حافظ کرناٹکی
دینی مدرسے سے صدرنشین اردواکیڈیمی کرناٹک تک۔ ایک سفر
حافظ ڈاکٹرمحمد ابرارالباقی
اسسٹنٹ پروفیسر‘ شعبہ اردو، ساتاواہنا یونیورسٹی، کریم نگر
علم روشنی ہے جس سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے انسان کو جن باتوں کا جاننا ضروری ہے اسے تعلیم کہتے ہیں۔ انسانی زندگی میں تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالی نے قرآن کریم کی پہلی وحی کی ابتدا لفظ ’’اقراء‘‘ سے کی۔ جس کے معنی ’’پڑھو‘‘ کے ہیں۔ نہ جاننے کی حالت کو جہالت کہتے ہیں اور جہالت فرد اور سماج دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے علم سیکھنے سے متعلق ارشادات میںیہ بات ملتی ہے کہ علم کا سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ گود سے گور تک علم حاصل کرو اور یہ کہ علم حاصل کرنے کے لیے چین بھی جانا پڑے تو جانا چاہیے۔ ان ارشادات سے حصول علم کی تاکید کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال نے اپنی نظم ’’بچے کی دعا‘‘ کے ذریعہ حصول علم کی تلقین کی اور علم کے ثمرات کو عام کرنے کے لیے کہا کہ:
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
اقبال کے اس خیال کی تفسیرہر زمانے میں چند نابغہ روزگار شخصیات نے پیش کی ہے۔ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی۔ حیدرآباد میں آصف سابع میرعثمان علی خاں نے جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں لایا۔ جس کے فیوض و برکات آج بھی جاری و ساری ہیں۔ ابوالکلام آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم تھے جنھوں نے تعلیمی اصلاحات، یو۔جی۔سی کے قیام وغیرہ کے ذریعہ ہندوستان میں تعلیمی انقلاب لانے میں اہم رول ادا کیا۔ تعلیم کو عام کرنے کی اس تحریک کو آگے بڑھانے والی شخصیات میں جنوبی ہند میں عبدالحق کرنولی بھی مشہور ہوئے اور ریاست کرناٹک میں ان دنوں جس فرد واحد نے مثال قائم کی ہے ان کا نام امجد حسین حافظ کرناٹکی ہے۔ جو حرف عام میں حافظ کرناٹکی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔وہ بچوں کے نامور شاعر و ادیب، مدرس، ماہر تعلیم، باغباں و تاجر اورا ب کرناٹک اردو اکیڈیمی کے صدرنشین ہیں۔ دینی مدرسے میں حفظ قرآن مجید سے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کرنے والے حافظ کرناٹکی نے افضل العلماء، ادیب فاضل، ایم۔اے، بی۔ایڈ تک تعلیم حاصل کی۔ سرکاری مدرس رہے اور بعد میں ریاست کرناٹک اور ملک بھر میں دینی و عصری مدارس قائم کیے اور فروغ تعلیم میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بچوں کے نامور شاعرکے طورپر جانے جاتے ہیں بچوں کے ادب پر ان کی زائد از پچیس کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں۔ ان کی حیات اور ادبی خدمات یقیناًفروغ تعلیم پرکام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔
امجد حسین حافظ کرناٹکی شیموگہ کرناٹک کے علاقے شکاری پور میں ۱۸؍ جون ۱۹۶۴ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد نذیر پاشاہ نے ایف۔اے تک تعلیم حاصل کی۔ ان کی والدہ بصیرالنساء بھی معلمہ رہیں۔ حافظ کرناٹکی نے کلام پاک حفظ کیا۔ ’’سورب‘‘ کے سرکاری اسکول سے تعلیم کا آغاز کیا۔ اسکولی تعلیم اور دینی تعلیم کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ والد صاحب کے وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد کچھ عرصہ زراعت اور باغبانی کی۔ بنگلور کے مدرسہ سبیل الرشاد میں دینی تعلیم اور فاصلاتی تعلیم سے ۱۹۸۴ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ادیب کامل کیا۔ ۱۹۸۶ء میں اساتذہ کی تربیت کے امتحان TCH کامیاب کیا۔ ۱۹۸۸ء میں مانس گنگوتری یونیورسٹی میسور سے ایم۔اے کا امتحان کامیاب کیا۔ ۱۹۹۱ء میں سرکاری ملازمت میں داخل ہوئے اور اسی دوران ۱۹۸۹ء میں ان کی شادی بھدرواتی کے معزز سید خاندان سید عبدالکریم صاحب کی بیٹی سارہ بانو سے ہوئی۔ جن سے انھیں پانچ اولادیں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ حافظ کرناٹکی دینی سرگرمیوں سے وابستہ رہے۔ مدارس دینیہ کا قیام ان کا واحد مقصد ہے۔ سرکاری ملازمت کے سبب انھیں اپنی مصروفیات کی انجام دہی میں رکاوٹ ہوئی تو انھوں نے قبل ازوقت ملازمت سے سبکددوشی اختیار کی۔ شکاری پور کے محلہ ہلیور میں مسجد و مدرسہ کی تعمیر میں حصہ لیا۔ مولانا محمد ایوب ندوی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ جو جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے استاد تھے اور مختلف علاقوں میں مدرسہ اسلامیہ قائم کیا کرتے تھے۔ حافظ کرناٹکی ان کے ساتھ ہوگئے۔ انھوں نے ’’سُنہ ایجوکیشنل این؛ چیریٹیبل ٹرسٹ‘‘ قائم کیا۔ کرایہ کے گھر سے مدرسہ شروع کیا۔ لڑکوں کے لیے مدرسہ مدینتہ العلوم قائم کیا۔ پھر لڑکیوں کے لیے مدرسہ زبیدہ للبنات کاقیام عمل میں آیا۔ عیسائی مشنری کا جواب دینے ۱۹۹۱ء میں اُسامہ نرسری اسکول قائم کیا جہاں عصری تعلیم دی جاتی تھی۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر واقعہ کے بعد انھوں نے لفظ ’’اُسامہ‘‘ بدل کر زبیدہ کردیا۔ اسکول کو ترقی دی۔ ہائی اسکول کے بعد ۲۰۰۰ء میں انٹر کالج اور ۲۰۰۲ء میں ڈگری کالج قائم کیا۔ ۲۰۰۴ء میں ڈی۔ایڈ کالج کی منظوری حاصل کی۔ حافظ کرناٹکی نے اپنے تعلیمی و فلاحی مشن کو ملک بھر میں وسعت دی۔ ان کی فلاحی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے آفاق عالم صدیقی لکھتے ہیں:
’’سُنہ ٹرسٹ کا کام شکاری پوفر تک ہی محدود نہیں ہےبلکہ سارے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے اور یہ کہ سُنہ کم و بیش فلاحی نوعیت کے بیسیوں کام کرتا ہے جیسے غریبوں کی شادی، بیواؤں کی امداد، غریب طلبا کی امداد، معزوروں کی امداد، مساجد کی تعمیر، مکاتب اور مدارس کی تعمیر، قربانی کا اہتمام، قبرستان کی فراہمی، قبرستان کی گھیرا بندی، اسپتال کا قیام، صحت بیداری کیمپ کا انعقاد، بورویل، کنویں اوفر ہینڈپمپ کا انتظام اور بھی بہت سے دوسرے کام جس سے مسلم سماج و معاشرے میں بیداری آئے، تعلیمی تحریک پیدا ہو، صحت و صفائی کا احساس جاگے، اعلی تعلیم کی رغبت پیدا ہو، روزگار کے مواقع پیدا ہوں، یتیموں کو اور لاوارثوں کو تعلیم سے آراستہ کر کے زندگی کے بنیادی دھارے سے جوڑا جاسکے۔(آفاق عالم صدیقی ۔ حافظ کرناٹکی حیات و خدمات، ص: ۳۴۔۳۵)
حافظ کرناٹکی کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی دور حکومت میں انھوں نے مدارس کے تحفظ کے لیے کئی ایک اقدامات کیے۔ آل انڈیا انجمن مدارس قائم کیا اور حکومت اور مخالفین کی جانب سے مدارس کو دہشت گردی کے مراکز قرار دیے جانے کی مذمت اورمخالفت کی۔ اس ضمن میں شکاری پور میں بین مذہبی اجلاس منعقد کرایا۔ بنیادی طور پر سماجی زندگی میں حافظ کرناٹکی کے تین دور رہے۔ پہلے دور میں وہ دینی مدارس اور فلاحی خدمات کرتے رہے۔ دوسرے دور میں سُنہ ادارے کی کارگزاری رہی اور تیسرے دور میں وہ اپنا ٹرسٹ جمیعتہ مدینتہ العلوم چلا رہے ہیں اور ان کی علمی، فلاحی و سماجی خدمات کے پیش نظر حکومت کرناٹک نے انھیں ریاستی اردو اکیڈیمی کا صدرنشین نامزد کیا ۔
