طنزومزاح : فارغ البال
ڈاکٹرعابد معز
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل 09502044291
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فارغ البال سے کیا مراد ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے آپ کو تھوڑی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ حضرات ! ہاتھ اٹھائیں اور اپنے سر پر پھیریں۔ اگر آپ کا ہاتھ بالوں کے چنگل اور جنگل میں الجھتا ہے اور آپ ہاتھ کی انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرسکتے ہیں تو اس مضمون کا موضوع آپ نہیں ہیں۔ اور اگر آپ کا ہاتھ چٹیل میدان پر ناکام پھیرا لگا کر مایوس لوٹ آئے تو اس مضمون کا موضوع گو آپ نہیں ہیں لیکن آپ جیسے فارغ البال اصحاب ہیں۔
صاحبِ مضمون کا شمار بھی فارغ البال زمرے میں ہوتا ہے!
خواتین سر پر ہاتھ پھیرے بغیر مضمون پڑھ سکتی ہیں۔ خواتین کو فارغ البالی نصیب نہیں ہوتی۔ اکثر فارغ البال اشخاص کا خیال بلکہ تجربہ ہے کہ خواتین، فارغ البال تو ہوتی نہیں ہیں لیکن فارغ البالی کا سبب ضرور ہوتی ہیں۔
لوگ یوں ہی راتوں رات فارغ البال نہیں ہوجاتے! یہ ایک درد بھری داستان ہوتی ہے۔ ہر فارغ البال شخص کا سر ماضی میں سر سبز و شاداب ہوا کرتا ہے۔ اس نے بھی کبھی بالوں میں تیل ڈالا، کنگھی کی اور بالوں کو مختلف فلمی ستاروں کی طرح سجایا ہوگا۔ بادِ صبا اس کے بالوں سے اٹکھیلیاں کرچکی ہوگی۔ بال ماتھے پر گرائے ہوں گے۔ محبوبہ نے لانبی انگلیوں سے اس کے بال بھی سنوارے ہوں گے۔
زندگی کے کسی موڑ پر گدھے کے سر سے غائب ہونے والے سینگ کی مانند سر سے بال ایسے اڑنے لگتے ہیں جیسے پہلے کبھی تھے ہی نہیں۔ نئی نویلی دلہن صبح اٹھ کر جس طرح کان کا بالا بستر میں تلاش کرتی ہے ایسے ہی یہ حضرت، داغِ مفارقت دے گئے بالوں کو تکیہ سے جمع کرتے ہیں۔ ان کی گنتی کرتے ہیں۔ مرحوم بالوں کی یاد میں چند منٹ خاموشی اختیار کرکے آئینہ دیکھتے ہیں۔ کہیں کہیں بالوں کے درمیان میں سے چندیا چمکنے لگتی ہے۔ افسردگی سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو چند بال ہاتھ کو چمٹے چلے آتے ہیں۔ کنگھی کرنے پر مزید کئی بال سر کا ساتھ چھوڑتے ہیں۔ نہانا غضب ڈھاتا ہے۔ پانی بے یارومددگار بالوں کو بہا لے جاتا ہے۔
جوں جوں بال گرتے جاتے ہیں ، تشویس بڑھتی جاتی ہے۔ بال گرنے کی وجہ پانی کا کھارا یا کڑوا ہونا سمجھی جاتی ہے تو کبھی تیل، کریم، صابن یا شیمپو کی خرابی قرار پاتی ہے۔ انھیں بدلنے کا لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے۔
گرتے بالوں کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی کوششیں شروع ہوتی ہیں۔ اخبارات اور رسائل میں چھپے اشتہاروں اور مشوروں پر مختلف قسم کے تیل سے سر پر باغبانی کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔ ایک ایک بال کی جڑ میں تیل پہنچایا جاتا ہے۔ کریم سے کمزور اور ناتواں بالوں کی لَے کو سنوارا جاتا ہے۔ سر پر مختلف ہیر ٹانکوں سے مالش کی جاتی ہے۔ہمہ اقسام کے صابن اور شیمپو کی مدد سے سر اور بالوں کو ’صاف‘ رکھا جاتا ہے۔
تمام تر کوششوں کے باوجود سر سے بالوں کی خیرات جاری رہتی ہے۔ احباب ہوشیار کرنے لگتے ہیں۔ ’آپ کے بال کم ہورہے ہیں۔ کچھ کیجیے ، وگرنہ چڑیاں چک گئیں کھیت تو پچھتانے سے کچھ نہ ہوگا۔‘
