افسانہ : سبق ۔ ۔ ۔ ۔ جاوید نہال حشمی ۔ کولکتہ

Share
Jawed Nehal Hashami
جاویدنہال حشمی

افسانہ : سبق

جاوید نہال حشمی
کولکتہ ۔ بھارت

طاہر کو یوں لگ رہا تھا کہ گویا آج کی رات اس کی دوسری سہاگ رات ہو__ وہی مچلتے جذبات، بہکتے خیالات، وہی بےتاب دھڑکنیں، انتظار کی وہی ہیجانی کیفیات __ فرقت کا وقفہ بھی تو کافی طویل تھا___ چار برس۔ پورے چار برس خلیج میں گزار کر وہ آج اپنے وطن لوٹاتھا۔
سارا دن تو دوستوں اور رشتے داروں سے ملنے ملانےاور اپنوں سے دور، بدیس میں شب و روز کی روداد بیان کرنے میں گزر گیا۔رات ساڑھے آٹھ بجے ہی کھانا کھانے بیٹھ گیا۔
”کیوں بھئی، بڑی بھوک لگی تھی؟“ بھابھی نے بڑی شوخی سے پوچھا۔ وہ صرف زیر لب مسکرا کر رہ گیا۔

”بھوک مٹانے کے لئے سویرے کھا رہے ہیں یا …بھوک بڑھانے کے لیے؟“ بھابھی نے پھر چھیڑا۔
پھر نظریں ملتے ہی انہوں نے آنکھ مارتے ہوئے کہا: ”تین چار گھنٹے کا وقفہ بہت مناسب ہے۔“
نازنین کچن میں تھی۔ بھابھی نے ہانک لگائی:
”ارے او نازنین، ڈائننگ ٹیبل پر سے کٹا ہوا کچا پیاز تو ہٹا لو۔ کہیں بھول سے کھا نہ لیں۔“
”جی بھابھی۔“ نازنین جو اپنا نام سنتے ہی بھاگتی ہوئی کچن سے نکلی تھی، بھابھی کا جملہ پورا ہوتے ہی ”دھَت“ کہہ کر جلدی سے واپس کچن میں مُڑ گئی۔
”وِش یو اَ ویری ہیپی ری یونین …“بھابھی نے چاروں طرف کسی اور کو نہ پا کر قدرے اونچی آواز میں کہا اور ہنستی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔
رات کے کھانے کے بعد پندر ہ سے بیس منٹوں تک چھت پر ٹہلنا اس کا برسوں پرانا معمول تھا۔اس نے چھت پر آکر چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ اطراف کے کھپریل کے کئی مکانات اب دو یا تین منزلہ عمارتوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔سامنے کی سڑک کے کنارے کی وہ دکان جس میں وہ کبھی ریڈیو، ٹرانزسٹر اور ٹی وی وغیرہ کی مرمّت کیا کرتاتھا اب چائے خانے میں تبدیل ہو چکی تھی۔
اس نے یہ دکان فروخت کر کےایک بہت بڑا جوا کھیلا تھا کیوں کہ یہ دکان ہی اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھی۔ملازمت کی عمر نکل جانے کے سبب کسی ڈھنگ کی نوکری کی اُمید فضول تھی۔ ملازمت کی جدوجہد کے دنوں میں کیا گیا ڈپلوما کورس عزت کی دو روٹی کمانے میں معاون ہوا تھا۔اس دکان میں ابّا مرحوم کبھی ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ بڑے بھائی زبیر نے جو ایک پرائیوٹ فرم میں اچھی تنخواہ پر ملازم تھے فی الوقت جائداد میں حصّے داری کے کسی بھی قسم کے دعوے سے احتراز کیا تھا۔شاید چھوٹے بھائی کی مالی حالت کے مدِّ نظر ہمدردی کا جذبہ کارفرما تھا۔اچھی کمائی کےانتظار میں کہیں شادی کی عمر نہ نکل جائے، خدا پر توکل کر کے اس نے شادی بھی کر لی۔ سوچا شاید دلہن نصیب لے کر آجائے، مگر …
