انقلابی تبدیلی آئی۔ کمپوزنگ۔ رنگین طباعت کے بعد اردو اخبارات زمانے سے ہم آہنگ ہوکر انٹرنیٹ سے جڑ گئے اور اخبارات کے ای ایڈیشن نیٹ پر دستیاب ہونے لگے۔ اب اردو اخبارات کے سامنے جو اہم مسئلہ درپیش ہے وہ بریکنگ نیوز کو بروقت قاری تک پہونچانا ہے۔ جس میں انگریزی کے بڑے اخبارات اپنے نیوز چینلوں اور اسمارٹ فون اپی کیشنز کے ذریعے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حیدرآباد کے اردو اخبارات میں اعتماد اخبار کے انتظامیہ کے ساتھ فور ٹی وی ہے جس پر وقفے وقفے سے نیوز پیش کی جاتی ہے لیکن فور ٹی وی مقامی خبروں کو ہی ترجیح دیتا ہے قومی اور بین الاقوامی خبروں کو نہیں۔ اسی طرح منصف چینل بھی محدود سطح پر خبروں کی ترسیل کرتا ہے۔ سیاست اخبار دکن ریڈیو سے اپنی نشریات پیش کر رہا ہے لیکن خبروں کی پیشکشی کے معاملے میں پیچھے ہے۔ اس لئے اردو کے بڑے اخبارات کے لئے تجویز ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے کی بنیاد پر اپنا نیوز چینل بھی رکھیں اور فیس بک اور واٹس اپ کے ذریعے تازہ ترین خبروں کی ترسیل کرتے رہیں ۔فیس بک پر حیدرآباد نیوز اور کچھ دیگر پیجز اور گروپس ہیں جو حیدرآباد کی خبروں کو تیز رفتاری سے پیش کررہے ہیں۔ حیدرآباد میں دیگر اخبارات رہنمائے دکن اور راشٹریہ سہارا وغیرہ کو بھی اردو خبروں کی ترسیل میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں آگے آنا چاہئے۔ رہنما اخبار ابھی تک اپنا ای پیپر جاری نہیں کرسکا۔ جب کہ رہنما کے قارئین کی تعداد بھی خاطر خواہ ہے۔ حیدرآباد سے جاری ہونے والے دیگر اہم ہفتہ وار اخبارات و رسائل میں ایک اہم نام ہفتہ وار گواہ کا بھی ہے جس کے مدیر ڈاکٹر فاضل حسین پرویز اپنی بے پناہ صحافتی تجربے کی بنیاد پر اسے ایک معیاری ہفتہ وار اخبار کی شکل میں پیش کررہے ہیں۔یہ اخبار اپنا ای ایڈیشن رکھتا ہے اور فیس بک پر بھی اپنے پیج کے ذریعے قارئین کو دستیاب ہے۔ وقار ہند کے نام سے پندرہ روزہ میگزین رنگین نکل رہا ہے جو انڈیا ٹوڈے کے معیار سے بھی بہتر ہے۔ اسی طرح حیدرآباد کی سطح پر اردو صحافت ٹیلی ویژن کے ذریعے پروان چڑھ رہی ہے دوردرشن کے علاوہ ای ٹی وی اردو‘ٹی نیو ز ‘ ایچ ایم ٹی وی روبی‘حیدرآباد نیوز وغیرہ پر اردو میں خبریں پیش ہورہی ہیں۔آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے شام میں اردو خبریں نشر ہوتی ہیں۔ اردو صحافت اگر ٹیکنالوجی سے جڑے تو اردو کے ابھرتے صحافیوں ٹی وی نیوز رپورٹرس اور دیگر تیکنیکی عملے کے لئے روزگار کے مواقع پید ا ہونگے۔ لیکن اردو صحافت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ مالیہ کی فراہمی کا ہے اور اردو اخبارت بھی بڑے بڑے اداروں کو فروخت کردئے جانے کی خبریں عا م ہیں۔ تلنگانہ میں حیدرآباد کے اردو صحافت کا دوسرا بڑا مرکز ضلع نظام آباد ہے جہاں آج بھی روزانہ چار اردو شام نامے نظام آباد مارننگ ٹائمز‘ آج کا تلنگانہ‘ محور اور مومن ٹائمز پابندی سے شائع ہورہے ہیں ۔ اور تمام اخبارات فیس بک کے ذریعے اپنی اشاعت کو ساری دنیا تک پہونچارہے ہیں اور مقامی سطح پر دو سو تا پانچ سو کی سرکولیشن کے ساتھ اردو صحافت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ ان اخبارات میں شائع ہونے والی اہم خبریں دوسرے دن حیدرآباد سے شائع ہونے والے اضلاع کے ایڈیشن میں شائع ہوتی ہیں لیکن مقامی سطح پر ایک دن قبل شام میں ہی قارئین کو پڑھنے کے لئے دستیاب ہوجاتی ہیں۔