آہ ! سید سجاد بخاری مرحوم
ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری
صدرِشعبۂ اردو ،گورنمنٹ کالج، رائے چوٹی.
+91 9441905026
نوٹ : محترم سجاد بخاری مرحوم سے واقف ضرور تھا مگر کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہں ہوا ۔ جہانِ اردو کے آغاز سے ہی وہ مسلسل ربط میں رہے اور ان کی سرپرستی ہمیں حاصل رہی۔وہ اس سائٹ کے سچے بہی خواہ تھے وقتاً فوقتاً مختلف تجاویز سے ہماری رہنمائی کرتے رہے اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ بہت جلد کوئی مضمون جہان اردو کے لیے ارسال کریں گے۔مگر افسوس صد افسوس ۔ ۔ ۔ ہم اردو کے ایک مخلص اور سچے عاشق سے محروم ہوگئے ۔اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے ۔برادر وصی بختیاری نے اپنے مختصر سے مضمون میں مرحوم سے وابستہ یادوں کو روشن کیا ہے ۔ ملاحظہ کریں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
2/فروری2016 کے صبح گیارہ بجے تھے کہ پروفیسر محمد یاسر نے سید سجاد بخاری کے انتقال کی خبر دی۔کہا کہ سجاد بخاری صاحب کا صبح دس بجے انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مجھے گویا یقین ہی نہیں ہورہا تھا،میں نے ڈاکٹر امان اللہ صاحب سے تصدیق چاہی۔تصدیق کے بعد غم و اندوہ کی ایک عجیب کیفیت طاری رہی۔موصوف سے آخری ملاقات بس ایک ہفتہ پہلے ہی ہوئی تھی۔بہار اردو اکیڈمی کے سیکریٹری جناب مشتاق احمد نوری،چینائی آئے ہوئے تھے،اسی موقعہ کا فائدہ اٹھا کر جناب علیم صبا نویدی نے ایک شعری نشست اور ملاقات کا اہتمام کیا تھا جس کی صدارت ڈاکٹر قاضی حبیب احمد صاحب فرمارہے تھے۔اس مجلس میں سجاد بخاری خصوصی مہمان تھے۔آپ کے ساتھ بہت دیرتک خوش وقتی رہی۔جناب فہیم احمد(آئی .آر .ایس) ‘ ڈاکٹر محمد یاسر جناب شاہد مدراسی ، ڈاکٹر اعجاز حسین، ڈاکٹر امان اللہ اور دیگر کئی احباب ہمراہ تھے۔اس ملاقات میں سجاد بخاری صاحب کہہ رہے تھے کہ بلاوا آرہا ہے،بس چند دن رہ گئے ہیں۔چل چلاؤ کا وقت ہے۔اُس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ آپ کی مراد اس قدر قلیل مدت سے ہے اور آپ اس عجلت میں راہی ٔملکِ عدم ہونے والے ہیں۔
سجاد بخاری اپنی ذات سے ایک انجمن تھے۔مرنجاں مرنج،خلوص کیش،سراپا محبت،وقار و تمکنت کا مجسمہ،بلند اخلاق اور تہذیبی اقدار کے پاسدار تھے۔تمل ناڈ و کے شعر وادب کے منظر نامے پر سجاد بخاری نمایاں تھے۔شاعر،مترجم،ادیب اور اردو کے کامیاب استاذ کی حیثیت سے آپ تامل ناڈو اور ادبی دنیا میں معرف تھے۔
سید سجاد بخاریؔ کی ولادت 1951 میں ہوئی۔(بروایت جناب علیم صبانویدی)ابتدئی تعلیم کے بعد آپ نے بی.اے اور ایم.اے کامیاب کیا،پھر ایم. فل بھی دورانِ ملازمت کامیاب کیا ، بی.ایڈ کامیاب کرنے کے بعد مدراس کے مشہور تاریخی سرکاری اسکول ’’مدرسۂ اعظم ‘‘ )جو انگریزوں کے دور میں مدرسئہ عالیہ کلکتہ کی طرح،مدراس میں قائم کیا گیا تھا،(سے وابستہ ہوئے۔آپ کو اردو کے استاذ کی حیثیت سے نیک نامی اور شہرت حاصل ہوئی۔آپ نے تدریس کے ساتھ ساتھ تامل ناڈو میں اردو نصاب سازی کا کام بھی کیا۔تامل ناڈو اسٹیٹ ٹیکسٹ بک کارپوریشن کی جانب سے شائع ہونے والی اردو کتابوں کے قلمکار،مترجماورمرتب رہے۔