اس نے یہ سوچ کر صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا کہ جس کا رزق جب جہاں اور جتنا لکھا ہوتا ہے مل کر رہتا ہے۔ پھر جب عارف پیدا ہوا تو اس کی قلیل آمدنی بڑھتے اخراجات کو پورا کرنے کی متحمل نہیں رہی۔ پھر بھی اس نے اُمید نہ چھوڑی کہ مایوسی کفر ہے۔جدّوجہد شرط ہے۔ جتنی بھی جمع پونجی تھی، خلیج میں جاب دلانے والے ایجنٹ کے یہاں بطور پیشگی جمع تھی۔خدا کی طرف سے کڑے امتحان کی گھڑی سمجھ کر اس نے اپنے پائےثبات میں کوئی لرزش نہ آنے دی۔جوائنٹ فیملی نے بھی خود داری کی لاج رکھ لی تھی۔لیکن عارف جب تین سال کا ہونے کو آیا تو پہلی بار اسے خدا کی رحمت سے مایوسی کا احساس ہوا۔ڈاکٹروں کے اس اندیشے نے تمام اہلِ خانہ کو شدید فکر و صدمےمیں مبتلا کر دیا کہ عارف نارمل بچہ نہیں ہے۔ اسے پیدائشی طور پرکوئی دماغی کمزوری لاحق تھی جس کے نتیجے میں آگے چل کر وہ یا تو mentally retarded ہوگا یا پھر کسی اور ذہنی بیماری میں مبتلا ہوگا۔ وہ عام بچوں کی طرح نہ تو کھیلنا پسند کرتا تھا اور ہی ان کی صحبت میں رہنا۔ وہ سارا دن گم صم کسی نہ کسی تنہا گوشے میں پڑا ہوا ملتا۔اسے کھانا کھلانے ، نہلانے یا سلانے کے لئے ڈھونڈنا پڑتا۔ بہت پوچھنے پروہ صرف ’ہوں ہاں‘ میں یا دو ایک الفاظ میں جواب دیتا۔طاہر اندر سے ٹوٹ چکا تھا مگر خود کو بکھرنےسے اس نے بہر حال باز رکھا تھا کہ نازنین کی ڈھارس مقصود تھی۔پھر جب عارف پانچ سال کی عمر کو پہنچا تو ڈاکٹروں کے اندیشوں کو تقویت ملنے لگی۔ اس کے رویّے میں جارحانہ پن کا اضافہ ہو گیا تھا۔کسی بات پر اصرار کے جواب میں یا تو چیخ کر جواب دیتا یا پھر جھلّاہٹ میں سامان پٹختا یا پھینکتا۔ طاہر نے کئی بار نازنین کو تنہائی میں سسکتے ہوئے دیکھا تھا مگر کبھی دلجوئی کی ہمت نہیں کی۔ الفاظ کہاں سے لاتا۔امّی نے دعاؤں اور بڑے بھائی نے طبّی صلاح و مشوروں میں کوئی کسر نہ چھوڑ کر ان کا غم بانٹنے کی ہرممکن کوشش کی۔اس نے بھی نازنین کو اسے نصیب کا لکھا سمجھ کر مشیت ایزدی کے سامنے سرخم کرنے کا حوصلہ دیا۔
ڈاکٹروں کے مطابق، اس کا علاج دواؤں سے زیادہ اس کے تئیں گھر کے لوگوں کے رویّے میں مضمر تھا۔اس کی کسی بھی حرکت پر برہم نہ ہونے اور کسی بات پر زیادہ اصرار نہ کرنے کی سخت تاکید کی گئی تھی ورنہ صورتِ حال مزید بگڑنے کے قوی امکانات تھے۔
پھر جب خلیج کے لئے جاب ویزا کی خوشخبری ملی تو اس نے فوراً فیصلہ کر لیا کہ پہلی ہی فرصت میں عمرہ ادا کرے گا اور ممکن ہوتے ہی حج کا فریضہ بھی انجام دے گا تاکہ قادرِ مطلق کے کرم سے عارف کے تعلق سے کوئی کرشمہ ہی ہو جائے۔