ان اخبارات کے علاوہ ہفتہ وار انوار دکن ‘َ للکار‘فکر جمہور‘ رسالہ تمہید‘ التوحید اور ماہنامہ گونج نظام آباد سے نکلنے والے دیگر اخبارات و رسائل ہیں جو محدود مالیہ کے باوجود فیس بک اور واٹس اپ کی مدد سے اپنے آپ کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نظام آباد سے مقامی چینل روشنی پر روزانہ شام میں نو بجے آدھے گھنٹے کی اردو خبریں گزشتہ تین سال سے پابندی سے نشر ہورہی ہیں اور ایک لڑکی صبا آفرین ہی یہ نیوز پڑھ رہی ہے۔ حیدرآباد اور نظام آباد کی مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے تلنگانہ کے دیگر اضلاع میں جہاں اردو کا چلن زیادہ ہے وہاں اردو اخبارات کی اشاعت اور انہیں ٹیکنالوجی سے جوڑنے اور مقامی ٹیلی ویژن چینلوں کی مدد سے اردو خبروں کی پیشکشی اور اردو پروگراموں کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اضلاع عادل آباد‘ محبوب نگر ‘ورنگل اور نلگنڈہ وغیرہ سے مقامی اردو اخبارات کی اطلاعات ملتی ہیں لیکن ان کی شناخت کم ہے۔ اردو کے بڑے اخبار ہو یا چھوٹے اخبار ان کا سب سے بڑا مسئلہ مالیہ کی فراہم ہے۔ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کی جانب سے چھوٹے اخبارات کو بھی مالی امداد دی گئی تھی۔ اردو کے چھوٹے اخبارات کو حکومت کے سرکاری اشتہارات کا حصول بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ لیکن اردو اخبارت بازار کے حالات دیکھتے ہوئے اور اپنی ویب سائٹ ‘فیس بک گروپ یا بلاگ کے ذریعے کم قیمت پر رنگین ای ایڈیشن نکال سکتے ہیں۔ اگر وہ مقامی سطح پر اشتہارات حاصل کرپائیں اور اپنے ای ایڈیشن اور عید ین اور دیگر اہم مواقع پر رنگین ایڈیشن شائع کرنے لگیں تو ان کے مالیہ کی کمی کا مسئلہ کچھ حد تک درست ہوسکتا ہے۔اور خبروں کی ترسیل کے اس مسابقتی دور میں اردو اخبارات بھی آگے آسکتے ہیں۔ اردو صحافت سے وابستہ اردو صحافیوں کے بھی کئی مسائل ہیں اردو اخبارات سے وابستہ کئی صحافی پیشہ ور نہیں ہیں صرف صحافت کے موجودہ چلن پیڈ نیوز کے فوائد دیکھ کر صحافت سے جڑ رہے ہیں۔ یہ اس لئے بھی ہوا کہ اخبارات انہیں خاطر خواہ تنخواہ نہیں دیتے اور یہ صحافی غلط ذرائع سے خبروں کی اشاعت کے ذریعے پیسہ کمارہے ہیں۔ اگر صحافیوں کو اچھی تنخواہ ملے جیسے تلگو اخبار کے مقامی صحافی کی تنخواہ آج پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے اور انکم ٹیکس بھی ادا کرتا ہے اگر اردو صحافی کو اس کا نصف بھی ملے تو صحافت ترقی کرسکتی ہے۔ صحافیوں کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے لیس کی جائے ان کی تربیت کی جائے اور انہیں مختلف کام دئے جائیں تو وہ اچھے صحافی بن سکتے ہیں۔ تلنگانہ میں جہاں اردو کا مستقبل روشن ہے وہیں اردو صحافت کی ترقی کے بھی امکانات ہیں۔ اس لئے امید ہے کہ اردو اخبارات و الیکٹرانک میڈیا کے مالکین ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کریں اور اب وقت کے تقاضے کے مطابق بروقت خبریں پہونچانے کی کوشش کریں۔

Share
Share
Share