حافظ کرناٹکی کی شخصیت کا دوسرا اہم پہلو شاعر کا ہے۔ اپنی علمی، تہذیبی، ملی و سماجی خدمات کے دوران شاعری کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر بچوں کے شاعر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی وہ دکھی یا پریشان ہوتے ہیں تو حمد، نعت، نظم یا غزل کہہ کر اپنا جی ہلکا کرلیتے ہیں۔ کوئی نظم کہنے کے بعد اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتے ہیں۔ حافظ کرناٹکی کے شعری مجموعوں کے نام اس طرح ہیں (۱) معصوم ترانے، (۲) بلبلوں کے گیت، (۳) زمزے، (۴) مہکتی کلیاں، (۵) چمکتے ستارے، (۶) گلشن گلشن شبنم شبنم، (۷) چاند گگن، (۸) شمع ہدی (نعتیہ کلام)، (۹) نور وحدت (حمدیہ کلام)، (۱۰) طفلستان (قطعات)، (۱۱) محسن مسرت، (۱۲) موج تبسم (رباعیات)، (۱۳) ہمارے نبیؐ (منظوم سیرت پاک)، (۱۴) فانوس حرم، (۱۵) ہندوستان (قومی گیت)، (۱۶) راگ راگنی، (۱۷) اشک و اشک، (۱۸) معصوم غزلیں، (۱۹) صیامستان (نغمات ماہ رمضان)، (۲۰) گاکر میں ساگر، (۲۱) لحن، (۲۲) ننھی منی غزلیں، (۲۳) لوریاں، (۲۴) ذکر نبیؐ۔ حافظ کرناٹکی کی شاعری کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے صحیح اردو تلفظ کے ساتھ اپنی نظموں کے آڈیوکیسٹ ریکارڈ کروائے ہیں۔ ذکر نبیؐ کا کیسٹ آٹھ گھنٹوں پر مشتمل ہے۔ اپنی شاعری کو باآواز پیش کرنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
’’آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچے جس قسم کے گیت یا نغمے سنتے ہیں وہی ان کی زبان پر چڑھ جاتے ہیں۔ چناں چہ میں نے صوتی کیسٹ تیار کرواتے وقت یہ بات ذہن میں رکھی کہ بچے الٹے سیدھے گانے بھول کر نظمیں گانے لگیں اور نظمیں یاد کرلیں تاکہ وہ لغویات سے محفوظ رہیں۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ بچے جب کیسٹ سنیں گے تو ان کا تلفظ درست ہو جائے۔ نیز نظم پڑھنے کے لیے جو ایک خاص طرح کا لب و لہجہ ہونا چاہیے۔ اس سے بھی آگاہ ہو جائیں گے۔ آپ خوب جانتے ہوں گے کہ جنوب میں اردوزبان و بیان اور تلفظ کا کیا حال ہے۔ مجھے جس بات کی خوشی ہے کہ صوتی کیسٹ کی وجہ سے بچوں نے ہنسی خوشی طویل نظمیں بھی یاد کرلی ہیں۔ سیرت النبیؐ کی صوتی کیسٹ آٹھ گھنٹوں پر محیط ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کئی بچوں کو اس کے بیش تر حصے ازبر ہیں۔ یہی وہ چیز ہے کہ جو مجھے اکثر کتابوں کی صوتی کیسٹ بنانے پر ابھارتی ہے۔‘‘(حافظ کرناٹکی سے ایک گفتگو۔ بہ حوالہ حافظ کرناٹکی حیات و ادبی خدمات، ص: ۲۰۷)
حافظ کرناٹکی اردو کے پہلے اور واحد شاعر ہو ں گے جنھوں نے اپنے کلام کو صوتی شکل میں اس لیے پیش کیا کہ بچے اسے سن کر اردو کا صحیح تلفظ سیکھ سکیں۔ ان کا یہ کارنامہ یقیناًاردو تلفظ کو محفوظ رکھنے اور بچوں تک صالح ادب پہنچانے میں معاون ثابت ہوگا۔ بچوں کے لیے کی گئی حافظ کرناٹکی کی شاعری میں زبان و بیان اور موضوعات کے اعتبار سے بچوں کی پسند اور نفسیات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ سیدھے سادے اور مترنم انداز میں انھوں نے بچوں کے لیے شاعری کی ہے۔ بچوں کے ادب کے ضمن میں انھوں نے الطاف حسین حالی، اسماعیل میرٹھی وغیرہ سے اکتساب کیا ہے۔ حافظ کرناٹکی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کفر و ضلالت تھی ہر سو
رہبر بن کر آئے نبیؐ
(نعت)
پاکی آدھا ایمان ہے
پیارے نبیؐ کا فرمان ہے
(وضو)
حامد روتے روتے بولا
آج مرا اک روزہ چھوٹا
(روزہ)
آؤ بچو عید منائیں
اچھلے کودیں دھوم مچائیں
(عید منائیں)