ایک دو ہفتوں کے اندر معاملہ طے ہوا۔بھائی کی رضا مندی سے دکان فروخت کی اور ایک نئی اُمید کے ساتھ زندگی کے نئے سفر پر روانہ ہو گیا۔
فون پر ہمیشہ نازنین سے گفتگو ہوتی۔ بھائی اور ماں سے بھی باتیں ہوتیں۔ مگر ان کے لاکھ پچکارنے اورسمجھانے کے باوجود عارف فون لائن پر کبھی نہیں آیا اور وہ اس کی آواز سننے کو ترس گیا۔ ہاں، امّی نے ایک خوش آئند بات یہ بتائی کہ زبیرنے عارف کو بہت حد تک سنبھال رکھا ہے۔ اسے اکثر باہر گھمانے لے جانے کے علاوہ موقع اور موڈ دیکھ کر اخلاق و دین کا بھی درس دیتا رہتا ہے کہ شاید یہ راستہ ہی اس کی زندگی میں مثبت تبدیلی لا دے۔نازنین نے بھی بتایا کہ زبیر بھائی کی تربیت اور امی کی دعاؤں کے طفیل اب عارف کے جارحانہ رویّے میں نمایاں کمی آئی گئی ہے۔ خاص طور سے زبیر کی موجودگی میں یا اس کے سامنے وہ جارحانہ رویّے کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ آج ہی جب اس نے اپنے ساتھ لائے تحائف بچوں اور بڑوں میں بانٹنے شروع کئے تو عارف نے کوئی ردِّ عمل یا ترجیح ظاہر کیے بغیرخاموشی سے اپنی ٹوئے کار لی اور وہاں سے چلا گیا۔چہرہ حسبِ معمول ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔ لیکن شام کو اس نےہنگامہ برپا کر دیا۔ اسے جیپ چاہئے تھی جو اس نے اپنی بھانجی روحی کو دی تھی۔روحی کسی طور عارف کے لئے اپنی جیپ سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھی۔ عارف نے روحی کو نہ صرف دھکا دے کر گرادیا بلکہ اس کی جیپ بھی چھین لی۔
”یہ میری ہے۔ یہ میری ہے۔“وہ ایک ہی رٹ لگائے جا رہا تھا۔
روحی کے چیخنے چلانے کی آواز سن کر گھر کے سبھی لوگ جمع ہوگئے۔ دونوں بچوں میں سے کوئی اپنی ضد چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ زبیر نے عارف کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہا:
”بیٹا، میں نے کیا سمجھایا تھا؟ کسی دوسرے کی چیز کو کبھی اپنا نہیں کہتے۔“
عارف جیسے بُت بن گیا۔ اس نے خاموشی سے جیپ روحی کے حوالے کی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
طاہر نے عارف کو کئی بار گلے لگانے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار مچل کر اور ہاتھ جھٹک کر اس سے الگ ہو جاتا۔ اس کا دل گویا کٹ کر رہ گیا۔ چار سال تک اپنے بیٹے کو باپ کے پیار سے محروم رکھنے کا احساسِ جرم اور گہرا ہو گیا تھا۔لیکن اسے یہ بھی احساس تھا کہ چار سال کی یہ دوریاں چار دن میں تو کم نہیں ہو سکتی تھیں۔