مختلف نجی مسائل اور ناسازیٔ صحت کی بنیاد پر آپ ملازمت سے سبکدوش ہونے کا ارادہ کرلیا اور ریٹائرڈ ہونے سے تقریباََ ۱۲ سال قبل وی۔آر ۔ایس پر سبکدوش ہوگئے۔
آپ نے پروفیسر سید صفی اللہ صاحب کی نگرانی میں مدراس یونیورسٹی،چینائی سے ایم فل کا مقالہ لکھا جس کا موضوع ’’آزاد غزل کا تحقیقی جائزہ‘‘ تھا۔یہ مقالہ اپنے موضوع پر پہلا مقالہ تھا۔پھر کتابی شکل میں بھی شائع ہوا۔اس موضوع پر لکھنے کی تحریک کچھ یوں بھی رہی ہوگی کہ آپ خود آزاد غزل کے تجربے کر چکے تھے۔اس مقالے میں آپ نے آزاد غزل کی ہیئت اور تجربات و امکانات پر بحث کی ہے۔
سید سجاد بخاری کو تامل ناڈو گورنمنٹ نے اردو اردو اکیڈمی کا وائس چیر مین مقرر کیا۔عام طور پرتمل ناڈو اردو اکیڈمی کا چیر مین وزیرِ تعلیم ہوا کرتا ہے۔آپ کا تقرر اردو اکیڈمی کے لئے بحیثیتِ وائس چیر مین ہوا۔لیکن یہ ایک شعلئہ مستعجل ثابت ہوا۔اردو اکیڈمی کو حکومتِ تامل ناڈو نے کوئی فنڈ اور کوئی سہولت فراہم نہیں کی بجز کاغذی تقررنامہ کے۔اور ایک طرح گویا اکیڈمی معطل ہو کر رہ گئی او رآج تک تعطل کا شکار ہے۔
مدراس کی24 جنوری کی نشست میں بھی آپ نے تامل ناڈو حکومت کے اردو اور لسانی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے رویہ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔تامل ناڈو اردو اکیڈمی کے قیام سے اکیڈمی کی عدم کارکردگی کا تذکرہ کرنے کےبعد از راہِ مذاق فرمایا تھا کہ پرفیسر سید صفی اللہ ،نواب عبدالعلی والاجاہ وغیرہ کے بعد ہمارا دور آیا اور اکیڈمی عضوِ معطل ہو کر رہ گئی۔تامل ناڈو میں اردو زبان کے ساتھ جس طرح کا امتیازی سلوک کیا جارہاہے،اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی، جس میں آپ کے ہر لفظ سے آپ کا کرب اور اردو کے لیے آپ کی محبت جھلک رہی تھی۔ تامل ناڈو میں اردو کی صورت حال پر آپ کی تشویش کا اظہار کیا اور گفتگو میں اہلِ وانمباڑی کی کوششوں کی ستائش کی۔
سرمدی پبلیکیشنز،سجاد بخاری صاحب کا ایک اشاعتی ادارہ تھا۔اس ادارے کےذریعے آپ نے کئی اردو کتابیں شائع کیں۔پروفیسر صفی اللہ کے نمائندہ افسانے،تمل ناڈو کے نمائندہ افسانے ،تمل ناڈو میںاردو صحافت، سجاد بخاری کی شاعرانہ جہتیں، وغیرہ جیسی کتابیں اسی ادارے سے شائع ہوئیں۔
وی آ رایس (VRS)اعزازی (رضاکارانہ)ریٹائرمنٹ لینے کے بعد سجاد بخاری صاحب مدراس یونیورسٹی چینائی سے وابستہ ہوئے۔مدراس یونیورسٹی میں اورینٹل ریسرچ انسٹیوٹ ،مرینا کیمپس میں شعبئہ سنسکرت کے تحت یوجی سی کی جانب سے ملٹی لِنگول ڈکشنری پروجیکٹ(کثیر لسانی لغت) کے منصوبے میں تامل کے ساتھ اردو کو بھی شامل کیا گیا۔اس منصوبے سے سجاد بخاری تقریباََ دو ڈھائی سال منسلک رہے۔شاید یہ کام چند حروفِ تہجی اور چند سو الفاظ سے آگے نہ بڑھ سکا۔لیکن اس عنوان سے آپ یونی ورسٹی سے متعلق رہے اور ایک مشغلہ رہا۔
