قاضی عبدالستار:سواد حرف میں اک عشقِ بے سپہرکا رنگ ۔ ۔ ۔علامہ اعجازفرخ

Share
 علامہ اعجازفرخ
علامہ اعجازفرخ
قاضی عبدالستار
قاضی عبدالستار

قاضی عبدالستار
سواد حرف میں اک عشقِ بے سپہر کا رنگ

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
1933ء کی شب اپنی ردادرست کر رہی تھی کہ آفتاب رات کو بے حجاب دیکھنے کے لئے صدیوں سے تعاقب میں ہے اور شب تھی کہ اب تک اپنے گیسوئے برہم سنبھال کر چاندنی کی ردا اوڑھ کر نکلتی اور آفتاب کی آہٹ سے پھر چھپ جاتی۔ اودھ کے ایک دیہات سیتا پور میں اسی شب اوردن کی آنکھ مچولی کے درمیانی لمحہ میں ایک نومولود کی پہلی آواز نے جہاں ممتا کے سینے کو ٹھنڈک بخشی۔ باپ کے چہرے کونوید سحر نے مسرت سے پرنور کردیا۔ باپ نے نومولود کے کان میں اذاں دے کرنام عبدالستار رکھا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات گھر کا ماحول توتھا ہی، اساتذہ نے بھی کوئی کمی نہ رکھی۔ 1948ء میں میٹرک اونچے نشانات سے کامیاب کیا، پھر 1950ء میں آرٹی ٹی کالج سے انٹرمیڈیٹ میں اول آئے، 1956ء میں اردو مسلم یونیورسٹی میں بحیثیت لکچرر مقررہوئے، 1957ء میں پروفیسر رشید احمدصدیقی کی نگرانی میں ’’اردو شاعری میں قنوطیت‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

