دستور ہندکی روشنی میں مسلمانوں کا موقف ایک جائزہ
محمد جہانگیرعلی
ریسرچ اسکالر ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشن
مولانا آزاد نیشنل اْردو یونیورسٹی حیدرآباد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہندوستان میں ایک اندازے کے مطابق 200ملین مسلمان رہتے ہیں۔ ملک کے بعض حصوں میں ان کی تعداد کثیر ہے اور باقی جگہوں پر یہ قلیل تعداد میں ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کے اس بے ترتیب پھیلاؤ کی وجوہات تاریخی اور جغرافیائی ہیں۔ بعض ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی 10فیصد سے زائد ہے۔حکومت ہند کی طرف سے تقرر کردہ کئی کمیشنوں نے اس بات کی نشان دہی کی کہ بحیثیت مجموعی مسلمان ‘ تعلیمی‘ معاشی اور معاشرتی میدانوں میں اکثریتی طبقات سے بہت پیچھے ہیں ۔
ہندوستان میں اقلیتیں:۔
حکومت ہند کی طرف سے مقرر کردہ کئی کمیشنوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ مسلم اقلیت ملک کے دوسرے طبقات کے مقابلے میں معاشی تعلیمی ، سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے کافی پیچھے ہے ۔ عام اصطلاح میں’’اقلیت‘‘ کا مطلب آبادی کا ایسا طبقہ جو ملک کی اکثریتی آبادی کے نصف سے کم ہو بہ لحاظ مذہب، نسل ، ثقافت و روایات ، زبان وغیرہ۔ اکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں اقلیت کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ اقلیت عددی اعتبار سے کم تعداد میں یعنی اکثریتی آبادی سے نصف سے بھی کم آبادی کو کہا جاتا ہے جو اکثریت والی آبادی سے نسل، مذہب ، زبان یا سیاسی خیالات میں مختلف ہو۔دستور ہند میں دفعہ 29‘ 30‘ 350A اور 350B میں اقلیت کا ذکر موجود ہے لیکن کہیں بھی لفظ ’’اقلیت ‘‘ کی تعریف بیان نہیں کی گئی ہے۔دفعہ 29 میں لفظ ’’ اقلیتیں ‘‘ ملتا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ شہریوں کا کوئی طبقہ جس کی مخصوص زبان ہو ‘ علیٰحدہ ر سم الخط ہو یا مختلف ثقافت ہو ۔اس سے مراد سارا طبقہ ہو سکتا ہے جس کو اکثریتی طبقے سے علیٰحدہ تصور کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک ہندوستا ن میں مذہبی اقلیتوں کا تعلق ہے ایسے تمام طبقات جو اکثریتی مذہب یعنی ہندو مت سے ہٹ کر کسی دوسرے مذہب کی پیروی کرتے ہیں مذہبی اقلیت میں شمار کیے جاسکتے ہیں ۔اس ملک میں ہندو مت کو اکثریتی طبقے کا مذہب کہا جاسکتا ہے کیونکہ 80فیصد سے زیادہ لوگ ہندو مذہب کی اتباع کرتے ہیں ۔قومی سطح پر مسلمان سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہیں ۔ہندوستان کی دیگر اقلیتیں ‘ مسلمانوں سے بہت کم تعداد میں ہیں۔
اقلیتوں کے حقوق ۔ :Rights of Minorities
حقوق انسانی کے عالمی منشور1948ء اور اس کے بعد 1966ء کی دو دستاویزات میں اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ ’’سارے انسان وقار اور حقوق میں برابر ہیں‘‘ اور ہر قسم کے امتیاز کی ممانعت کی گئی ہے۔ جس میں نسلی، مذہبی وغیرہ شامل ہیں۔ دستور ہند کی دفعہ15اور16 ریاست کو کسی بھی نوعیت کے امتیاز برتنے سے روکتے ہیں چاہے وہ مذہب، نسل ذات جنس، سلسلہ نسبت مقام پیدائش مقام ریائش یا کسی اور وجہ سے ہو۔حالیہ عرصے میں دستور کی دفعہ 15میں93ویں ترمیم کے ذریعے سے ریاست کو قانونی طور پر یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ معاشرہ کے کمزور اور پس ماندہ طبقات جیسے درج فہرست ذاتوں ، درج فہرست قبائل اور دیگر پس ماندہ طبقات کی بہبودی کے لئے مناسب قوانین وضع کرے۔