سیدسجاد بخاری کے ایک ماموں مولانا سید عظمت اللہ سرمدیؔ عمری تھے۔(آپ پروفیسر سید صفی اللہ کے بڑے بھائی تھے۔) مولانا عظمت اللہ سرمدی ‘ جامعہ دارالسلام عمرآباد کے قدیم فارغین میں سے ہیں۔آپ حضرت علامہ شاکر نائطی کے تلامذہ میں تھے۔آپ کا کلام منتشر تھا جسے سجاد بخاری نے بڑی جستجو سے مرتب کیا تھا۔ایک طویل عرصے سے اس کتاب کی اشاعت کے لیے کوشاں تھے۔اس کتاب کا سارا کام ہوچکا تھا۔پچھلی ملاقات میں کہہ رہے تھے کہ بہت جلد شائع ہوجائے گی۔اس کتاب کا مقدمہ مولانا محمد ثنا اللہ عمری نے لکھا۔اور اس پر نظر ثانی حضرت مولانا ابولبیان حمادؔ صاحب حفظہ اللہ کر چکے ہیں۔سید سجاد بخاری کا ایک مجموعۂ کلام بھی تشنۂ اشاعت ہے۔آپ اس کی اشاعت کا بھی منصوبہ رکھے تھے۔تقریباَ سب کام ہوچکا تھا۔کئی سال سے مجموعۂ کلام کی اشاعت التوأ کا شکار تھی۔آپ کی غزلوں پر شمس الرحمٰن فاروقی کی رائے بھی موصول ہوچکی تھی۔شاید قدرت کو یہ منظور نہیں تھا کہ مجموعۂ کلام آپ کی حیات میں شامل ہو۔
بخاری صاحب کا شعری سرمایہ بہت وقیع اور قابلِ قدر ہے۔ آپ نے حمد،مناجات،نعت،غزلیں ،نثری غزلیں،ہائیکو،رباعیات و قطعات اور مثنوی میں طبع آزمائی کی ہے۔پانچ چھ سال پہلے سجاد بخاری ایک حادثے کا شکار ہوگئے تھے جس میں پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔تقریباََ ایک سال بعد صحت یاب ہوئے۔اس مدت میں بہت سے علمی و ادبی کام نہ ہو سکے۔
آپ کے مجموعۂ کلام کے لئے ڈاکٹر مناظر عشاق ہرگانوی نے جو طویل مقدمہ لکھا تھا،اس میں مزید اضافہ کر کے ایک کتاب ’’سجاد بخاری کی شاعرانہ جہتیں‘‘ شائع کی گئی۔تقریباََ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں سجاد بخاری کی شاعری پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔سجاد بخاری کی غزلیہ شاعری،سجاد بخاری اور آزاد غزل،سجاد بخاری اور نثری غزل کے علاوہ سجاد بخاری کی نظم نگاری کی بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
سید سجاد بخاری نے ایک خوشحال زندگی پائی۔آپ کی شادی 1977 میں سیدہ سمیرہ بتول سے ہوئی۔ آپ کے گھر دو لڑکے اور ایک لڑکی ہوئی۔جن کے نام ہیں: اکمل بخاری ،بختیار بخاری اور امۃ النور ۔لڑکی کی شادی کئی سال پہلے ہوچکی تھی۔آپ کے داماد سید رشید احمد ہیں۔بڑے فرزند امریکہ میں رہتے ہیں اور چھوٹے فرزند عرب امارات میں مقیم ہیں۔ماشا اللہ سجاد بخاری نے پوتیوں نواسوں کو گودوں کھلایا اور گھر جنت کا سکھ پایا۔آپ کے دونوں فرزندان سعادت مند اور مطیع و فرمانبردار رہے۔لیکن آپ کو ہمیشہ یہی شکایت رہی کہ سب آپ سے دور ہیں۔ سجاد بخاری سے برادر عبد المعز جاذب کے خاص تعلقات تھے، انہوں نے مجھے لکھا کہ ایک مرتبہ سجاد بخاری نے بڑے درد بھرے انداز میں اپنے بیٹوں کی دوری کا شکوہ کیا ، جاذبؔ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے تسلی دی تو کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں ، آپ میرے اچھے دوست ہیں اس لیے میں نے آپ سے یہ بات کہی ہے ، ورنہ مجھے زندگی سے کوئی شکوہ نہیں، میں ہر مقام سے چاہے خوشی کا ہو یا غم کا ،مسکرا کر گزر جاتا ہوں۔
ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کے بھی سجاد بخاری کے اچھے روابط رہے۔مولانا یعقوب اسلم عمری مرحوم اشفاق الرحمن مظہر مرحوم،جناب علیم صبا نویدی ،جناب احمد بادشاہ( جو آپ کے ہمراز و دمساز اور رفیق وعزیز ہیں) اور دیگر تمام ہی معاصرین سے تعلقات استوار رہے۔تعلقات کی دھوپ چھاؤں ہی تو اصل زندگی ہے۔تمل کے مشہور شاعر سلطان الشعرأ کوی ۔کو عبد الرحمٰن صاحب سے آپ کے بڑے قریبی روابط تھے۔ابھی چند مہینے بیشتر کوی۔کو عبد الرحمٰن صاحب کا جشن منایا گیا جس میں آپ کی تامل تخلیقات کے منظوم تراجم بھی شائع کئے گئے اور عظیم الشان پیمانے پر چینائی میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔اس موقعہ پر سید سجاد بخاری نے کوی۔کو کی تامل نظموں کا آزاد اردو ترجمہ ’’جگنوؤں سے ایک خط‘‘ شائع کیا۔جب میں نے استفسار کی ا تو فرمایا کہ اس کا اصل تامل نام ’’مِن مِن گلِل وَ ر کَڈِدَم ‘‘ بتایا۔اس کتاب میں سجاد بخاری کا ایک طویل مقدمہ بھی ہے، جو تقریبابارہ صفحات پر مشتمل ہے۔
سجاد بخاری سے پہلے پروفیسر مظفر شہ میری صاحب نے کئی سال پہلے کوی۔کو کی نظموں ’’پال ویدی‘‘ کا ترجمہ’’ کہشاں‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ اور اب ۲۰۱۵ میں پِتّن کی نظموں کا ترجمہ ’مجذوب‘ کے نام سے کیا۔ سجاد بخاری اورآپ کے تراجم کی رسمِ اجرا ایک ساتھ جشنِ کوی۔کو میں ہوئی۔
بخاری صاحب ‘میرے ساتھ ہمیشہ شفقت اور محبت و الفت سے پیش آتے ۔ یونیورسٹی میں اکثر ملاقات ہو جاتی۔ کبھی سمیناروں میں ملاقات ہوتی تو میرے مقالے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ میرے پی ایچ ڈی کے وائیوا میں پروفیسر صفی اللہ صاحب کے ہمراہ شریک رہے۔ پچھلے چند دنوں سے فیس بُک پر میں آپ سے مسلسل رابطہ میں تھا۔ مختلف امور پر آپ سے تبادلۂ خیال ہوتا تھا۔ میں نے فیس بُک پر جناب یحیی ٰ خان صاحب کا ایک پوسٹ شیئر کیا تھا جس کامضمون یہ تھا کہ ٹیگTAG نہ کیا جائے۔ بخاری صاحب ملاقات میں از راہِ تفنن کہنے لگے ، ٹیاگ کرنے پر بھی آپ کو شکایت ہے۔ میں نے عرض کی،حضور ! اس سلسلے میں آ پ مستثنیٰ ہیں۔ کہنے لگے ،ہاں بھئی ،ہم بھی ٹیاگ سے پریشان ہیں۔ مجھ سے آپ نے مولانا ثنا اللہ عمری صاحب کا پتا مانگا تھا۔ میں نے عرض کیا میسنجر پر بھیج دوں گا۔
ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔
سجاد بخاری بڑی خوبیوں کے حامل تھے۔آپ کا ایک وصف یہ تھا کہ ہمیشہ منکسر المزاجی سے پیش آتے ۔خوش اخلاقی آپ کا خاصہ تھا۔خلوص کے پیکر تھے۔دوسروں کے دل سےقدر کرتے اور نو جوانوں کی بھر پور ہمت افزائی کرتے ۔ریأ اور تکبر سے بہت دوور تھے۔نفاق اور عناد سے آپ کا سینہ ہمیشہ خالی رہا۔اپنے آپ میں مگن رہتے۔معاصرین میں سے کسی سے کوئی رنجش ہوجاتی یا کسی کی کوئی بات پسند نہ آتی تو خاموشی سے کنارہ کش ہو جاتے۔ڈاکٹر پی.احمد باشاہ (سابق صدر شعبۂ اردو، جمال محمد کالج، ترچنا پلی)سے بہت خاص تعلق تھا۔آپ کے متعلقین میںعلیم صبا نویدی،کاظم نائطی ،اصغر ویلوری،ظہیر آفاق ،حسن فیاض، و غیرہ سب کےنام اہم ہیں۔لیکن جب کاظم نائطی کے زیرِ اثر علیم صبا نویدی سے نالاں ہوئے تو دو تین سال تک فاصلہ رہا۔تامل ناڈو اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے سکریٹری اشفاق الرحمٰن مظہرؔ کی تدفین میں دونوں کی پھر ملاقات ہوئی، شکر رنجی دور ہوئی اور سب سے روابط استوار رہے۔کوئی بھی انسان بشری تقاضوں سے مبرّا نہیں ہوتا۔شخصی خامیاں کس میں نہیں ہیں؟ لیکن کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی ذاتی کمزوریوں پر غالب آجائے اور اصلاح کو مقدم جانے۔سید سجاد بخاری مرحوم بھی ان سب باتوں کے مستثنیٰ نہیں تھے۔اللہ رب العزت آپ کی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیّن میں مقام عطا فرمائے، درجات بلند فرمائے اور آپ کی سیئات و کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔آمین.
۳ thoughts on “آہ ! سید سجاد بخاری مرحوم – – – – ڈاکٹرسید وصی اللہ بختیاری عمری”
Ye khabar sun kar bahut Hi ranj hua ke janab Sajjad Bukhari sahab ka intjikhal hochuka hai.Allah Marhum ki Maghfirat kare aur Jannat men Aala muqam ata kare.
FB ke posts se malum hota tha ke Marhum ek badi ilmi shaksiat thi.chand din pahle marhum ne Jigar Muradabadi ek nayab ghazal ko post kiya tha aur khud ku bhi ek nat pesh ki thi.
یقین نہیں آتا کہ یہ خبر سچ ہے۔ سید سجاد بخاری صاحب کل تک بھی سوشیل میڈیا بالخصوص فیس بک پر سرگرم تھے۔ ادبی مباحثے چھیڑتے اور ادب نواز اور دانشور حضرات کو جمع کرتے تھے ۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر بے حد دکھ ہوا ہے۔ اللہ پاک انہیں غریق رحمت کرے۔
فیس بک پر کوئی موضوع پوسٹ کرنے کے بعد جن لوگوں کو وہ ٹیاگ کرتے تھے ان کی ایک طویل فہرست ہوتی تھی۔ لائک اور کمنٹ کا ایک طویل سلسلہ چلتاتھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اردو زبان کے دیوانے تھے۔ ہم لوگوں کو معلوم نہیں ہوسکا ہےکہ آیا وہ بیمار تھے اور کن حالات میں انتقال ہوا۔ بہرکیف اردو دنیا ایک محب اردو سے محروم ہوگئی۔
گل بھلا ڈ الی سے جدا ہو جائپر وشبو چھوڑ جاتاہےا
انناللیاہیوانناالاہیراجون