گرتے بالوں کو تھامنے کے لیے حجام سے لے کر ڈاکٹر تک، ہر ایک سے مدد مانگی جاتی ہے۔ حجام مختلف علاج بتاتے ہیں۔ بار بار سر منڈھوایئے۔ پھر گھونٹے ہوئے سر پر لگانے کے لیے ان کا آزمودہ لیپ دیتے ہیں۔ اگر آپ سر منڈھوانا اور مرہم نہ لگانا چاہیں تو حجام ہر دن اپنا تیار کردہ تیل لگا کر مالش کرتے ہیں۔ نتیجتاً سر فارغ البالی کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوتا ہے۔ مالش سے سر پر خراشیں اور زخموں کے نشان الگ پڑجاتے ہیں۔ سر درد کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سے مشورہ کرنے پر وہ اپنی مثال پیش کرتے ہوئے اپنے فارغ البال سر پر ہاتھ پھیر کر کہتے ہیں۔ ’فارغ البالی وراثت میں ملتی ہے۔ ابھی تک اس کا علاج دریافت نہ ہوسکا۔اسی لیے،اسے صبر اور شکر کے ساتھ قبول کیجیے۔ اگر علاج معلوم ہوا تو پہلے میں استعمال کروں گا اور پھر تجربہ کی بنیاد پر آپ کو مشورہ دوں گا۔دعا کیجیے کہ قارغ البالی کا علاج جلد دریافت ہوجائے ، آمین۔‘
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ رہتا ہے۔ دوا وردُعا کے باوجود بالوں کے گرنے کا عمل اپنی رفتار سے جاری رہتا ہے۔ آخر کار فارغ البالی مسلمہ حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ سر پر کہیں کہیں بچے کھچے بال منہ چڑانے لگتے ہیں۔کسی کے سر پر چوتھی تاریخ کے چاند کی شکل میں دونوں کانوں کے درمیان سر کے پیچھے چند بال بچ رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کی پیشانی کے اوپر اور سر کے اطراف ’ن‘ کی شکل میں بال باقی رہتے ہیں۔ چند فارغ البال اشخاص کے سر کے اطراف اور سر کے بیچ میں بچے کھچے بال تشدیدیا انگریزی حرف ڈبلیو کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ چند سروں پر بچے ہوئے بال چاند، سورج یا تارے کی شکل بنالیتے ہیں۔ جس طرح طوفان سے پہلے پتا نہیں چلتا کہ پانی کہاں کہاں سے اور کیا کیا بہالے جائے گا، ایسے ہی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ آیا فارغ البالی کے بعد سر پر بال بچ رہیں گے اور اگر بچ گئے تو ان کی شکل کیا ہوگی؟
فارغ البالی کی اصل وجہ ڈاکٹر اور وہ بھی ’ہیر اسپیشلسٹ‘ یعنی بالوں کے ماہر جانتے ہوں گے۔ عام طور پر لوگ مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ بعض کے خیال میں کہنہ نزلہ زکام اور آنکھوں کی کمزوری بالوں کو لے ڈوبتی ہے۔ پانی کی خرابی بالوں کو بہا لے جاتی ہے تو غذا میں بے قاعدگی بالوں کو کمزور کردیتی ہے۔علم نجوم پر یقین رکھنے والوں کا خیال ہے کہ فارغ البالی معاشی خوش حالی کی علامت ہے۔ اس ضمن میں بعض نجومی ہاتھ کی طرح سر بھی پڑھتے ہیں۔
ہماری دادی اماں بتاتی تھیں کہ زیادہ لکھنے اور پڑھنے سے فارغ البالی میّسر آتی ہے۔ دماغی الجھنوں اور مالی پریشانیوں کو بھی فارغ البالی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ نیم حکیم قسم کے چند فارغ البال اشخاص کی رائے ہے کہ فارغ البالی زائد مردانگی کی نشانی ہے جو شاید بالوں کے ذریعہ ضائع ہوتی رہتی ہے۔غرض ، خیال اپنا اپنا اور فارغ البالی اپنی اپنی!