دیگر دستوری تحفظات ۔ Other Constitutional Safeguards
اقلیتوں سے متعلق دیگر دستوری تحفظات جو دستور ہند کے تیسرے حصہ میں اور دوسرےجگہ دیےگئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔
(i) ضمیر کی آزادی، کسی بھی پیشے کو اختیار کرنے کی آزادی، کسی بھی مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی (دفعہ25)
(ii) مذہبی معاملات کا انتظام چلانے کی آزادی(دفعہ26)
(iii) کسی مخصوص مذہب کی تبلیغ اور فروغ کے لئے چند ہ/عطیہ/ محصول دینے کی آزادی(دفعہ27)
(iv) کسی تعلیمی ادارہ میں کسی مذہب کی تعلیم اور عبادت کرنے کی آزادی(دفعہ28)
(v) ریاست کی آبادی کے کسی حصہ کی طرف سے بولی جانے والی زبان کے استعمال کی آزادی (دفعہ347)
(vi) اپنی شکایات اور تکا لیف کو ایوان حکومت ، عدالت یا دیگر محکمہ جات تک پہنچانے کے لئے زبان کے استعمال کی اجازت (دفعہ350)
(vii) تحتانوی سطح پر تعلیم کے لئے مادری زبان میں تدریس کی آزادی (دفعہ350A)
(viii) لسانی اقلیتوں کے حقوق کی نگہداشت کے لئے لسانی اقلیتوں کے کمشنر کے تقرر کی گنجائش (دفعہ350B)
دستور ہند کی دفعہ 29 Article 29 of constitution of India
دستور ہند کی دفعہ 29اور دفعہ30ہندوستان کی اقلیتوں کے تعلیمی اور ثقافتی حقوق کے بارے میں ہے۔
دفعہ 29میں کہا گیا ہے کہ
(1)شہریوں کا کوئی طبقہ جو ہندوستان کے کسی علاقے میں رہتا ہو، اس کو اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کا پورا حق حاصل ہے۔
(2) کسی بھی ہندوستان شہری کو سرکاری یا سرکار سے مالی امداد حاسل کرنے والا تعلیمی ادارہ اس کے مذہب، نسل ، ذات ، زبان یا کسی اور نسبت سے داخلہ سے انکار نہیں کر سکتا۔
دستور ہند کی دفعہ 30 ۔ Article 30 of constitution of India
دستور ہند کی دفعہ30اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام چلانے کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔ ا س میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ساری اقلیتیں چاہے وہ مذہب کی بنیاد پر ہوں یا زبان کی بنیاد پر ، یہ حق رکھتی ہیں کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں اور ان کا انتظام چلائیں‘‘
دفعہ350 A میں لسانی اقلیتوں کے لئے چند مخصوص تحفظات فراہم کئے گئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ ہر ریاست کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ لسانی اقلیتوں کے بچوں کے لئے تحتانوی سطح پر ان کی مادری زبان میں تعلیم کی سہولت فراہم کریں۔ اس سلسلے میں صدر جمہوریہ ہند اقلیتوں کے بچوں کے لئے ان کی مادری زبان میں تعلیم کے لئے سہولتیں فراہم کرنےکے سلسلے میں خصوصی ہدایات جاری کر سکتے ہیں۔
مذہبی اقلیتیں ۔ Religious Minorities
ہندوستان ایک ایسا منفرد ملک ہے جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں جن میں ہندو، مسلم سکھ ، بدہسٹ ، عیسائی اور پارسی وغیرہ شامل ہیں۔ ہندومت کی طرح بدھ مت ، جین مت اور سکھ مذہب کا آغاز ہندوستان میں ہوا۔ اسلام عیسائیت اور پارسی مذاہب باہر سے ہندوستان آئے ۔ اس طرح’’ ہندوستان کثرت میں وحدت‘‘ کا تصور پیش کرتا ہے۔ ہندوستان کے دستور میں لفظ ’’اقلیت‘ یا اقلیتی مذہب کی کہیں بھی تعریف نہیں بیان کی گئی ہے لیکن اس دستور کے تیسرے حصے میں اقلیت کے بارے میں کئی جگہ ذکر ملتا ہے۔