رواج اچھا ہے عام کرنا
سلام کر کے کلام کرنا
(بچو سلام کرو)
میرے گھر کی رانی ہے وہ
میری پیاری دادی اماں
(دادی اماں)
کتنی شیریں زبان ہے اردو
ملک کی آن بان ہے اردو
(اردو)
دیکھو قدرت کا یہ بھید
بھینس ہے کالی دودھ سفید
(بھینس)
دودھ جو دیتی ہے گائے
گھر گھر بنتی ہے چائے
(گائے)
حافظ کرناٹکی یہ اور دیگر اشعار کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بچووں کی دینی و دنیاوی تربیت اور ان کی معلومات میں اضانے کے لیے شعر کہے ہیں۔ ان کے ہاں موضوعات کا تنوع، انداز بیان کا ترنم پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کی مشاہیر ادب نے ستائش کی ہے اردو کے مشہور و معروف مورخ پروفیسر بی۔ شیخ علی حافظ کرناٹکی کی کتابوں پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’واقعی آپ نے ایک کا رعظیم انجام دیا ہے۔ ایجوکیشن ٹکنالوجی میں ایک انوکھا اضافہ کیا ہے۔ معلومات کے خزانے کو آسان نظم کی صورت میں پیش کرنا آسان کام نہیں۔ ندرت فکر و عمل کو میدان میں لاکر ایک بامقصد، بامعنی، اخلاقی، تہذیبی رہنمائی کی بات کرنا معمولی بات نہیں۔‘‘ (پروفیسر بی۔شیخ علی بہ حوالہ حافظ کرناٹکی۔ حیات و خدمات، ص: ۱۵۱)
بچوں کے ادب پر حافظ کرناٹکی کی خدمات کو اردو کے دانشوروں نثار احمد فاروقی، شمس الرحمن فاروقی، مظہر امام، قمر رئیس، پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ، ندا فاضلی، جیلانی بانو وغیرہ نے ستائش کی نظر سے دیکھا ہے اور ان کے فن کی تعریف کی ہے۔ چناں چہ نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں:
’’بچوں کے ادیب ہی تعمیر اور اصلاح افکار و اخلاق کا کام بہتر اور موثر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔‘‘(نثار احمد فاروقی بہ حوالہ ص: ۲۶۵)
شاعری کے علاوہ نثر میں بھی حافظ کرناٹکی نے چند ایک کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں ان کی کتاب ’’بچوں کا ادب اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کو زیادہ مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ سیرت النبیؐ پر ان کی کتاب پیارے نبیؐ بھی بے حد مقبول ہوئی۔ اس کتاب کی ستائش کرتے ہوئے ندا فاضلی لکھتے ہیں:
’’آپ نے واقعی بہت اہم کام کیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بجا ہے کہ خدا کی کرم فرمائی نے آپ کے قلم سے اپنے محبوب کی سیرت پاک تحریر فرمائی ہے۔ یہ کتاب حفیظ کے شاہ نامہ کے بعد ایک اہم صحیفہ ہے۔ جو ہمیشہ آنکھوں کو بصیرت اور ذہنوں کو ذہانت عطا کرتا رہے گا۔‘‘ (ندا فاضلی بہ حوالہ حافظ کرناٹکی۔ حیات و خدمات، ص: ۲۷۵)
بہ حیثیت صدر نشین اردو اکیڈیمی کرناٹک حافظ کرناٹکی اس امید کا اظہار کیا کہ اردو والے زبان کے لیے اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ بچوں کو اردو پڑھائیں۔ اکیڈیمی کی سرگرمیوں میں تعاون کریں۔ لوگ مل کر کام کریں گے تو مقاصد کی تکمیل ہوگی۔ بہر حال حافظ کرناٹکی اپنی ذات میں انجمن مجاہد اردو ہیں۔ وہ اپنی ذات سے علاقہ کرناٹک میں علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ اردو کے ادیب بچوں کے ادب سے دوری اختیار کررہے ہیں۔ حافظ کرناٹکی نے بچوں کے ادب پر توجہ دے کر ادیبوں کو ادب کے اس گوشے کی جانب توجہ دلانے پر زور دیا۔ حافظ کرناٹکی کی دینی، ملی، علمی و ادبی خدمات لائق ستائش ہیں اور دوسروں کے لیے مشعل راہ:
تازہ دم مجھ کو رکھنا ہے حافظ تو پھر
ہر قدم پر مجھے آزماتے رہو
(حافظ کرناٹکی)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