قاضی عبدالستار ایک مکمل تہذیب، بے باک، خوش لباس، خوش ذوق، خوش بیان، خوش باش، خوش خوراک، صاحب طرز افسانہ نگار، منفرد اسلوب کے ناول نگار اور الفاظ کے بے شمار قبیلوں کے سردار ہیں۔ ان کا طرز بیان کبھی الفاظ کا محتاج نہیں رہا، بلکہ ہر لفظ کو اس پر ناز رہا کہ قاضی اپنے محل استعمال سے الفاظ کو معنی کی نئی خلعتیں اور لفظوں کے قبیلوں کی کنواریوں کو رنگین قباؤں اور پیرہنوں سے ملبوس کر کے چوڑیوں کی کھنک سے طرز سکوت اور خاموشی سے تکلم کا ہنر عطا کر تے ہیں۔ قاضی عبدالستار کو جب مسلم یونیورسٹی میں پروفیسری کے لئے کہا گیا تو انھوں نے یہ شرط رکھی کہ وہ بھی انٹر ویو لینے والوں سے تین سوال کریں گے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے، تو قاضی صاحب نے جواب دے دیا کہ مجھے پروفیسری کا خبط نہیں ہے۔ ہندوستان میں اس بے باکی اور وضعداری کی صرف دو ہی مثالیں ملتی ہیں، ایک قاضی عبدالستار اور دوسری زینت ساجدہ ،زینت آپا نے تو مڑ کر بھی نہیں دیکھا کئی مہینے پروفیسری انتظار میں رہی، لیکن قاضی صاحب کا بحیثیت پروفیسر انتخاب ہوا، بلکہ قاضی صاحب کا تقرر ہوا تو وہ علی گڑھ میں موجود بھی نہیں تھے۔
قاضی کے پاکستان کے ادبی سفر کے دوران اس وقت کے صدر جناب ضیاء الحق نے قاضی عبدالستار کو پاکستان کی شہریت کے ساتھ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدہ کی پیشکش کی توقاضی نے اس عذر کے ساتھ مسترد کردیا کہ جس ملک نے مجھے پدم شری کے اعزاز سے نوازا ہے، میں اس مٹی کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔
حال ہی میں منشی پریم چند تقاریب کے لئے بعض ادیبوں اور دانشوروں کو مدعو کیا گیا تھا، جب پائیلٹ نے ہوائی جہاز کے اڑان کے بعد سیفٹی بیلٹ باندھے رکھنے کا سگنل بجھا دیا تو ہوسٹس نے مشروبات سے تواضع شروع کی، ایسے میں اس کانفرنس کے ایک مندوب مسافر نے ہوسٹس کو بلا کر ڈانٹ پلائی اور کہا کہ میں پدم شری ہوں، مجھے مشروب پہلے پیش کیا جانا چاہےئے۔ ’’دروغ برگردن راوی‘‘ سنا ہے کہ اب ایرویزیہ ترغیبی اسکیم کا اعلان کرنے جارہی ہے کہ وہ تمام معزز ہستیاں جو اس اعزاز سے نوازی گئی ہیں، ان کو دومشروبات پیش کئے جائیں گے، بشرطیکہ وہ پدم شری کا تمغہ اپنے گلے میں لٹکائے رکھیں، تاکہ ہوسٹس کو شناخت میں سہولت ہو۔
قاضی کے ہندو دوستوں نے کہا کہ ’’آپ صرف یہ تسلیم کرلیں کہ ہندی زبان سے واقف ہیں تو ناول دارا شکوہ پر دو لاکھ کا انعام حاضر ہے‘‘۔ انھوں نے جواب دیا ’’ میں واقعی ہندی نہیں جانتا تو تسلیم کیسے کرلوں، میں اس رقم کے عوض اپنی دیانت تو نہیں بیچ سکتا‘‘، جناب فخرالدین علی احمد نے جو اس وقت صدر ہندوستان تھے قاضی صاحب کو ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو کے باوقار عہدے اور دیگر مراعات سے نوازنا چاہا تو قاضی عبد الستار نے صاف کہہ دیا کہ وہاں بھی سارے کام ہندی میں ہوں گے اور مجھے ہندی نہیں آتی۔
قاضی عبدالستار کے لئے علی گڑھ بیک وقت خطہ امن اور محاذ جنگ رہا ہے، قاضی نے اپنے مخالفین سے برسہا برس خاموش جنگ کی ہے، وہ کبھی کبھی اپنے آپ سے بھی لڑتے ہیں۔ انھیں خاموش رہ کر مخالف کو جھنجھلاہٹ میں مبتلاء کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ ان کی خاموشی بعض وقت اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ مخالف پریشان ہوجاتا ہے۔ انھیں انجمن سے زیادہ تنہائی میں لطف آتا ہے، ان کے خیال میں تخلیق خلوت کی کوکھ میں پرورش پاتی ہے، ان کے تین درجن سے زائد افسانے ان کے ناولوں کی طرح ہندوستان کے دیہات، شہر، محلاتی زندگی اور تاریخ کے پوشیدہ گوشوں کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن ہر تخلیق انسانی نفسیات کی نہ صرف مکمل عکاس ہے، بلکہ تحت الشعور کے نہاں خانے میں پوشیدہ احساس کو شعور کی سطح پر باریاب کرتی ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں کا ترجمہ ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ہوچکا ہے۔
قاضی عبدالستار کا ادبی سفر شاعری سے شروع ہوا۔ ان کے دادا کے دوست اور سیتا پور کے مشہور شاعر بابو گر بچن لال شیدا نے حوصلہ افزائی کی اور بڑی محبت سے اصلاح دے کر وہ غزل کو نہایت مرصع کردیتے تھے، لیکن قاضی صاحب کو اس سے تسکین نہ ہوتی تھی۔ پھر انہوں نے افسانے اور ناول کی طرف توجہ کی۔ ان کا پہلا افسانہ ’’اندھا‘‘ لکھنؤ کے ایک جریدے ’’جواب‘‘ میں شائع ہوا، لیکن ان کی شہرت ’’کتاب‘‘ لکھنؤ میں شائع ہونے والے افسانے ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ سے ہوئی، جس کی باز گشت سارے ملک میں سنائی دی۔ 1959ء میں پہلا ناول ’’شکست کی آواز‘‘ اور دوسرا ناول ’’ شب گزیدہ‘‘ 1962ء میں شائع ہوا۔ چوں کہ قاضی عبدالستار کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے، اسی لئے ان کے ناولوں میں زمینداروں کی طرز زندگی اور معاشرتی نظام کا بہت گہرا مشاہدہ اور تجزیہ ملتا ہے، جس میں زمیندار اور تعلقداروں کا کردار ہی بنیادی ہوتا ہے۔
قاضی عبدالستار نے تاریخ پر کئی افسانے اور ناول لکھے، ان کے فن کا کمال یہ ہے کہ وہ قاری کو ان کی تخلیق کا ایک حصہ بنادیتے ہیں اور قاری فوراً سفر کر کے خود کو اس ماحول میں موجود پاتا ہے۔ اس طرح قاضی عبدالستار صدیوں کے فرزند ہیں۔ ان کے ناول داراشکوہ۔ صلاح الدین ایوبی، غالب اور ان کے افسانے آنکھیں، نیا قانون، بھولے بسرے اس کی زندہ مثال ہیں۔ ان کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی نے کہا کہ ’’ان کا فن ایڈ گرائلن پو کی یاد دلاتا ہے، ان کے قلم میں گزشتہ عظمتوں اور کھوئے ہوئے ماحول کو دوبارہ زندہ کرنے کی حیرت انگیز قوت ہے‘‘۔ قرۃالعین حیدر کا خیال ہے کہ ’’شب گزیدہ سے بہتر ناول خود قاضی عبدالستار ہی لکھ سکتے ہیں‘‘۔ ممتاز شیریں کا خیال ہے کہ ’’داراشکوہ اردو کا پہلا ناول ہے، جسے ہم دنیا کے بڑے ناولوں کے ساتھ رکھ سکتے ہیں‘‘۔ پروفیسر احسن فاروقی کا خیال ہے کہ، قاضی عبدالستار کے ناولوں سے عالمی معیاروں کی خوشبو آتی ہے‘‘۔ پروفیسر محمد حسن نے کہا کہ ’’ہم قاضی عبدالستار کی بڑائی اس لئے نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ وہ ہمارے زمانے میں ہیں‘‘۔ ہندی کے مشہور ناول نگار بابا گرجن نے قاضی عبدالستار کو دوسرا پریم چند کہا ہے۔ میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ’’اردو کو نثر نوردی کا شوق ہوا تو محمد حسین آزاد سے صحرا میں گل کھلائے اور قاضی عبدالستار کے قلم میں روشنائی سے آبیاری کی تو مغلیہ سلطلنت کی حقیقی شان و شوکت کو قاضی عبدالستار جیسے بوریا نشین کے قدموں میں ڈھیر کردیا‘‘۔ان دنوں میری صحت ایسی نہیں کہ میں زیادہ قلمی کام کر سکوں ۔مجھے بڑا قلق ہے کہ میں قاضی عبدالستار اورپروفیسر مجاور حسین رضوی صاحب پر خاطر خواہ نہ لکھ سکا۔آواز جرس سنائی دے رہی ہے۔یہ چند سطور کو،،سواد حرف میں اک عشق بے سپہر کا رنگ ،، جانئے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share

۶ thoughts on “قاضی عبدالستار:سواد حرف میں اک عشقِ بے سپہرکا رنگ ۔ ۔ ۔علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share