اقلیتوں کے قومی کمیشن کے قانون بابتہ (19) 1992ء میں ’’ اقلیتی طبقات‘‘ کی حسب ذیل تعریف بیان کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’اس قانون کے لئے مسلمان ، عیسائی، سکھ ، بدہسٹ اور زرتشت کے ماننے والے (پارسی) طبقات ’’ اقلتی طبقات‘‘ کہلائے جاتے ہیں۔ تاہم اقلیتیں ان مذاہب کے ماننے والوں تک ہی محدود نہیں ۔ ریاستیں اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے دیگر طبقات کو بھی اقلیتوں میں شمار کر سکتی ہیں۔ جین مذہب کو ملک کے 9ریاستوں میں اقلیت تسلیم کیا گیا ہے۔
مذہبی اقلیتوں کا تعلیمی موقف ۔ Education Status of Religious Minorities
شرح خواندگی ۔ Literacy rate
جین مذہب کے ماننے والوں میں خواندگی کی شرح سب سے زیادہ یعنی94.1فیصدہے۔ عیسائیوں میں یہ شرح80.3فیصد، بدہسٹوں میں72.7فیصد،ہندوؤں میں65.1فیصداور سکھوں میں69.4فیصدہے۔ملک کی خواندگی کا قومی اوسط64.8ہے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی خواندگی کی شرح47فیصددرج کی گئی ہے۔ مسلمانوں میں خواندگی کی شرح59.1فیصدہے جو خواندگی کی قومی شرح سے کم ہے۔ مسلمانوں میں بھی خواندگی کی شرح خواتین میں سب سے کم ہے۔ 6سال سے کم عمر والے بچوں کی تعداد مسلمانوں میں زیادہ پائی گئی۔
تعلیمی سطح ۔ Educational level
ہندوؤں میں گریجویٹ اور اس کے اونچے درجے تک تعلیم حاصل کئے ہوئے لوگوں کی تعداد 70فیصد ہے یہ تعداد تقریباً سب طبقات کی تعلیمی سطح کے مماثل ہے۔ مسلمانوں میں شرح خواندگی 65.31فیصدہے تحتانوی سطح کی حد تک مسلمانوں کی تعلیمی حالت دوسرے طبقات سے بہتر ہے لیکن جیسے جیسے مسلمان بچے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں پہنچتے ہیں تو ان کی تعلیمی سطح میں انحطاط معلوم ہوتا ہے اور یہ سطح گھٹ کر ثانوی تعلیم کی حد 10.96فیصداور اعلیٰ ثانوی تعلیم کی حد تک 4.53فیصدہو جاتی ہے۔
اس ضمن میں اقلیتوں کی ترقی و ترویج کے لیے UPAحکومت نے اپنے الیکشن کے مینی فیسٹو Common Minimum Programmeمیں یہ وعدہ کیا تھا کہ اقلیتوں کوسماجی،معاشی اورتعلیمی طور پر مستحکم کیا جاے گا۔ اس لیے حکومت ہند نے /9مارچ2005ءکو جسٹس راجندر سچارکی صدارت میں ایک کمیٹی تشکییل دی۔اس کمیٹی کے اہم مقاصد مسلمانوں کی سماجی،معاشی اور تعلیمی سطح کو جانچنا تھا۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ /17نومبر 2006ء کو حکومت کو پیش کردی تھی۔اس کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوںمیں /30نومبر2006کو پیش کردیا گیاتھا۔اس رپورٹ کے حاصلات حسب ذیل ہیں۔
سچار کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلم گریجویٹ 3.6فیصد،ڈپلومارکھنے والے0.4 فیصد، 3 IASفیصد، IPS 1.8فیصدپاے گیے ۔جب کہ مسمانوں میں خط غربت کی شرح31 فیصد پائی گئی۔
Table2: Muslim Representation in Govt .Jobs
سچار کمیٹی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ سرکاری ملازمت میں بھی مسلمان پچھڑے ہویے ہیں۔اعداد وشمار کے لحاظ سے14.5 فیصدمسلمانوں میں سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کا فیصد6.4پایا گیا۔فیصد کے لحاظ سے اگرنظر ڈالیں تو آندھرا پردیش میں9.2 فیصد سے ملازمتوں میں8.8 فیصد کیرالامیں24.7 فیصد سے ملازمتوں میں10.4 فیصد اورکرناٹک میں 12.2فیصد سے ملازمتوں میں 8.5فیصدپایا گیا جو تسلی بخش اعداد وشمار ہیں ۔وہیں اگرسب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاست آسام میں30.9 فیصد مسلمانوں کا سرکاری نوکریوں میں 11.2فیصد ،مغربی بنگال میں 25.2فیصد مسلمانوں کا سرکاری نوکریوں میں4.2 فیصداوردہلی میں 11.7فیصد مسلمانوں کا سرکاری نوکریوں میں 3.2فیصدبہت ابتر حال ہے۔
