ادب میں فحاشی …! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وسیم عقیل شاہ

Share
وسیم عقیل شاہ
وسیم عقیل شاہ

ادب میں فحاشی…!

وسیم عقیل شاہ
۱۵، شاہکار سالار نگر‘ جلگاؤں – مھاراشٹرا
موبائل۔ (09322010089)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
‘فحاشی ‘ادب میں ایسا موضوع ہے جو تجربات کی ضرب کاری سے پختگی کے اخیر پڑاؤ پر ہے ـ اس کے برتنے والوں میں اگر بڑے نام نہ بھی ہوں تو قارئین کی تسکین نے ہر عہد میں ادب کی اس غیر سنجیدگی کو جنم دیا ہے ـ جسے بڑی آئیڈیالوجی بھی سمجھا گیا ـ

فحاشی کیا ہے؟ اسے متعدد بار مختلف پیرائے میں بدل بدل کر ہمارے سامنے لایا گیا ہے ـ میں اعادہ نہ کرتے ہوئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ‘وہ تخلیق جو فحاشی کی پرت سے اس کی تہہ دار مقصدیت کو فوت کر دے اور جس کی قرت کرتے وقت قاری اپنے قریب کسی کی آمد سے بے چینی سی محسوس کریں’ یا ایک ادیب کے خیال میں اور بھی آسان جملوں کے ساتھ کہ ” ﮨﺮ ﻭﮦ ﺗﺤﺮﯾﺮ،ﺗﺼﻮﯾﺮ ﯾﺎ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﭘﮍﮪ ﻧﮧ ﺳﮑﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﻧﮧ ﺳﮑﯿﮟ ﯾﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ﻭﮦ ﻓﺤﺶ ﮨﮯ…” خیر یہ وسیع نکتہ ہے اور دقیق مطالعہ طلب بھی ـ اس کے کچھ دیگر پہلوؤں پر توجہ کرتا ہوں ـ
ادب انسانی تعمیرات کا اہم وسیلہ ہے ـ اگر اسے صرف فحاشی کے حوالوں سے خلق کیا جائے تو ایک خیال میں یہ ادب ضرور ہے لیکن سنجیدہ نہیں ـ ادب کا معیار اس کی سنجیدگی ہی سے قائم و دائم ہے ـ اس بات سے انکار نہیں کہ ادب میں فحاشی بھی ایک اہم شئے ہے جسے بڑی سلیقہ مندی سے ہمارے ادیبوں نے برتا ہے نیز بعض نے افسانوی ادب کی توسط سے اسے سنجیدہ بھی ثابت کر دکھایا ہے ـ مگر کچھ ہی اس کے پس منظر کو درشانے میں کامیاب رہے ، بقیہ قاری کی محدود سوچ کے شکار ہوگئے ـ مختصر یہ کہ قاری نے اس نوع کے فن پاروں سے صرف لذت ہی حاصل کی ہے ـ
لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ہر دور کا ادیب سپاہی کہیں نہ کہیں اپنے تخلیقی ترکش سے ایک آدھ فحش زدہ تیر چلا ہی دیتا ہے ـ ایسا کیوں؟
جواب یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ تخلیق کار "کچھ ہٹ کر ” کے مصداق اپنی پہچان نمایاں کرنا چاہتے ہیں ـ یا کچھ تو شاید اپنے اجداد کے نقوش پائے ہوئے ہیں اور اسی کو صراطِ حقیقی افسانہ سمجھتے ہیں تاکہ آپ کی مشابہت منٹو جیسوں سے کی جاسکے ـ یا پھر بہت سے ایسے بھی ہیں جو ظاہری چمک دمک کے سہارے قارئین کو اپنی تحریر کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں ـ کیونکہ جنسی مسالہ آج کل ادب کی چمک دمک سمجھا جاتا ہے ـ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آج کی کہانی بھی بڑی حد تک ” انٹرٹینمینٹ، انٹرٹینمینٹ اور انٹرٹینمینٹ ہی بنتی جارہی ہے ـ
ایسا نہیں ہے کہ میں ادب میں فحاشی کے سخت خلاف ہوں ـ لیکن ایک طور ایسا ہونا چاہیے کہ جو قاری کی ذہنی سطح سے میچ کرے وگرنہ تحریر کی مقصدیت پر صرف جنسی وار چل جاتا ہے ـ اب اگر ادبی کہانیوں اور ریلوے اسٹیشن کے اسٹال پر بکنے والی کہانیوں میں امتیاز کرنا مشکل پڑ جائے تو میں ایک قاری کی حیثیت سے ایسے ادب سے دستبردار ہوں ـ
تخلیق کسی بھی رجحان کی حامل ہو مگر اس میں مقصدیت کا عنصر نمایاں ہونا چاہیے ـ اور مقصد اگر صرف فحاشی ہی ہے تو اس کے تخلیق کار بالخصوص اردو ادب میں ایک نئی شاخ جاری کرنے جارہے ہیں ـ جس کی عمر ساختیت سے زیادہ نہیں ہے ـ

Share
Share
Share