بال گرنے اور جھڑنے کے بعد پرانی شکل سے نئی صورت ابھر آتی ہے۔ سر کے گڑھے اور ابھار نمایاں ہوتے ہیں۔ پتا نہیں چلتا کہ پیشانی کہاں ختم ہورہی ہے اور کہاں سے سر شروع ہورہاہے۔ پیشانی کے بل، سر پر بھی جا پڑتے ہیں۔ چہرے کے کیل، مہاسے اورپھنسیاں سر پر بھی نکل آتی ہیں۔ وضو کرتے وقت سر کے بجائے کبھی پیشانی تو کبھی تالو کا مسح ہوتا ہے۔بال گرنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی تالو پختہ عمر میں بھی نہیں بھرتی، تیل بھرنے کی گنجائش باقی وبرقرار رہتی ہے۔
سر کے بالوں نے چہرے کے جو نقص چھپائے ہوتے ہیں، وہ فارغ البالی میں عیاں ہوجاتے ہیں۔ بڑی ناک بہت بڑی نظر آتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھیں تقریباً بند لگتی ہیں۔ موٹے ہونٹ بہت موٹے دکھائی دیتے ہیں۔ پچکے ہوئے گال مزید پچک جاتے ہیں۔ تھوڑی نمایاں ہوجاتی ہے اور سر بڑا دکھائی دیتا ہے۔
فارغ البال سر پر اِدھر اُدھرگنے چنے چند بال عجیب لگتے ہیں، اس پر ان بالوں کو سجانے کا انداز غضب ڈھاتا ہے۔ چند بالوں سے چندیا کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ نتیجتاً مضحکہ خیز شکل تیار ہوتی ہے۔ سر کے پیچھے سے بچے کھچے بالوں کو سائبان کی طرح تالو اور پیشانی پر لایا جاتا ہے۔ سیدھے کان کے پاس سے چند بالوں کو سر کے اطراف گھماپھراکر بائیں کان کے پاس چھوڑا جاتا ہے۔ چار، چھہ بالوں کو ایک کان سے دوسرے کان تک اس طرح جماتے ہیں کہ سر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
بعض لوگ سر کے اطراف بچے کھچے بالوں کو ضرورت سے زیادہ لانبا چھوڑتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے گرما میں پانی ٹھنڈا رکھنے کے لیے کوری ٹھلیا کے اطراف جھالر باندھی گئی ہو۔ فارغ البال سر کو سجانے کے اور بھی انداز ہیں۔ آس پاس فارغ البال سروں پر نظریں دوڑائیں اور لطف اٹھائیں۔
چوں کہ فارغ البال شخص کے سر پر بال کم سے کم ہوتے ہیں، انھیں سنوارنے اور سنبھالنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہوگی۔ وہ تیل، کریم اورکنگھی سے بے نیاز ہوتے ہوں گے اور کچھ پیسے بھی بچتے ہوں گے۔ اکثر لوگوں کی طرح ہماری یہ خام خیالی حقیقت کے برعکس ثابت ہوئی۔ گنے چنے بالوں کو اِدھر اُدھر گھمانے اور پھرانے کے لیے مخصوص کنگھی اور انھیں سر پر ٹکانے بلکہ چپکانے کے لیے قیمتی کریم چاہیے جو صرف بالوں کو چمٹی رہے لیکن چندیا کو نہ چمکائے۔
صد افسوس کہ محنت اور مشقت سے جمائے بلکہ ٹکائے گئے بال کچھ دیر ہی اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں۔ ہوا کا ہلکا جھونکا، سامنے والے شخص کا زور سے بات کرنا یا خود کا جماہی لینا، ٹھنڈی سانس بھرنا، کھانسنا یا چھینکنا، فارغ البال شخص کے بالوں کے نظام کو درہم برہم کردیتا ہے۔بکھرے ہوئے چند بالوں کو پھر سے سمیٹنے اور سجانے کے لیے ہردم کنگھی چاہیے۔ اگر آپ کو کنگھی کی ضرورت پڑجائے تو بلا جھجک فارغ البال اشخاص سے مانگیے، وہ آپ کو مایوس نہیں کریں گے لیکن ایک روایت کے مطابق آپ کے بالوں کی خیر نہیں!