Gayer نے اپنی کتاب ’’Muslim in Indian Cities‘‘میں یہ لکھا کہ ہندوستان میں دلت اور آدی واسی طبقہ بھی مسلمانوں کی طرح پچھڑاہوا ہے لیکن اْنہیں تحفظات دینے کی وجہہ سے اْن میں سدھار ہونے لگا ہے۔
اس وجہہ سے حکومت نے مسلمانوں کی معاشی ،سماجی اور تعلیمی ترقی کے لیے 15نکاتی پرائم منسٹرپروگرام بنایا گیا۔اقلیتوں کومعاشی طور پر خود مختار بنانے کے لیے کمرشیل بنکوں سے قرض فراہم کرنے کی اسکیم کو منظوریدی گئی۔اس کے علاوہ مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ایک ایکشن پلان بنایا گیا ۔اس کا احاطہ اقلیتوں کی کثیر آبادی والے 196 اضلاع کے بلاک تھا۔اس اسکیم کو وزارت اقلیتی اْمور کے زیر نگرانی انجام دی گئی۔
اس کے لیے UPAIIحکومت نے12th پنچ سالہ منصوبہ میں 17323 کروڑ کا بجٹ اقلیتوں کی ترقی کے لیے تجویز کیا گیا۔ جس کی تفصیلات کوجدول 3میں دیکھا جاسکتا ہے۔
Table 3: scheme -wise plan allocation by MoMA in 12 five -year plan ( in Rs. Crore)
بی جے پی نے 2014ء کےالیکشن مینی فیسٹو میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی ترقی کے وعدہ کیے تھےاْن میں اہم اردو زبان کی ترقی و ترویج، مدرسوں کی جدید کاری، وقف بورڈ کو طاقتور بناناتھا۔لیکن اس حکومت نے جو بجٹ پیش کیاوہ بجٹ اقلیتوں کے تعلق سے خاموش ہے۔صرف پچھلی حکومت نے جو بجٹ اقلیتوں کے لیےپیش کیا اس حکومت نے اْسے ہی جاری رکھا ۔کوئی نئی اسکیمات کو نافذ نہیں کیا گیا۔اس بجٹ میں مدرسوں کی جدید کاری کے لیے20 فیصد کا اضافہ کیا گیا۔مولانا آزاد ایجو کیشنل فونڈیشن()ان اسکیمات کو نافذ کرنے والا ادارہ ہے۔ لیکن وزیرمالیات نے اس کے 2014-15بجٹ میں بہ نسبت گذشتہ کے 47 کروڑکی تخفیف کردی۔اگر گذشتہ تین سال کا احاطہ کیا جاے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ تخمینہ بجٹ کروڑ روپئے تھا لیکن صرف فیصد ہی استعمال کیا گیا۔اس کی ایک اہم وجہہ یہ بھی ہے کہ اقلیتی طبقہ ان اسکیمات سے ناواقف ہے۔اْنہیں ان اسکیمات کاراست فائدہ بھی نہیں پہو نچ سکتا ہے۔چونکہ ایک طرف اس طبقہ میں تعلیم یافتہ افراد کا فقدان پایا جاتا ہے اس لیےحکومتی اسکیمات سے وہ خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کرسکتے ہیںاور دوسری طرف حکومت بھی ان اسکیمات کو روبہ عمل سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی اس لئے جو بجٹ مختص کیا جاتاہے وہ سال کے اختتام تک 50فیصد بھی خرچ نہیں ہو پاتا ہے۔ اس لیے اقلیتوں کے دانشور طبقہ، NGOکو اس طبقہ کی ترقی کے لیے آگے آنا چاہیےاور اقلیتوں کی ترقی کے لیےتحفظات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
BIBLOGRAPHY
1. Laurent Gayer and Christopher Jaffrelot (2012):-‘‘Muslim in Indian Cities’ ‘Harper-Collins Publication,
2.http://indiabudget.nic.in/ub2014-15/eb/sbe68.pdf
3. http://www.minorityaffairs.gov.in
4.. http://www.minorityaffairs.gov.in/sachar
From
Mohd Jahangeer Ali
M.A,MSC,MBA,M.ed,M.Phil,(P.hD)
Research Scholar in Education, MANUU
Cell No – 09440210106