وہ خیالات کی دنیا سے باہر نکل آیا۔ کلائی پر بندھی ریڈیم ڈائل گھڑی دیکھی۔ گیارہ بجنے کو تھے۔ اس نے کافی وقت چھت پر گزار دیا تھا۔ سیڑھیاں طے کرتے ہوئے وہ نیچے اترا۔ ہال میں ٹیوب لائٹ کی بجائے مدھم روشنی والا بلب روشن تھا۔ سامنے ہی کچن میں نازنین مصروف نظر آئی۔ وہ ہانڈیوں میں بچی ترکاریاں چھوٹے برتنوں میں نکال کر رکھ رہی تھی۔
”کیوں بھئی، کس بات کا انتظار ہے؟ اس بار بھابھی تمہیں دھکیلتے ہوئے میرے کمرے تک نہیں پہنچائیں گی۔“ اس نے اس کے کان کے قریب منہ لے جا کر سرگوشی کی۔
”مجھے تو چار سال انتظار کروایا، اور آپ سے چار گھنٹے بھی انتظار نہیں ہوتا۔“نازنین نے مڑے بغیر کہا۔
”لیکن چار سال تک میرے انتظار میں دبلی ہونے کی بجائے تمہارے حسن پر تو اور نکھار آگیا ہے۔“طاہر نے اسے چھیڑنے کے انداز میں کہا۔
”اس نکھار کی عمر چار ہفتے سے زیادہ نہیں جب آپ کے آنے کی خبر ملی تھی۔“
”اوہ، تو یہ بات ہے۔“ طاہر نے پیچھے سے اس کی کمر کے گرداپنے ہاتھوں کا گھیرا ڈال دیا۔
”کیا کر رہے ہیں آپ۔“ نازنین اس کی گرفت مضبوط ہوتے دیکھ کر کسمسائی۔
”او میری جان ،میری جانِ جگر…….آ…آ…آہ …!“ وہ کیف و سرور کے جذبات سے سرشار اچانک چیخ پڑا ۔ اس کی گرفت یکلخت ڈھیلی پڑ گئی۔نازنین نے اس کی چیخ کے ساتھ ہی بوتل ٹوٹنے کا چھنّاکا بھی سنا۔ وہ بدحواس مڑی اور طاہر کو اپنے سر کے پچھلےحصّے پر ہاتھ رکھے زمین پر کہنی کے بل پڑا ہوا پایا۔چہرے پر شدید تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔
دروازے کی اوٹ میں عارف کھڑا خشمناک نگاہوں سے طاہر کو گھورے جارہا تھا۔چہرے پرایک تنفر آمیز کھنچاؤ تھا۔
”یہ …یہ یہاں کیا کر رہا تھا؟…“ طاہر اتنا ہی کہہ پایا۔ درد کے مارے وہ آنکھیں کھلی رکھ نہیں پا رہا تھا۔
چیخ پکار سن کر گھر کے دوسرے افراد بھی اکٹھا ہو گئے۔
کسی کے بھی پوچھنے پر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔بدستور باپ کو ایک ٹک گھورتا رہا۔
”بیٹا، تم نے ایسا کیوں کیا؟“ آخر زبیر نے آگے بڑھ کر عارف کے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
وہ زبیر کی طرف مڑا اور گویا اپنی پھولتی ہوئی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے بولا:
”آپ ہی نے کہا تھا نا کہ …کہ دوسروں کی چیز کو کبھی اپنا نہیں کہتے …!“
زبیر اُلجھن بھری نگاہوں سے عارف کو تکتا رہا۔
نازنین نے فرسٹ ایڈ بکس کھولا مگر طاہر نے اس کے ہاتھ سے بینڈیج جھٹکے سے چھین لیا۔
اس کے چہرے پر موجود نکھار کی عمر اب چار ہفتوں کی بجائے چار سال کی ہو گئی تھی !!

Jawed Nehal Hasmi
B-5, Govt R.H.E, Hastings,
3, St. Georges Gate Road,
Kolkata – 700022
09830474661 : Mobile

Share
Share
Share