فارغ البال سر کے بچے کھچے بالوں کو تیل یا کریم لگانا ایک آرٹ ہے۔ یہ بہت نازک کام ہے۔ ذرا سی بد احتیاطی چکنائی کو سر پر پھیلا دیتی ہے۔ سر چمکنے لگتا ہے۔ بعض سر آئینے کا کام بھی دیتے ہیں۔ ہم اپنے ایک دوست کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جن کی بیگم کا میک اپ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ شوہر کی چندیا میں اپنا عکس نہ دیکھ لیں۔ شوہر کے سر میں اپنا چہرہ دیکھ کر میک اپ کو فائینل ٹچس دیتی ہیں ، ان کا سر پونچھتی ہیں اور پھر دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پارٹی کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔
فارغ البال سر ایک جیسے اور فارغ البال اشخاص آپس میں بھائی بھائی نظر آتے ہیں۔ یوں بھی سگے بھائیوں میں فارغ البالی کا پایا جانا عام ہے۔ لیکن’ فارغ البال بھائی چارگی‘ عالمی ہے۔ سبھی فارغ البال سر ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں فرق ہوتا ہے تو صرف بالوں کی تعداد میں ہوتا ہے ۔ کسی سر پر بال کم تو کسی کے سر پر بہت ہی کم بال اور بعض سر پر تو بال بالکل بھی نہیں!
فارغ البالی سے شناخت آسان ہوتی ہے۔ حلیہ بتانے میں سہولت رہتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کا حلیہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے فارغ البال سر کو چار حصّوں میں تقسیم کیجیے۔ بائیں کان والے حصّہ میں ایک کالے رنگ کا مسّاہے جو دور ہی سے نظر آتا ہے۔ ایک اور فارغ البال شخص کا حلیہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ موصوف کا سر آئینہ کی طرح صاف اور شفاف ہے۔ دو کانوں کے درمیان کچھ ہی بال بچے ہیں اور بائیں جانب کے دس پندرہ بالوں کو بڑھا کر دائیں کان پر باندھتے ہیں۔
فارغ البال کی بے بسی اور لاچارگی پر خود اس شخص کے بعد اگر کسی دوسرے کوہمدردی ہوسکتی ہے تو وہ حجام ہے۔ حجام فارغ البال شخص کا سر کچھ ایسی مایوسی کے عالم میں تکتا ہے جیسے کوئی کسان اپنی بنجر زمین کو دیکھ کر آہیں بھرتا ہے۔ حجام کو بال اور کسان کو فصل نہ کاٹنے کی خلش رہتی ہے۔ بعض حجام سروں پر بال اگانے اور انھیں برقرار رکھنے پر تحقیق کرتے ہیں۔ فارغ البال سر ان کی تجربہ گاہ ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جس دن بھی کوئی حجام، ڈاکٹر یا خود فارغ البال شخص ، فارغ البالی کا علاج دریافت کرلے گا وہ اسی دن مالامال ہوجائے گا اور فارغ البالی کا خاتمہ ہو جائے گا!
حجام تجربہ کے لیے فارغ البال سروں کی تلاش میں رہتا ہے جبکہ فارغ البال اشخاص حجام سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ حجام کے پاس کیوں جائیں؟ دوچار بال خود ہی کیوں نہ کاٹ لیں! حجام کے پاس جانے سے خدشہ لگا رہتا ہے کہ اس کی قچ قچ کرتی تیز قینچی بالوں کی تلاش میں کہیں کان اور ناک نہ کاٹ لے۔یوں بھی حجام فارغ البال شخص کے سر پر بال ڈھونڈنے اور ان کے جمانے کا انداز دریافت کرکے بال کاٹنے کی اجرت زیادہ لیتے ہیں۔
بچوں کو معلوم نہیں فارغ البال سر کیا اور کیسے دکھائی دیتا ہے۔ اطراف گھوم پھر کر غور سے چکنے سر کا جائزہ لیتے ہیں۔ خوش ہوتے اور سوال کرتے ہیں۔ ’انکل آپ کے بال کہاں گئے؟ ‘
اس سوال کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ’بال چوہے کھا گئے‘ یا پھر یہ کہ ’شرارت کرنے پر اللہ نے بال واپس لے لیے۔‘ بعض بچے اپنے تجسّس کا عملی اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے لڑکے نے ہمارے فارغ البال سر کو للچاتی نظروں سے دیکھ کر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ’میں چاچا کے چاند پر جاؤں گا۔‘
اس کے والد سمجھاتے رہے۔ ’بیٹا ایسے خطرناک کھیل نہیں کھیلا کرتے، وہاں کوئی سہارا نہیں ہے۔ پھسل جاؤ گے۔‘
لیکن لڑکے کی ضد بڑھتی گئی۔ آخر ہم نے کہا۔ ’کیوں بچے کو مایوس کرتے ہو۔‘ ہم نے اپنا سر جھکایااور لڑکے سے کہا۔ ’آؤ بیٹااپنی خواہش پوری کرلو۔‘
لڑکا ہمکتا ہوا آیا اور ہمارے شانوں پر سے ہوتا ہوا سر پر قدم رکھنا چاہتا تھا کہ توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ نیچے گرنے کے بجائے فضا میں خلا بازی کھا کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ لڑکے کے والد خوش ہوئے۔ ’میرا لڑکا جمناسٹک کا کھلاڑی بنے گا۔‘
ہمیں لقمہ دینا پڑا۔ ’باپ کا نام اور چچا کی چندیا روشن کرے گا۔‘
سر اور چہرے کے بالوں سے عمر کم نظر آتی ہے۔ماتھے کی جھرّیوں پر سر کے بالوں کا پردہ کیجیے۔ گال اگر بڑھتی عمر کی چغلی کھاتے ہیں تو داڑھی اور مونچھ رکھیے۔اس کے برخلاف فارغ البال اشخاص اپنی عمر سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ یوں بھی فارغ البالی بڑھتی عمر کی نشانی ہے لیکن بعض لوگوں کو فارغ البالی اتنی جلد میسّر آتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے ان کے پاس جوانی آئی ہی نہیں۔ بچپن کے بعد سیدھے بوڑھاپا آیا ہے۔ ہمیں خوب یاد ہے، جب ہم اسکول سے کالج میں داخل ہوئے تو ہمارے ایک فارغ البال ساتھی کو ہم سبھی بشمول لڑکیاں ’انکل ٹام‘ کہا کرتے تھے اور انکل ٹام حسرت سے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا کرتے۔ ’خدایا تو سب کو میری طرح گنجا کردے یا پھر میرا سر بالوں سے بھر دے۔‘
اس ضمن میں ہم خود اپنی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ ہمیں اور ہماری بیگم کو ساتھ دیکھ کر کھسر پھسر ہوتی ہے۔ ’دیکھیے بزرگوار اپنی تیسری بیوی کے ساتھ آرہے ہیں۔ یہ بوڑھے بھی نوجوانوں پر کیسا ستم ڈھاتے ہیں۔‘ اب آپ ہی بتائیں، ایسے موقعوں پر فارغ البال شوہروں کو کیا کرنا چاہیے۔
فارغ البال اشخاص کو بالوں کا سپورٹ نہ ہونے سے اپنے سر کی ضرورت سے زیادہ حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ سر کو سردی اور گرمی زیادہ لگتی ہے۔ سر پر ذرا سی چوٹ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بال نہ ہونے سے بال بال بچنے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ ایک فلسفیانہ خیال یہ بھی ہے کہ فارغ البال لوگ خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ حقیقت میں یہ ایک احتیاطی تدبیر ہے۔ فارغ البال شخص کا خوش اخلاقی سے پیش آنا ایک مجبوری ہے۔ کبھی بھی فارغ البال سر طنز اور ملامت کا نشانہ بن سکتا ہے اور بالوں کے درمیان نہ ہونے سے بات دھول دھپّہ تک بہت جلد جا پہنچتی ہے۔
فارغ البال اشخاص منکسرالمزاج بھی ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ بال و پر نہیں نکال سکتے اور نہ ہی خدا انھیں ناخن دیتا ہے۔ ان مجبوریوں کے ساتھ فارغ البال سر کو کچھ فائدے بھی حاصل ہیں۔ کوئی ان کے بال بکھیر نہیں سکتا۔ کوئی ان کے زلفوں میں بندھ نہیں سکتا۔ جب بال ہی نہیں ہیں تو ظاہر ہے کیسی بھی بات ہو ، بال کھڑے نہیں ہوسکتے۔ کوئی ان کے بال کی کھال نہیں نکال سکتا اور نہ ہی کوئی ان کا بال بیکا کرسکتا ہے۔ فارغ البال سر میں جوئیں نہیں پل سکتیں اور نہ کان پر جوں رینگ سکتی ہے۔
فارغ البال سر کو ہماری فلموں میں بھی ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ہیرو اپنے دوستوں سے فارغ البال سر پر چپت رسید کرنے کی شرط لگاتا ہے۔ گانے کے دوران فارغ البال سر پر طبلہ بجتا ہے۔ بعض مرتبہ پورے اسکرین پر چمکتی چندیا کو مختلف زاویوں سے پیش کیا جاتا ہے۔ فارغ البال سر پر تیلی پھیر کر سگریٹ جلایا جاتا ہے۔ فلموں میں ویلن یا ویلن کا کوئی اہم چمچہ فارغ البال ضرور ہوتا ہے۔ اپنے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ہیرو کو للکارتا ہے۔ ویلن فارغ البالی کی وجہ سے خطرناک اور طاقتور ثابت ہوتا ہے۔ ہیرو کو اپنے شکنجے میں جکڑلیتا ہے۔ ہیرو اس کے سر کا نشانہ لیتا ہے۔ دو، تین مرتبہ وہ بچ جاتا ہے لیکن آخر میں فارغ البال سر میں پھوٹے شیشے، سیخ یا بندوق کی گولی سے دڑاڑ پڑنے پر اس کی شکست ہوتی ہے۔
فارغ البالی کو یوں ہی خاموشی سے برداشت نہیں کیا جاتا۔ فارغ البالی سے پیچھا چھڑانے کے لیے لاکھ جتن کیے جاتے ہیں۔ بالوں کو اگانے کے لیے مختلف نسخوں کو آزمایا جاتا ہے۔ بال تو خیر نہیں آتے لیکن بعض مرتبہ جلد داغدار ہوجاتی ہے۔ اس ہائی ٹیک دور میں جسم کے دوسرے حصّوں سے بال نکال کر انھیں سر پر لگانے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ لیکن فارغ البال سر جیسی بنجر زمین پر نئی کونپلیں نہ نکل سکیں۔ آخر تمام تدابیرکے ناکام ہونے پر فارغ البال لوگ اپنے سروں کو نقلی بالوں سے سجاتے ہیں۔
لوگ اپنی پسند کے بالوں کی وِگ پہنتے ہیں۔ آسانی سے پہچان لیے جاتے ہیں۔ سر پر وگ رکھی رہنے سے احتیاط بھی لازم ہوتی ہے۔ تیز ہوا کی لَے پر وگ کے اڑ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ سر کو زور سے ہلانے، دوڑنے، حتی کہ جھکنے یا رکوع میں جانے پر وگ کے چکنے سر سے پھسل جانے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ لڑائی کے دوران بہت آسانی کے ساتھ وگ دوسرے کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ غرض ، فارغ البال سر کو وگ میں امان نہیں ملتی۔
اگر کہیں فارغ البال سر کی حفاظت ہوسکتی ہے تو وہ پگڑی باندھنے یا ٹوپی پہننے سے ہوتی ہے۔ کسی شاعر نے بھی کہا ہے کہ
اب تو ٹوپی کی ڈالیے عادت
آٹھ دس بال کب سنورتے ہیں
۲ thoughts on “طنزومزاح : فارغ البال ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعابد معز”
میرا اور آپ کا درد مشترک بھی ہے اور لا دوا بھی ،،، سو میرا ایک مضمون بعنوان ‘گھر کی کھیتی’ اسی جہان اردو میں شائع ہوچکا ہے ۔۔۔
اب تو بس کرنے کو یہی کام رہ گیا ہے کہ
” آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔۔۔ تو ہائے گل پکارے میں چلاؤں ہائے دل”
Tanz o Mizah se bharpur iss tahreer per bohath bohath daad o Tahseen aur Mubarakbad…..Allah kare zore Qalam aur ziyzda….